فاشزم اور اسلام کا نظامِ عدل
جب روشنی پر کتمانِ حق کا پردہ ڈال دیا جائے تو ظلم کی تاریکی کے ذمہ دار کون ہوں گے؟
ڈاکٹر ساجد عباسی ، حیدرآباد
٣٠ ؍ستمبر ۲۰۲۰ کے دن اسپیشل سی بی آئی کورٹ کا فیصلہ بابری مسجد کے خاطیوں کے حق میں آیا اور ۳۲ ماخوذ مجرموں کو بری کردیا گیا جنہوں نے بابری مسجد کے ڈھانے میں منصوبہ بند کردار ادا کیا تھا۔ جبکہ ۹ نومبر ۲۰۱۹ کے سپریم کورٹ کے تصفیے میں یہ برملا کہا گیا تھا کہ ۱۹۴۹ میں مسجد میں مورتیوں کا رکھا جانا اور ٦ دسمبر ۱۹۹۲ کو مسجد کا ڈھایا جانا ایک غیر قانونی عمل تھا۔ اس طرح عدلیہ کے بارے میں بھارت کو فاشزم کی گہری کھائی میں گرنے سے بچانے کی جو آخری امید تھی اب وہ موہوم ہونے لگی ہے۔ بھارت کے ایک فاشسٹ ملک بننے کا سفر تقریباً ایک صدی قبل شروع ہوا تھا اور آج فاشسٹ تحریکوں کے خوابوں کی تکمیل ہوئی ہے۔ نفرت، جھوٹ اور فریب سے الیکشن کا جیتنا، میڈیا کو خریدنا اور ان کو بے ضمیر بنا دینا اور اپنی غلطیوں کا سارا الزام اپوزیشن پر ڈال کر اسے بے اثر بنا دینا، ناقدین کو قید میں ڈال کر تعذیب کا نشانہ بنا کر حق کی آواز کو بند کر دینا، فسادات کروانے کے لیے مجرموں کو کھلی چھوٹ دے دینا اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو فسادات کا سازشی بنا کر جیلوں میں بند کر دینا، ہر محاذ پر اپنی صریح ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے انتہائی غیر اہم موضوعات پر دن رات میڈیا پر بحثیں شروع کر کے عوام کی توجہ کو اصل مسائل ہٹا دینا، خواتین پر ظلم ڈھانے اور اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والوں کو بچانے کے لیے مظلوم کی ذات و مذہب کی بنیاد پر امتیازی رویہ اختیار کرنا، انسانیت کو تقسیم کرنا اور نچلے طبقات پر ظلم ڈھانا، کووڈ-۱۹ کی وبا سے قبل ۲۵ کروڑ مسلمانوں کو شہریت سے بے دخل کرنے کے لیے ظالمانہ قوانین بنا کر ان کے اندر خوف و عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنا وغیرہ۔ یہ وہ حقائق ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ بھارت اب دنیا کی عظیم ترین جمہوریت باقی نہیں رہا اس کی جگہ فاشسٹ اسٹیٹ کی ساری خصوصیات اس کے اندر سرائیت کر چکی ہیں۔
آئیے دیکھیں کہ ایک فاشسٹ اسٹیٹ کی اہم ترین خصوصیات کیا ہوتی ہیں۔ دنیا کے مشہور فاشسٹ لیڈروں اور ان کے طرزِ حکومت کا مطالعہ کرنے کے بعد فاشسٹ اسٹیٹ کے خدوخال اس طرح سامنے آتے ہیں۔
• انتہائی درجہ کی قوم پرستی ultranationalism کا احیاء۔ اس کے لیے کسی مذہبی اقلیت کو نشانہ بناکر عوام الناس کے جذبات کو ابھارنا۔
• اپوزیشن اور ناقدین کو جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے بے اثر بنا دینا اور حق کی آواز کو طاقت سے کچل دینا تاکہ عوام الناس میں سے کوئی ایک باضمیر فرد بھی تنقید کی جرأت نہ کر سکے۔ ناقدین کو قید و بند، تعذیب اور قتل کر کے انسانی حقوق کو پامال کرنا۔
• مذہبی یا نسلی منافرت کے ذریعے ایک قوم کو ٹارگٹ کر کے عوام الناس کے دلوں میں ان کا خوف phobia پیدا کرنا اور اس بنیاد پر اپنے حق میں رائے ہموار کر کے معاشرے کو polarize کرنا۔
• نفرت کو پھیلا کر، جھوٹے وعدے کر کے اور دھوکہ و فریب کے ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے سیاسی قوت حاصل کرنا۔
• پولیس اور ملٹری کو غیر محدود اختیارات دے دینا۔
• عدلیہ اور میڈیا کو اپنی پالیسی و فیصلوں کے تابع بنا کر مطلق العنانی حاصل کرنا۔ ایک تنظیم یا ایک فردِ واحد کے رحم وکرم پر سارے اداروں کا مرتکز ہو جانا۔
• جرائم کی کثرت اور اپنی پارٹی کے مجرمین کو کھلی چھوٹ impunity دے دینا تاکہ وہ جرائم کے ارتکاب میں بے لگام ہو جائیں۔
• ایک خاص کلچر اور مذہبی روایات کو جبراً ساری عوام پر مسلط کرنا۔
• ساری معیشت کو اور سرکاری اداروں کو خانگی بناکر چند افراد کے حوالےکرنا اور روزگار کے امکانات کو ان چند افراد کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا۔
• کسانوں اور مزدوروں کے نمائندوں کو کچل کر ان کی تحریکوں کو ختم کر دینا۔
• علوم و فنون کے اداروں کے فنڈز میں کمی کر کے ان کو کمزور کرنا۔
• سرکاری تعلیم گاہوں اور دواخانوں کو بتدریج ختم کر کے تعلیم و صحت کو عام آدمی کی دسترس سے باہر کر دینا۔
• تعلیمی پالیسی و نصاب کو اپنے نظریات و عقائد کے مطابق ڈھالنا تاکہ ہمہ جہتی ثقافت multiculturism کی فضا ختم ہو۔
• نتائج کے طور پر سارے ملک میں بدعنوانی، رشوت، قتل اور عصمت دریاں بڑھ جاتی ہیں اور مجرمین عدلیہ و قانون سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھنے لگتے ہیں۔
• فاشزم کی ان جامع خصوصیات پر ایک غائر نگاہ ڈالنے سے یہ انداز ہ ہو جائے گا کہ آج کا بھارت ان ساری فاشسٹ خصوصیات سے متصف ہو چکا ہے۔
• اب آئیے ہم یہ دیکھیں کہ اس ظالمانہ نظامِ زندگی کے مقابلے میں اسلام کیسا نظامِ عدل پیش کرتا ہے اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کے کیا خدوخال ہوتے ہیں:
• اسلام یہ تصور پیش کرتا ہے کہ اس ساری کائنات کا خالق صرف ایک ہے جس نے انسان کو ایک ماں باپ کے جوڑے سے اشرف المخلوقات بنا کر پیدا فرمایا اور ساری انسانیت کو تکریم سے نوازا۔
• اسلامی ریاست میں حکمت اور موعظتِ حسنہ سے انسانی قلوب کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن مذہب کے معاملے میں کسی قسم کے جبر و اکراہ سے کام نہیں لیا جاتا۔ ریاست کے ہر فرد کو اپنے مذہب و روایات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔
• اسلامی ریاست کی تشکیل شورائیت کے اصول پر ہوتی ہے۔ اسلام کے اندر ملوکیت اور مطلق العنانیت کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
• اسلامی ریاست کا حکمراں بھی عدلیہ سے بالا تر نہیں ہوتا۔ کسی بھی جرم کی پاداش میں انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا جاتا ہے۔
• اسلامی ریاست میں کمزوروں، غریبوں، ناداروں اور یتیموں کی کفالت حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
• ریاست کے ہر فرد کے لیے صحت و تعلیم کی رسائی ہوتی ہے۔
• صحتمند تنقید کا ہر فرد کو مکمل حق ہوتا ہے۔ تنقید سے کوئی بھی بالاتر نہیں ہوتا۔ ملک کی ترقی کے لیے تنقید و احتساب کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ایک عام فرد بھی وقت کے خلیفہ سے احتساب کرنے کا مجاز ہوتا ہے اور خلیفہ کے کسی فیصلے کو چیلنج کرنے میں ایک عام عورت بھی جھجک محسوس نہیں کرتی ہے۔
• ملک کے تمام ادارے عوام کی خدمت پر مامور ہوتے۔
• اسلامی ریاست کی عدلیہ و پولیس انسانی جان مال وعزت کی حفاظت کرتی ہے۔ کوئی ظالم اتنا طاقتور نہیں ہو سکتا کہ قانون کی زد میں آنے سے بچ سکے اور نہ کوئی مظلوم اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ انصاف سے محروم رہ جائے۔
• اسلامی ریاست ایسے معاشی نظام پر عمل پیرا ہوتی ہے جس میں معاشی ارتکاز پرورش نہیں پا سکتا۔ سماج میں سود، جوے، سٹے بازی، لاٹری اور رشوت و بدعنوانی سے ہونے والے معاشی ارتکاز کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ بتدریج معاشی ناہمواری کو دور کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں صحتمند معاشی ترقی سے ملک ایک خوشحال فلاحی ریاست بن
جاتی ہے۔
یہ ایک خیالی جنت کا نقشہ نہیں ہے بلکہ اسلام نے عملاً ایک فلاحی ریاست کو قائم کرکے دنیا کو دکھا دیا ہے۔ اسلام آج بھی جزوی طور پر جہاں اور جس ملک میں بھی اپنے اثرات رکھتا ہے وہاں امن و امان، ترقی و خوشحالی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آج بھی نام نہاد اسلامی ملکوں میں بھی جرائم کی شرح دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بھارت میں مسلمانوں کو کئی صدیوں تک حکمراں بنایا۔ اُس دورِ حکومت میں ہم نے بھارت کو سونے کی چڑیا تو بنا دیا لیکن یہاں سے طبقاتی ظلم کو حکومت کے زور سے ختم نہیں کر سکے اور نہ ہی یہاں کی آبادی کو وسیع پیمانے پر اسلام کی خوبیوں سے روشناس کروا سکے۔ مسلمانوں کی صدیوں کی غفلت سے آج یہ ملک ان حالاتِ زار سے دوچار ہوا ہے۔ تاریکی کو دور کرنے والی روشنی کے امین تو ہم ہی تھے۔جب روشنی پر کتمانِ حق کا پردہ ڈال دیا جائے تو ظلم کی تاریکی کے ذمہ دار کون ہوں گے؟ دنیا میں ظلم و زیادتی، جہالت اور شر و فساد کی تاریکی کو دور کرنے والی روشنی کس کے پاس ہے؟ وہ صرف اور صرف امّتِ مسلمہ کے پاس ہے۔ اسی کتمانِ حق کی سزا آج ہم کو اس طرح مل رہی ہے کہ فاشسٹ طاقتوں نے مسلمانوں کو ہی نفرت اور ظلم و ستم کا تختہ مشق بنایا ہوا ہے اور اسی نفرت سے ان کے ظلم کے نظام کو وہ ایندھن فراہم ہو رہا ہے جس کی بدولت آج انہوں نے ۱۳۰ کروڑ کی آبادی کو یرغمال بنا دیا ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان بھارت میں اسلام کے پُرزور داعی بن کر اٹھیں اور سسکتی ہوئی انسانیت کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔ آج فرد کی سطح پر ہر انسان سکون کی تلاش میں ہے جسے وہ اسلام کے سچے عقیدے ہی میں پا سکتا ہے۔ آج ملک جن اجتماعی مصائب کا شکار ہے اس سے چھٹکارے کے لیے اسلام ہی مکمل حل پیش کرتا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کے سامنے ان کے ایک ایک مسئلے کا اسلامی حل پیش کریں اور سب سے بڑھ کر انسانوں کے سامنے ان کے رب کی تعارف پیش کریں جو رب العالمین ہے۔ ان کو مقصدِ زندگی سے آگاہ کریں جس کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیِ نے انسانوں کو دنیا کی یہ عارضی زندگی عطا کی ہے۔ ان کو جہنم کے ابدی عذاب سے خبردار کریں اور اللہ کے راستے کی طرف بلائیں جس کی آخری منزل دارالخلود یعنی جنت ہے۔
***
آج فرد کی سطح پر ہر انسان سکون کی تلاش میں ہے جسے وہ اسلام کے سچے عقیدے ہی میں پا سکتا ہے۔ آج ملک جن اجتماعی مصائب کا شکار ہے اس سے چھٹکارے کے لیے اسلام ہی مکمل حل پیش کرتا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کے سامنے ان کے ایک ایک مسئلے کا اسلامی حل پیش کریں
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020