غزّہ کے بچے ۔۔۔ انسانیت کا نوحہ

دنیانے10لاکھ بچوں کے تاریک حال اور مستقبل سےآنکھیں کیوں موند لیں؟

مسعود ابدالی

’’سیو دی چلڈرن ‘‘ رپورٹ کےچشم کشا انکشافات
بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے Save the Childrenنے اپنی حالیہ رپورٹ میں غزہ کے بچوں کے حوالے سے لرزہ خیز اعدادوشمار شائع کیے ہیں۔
غزہ ، بحر روم کے مشرقی ساحل پر 41کلومیٹر لمبی خشکی کی ایک پٹی ہے جس کی چوڑائی جنوب میں 12اور شمال میں 6کلومیٹر ہے۔ قطاع غزّہ یا Gaza Strip کے نام سے مشہور ، زمین کے اس ٹکڑے کا کل رقبہ 365 مربع کلومیٹر ہے۔ غزہ عثمانی خلافت کا حصہ تھا جسے 1918میں سلطنتِ برطانیہ نے ہتھیالیا اور 1948میں اسے مصر کے حوالے کردیا گیا۔ چھ روزہ جنگ (جون 1967) میں اسرائیل نے صحرائے سینائی کے ساتھ غزہ بھی مصر سے چھین لیا۔ امن بات چیت کے دوران 1993میں معاہدہ اوسلو (ناروے) کے تحت غزہ کا انتظام مقتدرہ فلسطین (PA)کو سونپ دیا گیا۔
فروری 2006 میں فلسطین کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کی نگرانی اقوام متحدہ نے کی۔ اسرائیل کی جانب سے رکاوٹیں ڈالنے اور پکڑ دھکڑکے باوجود حماس نے 44.45فیصد ووٹ لیکر 132رکنی قومی اسمبلی کی 74نشستیں جیت لیں۔ صرف قلقلیۃ، رفاح اور جریکو کی عام نشستوں پریاسرعرفات کی الفتح کو کامیابی نصیب ہوئی، اسکے علاوہ بیت اللحم، یروشلم اور رملہ سے مسیحیوں کے لیے مختص نشستیں بھی الفتح کی جھولی میں آگریں۔ یعنی 16 میں سے 12 اضلاع میں حماس اور 3 میں الفتح کو برتری حاصل ہوئی جبکہ جنین میں معاملہ 2:2سے برابر رہا۔
یہ نتائج امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مصر اور واشنگٹن کے خلیجی اتحادیوں کے لیے قابل قبول نہ تھے چنانچہ ان انتخابات کو کالعدم کرنے کی کوشش کی کئی تاہم عوامی امنگوں کا کھلا قتل عام ممکن نہ تھا، چنانچہ 26 مارچ 2006 کو حماس کے اسماعیل ہانیہ نے فلسطینی تاریخ کے پہلے منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔ اپنی پہلی تقریر میں جناب ہانیہ نے الفتح کو انتخابی رنجشیں بھلا کر ساتھ کام کرنے کی دعوت دی۔ باوجودیکہ حماس کو پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی، حماس نے نائب وزیراعظم کا عہدہ الفتح کو پیش کرتے ہوئے مخلوط حکومت قائم کرنے خواہش ظاہر کی، جسے الفتح نے فی الفور مسترد کردیا۔
ایک معاہدے کے تحت امریکہ، روس، اقوام متحدہ اور یورپی یونین پر مشتمل چوکور یا Quartetنے فلسطین کی مکمل آزادی تک مقتدرہ فلسطین کی مالی اعانت کا وعدہ کیا تھا لیکن اسماعیل ہانیہ کے حکومت سنبھالتے ہی یہ مدد معطل کردی گئی۔ سابق امریکی صدر بش کا کہنا تھا کہ مالی مدد پُرامن فلسطین سے مشروط تھی ، حماس اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں لہذا امریکہ نئی حکومت کو معاونت فراہم نہیں کرسکتا۔ اسی کے ساتھ روس اور یورپی پونین نے بھی ہاتھ کھینچ لیے ۔اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیلی بندرگاہو ں کے کسٹم محصولات کا ایک حصہ فلسطین کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔اسرائیل نے فلسطینیوں کا وہ حصہ روک لیااور خلیجی ممالک فلسطین کو جو امداد دیا کرتے تھے وہ بھی بند کردی گئی۔ صرف قطر نے مالی اعانت جاری رکھی۔اسی کے ساتھ اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کردی جس کی حمایت میں مصر نے اپنی جانب کھلنے والے رفح گیٹ کو تالہ لگادیا۔
اسرائیل نے دباو بڑھانے کے لیے حماس کے 33 ارکانِ پارلیمان کو گرفتار کرلیا۔ اسرائیلی حکومت کی اس کاروائی پر مظاہرے شروع ہوگئے۔ صدر محمود عباس اور وفاقی حکومت نے مظاہرے روکنے کی کوشش کی اور جلد ہی پولیس کا لاٹھی چارج حماس اور الفتح کے درمیان مسلح تصادم میں تبدیل ہوگیا۔ لڑٖائی کے دوران دونوں جانب کے 600 افراد مارے گئے جو زیادہ تر تجربہ کار حریت پسند تھے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ااسماعیل ہانیہ نے کہا کہ ہمارے اتنے قیمتی مجاہد اسرائیل نے شہید نہیں کیے جتنے آپس کی لڑائی میں مارے گئے۔ لڑائی کا مرکز غزہ تھا جہاں الفتح کے لوگوں کو خاصہ نقصان پہنچا اور ان کی اکثریت غزہ چھوڑ گئی۔
جون 2007کو فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہانیہ کی حکومت کو معزول کردیا۔ اس فیصلے کے بعد مفاہمت کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ گئیں اور فلسطین عملاً غزہ، مشرقی بیت المقدس اور دریائے اردن کے مغربی کنارے میں تقسیم ہوگیا۔مصر، سعودی عرب اور اردن نے محمود عباس کی نامزد کردہ نئی کابینہ کو فلسطین کی نمائندہ حکومت تسلیم کرلیا۔ مصر نے اپنا سفارتخانہ غزہ سے رملہ منتقل کردیا۔اسی کے ساتھ غزہ کی ناکہ بندی سخت کردی گئی۔ شروع میں یورپی یونین نے اپنے مبصرین رفح گیٹ پر تعینات کیے تھے تاکہ غزہ کے لیے ضروری سامان کی فراہمی جاری رہے لیکن جلد ہی مصر اور اسرائیل کے دباو پر ان مبصرین کو ہٹالیا گیا۔
اب غزہ عملاً کھلی چھت کا جیل خانہ ہے جہاں ایک سوئی بھی اسرائیل اور مصر کی مرضی کے بغیر نہیں جاسکتی۔ پانی کی کمی کی بناپر غزہ میں زراعت بہت مشکل ہے اور اگر قدرت کی مہربانی سے بروقت بارشوں کے نتیجے میں فصل اچھی ہوجائے تو اسے اسرائیلی ڈرون یہ الزام لگاکر اجاڑ دیتے کہ یہاں حماس نے اپنے عسکری تربیت کے مرکز بناررکھے ہیں، اسرائیلی کی جانب 5کلومیڑ تک کا علاقہ چٹیل رکھنا ضروری ہے تاکہ پوری پٹی پر نظر رکھی جاسکے۔بہت ہی محدود پیمانے پر ایندھن کی اجازت ہے جس کی وجہ سے سخت گرمی میں یہاں اٹھارہ گھنٹہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔غزہ کا ساحل 40کلومیٹر طویل ہے، لیکن فلسطینیوں کو ساحل پر جانے کی اجازت نہیں۔ ماہی گیری کی اجازت محدود ہے۔ اسرائیلی بحریہ کہ جانب سے فلسطینی ماہی گیروں پر تشدد، اور ان کی کشتیوں پر قبضہ روزمرہ کامعمول ہے۔
یہ بدنصیب قطع ارض صرف ایک سال خوشی و راحت سے لطف اندوز ہوا جب 30مارچ 2012 کو مصری صدارت کا حلف اٹھاتے ہی صدر محمد مرسی ایک بڑے جلوس کی شکل میں رفح گیٹ پہنچے اور ایک کلہاڑ ی سے وہاں لگا تالہ توڑدیا۔ جناب مرسی نے کہا کہ مصر غزہ سرحد پر ویسا ہی بندوبست ہوگا جیسا لیبیا اور سوڈان کی سرحدی چوکیوں پر ہے یعنی افراد اور اسباب کے اِدھر سے اُدھر جانے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ مستند سفری دستاویز رکھنے والے پرامن شہری با آسانی غزہ سے مصر آجا سکیں گے۔ اہل غزہ کی بدقسمتی کہ یہ حکومت صرف ایک سال چلی اور 3 جولائی 2013 کو جناب مرسی کی معزولی کے ساتھ ہی رفح گیٹ دوبارہ مقفل کردیا گیا۔علاقے کے تعارف اور مختصر تاریخی پسِ منظر کے بعد اب آتے ہیں Save the Childrenکی رپورٹ کی طرف۔
سیو دی چلڈرن بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والاادارہ ہے جس کی بنیاد 1919 میں جنگ عظیم اول کے فوراً بعد برطانیہ کی دوسگی بہنوں نے رکھی۔ ان دونوں کو جنگ عظیم کے دوران یتیم ہوجانے والے بچوں کی فکر کے ساتھ کم عمر افراد کی فوج میں بھرتی پر تشویش تھی چنانچہ ان بہنوں میں اپنے ذاتی اثاثے فروخت کرکے Save the Children Fund قائم کیا جس میں وقت کے ساتھ وسعت آتی گئی اور مالی مدد کے ساتھ بچوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے پالیسی سازی کا کام بھی شروع ہوا۔ اس وقت’’ سیو دی چلڈرن‘‘ کو اقوام متحدہ میں مشیر کا درجہ حاصل ہے۔
سیو دی چلڈرن گزشتہ کئی سالوں سے غزہ کے بچوں کے دماغی نشوونما اور ناکہ بندی کے منفی اثرات کا جائزہ لے رہا ہے۔ اس سلسلے میں ادارے نے سماجی بہبود کے کارکنوں ، اقتصادی ماہرین اور نفسیات کے علما پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ہے جو اس معاملے پر تفصیلی تحقیق میں مصروف ہے۔ ادارے کا کہنا کہ یہ ایک علمی تحقیق ہے اور اسے علاقائی سیاست، مذہبی شناخت اور عسکری معاملات سے بالکل الگ رکھا گیا اور ماہرین کی ساری توجہ طفلانِ غزہ کی نشوونما پر ہے۔
15جون کو ادارے نے Trapped یا ’محصور‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی رپورٹ شایع کی ہے۔ اس دستاویز کے اجرا کے لیے غزہ شہر کا انتخاب کیا گیا۔ بدقسمتی سے الجزیرہ کے سوا ابلاغ عامہ کے کسی دوسرے معروف ادارے نے ان چشم کشا انکشافات کی تفصیل شایع نہیں کی۔
رپورٹ میں 2018 کے مشاہدات کا تازہ ترین صورتحال سے تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق 2018 میں غزہ کے 50 فیصد بچے بدترین خوف کا شکار تھے ، اب یہ تناسب 84 فیصد ہوچکا ہے۔ چار سال پہلے 55 فیصد نونہالوں کو اعصابی دباو اور ذہنی انتشار کی شکایت تھی اور اب یہ کیفیت غزہ کے 80 فیصد بچوں میں ہے۔ چار سال پہلے 62فیصد بچے مایوسی اور پژمردگی میں مبتلا تھے اور اب یہ تناسب بڑھ کر 77فیصد ہوگیا ہے۔ غزہ کے 78 فیصد بچوں کے چہرے مسکراہٹ سے محروم ہیں، 2018 میں اداس بچوں کا تناسب 55 فیصد تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مکمل ناکہ بندی نے کورونا وائرس کی وبا کو مزید مشکل بنادیا۔ حفاظتی ٹیکوں اور علاج و معالجہ کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اہلِ غزہ نے خود کو بالکل بے سہارا محسوس کیا جس کے سنگین اثرات بچوں پر بھی مرتب ہوئے۔ یہ مشاہدات غزہ کے 488 بچوں اور 168 والدین کے تفصیلی انٹرویو کے بعد ترتیب دئے گے ہیں۔
غزہ کی 47 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے، ان میں سے 8لاکھ نونہالوں نے ناکہ بندی کے دوران ہی آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالتے ہی خود کو مقید پایا۔ اسرائیل کی جانب سے میزائیل حملوں نے چھوٹے بچوں (آٹھ سال تک) کو ایک خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے کچھ دوسرے نفسیاتی امراض بھی عام ہورہے ہیں۔ نیند میں پیشاب خطا ہونے کے واقعات میں 79 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کی گرفت کمزور ہے، ہاتھ سے چیزیں گرجانے ، سبق یاد کرنے میں مشکل اور اسکول ہوم ورک کی عدم تکمیل کے واقعات 78 فیصدبڑھ گئے ہیں۔ غزہ میں کوئی بچہ بھی ایسا نہیں جس کے ماں، باپ، بھائی، بہن یا کوئی قریبی رشتے دار اسرائیلی بمباری سے نہ مارا گیا ہو۔ وہاں ماں یا باپ یا دونوں سے محروم بچوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے اور 96فیصد بچے خوف اور ہیجان میں مبتلا ہوکر ناخوشی اور اداسی کا شکار ہیں۔
اس ریسرچ کے ناظم اور سیو دی چلڈرن فلسطین کے سربراہ جیسن لی نے کہا کہ غزہ کے جتنے بچوں سے بھی ملاقات ہوئی، ہم نے انھیں بلا استٹنا ، خوف، ہیجان اور پریشانی میں مبتلا پایا۔
تمام بچے مایوس اور اداس تھے اور وہ تشدد و بمباری کے نئے سلسلے کا انتطار کررہے تھے۔ بستر میں پیشاب کردینے، معمولی سا کام نہ کرپانے، حتٰی کہ عام گفتگو میں مشکل سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بچے شدید ذہنی دباو اور مایوسی کا شکار ہیں۔ جیسن لی نے یاد دلایا کہ پانچ سال پہلے غزہ کے طبی ماہرین نے کہا تھا کہ ان کے لیے خدمات فراہم کرنا ناممکن حد تک مشکل ہوگیا ہے۔ غربت وافلاس کی وجہ سے نرسوں اور طبی عملے کی بھرتی ممکن نہیں۔ پابندیوں کی وجہ سے ادویات کی سخت قلت ہے۔ مالی وسائل کا یہ حال کہ دواخانوں اور اسپتالوں سے کچرا اٹھانا مشکل ہوگیا ہے۔ تازہ ترین صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ طبی کارکنوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہورہے ہیں۔
انھوں نے گلوگیر لہجے میں کہا ’سیاست اور مذہب سے بالاتر ہوکر ہمیں ان 10 لاکھ بچوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جو بند گلی میں دیوار سے لگے ہوئے ہیں۔ یہ پھول سے بچے جینے کی امنگ سے محروم ہیں۔ شرارت کرنے کی عمر میں ان بچوں کو ہروقت یہ فکر رہتی ہے کہ میزائیل حملے کی صورت میں وہ کہاں پناہ لیں گے‘۔
سیو دی چلڈرن کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ غربت و تشدد سے جنم لینے والے مصائب اپنی جگہ لیکن غزہ کے بچوں میں مایوسی، اداسی اور ناخوشی کی کلیدی وجہ ناکہ بندی ہے۔ ہر بچہ خود کو زیرحراست سمجھتا ہے اور ان معصوم بچوں کی ذہنی کیفیت وہی ہے جو پھانسی گھاٹ کے قیدی کی ہوتی ہے۔
انھوں نے ایک 14 سالہ بچی امیرہ سے گفتگو کا حوالہ دیا۔ امیرہ نے کہا ’میں Virtual Reality Design میں ڈگری حاصل کرنا چاہتی ہوں جو غزہ میں ممکن نہیں لیکن میں یہاں سے باہر نہیں جاسکتی۔ ہم غزہ کےباسی، دنیا دیکھنا چاہتے ہیں، ہمیں آنے اور جانے کی وہ آزادی چاہے جو ساری دنیا کے انسانوں کو حاصل ہے۔ میں نے آج تک غزہ سے باہر قدم نہیں رکھا‘
معصوم امیرہ نے جو کہا وہی بات جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33 میں کہی گئی ہے یعنی ’ اجتماعی سزا (collective punisment)اور کسی بھی ملک یا خطے کے شہریوں کو ان کے بینادی حقوق سے محروم کرنا ایک سنگین جرم ہے‘۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کئی سال پہلے کہہ چکے ہیں غزہ کی ناکہ بندی اجتماعی سزا ہے جس پر جنیوا کنونشن کے تحت کاروائی ہونی چاہئے۔
عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردایں کس کام کی؟ جب اسرائیل انہیں ماننے کو تیار نہیں اور وہ مانے بھی کیوں جب اسے خوف خمیازہ ہی نہیں۔ یورپی یونین، نیٹو اور امریکہ سب اس کی پشت پر ہیں۔ پہلے عرب ممالک کم از کم بیان بازی کی حد تک اسرائیل کے غیرانسانی رویوں کی مذمت کرتے تھے لیکن اب سب عشقِ اسرائیل میں مبتلا ہیں بلکہ متحدہ عرب امارات، ڈبلUاور ڈبل آئی UUII اتحاد کا رکن بن گیا ہے۔ اسرائیل، انڈیا (ڈبل آئی) اور یونائیٹیڈ اسٹییٹس، یونائیٹید عرب ایمریٹس (ڈبل یو) کے درمیان چار رکنی اتحاد کا بینادی مقصد بحر روم، خلیج عقبہ، بحراحمر اور ِخلیج فارس میں آزاد دنیا یعنی اسرائیلی مفادات کا تحفظ ہے۔ غزہ کی تزویرائی (اسٹریٹیجک) اہمیت بحر روم کی وجہ سے ہے۔ اس کے ساحل سے متصل سمندر کی تہوں میں تیل اور گیس کے چشمے ابل رہے ہیں۔ اسرائیل غزہ کا گلا گھونٹ کر اس خطہ ارض کو انسانی زندگی سے پاک کردینا چاہتا ہے۔ سیو دی چلڈرن کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنے اس ہدف کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 معصوم امیرہ نے جو کہا وہی بات جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33 میں کہی گئی ہے یعنی ’اجتماعی سزا (collective punisment)اور کسی بھی ملک یا خطے کے شہریوں کو ان کے بینادی حقوق سے محروم کرنا ایک سنگین جرم ہے۔‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کئی سال پہلے کہہ چکے ہیں غزہ کی ناکہ بندی اجتماعی سزا ہے جس پر جنیوا کنونشن کے تحت کاروائی ہونی چاہئے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022