علامہ اقبال ؒ سے منسوب دوسرے شعرا کے اشعار
سوشل میڈیا پر غلط یا غیر معیاری اشعار کو شاعر مشرق سے منسوب کرنے کی حوصلہ شکنی ضروری
ہاشمی سید شعیب قمر الدین
اللّٰہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
ان اشعار کو پڑھنے کے بعد بیشتر افراد یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اشعار شاعر مشرق علامہ اقبال کے ہیں۔ اگر آپ گوگل پر ان اشعار کو سرچ کریں گے تو سرچ انجن پر سب سے پہلے جو تصاویر اور مواد آپ کے سامنے ظاہر ہوگا وہ بھی اس کلام کو علامہ اقبال کا ہونے کا ثبوت پیش کر رہا ہوگا۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور اس معاملہ میں گوگل کی تحقیق غلط ہے۔ در اصل یہ اشعار علامہ اقبال کے نہیں بلکہ سرفراز بزمی کے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے مختلف رسائل میں ان کا کلام شائع ہوتا رہتا ہے۔ دور حاضر کے معروف شاعر سرفرز بزمی کو کئی سال تک پتہ ہی نہیں چلا کہ ان کا یہ قطعہ علامہ سے منسوب ہوکر بر صغیر بلکہ پوری دنیا میں مشہور ومقبول ہوچکا ہے۔
انٹرنیٹ کا استعمال عام ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے زور وشور سے مہمات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ فیس بک اور وہاٹس ایپ پر شاعری، افسانہ ادب اطفال اور دیگر اصناف سخن سے متعلق پیجس اور گروپس بننے لگے جن کے ذریعے اردو دان افراد نہ صرف اپنی تخلیقات شئیر کرنے لگے بلکہ شاعر مشرق علامہ اقبال، غالب اور دیگر جید شعرا کے دیوانوں کا انبار لگانے میں مشغول ہوگئے ہیں۔ شروعاتی دور میں ایک طرف جہاں اس نعمت غیر مترقبہ سے مشہور ومعروف شعراء کا کلام اور ان کی معروف وغیر معروف تخلیقات منظر عام پر آنے لگیں وہیں دوسری جانب ہر آسان اور مذہبی رنگ وروپ میں ڈھلے اشعار کو علامہ اقبال اور مرزا اسداللہ خان غالب سے موسوم کیا جانے لگا۔ یہ معاملہ اس قدر تیزی سے بڑھتا گیا کہ خود اردو داں افراد بھی اس کا شکار ہوکر بغیر کسی تحقیق کے کسی بھی اچھے شعر کو علامہ اقبال کا نام دے کر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے لگے۔ جس کی وجہ سے کئی شعراء کے کلام علامہ اقبال سے منسوب ہو گئے۔ اور نہ صرف سرفراز بزمی کے اشعار علامہ سے منسوب ہوئے ہیں بلکہ دیگر شعرا کے اشعار کو بھی علامہ اقبال سے منسوب کیا گیا ہے۔ اب یہ کام کون کر رہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ نادان اردو دوست جو بلا کسی تحقیق کے اس کام کو کار خیر سمجھ کر سوشل میڈیا پر وائرل کرکے واہ واہی لوٹنے میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ قادیانی لابی کی جانب سے بھی علامہ اقبال کے خلاف اس طرح کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ میں بھی علامہ سے منسوب غلط شعر لکھا ہوا نظر آیا۔ جب میں نے انہیں اس تعلق سے بتایا تو وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ حالانکہ کسی بھی شعر کو غلط فرد سے منسوب کرنا دیانت داری کے خلاف ہے چاہے وہ شعر علامہ کے شعر سے بہتر ہو۔ اگر کسی نے ایک بار بھی کلیات اقبال کا مطالعہ کیا ہو یا کم از کم بانگ درا کا مطالعہ کیا ہو تو اس کو یہ سمجھ میں آجائے گا کہ علامہ اقبال کا لب ولہجہ کیسا تھا اور جیسے ہی کوئی جعلی شعر سامنے آتا ہے تو فوری سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہ کلام علامہ اقبال کا نہیں ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ علامہ اقبال سے درجنوں اشعار غلط طور پر منسوب اشعار کو منظر عام پر لانے اور اس تعلق سے پھیلی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کس طرح کی کوششیں کی جا رہی ہیں، تو ماہرِ اقبالیات جناب ایاز شیخ نے بتایا کہ ہم اپنی جانب سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ علامہ اقبال کے منتخبہ کلام کا بہت آسان اردو اور بہت آسان انگریزی میں تشریح سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچایا جائے۔ اصل میں اقبال کی شاعری فارسی آمیز ہے اور اس وقت کا اردو کا جو معیار تھا وہ اس کے مطابق ہے۔ آج اس طرح کی اردو بہت کم افراد جانتے ہیں اس لیے ہم نے یہ کوشش شروع کی ہے۔ حالانکہ اقبال کا یہ منشا نہیں تھا کہ صرف ذہین اور دانشور افراد ہی ان کی شاعری کو سمجھیں بلکہ سڑک پر ریڑھی لگانے والے کو بھی اشعار سمجھ میں آئیں۔ لیکن آج علامہ کے کلام کی گہرائی و گیرائی کو سمجھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اور کسی بھی شعر کو علامہ سے منسوب کیا جا رہا ہے تو اس کی روک تھام اور اقبال کی شاعری کو سمجھانے کے لیے ہم سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں۔
اقبال کا یہ منشا نہیں تھا کہ صرف ذہین اور دانشور افراد ہی ان کی شاعری کو سمجھیں بلکہ سڑک پر ریڑھی لگانے والے کو بھی اشعار سمجھ میں آئیں۔ لیکن آج علامہ کے کلام کی گہرائی و گیرائی کو سمجھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے
قارئین کے لیے پیش ہے سرفراز بزمی کا منتخبہ کلام جسے پڑھ کر آپ ان کی سوچ و فکر کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ان اشعارکوبعض حضرات واٹس اَپ وغیرہ پر علامہ اقبال کی تصویر کی ساتھ بھی شائع کررہے ہیں۔ یہ اشعار علامہ اقبال کے نہیں ہیںبلکہ سرفرازبزمی کے ہیں۔
عالم مشرق میں پھر ہنگامہ جمہور ہے
گوش بر آواز اک اک قیصر و فغفور ہے
ظلمتیں ہیں روشنی معدوم ہے مستور ہے
اے مسافر ! منزل مقصود لیکن دور ہے
پھر وہی قیصر ہے باقی پھر وہی پرویز ہے
خاک عالم پھر حرم کے خون سے لبریز ہے
آسمان پیر کی یہ فتنہ سامانی بھی دیکھ
موج دجلہ ! چل ذرا گنگا کی طغیانی بھی دیکھ
خون مسلم کی سر بازار ارزانی بھی دیکھ
پنجئہ باطل میں پھر بے بس مسلمانی بھی دیکھ
کانپتی تھی سلطنت جن کے خرام ناز سے
آہ ! وہ ڈرتے ہیں اب ناقوس کی آواز سے
دعوت و تبلیغ کی وہ سر زمین باوقار
کیوں بنا میوات تہزیب حجازی کا مزار
رورہے ہیں دیکھ وہ ” اکبر” کے بچے زار زار
دیکھ ! لے آیا کہاں ہم کو ہمارا انتشار
وہ صنم زادے کہاں ، یثرب کے دیوانے کہاں
"بھنگ کے کلھڑ کہاں ، صہبا کے پیمانے کہاں”
رات رخصت ہو چلی رخصت ہوا وقت سکوت
ہیں شکستہ کفر کے سب تارہائے عنکبوت
مہرباں ہونے کو ہے دربار ” حي لايموت ”
جلوہء حق کے نظر آنے لگے بین ثبوت
پھر اٹھی ہے ایشیا کے دل سے آہ بے صدا
ہو رہی ہے آج پھر شاخ کہن برگ آشنا
پھر ہری ہے آج اپنے خون سے شاخ خلیل
پھر سفر پر ہم کو اکسانے لگی بانگ رحیل
مرحبوں پر پھر کسی کا رعب چھا جانے لگا
باب خیبر پھر کسی حیدر کو اکسانے لگا
پھر شکوہ ترکمانی کو حیا آنے لگی
پھر کلاہ سرخ اپنا رنگ دکھلانے لگی
اے سرودِ بربط عالم ! ذرا لب کھول دے
گرمئ ذوق جنوں سے نعرۂ "لا حول” دے
پھر خزاں دیدہ گلوں پر آئےگا جوشِ بہار
شام غم اپنی سحر سے آشنا ہوجائے گی
وادئ ہستی میں گونجے گی صدائے” لا الٰہ ”
نغمئہ توحید غنچوں کی نوا ہوجائے گی
ہے ابھی وہ صبح بزمی چشم عالم سے نہاں
منتظر ہیں جس کے شدت سے زمین و آسماں
اے امیر کارواں ! بیدار کن بیدار باش
از فریب ِ بت فروشان حرم ہوشیار باش
سرفراز بزمی کے علاوہ اور بھی کچھ شعرا کے مشہور اشعار ایسے ہیں جن کو علامہ اقبال سے منسوب کیا گیا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
یہ شعر سید صادق حسین کاظمی کا ہے جو ان کی کتاب ’برگِ سبز‘ میں شامل ایک نظم کا حصہ ہے۔
2۔خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ شعر ظفر علی خان کا ہے۔
3۔بروز حشر بے خوف گھس جاؤں گا جنت میں
وہاں سے آئے تھے آدم وہ میرے باپ کا گھر ہے
4۔ان اعمال کے ساتھ جنت کا طلبگار ہے کیا
وہاں سے نکالے گئے آدم تو تیری اوقات ہے کیا
5۔دل پاک نہیں تو پاک ہو سکتا نہیں انسان
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت
یہ علامہ کے اشعار نہیں ہیں۔ بال جبریل ہی کے ایک مصرعہ ’بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی‘ کے مفہوم کا حامل یہ شعر ملتا ہے:
6۔کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے
الغرض علامہ سے منسوب خود ساختہ جو بھی شعر دیکھیں اس کا تجزیہ بتاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اقبال کی شاعری کو اصلاح احوال کا ذریعہ سمجھتا ہے اور اس سے تحریک بھی حاصل کرتا ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر علامہ اقبال کے کلام اور نام کے ساتھ ہونے والے پوسٹ مارٹم کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کسی بھی چیز کی جانچ پڑتال، تحقیق اور تفتیش کے لیے دور حاضر میں سب سے بہترین ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ لیکن ہماری نااہلی اور کاپی پیسٹ کی عادت اور بلا تحقیق کسی بھی پوسٹ کو شیئر کرنے کی ہوڑ نے گوگل کو بھی گمراہ کردیا ہے جس کی وجہ سے تحقیق وریسرچ کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہمیں غلط معلومات فراہم کرنے پر مجبور ہے۔دور حاضر میں کلام اقبال کی آگہی پیدا کرنے اور عوام الناس کو کلام اقبال سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے۔ اہل علم، صحافیوں، سوشل میڈیا سے وابستہ افراد، اردو زبان وادب کے لیے سرگرم افراد وتنظیمیں اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر ایسی تحریروں اور اشعار پر نظر رکھیں جو بغیر کسی سند کے علامہ اقبال سے منسوب کی جا رہی ہوں۔ اس کی روک تھام کے لیے مستند کتابوں اور ویب سائٹس وغیرہ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اگر اہل علم نے اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو ہمارا بہت ہی وقیع علمی سرمایہ جو شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے مغالطوں کی زد میں رہے گا اور ہم اس کی افادیت اور تاثیر سے محروم ہوتے جائیں گے اور آنے والی نسل کا بھی علمی وادبی نقصان ہوگا۔
****