حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور
اللہ تبارک وتعالیٰ سارے جہان کا پالنے والا ہے اپنی تمام مخلوق کو مختلف طرح سے رزق دینے والا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے پیچھے بہت سے مقاصد ہوتے ہیں ان میں حصول معاش بھی ایک اہم مقصد ہوتا ہے، بلکہ موجودہ دور میں تعلیم حاصل کرنے کا اصل مقصد ہی معاش کا حصول بنا ہوا ہے۔ تعلیم کے کئی شعبے ہیں دینی اور دنیاوی بلکہ اب تو ہر طرح کی تعلیم میں روزگار کے مواقع تلاش کیے جا رہے ہیں۔
قدرتی نظام کے تحت تبدیلی ناگزیر ہے، دنیا بدلی رہن سہن کے طریقوں میں زبردست بدلاو آیا انسانوں کی ضروریات بڑھ گئیں یا یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ لوگوں نے اپنی ضروریات کا دائرہ بہت وسیع کرلیا۔ پریشانیاں بڑھنے کی بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ فارغین مدارس ہوں یا عصری تعلیم کے ماہرین، وکلا، ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر وغیرہ سبھی اس موذی عادت کے شکار ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر بھی بحث ہونی چاہیے۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، حکومتوں نے ہر طرح سے مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ رکھا ہے مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور اب تو سینہ ٹھونک کر مسلمانوں کو حاشیہ سے بھی ہٹانے کی اسکیموں پر کھلے عام عمل کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی تعلیم اور عقیدہ: الحمد للہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں ’’زکوٰۃ‘‘ کے نظام نے بہت سارے مسلمانوں کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ زکوٰۃ کے نظام کے تحت چلنے والے مدارس نے نظام تعلیم کو بھی زندہ رکھا ہے اور کثیر تعداد میں مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنایا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ صبح قیامت تک جاری رہے گا۔
فارغین مدارس کی بے روز گاری کا ہوّا: موجودہ دور ٹکنالوجی اور نت نئی مشینوں کا دور ہے جہاں سو سو لوگ کام کرتے تھے اب وہاں بمشکل پانچ سے دس لوگ کام کر رہے ہیں، تعلیم کے ساتھ ساتھ آجکل ہاتھ کے ہنر کی بھی اشد ضرورت ہے ورنہ تعلیم کا خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔میں اس بات سے قطعاً متفق نہیں کہ صرف فارغین مدارس ہی معاش کے لیے پریشان وسرگرداں ہیں عصری تعلیم یافتہ لوگ بھی روزی روٹی کے لیے پریشان ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو اپنے معیار کی نوکری پانے کی خاطر انٹرویو دینے کے لیے دور دراز کا سفر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
فارغین مدارس تو الحمد للہ! موذن وامام مدارس میں نوکری یا ٹیوشن وغیرہ اور دیگر دوسرے حلال ذرائع سے روزگار حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہ چھوٹے موٹے کام کرنے میں شرمندگی بھی نہیں محسوس کرتے۔ اس کے بر عکس عصری تعلیم یافتہ حضرات اپنے اسٹنڈرڈ سے کم پر بہت کم ہی سمجھوتہ کرتے ہیں۔ فارغین مدارس حضرات کو تعلیم کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کاموں کی جان کاری اور ٹریننگ ضرور حاصل کرنا چاہیے، میں درجنوں ایسی مثالیں دے سکتا ہوں جنہوں نے میرے مشوروں پر عمل کیا اور آج خوش حال ہیں۔ بھالو باسہ، سیتارام ڈیرہ، مسجد جمشید پور میں ایک صاحب بطور موذن خدمت پر مامور تھے۔ کثیر العیال، کم تنخواہ پریشانی وفکر میں مبتلا۔ میں نے انہیں بک بائنڈنگ اور مہر بنانے کے کام کو سیکھنے میں لگایا، کام سیکھنے کے بعد وہ دوکانوں سے لا کر کام کرنے لگے پھر انھیں یونائیٹیڈ بنک ہیڈ برانچ سے کام ملنے لگا اور ساکچی کورٹ سے بھی کام مل گیا۔ ان کی محنت اور ایمانداری رنگ لائی اور آج وہ آسنسول میں بڑی دکان چلا رہے ہیں۔ اسی طرح جمشید پور میں ایک امام صاحب جنہوں نے کرتا ٹوپی بنانا سیکھا اور ماشاء اللہ اب وہ خوش حال ہیں۔ کانپور بانس منڈی کی مسجد میں موذن کی خدمت انجام دینے والے حافظ صاحب کی ایک دلچسپ داستان ہے۔ آج وہ اناو شہر میں مہر بنانے کی دوکان میں مختلف چیزوں کے ساتھ دوکان چلا رہے ہیں۔ اناو کچہری میں مہر کا کام انہی کو ملا ہوا ہے اچھا کما رہے ہیں اور ساتھ میں ایک مسجد میں امامت کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں۔ غرض کہا تک ذکر کیا جائے اس طرح کے کئی واقعات ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ فارغین مدارس کے لیے صرف مسجد، مدرسہ اور چندہ کرنا ہی ذریعہ معاش نہیں ہے بلکہ اللہ رب العزت کی دنیا بہت بڑی ہے۔
کوشش کرنے والے انسان کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہوتا، ہر جگہ کوشش کی گنجائش ہوتی ہے اگر ایک شخص کو اپنی لائن میں کا میابی حاصل نہیں ہوتی تو اسے دوسری جگہ اپنے مقصد کے حصول کی کوشش کرنا چاہیے ہمت ہار کر بیٹھ جانا حماقت ہے۔ دارالعلوم امجدیہ، گھوسی، یوپی سے فارغ مولانا صاحب اچھی صلاحیت کے مالک تھے لیکن ان کو کسی بھی مدرسے میں ملازمت نہیں ملی، مولانا پریشان رہتے تھے عربی کی بہترین صلاحیت تھی انگریزی بھی آتی تھی دوسری جانب ذرا توجہ کی انگریزی سے عربی میں ترجمہ کی صلاحیت پیدا کی اور اب وہ ما شاء اللہ نیوزی لینڈ میں کام کرتے ہوئے خوش حال زندگی گزار رہے ہیں ۔
علم حاصل کرنے کا مقصد: علم حاصل کرنے کا مقصد صرف حصول معاش نہیں ہونا چاہیے اللہ وحدہٗ لا شریک کے احکامات، محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ ذریعۂ معاش کے لیے فارغین مدارس خود آگے بڑھ کر کوئی چھوٹا موٹا ہنر ضرور سیکھیں اور پر زور کوشش کریں یقینا اللہ کی مدد ونصرت ملے گی۔ عصری تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ ہر شخص کے دسترس سے باہر ہے، مدارس اسلامیہ ملت کا سرمایہ ہیں جہاں تعلیم کا نظام زیادہ تر مفت ہے اس کا فائدہ حاصل کرکے بہتر طریقے سے علم حاصل کریں۔ بڑے بڑے علماء کسی ڈاکٹر، انجینیر، پروفیسر سے کم نہیں کماتے ایک رات کا بیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک نذرانہ وصول کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا زیادہ کمانا ہی ترقی یا کامیابی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ زیادہ کمانے والے اکثر اور زیادہ کی ہوس کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تعلیم انسان کو انسانیت سکھاتی ہے آسانی سے جہاں میسر ہو علم حاصل کرنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے مدارس کے ذمہ داران نئی نسل اور نئے زمانہ کی ضرورتوں سے آگاہ ہوں اور حتی المقدور اپنی نئی نسل کا مستقبل سنواریں، فارغین مدارس عصری علوم حاصل کرنے کی سعی کریں ساتھ میں ٹیکنیکل ہینڈ بھی بنیں تاکہ بآسانی دین وملت کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنا مستقبل بھی سنواریں۔ تبدیل شدہ حالات میں فارغین مدارس کے سامنے معاش کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے جو طلبہ نسبتاً خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ عصری تعلیم گاہوں کا رخ کریں اور جو طلبہ معاشی طور پر کمزور ہیں وہ بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی مسجد کے امام وخطیب یا مؤذن ومدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے زیر انتظام اسکولوں، کالجوں میں دینیات، اردو، عربی وغیرہ کی تدریس سے وابستہ بھی ہوں اور عصری علوم حاصل کرنے کے لیے بھی کوشاں رہیں ان شاء اللہ اس کے بہتر نتائج آئیں گے۔ مدارس کے طلبہ فراغت کے بعد معاش کے لیے کافی پریشان ہوتے ہیں۔ 1979 میں الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور سے فراغت کے بعد ناچیز اپنے وطن مورانواں، ضلع اناؤ کی جامع مسجد میں تراویح پڑھایا۔ نذرانے کے طور پر 680 روپے ملے تو گھبرا گیا کہ زندگی کیسے گزرے گی والد گرامی کا بزنس تھا، والدہ ماجدہ کی نصیحت پر عمل کیا کہ’’ بیٹا دین سے ہٹنا نہیں اس لائن کو چھوڑنا نہیں نہ ہی اس لائن سے کمانے کا سوچنا، بزنس کرو اللہ برکت عطا فرمائے گا‘‘ چنانچہ 1980 میں 1700 روپے سے اٹیچی کا کاروبار شروع کیا الحمد للہ جلد ہی کامیابی کی راہ نکل آئی۔ آج بھی اپنا یہی کاروبار ہے اب بیٹا کاروبار کو سنبھال رہا ہے اور ناچیز دین کی خدمت، امامت وخطابت اور سماجی خدمات کے ذریعے سے کر رہا ہے
اللہ قبول فرمائے۔
فارغین مدارس کے معاشی حالات کا یہ پہلو بھی بہت تکلیف دہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں اس کا ذمہ دار ہمارا معاشرہ بھی ہے اس پر غور کرنا چاہیے۔ فارغینِ مدارس کوئی چھوٹا موٹا کاروبار ضرور کریں شرمائیں نہیں۔ ضروری نہیں کہ مدرسہ یا مسجد میں ہی روزی تلاش کریں یا پھر ایک نیا مدرسہ کھول لیں بلکہ محنت اور ایمانداری سے تجارت کے ذریعے معاش کا مسئلہ حل کریں۔
فارغین مدارس کے معاشی حالات کا یہ پہلو بھی بہت تکلیف دہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں اس کا ذمہ دار ہمارا معاشرہ بھی ہے اس پر غور کرنا چاہیے-