عدلیہ میں بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے آزادی اظہار کے تحفظ کی ضرورت ہے: پرشانت بھوشن

نئی دہلی، اگست 17: 2009 میں تہلکہ میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنے ایک تبصرے پر مجرمانہ توہین عدالت کے الزامات کا سامنا کرنے والے ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے عدالت عظمی سے کہا ہے کہ ’’عدلیہ میں بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے‘‘اس وقت کوئی مؤثر طریقۂ کار موجود نہیں ہے، لہذا وکیلوں کا عوامی مفاد میں یہ سوال اٹھانا آزادی اظہار کے دائرۂ کار میں آنا ضروری ہے‘‘

عدالت کو تحریری طور پر پیش کی گئیں گزارشات میں انھوں نے نشان دہی کی کہ 1995 کے سی روی چندرن بنام جسٹس ایم اے بھٹا چارجی کے معاملے میں سپریم کورٹ نے ’’بار کے ممبروں اور دیگر کو عوامی طور پر بات نہ کرنے کے لیے کہا تھا بلکہ صرف داخلی طریقۂ کار کو استعمال کرنے کی صلاح دی تھی، جسے ججوں کے خلاف شکایات موصول کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔‘‘

انھوں نے آگے کہا ’’تاہم اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ داخلی طریقۂ کار ناکافی اور غیر مؤثر ہے۔ اور مواخذے کا طریقۂ کار بہت پیچیدہ اور سیاسی ہے۔ لہذا فی الحال عدلیہ میں بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے کوئی مؤثر طریقۂ کار موجود نہیں ہے، سوائے اس کے کہ عوامی سطح پر اور خاص طور پر ان وکلاء کے ذریعے آواز اٹھائی جائے جو عدلیہ میں بدعنوانی کے بارے میں جانتے ہیں۔‘‘

گزارشات میں کہا گیا ہے کہ عوامی مفاد میں بدعنوانی کے الزامات لگانے کی ہر ایک کوشش کو آرٹیکل 19 (1) (a) کے تحت آزادیِ اظہار رائے کے دائرۂ کار کے اندر رہنا چاہیے اور خاص طور پر عدلیہ کی طرف یہ وکلا کا فرض ہے۔

بھوشن نے کہا کہ وہ پہلے ہی وضاحت کرچکے ہیں کہ انھوں نے بدعنوانی کا لفظ محض مالی بدعنوانی کے علاوہ کسی بھی ناجائز فعل کو شامل کو محیط وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔

واضح رہے کہ 14 اگست کو سپریم کورٹ نے بھوشن کو ان کے دو ٹویٹس پر ایک دوسرے کیس میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا ہے۔