فائنانشیل ایمرجنسی ۔ اندیشے، خطرات اور اس کے اثرات

کورونا کے قہرسے ملک کو نجات دلانے کی حکمت عملی ضروری

کورونا وائرس کے قہر نے ساری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس وبا کی تباہ کاری کی پوری تصویر آنا ابھی باقی ہے۔ اس کے ٹریلر نے انسانوں کے محض نظریہ کو ہی نہیں بدلا بلکہ اس کے کَس بَل کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ کورونا کی آمد سے پہلے پہلے ہی ہماری معیشت آئی سی یو میں پڑی ہوئی ہچکیاں لے رہی تھیں۔ اس لیے معیشت کو آکسیجن لگانے کے لیے نجکاری کا زور دار سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ مثلاً ریلوے، ٹیلی کمیونیکیشن، شہری ہوا بازی، توانائی، پٹرولیم مصنوعات، کوئلہ اور کانکنی جیسی صنعتوں کو دھیرے دھیرے عوامی ملکیت کے بے حد منافع بخش اداروں کو نجی ہاتھوں کو فروخت کرنے کا حکومت فیصلہ کرچکی ہے۔ ان درجن بھر کمپنیوں میں انڈین آئیل کارپوریشن ، بی ایچ ای ایل، جی اے آئی ایل آئیل انڈیا لمیٹیڈ، بھارت الکٹرانکس وغیرہ کو جلد از بیچنے کے لیے ریلائنس میچول فنڈ کی ایڈوائزری کو متعین کر دیا ہے۔ کورونا کی آمد کے قبل بہت سارے ملکی اور غیر ملکی ماہرین اقتصادیات بھارت کی ۷۳ سالہ تاریخ کی بدترین معاشی بحران کی پیش گوئی کرتے آرہے ہیں۔ بھارت کی ۳ بڑی ریٹنگ ایجنسیوں میں فچ، موڈیز اور ایس اینڈ بی نے ملک کی جی ڈی پی کی شرح نمو کو سب سے کم ترین سطح پر رکھا ہے۔ اب کورونا کے قہر سے لگائے جانے والی تالہ بندی کی وجہ سے ملکی معیشت تقسیم ہند کے وقت کی معیشت کے مساوی ہوگئی ہے۔ ۱۸ مارچ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی جیسے سیاسی لیڈر نے فائنانشیل ایمرجنسی کی پرزور وکالت کی ہے لیکن وزیر مالیات محترمہ نرملا سیتا رامن نے ایسے تمام رپورٹوں کی تردید کی ہے کہ حکومت کسی طرح کی فائنانشیل ایمرجنسی کے نفاذ کا ارادہ رکھتی ہے۔ دوسری طرف سینٹر فار اکاونٹبیلٹی اینڈ سسٹمٹک چینج (سی اے ایس سی) نے آرٹیکل ۳۲ کے تحت گزشتہ ماہ پبلک انٹریسٹ لٹیگیشن لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئی اور سپریم کورٹ سے اکانومی ایمرجنسی کے نفاذ پر فوری فوری شنوائی کی مانگ کی کہ موجودہ ابتر معاشی صورتحال کے مد نظر کورٹ مرکزی حکومت اور صدر جمہوریہ کو آرٹیکل ۳۶۰ کے تحت فائنانشیل ایمرجنسی لگانے کی ہدایت کرے۔ لیکن کورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ان کی کاوشوں کی ستائش کرتے ہوئے اس درخواست کو علیحدہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے مناسب وقت نہیں ہے۔ سی اے ایس سی کے تھنک ٹینک نے فائنانشیل ایمرجنسی کا ایسی صورت میں جو مطالبہ کیا ہے اس سے پولیس ایکشن کا دروازہ پوری طرح کھل جائے گا اگرچہ معاشی صورتحال میں کچھ بہتری ضرور آجائے گی۔ فی الوقت ہماری معیشت بے قابو ہے کیونکہ بے روزگاری 25.5 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
برآمدات اور درآمدات کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔ سنٹر فار مانیٹری آف انڈین اکانومی نے بڑا خلاصہ کیا ہے کہ لیبر پارٹیسپیشن ۶ فیصد گری ہے۔ فسکل ڈیفسٹ کے بڑھنے کی امید ہے۔ اس سے ناامیدی بڑھتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے عوامل ہیں جس سے فائنانشیل ایمرجنسی کا اندیشہ زیادہ ہی ہو رہا ہے۔ ادھر آر بی آئی نے گزشتہ ماہ ۹۰۰ افراد پر مشتمل وار روم تشکیل دیا ہے تاکہ بھارتی معیشت کے مدو جزر پر نظر رکھی جا سکے۔ انڈین شیئر مارکٹس، نیشنل اسٹاک ایکسچینج اور بمبئی اسٹاک ایکسچینج لگاتار غوطہ زن ہے۔ امریکی ڈالر بھارتی کرنسی کے مقابلے میں سب سے زیادہ قیمت پر ہے۔ فی الوقت ایک امریکی ڈالر کی قیمت 75.77روپے ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار محض ۱۵ تجارتی نشستوں میں 1.08 لاکھ کروڑ روپے کا سرمایہ نکال چکے ہیں۔ آر بی آئی کے جمع شدہ رقوم جو ایمرجنسی حالات میں ملکی معیشت کو سہارا دینے کا کام کرتے ہیں وہ بھی ختم ہوچکے ہیں کیوں کہ حکومت معیشت کو بچانے کے لیے قرض لے چکی ہے۔ پرائیویٹ اور سرکاری بینکوں کے پاس سب سے زیادہ این پی اے ہیں۔ ایسے قرضوں کو ہضم کرنے والے سے کسی طرح بھی وہ رقم حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ۶۶۰۰۰کروڑ روپے کا قرض بھگوڑوں کو معاف کیا جا چکا ہے۔ ملک کے تقریباً ۸۰ فیصد مالی مراکز، بنگلور، کولکتہ، دلی، حیدرآباد، ممبئی، پونے، لکھنو، کانپور، جے پور، گورگاوں، نوئیڈا، احمد آباد ، سورت اور چینئی کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون میں ہیں۔ ملک میں ہوٹل، ریسٹورنٹس، نائٹ کلب، بار، ایرلائنس، بی پی او، سیاحت، انٹرٹینمنٹ اور بالی ووڈ، آٹو موبائل، ابھیشن، کنزیومر آلات، الکٹرانکس، پولٹری اور آبی غذائیں، تعمیرات، ریلوے، ٹرانسپورٹ اور اس سے ملحقہ دیگر شعبہ جات پر بھی بہت شدید اثرات پڑے ہیں۔ تقریباً ۸۰ فیصد بھارتی کمپنیاں اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ بہت ساری کمپنیوں میں آئی ٹی، گو ایر اور ایر انڈیا اپنے ملازمین کو بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیج دیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری کمپنیاں اپنے ملازمین کو جبری رخصت پر گھر روانہ کرچکی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے اور بھارتی ایجنسیاں مستقبل قریب میں صحت عامہ کے بد ترین نظم کی وجہ سے کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر چوتھے اسٹیج پر اس کا پھیلاو ہو جاتا ہے اور یہ ممکن بھی ہے کیونکہ ہمارے شہریوں کی اکثریت کم علم اور جاہلوں پر مشتمل ہے اگر ان کی جہالت کی وجہ سے یہ وبا بڑھتی ہے تو یہ ملکی تاریخ میں سب سے بڑا بحران ہوگا۔ کورونا کے کیسیس ملک میں ۸۶ ہزار سے تجاوز کر گئے ہیں ۲۸۰۰ سے زائد اموات کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں۔
کورونا کیس کے دفاع میں لاک ڈاؤن اور لاک ڈاون کی وجہ سے معیشت کو قابو میں رکھنا موجودہ حکومت کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ اگرکوئی راحتی اقدام معیشت کو قابو میں رکھنے کے لیے نہیں اٹھائے جاتے تو مودی حکومت کے لیے فائنانشیل ایمرجنسی یعنی آرٹیکل ۳۶۰ کے نفاذ کے علاوہ دوسرا متبادل نہیں بچے گا اور ملک بدترین صورتحال اور خطر ناک مندی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہماری معیشت کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اپریل ۲۰۲۰ میں فارن ایکسچینج ریزرو 476.47 بلین ڈالر کا ہے تو ہم بہت اچھی پوزیشن میں ہیں۔ چند سال قبل ہماری جی ڈی پی کی حالت ۲۶۶ بلین ڈالر کی تھی جو آج ۳ ٹریلین ڈالر کی ہے اس لیے ہمارے وزیر اعظم کا خواب ہے کہ ہماری ملکی معیشت ۵ ٹریلین ڈالر ۲۰۲۵ تک ہو جائے تو ان حالات میں فائنانشیل ایمرجنسی لگانے کا کوئی بڑا جواز نہیں ہے۔ ۱۹۹۱ میں خلیجی جنگ کے وقت اور تیل کی قیمت بے تحاشہ بڑھ جانے سے ہمارے پاس جنوری میں جو رقم بچی تھی وہ محض 1.2 بلین ڈالر تھی اور جون آتے آتے آدھی رہ گئی۔ چندر شیکھر وزیر اعظم تھے۔ فروری میں بجٹ پاس نہیں ہو پایا۔ بہت بڑا مالی خسارہ تھا۔ روپے کی حالت بڑی خراب تھی گلوبل کریڈٹ ریٹنگ میں بھارت پیچھے چلا گیا۔ آئی ایم آف اور ورلڈ بینک نے کہا کہ ہم قرض نہیں دیں گے۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ نیشنل گولڈ ریزرو کو گروی رکھنا پڑا۔ آئی ایم ایف سے ۶۷ ٹن سونا گروی رکھنے کے بعد 2.2 بلین ڈالر کا قرض ملا۔ اس کے علاوہ ۴۷ ٹن سونا بینک آف انگلینڈ اور ۲۰ ٹن سونا بینک آف سوئٹزرلینڈ کے پاس گروی رکھنے پر ۶۰۰ بلین ڈالر کا قرض ملا۔ اس سے ملک کا کام محض ۳ ہفتوں تک چل سکتا تھا مگر حالات نے پلٹا کھایا۔ پی وی نرسمہا راو کو وزیر اعظم اور ڈاکٹر منموہن کو ملک کا وزیر مالیات بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر سنگھ کے معاشی اصلاحات کے بعد چند سالوں میں ملکی معیشت مستحکم ہوگئی۔ اس طرح انہوں نے معاشی اصلاحات کے میدان میں تاریخ رقم کی۔
آزاد ہند کی تاریخ میں کبھی بھی فائنانشیل ایمرجنسی نہیں لگائی گئی دستور میں تین طرح کے ایمرجنسیوں کا ذکر ہے یہ پارٹ XVIII ہے۔ دستور کا جو ایمرجنسی پاور کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس سے پہلے ایمرجنسی ۱۹۷۱ میں بھارت چین جنگ کے وقت ۱۹۶۵ میں بھارت پاک جنگ کے وقت دونوں اوقات میں باہری جنگ کا معاملہ رہا۔ ۱۹۷۱ میں پھر بھارت پاکستان جنگ ہوگئی۔ ایسے وقت میں آرٹیکل ۳۵۲ کے تحت نیشنل ایمرجنسی لگائی گئی یہ ایمرجنسی جاری ہی تھی کہ اندرا گاندھی نے ۱۹۷۵ میں داخلی انتشار کی بنیاد پر ایک اور ایمرجنسی لگادی ۔ دوسری ایمرجنسی، ریاستوں میں منتخب حکومت کو برخاست کرکے صدر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ یہ دستور کے آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت ہوتا ہے اور اس کا استعمال ملک میں ۱۲۰ بار سے زیادہ ہوچکا ہے۔ اسی آرٹیکل کے تحت اتر اکھنڈ اور اروناچل پردیش میں کانگریسی حکومت کو برخاست کیا گیا۔ اس پر سپریم کورٹ نے بھی سخت نوٹس لیا۔ دستور میں فائنانشیل ایمرجنسی کی وضاحت بہت اچھی طرح کی گئی ہے۔ آرٹیکل ۳۶۰ کے تحت صدر جمہوریہ کے ذریعہ اس کا نفاذ عمل میں آتا ہے۔ جب صدر کو ہر طرح سے اطمینان ہو جائے کہ ملک میں اقتصادی مصبیت بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے معاشی استحکام کو شدید خطرہ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملکی معیشت دیوالیہ ہونے کی صورت میں آجائے معیشت تباہ و برباد ہو جائے تو ایسی حالت میں اس ایمرجنسی کا نفاذ ہو سکتا ہے۔ ایمرجنسی میں تمام شہریوں کے جائیداد اور اس کی دولت پر ملک کا حق ہو جاتا ہے۔ فی الوقت مرکزی حکومت کے پاس آرٹیکل ۳۶۰ کے تحت ایمرجنسی نافذ کرنے کا پورا حق ہے اس ایمرجنسی کے نفاذ کے دو ماہ کے اندر ہی دونوں ایوانوں سے توثیق ضروری ہے جو حکومت کو پوری طرح حاصل ہے۔ اس کی توثیق میں پورے کبینٹ کی منظوری بھی لازمی نہیں ہے۔ اس ایمرجنسی میں وقت کا کوئی تعین نہیں ہے۔ جب تک حکومت ضرورت سمجھے گی یہ ایمرجنسی جاری رہے گی۔
مرکزی حکومت اپنے ملازمین اور ریاستی حکومت اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور بھتوں میں حسب منشا کٹوتی کرسکتی ہے۔ اس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز بھی شامل ہیں۔ ریاستوں کے ملازمین کی تنخواہوں بھتوں کو روکا اور کم کیا جا سکتا ہے۔ سینئر سٹیزن کے پنشن بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ ایمرجنسی کے دوران سارے اختیارات مرکزی حکومت کے پاس ہی ہوتے ہیں۔ سبھی معاشی فیصلے حکومت ہی کرسکتی ہے۔ اس میں بینکوں پر کئی طرح کی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ پیسے نکالنے کی حد میں کمی و بیشی ہوسکتی ہے۔ سود کی حدیں بھی کم کی جا سکتی ہے۔ ایمرجنسی کی حالت میں مرکز کے اختیار میں کافی وسعت ہو جاتی ہے۔ مرکز ریاستوں کو اپنے حساب سے معاشی احکام صادر کرسکتا ہے۔ ریاستی اسمبلی کے ذریعے پاس کیے گئے بلوں یا دیگر معاشی بلوں کو ریزرو رکھا جاسکتا ہے۔ کئی ریاستی حکومتیں بعض معاشی پالیسی کی اگر مخالفت کریں گی تو ان ریاستوں کو آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت معطل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح فیڈرلزم کو کافی نقصان ہوتا ہے۔ بازار میں اور خاص طور سے شیئر مارکٹ میں بھی اس کا بڑا اثر پڑتا ہے۔ اس ایمرجنسی کے نفاذ سے محض معاشی حالت ہی نہیں بدلتے بلکہ سیاسی اور انتظامی حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ ڈکٹیٹر شپ کی بری روایت قائم ہوتی ہے۔ اگرچہ ایمرجنسی لگائی گئی اور معیشت بہتر اور مستحکم نہیں ہوئی تو مرکز پر بہت طرح کے سوال اٹھیں گے۔ ایمرجنسی چاہے وہ کسی قسم کی ہو اس کا نفاذ اچھی چیز نہیں ہے۔ کورونا وائرس نے نئے سوال پیدا کر دیے ہیں۔ چین نے جو کچھ معلومات فراہم کیں اس پر سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس سے مقابلے کے لیے ہمیں ڈکٹیٹر شپ نہیں بلکہ جمہوریت کی ضرورت ہے شفافیت اور سیول لبرٹی کی ضرورت ہے اس لیے حکومت کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا چاہیے۔ کسی بھی حالت سے نمٹنے کے لیے سارا ملک متحد ہو کر ایک ساتھ کھڑا ہے۔ یہ ایک عالمی بحران ہے۔ سارا ملک وزیر اعظم کے ساتھ ہے۔ مرکز کو ریاستوں کی دل کھول کر مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ اس بحران سے اپنی اپنی ریاستوں میں بہتر طریقے سے نبرد آزما ہو سکے۔
***

 

ملک کے تقریباً ۸۰ فیصد مالی مراکز، بنگلور، کولکتہ، دلی، حیدرآباد، ممبئی، پونے، لکھنو، کانپور، جے پور، گورگاوں، نوئیڈا، احمد آباد ، سورت اور چینئی کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون میں ہیں۔ ملک میں ہوٹل، ریسٹورنٹس، نائٹ کلب، بار، ایرلائنس، بی پی او، سیاحت، انٹرٹینمنٹ اور بالی ووڈ ، آٹو موبائل، ابھیشن، کنزیومر آلات، الکٹرانکس، پولٹری اور آبی غذائیں، تعمیرات، ریلوے، ٹرانسپورٹ اور اس سے ملحقہ دیگر شعبہ جات پر بھی بہت شدید اثرات پڑے ہیں۔