عالمی نظریات کا جائزہ:  ڈاکٹر منصف مرزوقی

صلاح الدین شبیر

(گذشتہ شمارے میں کووڈ کے حوالے سے عالمی انسانی نظریات پر تیونس کے سابق صدر ڈاکٹر مرزوقی کے جائزے پیش کیے گئے، جن میں دنیا کو درپیش سنگین مسائل اور ان کا سامنا کرنے میں انسانی نظریات کی بڑی خامیوں پر روشنی ڈالی گئی۔ اسی شمارے میں محترم سید سعادت اللہ حسینی کا ان مباحث کے تناظر میں ایک تفصیلی مضمون بھی شامل ہے، جس میں دنیا کو درپیش ان بڑے مسائل کے سلسلے میں اسلامی موقف کو پیش کیا گیا۔ جائزے کے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے معروف دانش ور محترم صلاح الدین شبیر کی تحریر قارئین کے پیش خدمت ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ مسائل کو سمجھنے اور نظریات کے جائزے کا یہ سلسلہ مزید غوروفکر کا محرک بنے گا۔ ادارہ)

زندگی نو کا شمارہ بابت ماہ اکتوبر ۲۰۲۰ء پیش نظر ہے۔ اس شمارہ میں تیونس کے معروف سماجی سیاسی اسکالر ڈاکٹر منصف مرزوقی کے علمی مضامین کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے جس میں بعض اہم نظریات اور مثالی قدروں پر ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے۔ بلاشبہ یہ مضامین پر مغز اور قیمتی ہیں جن پر بحث و گفتگو سے عصری مسائل کی تفہیم اور ان کے حل کی راہیں کھلیں گی۔ ہم ایک ایک کرکے ان مباحث کے سلسلے میں کچھ باتیں عرض کریں گے۔
ہیومنزم
ہیومنزم یا انسان شناسی (انسانی مرکزیت کے ساتھ) پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے نزدیک اس نظریہ کے تحت انسان کو بنیادی طور پر خیر کا حامل سمجھا گیا تھا اور یہ یقین تھا کہ انسانی عقل اپنے شر کے پہلو پر قابو پانے اور اس دنیا کو گہوارۂ خیر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن تجربہ نے ثابت کیا کہ انسان کے طبعی شر نے وہی فساد برپا کیا جو خطرناک وائرس برپا کرتا ہے۔ اس موضوع پر انسانی سرگرمیوں کے بہت سارے تخریبی پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہوئے مصنف نے مختلف مذاہب اور نظریات میں انسان کو جو مرکزی مقام دیا گیا ہے اس پر ان الفاظ میں تنقید کی ہے:
چناں چہ ان تمام نظریات میں اصل غلطی یہی ہوئی کہ انسان کے اندر خیر کو اصل سمجھ لیا گیا اور شر کو محض ایک ثانوی نوعیت کی چیز سمجھا گیا جس پر قابو پانا بہت آسان ہے۔ لیکن تمام معاصر تجربات دوبارہ سے ہم کو وہی سبق یاد دلارہے ہیں جو پوری تاریخ نے سکھایا تھا اور وہ یہ کہ انسان کے خمیر میں شر کا مادہ اپنے عمل اور تاثیر کے لحاظ سے کسی طرح سے بھی خیر سے کم نہیں ہے۔ اور کسی بھی نظریہ سازی میں اس پہلو سے بے توجہی کا مطلب یہی ہوگا کہ کوئی کسان اپنے کھیت میں عمدہ قسم کے بیج ڈالے اور ساتھ ہی کچھ نہایت نقصاندہ کیڑے بھی ڈال دے جو اگنے والی پوری فصل کو برباد کر دیں۔
اس منفی تنقید سے زیادہ تشویشناک وہ یک طرفہ اور مایوس کن نتیجہ ہے جو اخذ کیا گیا ہے:
انسان نہ تو اہرام فطرت کی سب سے اونچی چوٹی ہے اور نہ ہی کائنات کے اس پورے دائرے کا مرکز۔ آج زندگی کی تصویر کشی کے لیے جو شکل وصورت زیادہ پسند کی جاتی ہے وہ ایک گیند کی شکل ہے جس کی سطح پر تمام جاندار اور انواع رکھ دیے جاتے ہیں اور انھی میں سے ایک انسان بھی ہوتا ہے اور گیند کے مرکز سے کسی بھی جاندار کی دوری میں کوئی فرق نہیں ہوتا، چاہے وہ انسان ہی کیوں نہ ہو۔
حالانکہ مصنف نے اس موضوع کے تحت بھی اور دوسرے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے بھی انسان سے جن توقعات کا اظہار کیا ہے وہ بدیہی طور پر اس کی افضلیت و مرکزیت پر ہی دلالت کرتی ہیں۔ میرے خیال میں اس افضلیت و مرکزیت کا انکارصرف اس بنا پر کرنا زیادتی ہوگی کہ انسان بھی دیگر نامیاتی مخلوقات کی طرح ایک نامیاتی وجود رکھتا ہے۔ اس افضلیت کی بنیادی وجہ اس کا اخلاقی وجود ہے جو خیر و شر کے درمیان انتخاب کی آزادی رکھتا ہے اور اس آزادی سے کبھی تعمیر، تو کبھی تخریب کی راہ پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ الہامی ہدایت اور نہ عقلی دلیل انسان کو اس آزادئ انتخاب خیر و شر سے باز رکھ پاتی ہے۔ خود مختاری انسان کا ایسا وصف ہے جو الہامی ہدایت، عقلی دلیل اور حیوانی جبلت کی گرفت سے باہر ہے اور اس کائنات میں یہی اس کا امتیازی پہلو ہے جس سے دیگر مخلوقات محروم ہیں۔ تاہم جو حقیقت اس تضاد فکر و عمل اور کشمکش خیر و شر کے باوجود انسان کی افضلیت و مرکزیت کو مستند کرتی ہے وہ ہے اخروی جوابدہی کی حقیقت جس کے بغیر واقعتا انسان بھی دیگر مخلوقات کی طرح ہی کروڑوں میں سے محض ایک ہے، جیسا کہ ڈاکٹر مرزوقی نے نتیجہ اخذ کیا ہے۔ انسان کو ودیعت کردہ خود مختاری ہی کی بنا پر اس کے عقیدہ و نظریہ اور اس کے اخلاق و کردار میں ہم آہنگی کا رہنا، نہ رہنا لازمی حیثیت نہیں رکھتا۔ اور یہی ان متضاد رویوں کی توجیہ بھی ہے جو مسلم ممالک میں اسلامی قدروں کے خلاف اور جمہوری ممالک میں جمہوری قدروں کے خلاف اقدامات کی شکل میں نمودارہوتے رہتے ہیں۔
میرے خیال میں ہیومنزم کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس میں انسان کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے اور اس کے شر کو تسلیم کرتے ہوئے بھی بنیادی طور پر اسے خیر پسند قرار دیا گیا ہے۔ روزمرہ کے بے شمار تجربات اس بات پر گواہ ہیں کہ خیر و شر دونوں طرح کی قوتیں اور رجحانات رکھنے کے باوجود انسان زیادہ تر خیر پسندی کی جانب ہی مائل رہتا ہے۔ ہیومنزم کی خطا دراصل یہ ہے کہ اس نے انسانی عقل اور کامن سنس کو جادۂ خیر پانے، اس پر چلنے اور قائم رہنے کے لیے واحد ذریعہ قرار دیا۔ ہیومنزم کے نظریہ نے الہامی ذریعہ علم کو اوہام و خرافات کے کوڑے دان کی نذر کرتے ہوئے انسانی عقل، مروج اخلاقیات اور جدید سائنس کی بنیاد پر تعمیر انسانیت کا فلسفہ پیش کیا، حالانکہ تینوں ہی مسلسل تغیر پذیری کا شکار ہیں اور اس لیے انہیں حتمی صداقت کا معیار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کائنات اور انسان سے متعلق ہر دن نئے انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ پردۂ غیب کی بے شمار صداقتیں ہیں جن کی معرفت کے بغیر جادۂ خیر کا تعین ممکن نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ انسان کو روبوٹ کی طرح تمام تر جزئیات میں رہ نمائی کی ضرورت ہو لیکن حتمی انجام اور ابدی ہدایت سے آگاہی کے بغیر انسانی عقل جادۂ خیر کو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ عقل، جذبات اور روح کے تقاضوں کے درمیان توازن و ہم آہنگی کی راہ تلاش کرنے کے لیے الہامی ذریعہ علم کا نام ہی ہدایت ربانی ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ مذاہب کی کثرت اور حتمی صداقت کی یکہ و تنہا دعویداری کی وجہ سے مذاہب کے درمیان تضاد اور کشمکش کا معاملہ انسان کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے۔ لیکن محض اس آزمائش کی وجہ سے الہامی ذریعہ علم کا انکار اس انکار سے کئی گنا زیادہ بڑا ہے جو عقلی نظریات کے مابین تضادات اورکشمکش کی بنا پر انسانی عقل کے ذریعۂ علم ہونے کی نفی پر منتج ہو۔
ترقی پسندی
ایک زمانے میں ترقی پسندی کی لہر نے عرب ممالک کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا۔ یمن، شام، مصر، عراق، الجزائر، تیونس، لیبیا جیسے کتنے ہی عرب ممالک مختلف رنگوں کی ترقی پسندی میں رنگ کر سیاسی سماجی تبدیلیوں کے علم بردار بنے۔ مصنف نے ترقی پسندی پر نظریاتی گفتگو کرتے ہوئے اس کے اندرونی تضاد اور استبدادی طرز حکمرانی پر روشنی ڈالی ہے۔ ترقی پسندی کے مخالفین کوچپ کرنے کے لیے جو جوابی بیانیہ پیش کیا جاسکتا تھا اس کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ عرب دنیا کے سوشلسٹوں کی سب سے بڑی کم زوری جس پر نقد کیا گیا ہے وہ ہے ان کی اسلام پسندوں سے تعصب کے نتیجے میں استبداد کی چاپلوسی اور حمایت۔ بقول مصنف “آخرکار’ظلمت پسندوں‘ کے لیے ان کا بغض انھیں اس حد تک لے گیا کہ انھوں نے استبدادی قوتوں سے ناطہ جوڑلیا اور تونس میں اپنے بہترین نظریہ سازوں اور کارکنوں کو ان کے جلادوں کے حوالے کردیا اور انقلاب کے علم برداروں پر ہی شب خون مارنے لگے”۔ مصنف کے خیال میں ترقی پسندوں کا عوامی جمہوری جدوجہد کو صرف اپنی اجارہ داری سمجھنا سب سے بڑی غلطی تھی جس نے اسی راہ کو اسلام پسندوں کے ذریعہ اختیار کرنا ان کے لیے ناگوار خاطر بنا دیا۔ اس موضوع پر مصنف نے عرب دنیا کے حوالے سے گہرا تجزیہ پیش کیا ہے اور انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ از کار رفتہ ترقی پسندی کی ادعائیت اور ناکارہ پن سے نجات حاصل کرکے اپنے لیے نئی راہ عمل کا تعین کریں۔ لیکن اس جائزہ میں جو اہم بات چھوٹ گئی ہے وہ ترقی پسند نظریہ کی وہ بنیادی کم زوری ہے جس کا تعلق تخلیق دولت اور معاشی ترقی کے سرمایہ دارانہ ماڈل کے بالمقابل کسی نئے عادلانہ ماڈل کو پیش کرنے میں ان کی بے بسی سے ہے اور یہی مسئلہ اسلام پسندوں کو بھی درپیش ہے۔
اسلامی معاشی نظریہ سازی کے باب میں اسلام پسندوں نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے برے پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک عادلانہ معاشی نظریہ سازی کی کوشش کی ہے جس میں عالمی سطح پر کئی مسلم مفکرین شامل ہیں۔ مولانا مودودی نے اپنی نظریہ سازی میں معاشی نظام پر گفتگو کرتے ہوئے (معاشیات اسلام: اسلامک پبلیکیشنز، لاہور، ۱۲واں ایڈیشن) اس کے اصول و حدود، مقاصد و ذرائع اور دیگر معاشی نظریات سے اس کی مماثلت و امتیاز پر روشنی ڈالی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: “انسان کی معاشی زندگی کو انصاف اور راستی پر قائم رکھنے کے لیے اسلام نے چند اصول اور چند حدود مقرر کردیے ہیں تاکہ دولت کی پیدائش، استعمال اور گردش کا سارا نظام انھیں خطوط کے اندر چلے جو اس کے لیے کھینچ دیے گئے ہیں۔ دولت کی پیداوار کے طریقے اور اس کی گردش کی صورتیں کیا ہوں؟ اسلام کو اس سوال سے بحث نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو مختلف زمانوں میں تمدن کے نشو ونما کے ساتھ ساتھ بنتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ ان کا تعین انسانی حالات و ضروریات کے لحاظ سے خود بخود ہو جاتا ہے۔ (ص:۲۱)۔ اسلام جس مساوات کا قائل ہے وہ رزق میں مساوات نہیں بلکہ حصول رزق کی جدوجہد کے مواقع میں مساوات ہے۔ (ص:۲۴)۔ ہمارے نزدیک نظام زندگی کی ایسی بنیادیں جو فی الواقع اجتماعی عدل کی ضامن ہو سکیں صرف اسلام ہی فراہم کر سکتا ہے(ص:۳۲۳)۔ اسی طرح علامہ باقر الصدر نے اقتصادی معاملات کے نظریاتی اور قانونی پہلوؤں پر تفصیلی بحث کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
اسلامی نظام اقتصاد دوسرے اقتصادی مذاہب کی طرح اس بات پر متفق ہے کہ پیداوار کو اہمیت دینی چاہیے اور اس کے اضافہ اور ارتقا کا سامان فراہم کرنا چاہیے تاکہ روئے زمین پر خلافت اقتصادیہ کا حامل انسان فطرت کی خیرات و برکات سے مزید سے مزید استفادہ کرسکے۔ لیکن اسلام اس فریضہ کو اپنے مقاصد خلافت اور قانون شرافت و تمدن کے تحت انجام دینا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ پیداوار میں اضافہ سماج کی سطح زندگی کو بلند کرنے، عوام کو زندگی کا حق دینے اور خلافت الہیہ کے مقاصد کی تکمیل کرنے کی غرض سے ہو۔ (اسلامی اقتصادیات کا جائزہ: ص-۱۰۱)۔ ہمارا تو دعوی ہی یہ ہے کہ اسلام سرمایہ داری اور اشتراکیت کے مقابلہ میں تیسرے اقتصادی نظام کا نام ہے، وہ نہ اس کا حامی ہے نہ اس کا طرف دار۔ (اقتصاد نا جلد-۲، ص-۴۷)۔
میرے خیال میں اسلام پسندوں کو جو چیلنج درپیش ہے وہ نظریہ سازی میں مزید مجتہدانہ غور و فکر تک محدود نہیں ہے بلکہ عادلانہ معیشت کے لیے درکار موثر ادارہ سازی کی تخلیق و تفصیل بھی ہے۔ اس نکتہ پر گہری بحث کی ضرورت ہے کیوں کہ سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل میں تخلیق دولت کے زبردست امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اسی کے ساتھ ارتکاز دولت اور ماحولیاتی فساد کی جو بنیادی کم زوریاں لاحق ہیں انہیں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تو اس کا حل کیا ہے؟ پروفیسر رگھو رام راجن نے آزاد منڈی اور موثر مالیاتی ادارہ سازی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
روایتی بائیں اور دائیں بازو والوں میں سے ہر ایک اس کشیدگی کے صرف ایک پہلو پر زور دیتا ہے: بائیں بازو والوں کے نزدیک حکومتی مداخلت ضروری، دائیں بازو والوں کی نظر میں حکومتی کرپشن لابدی۔ اگر دونوں صحیح ہیں اور بے شک صحیح ہیں، تو آزاد منڈی کا سیاسی استحکام یک طرفہ نظریاتی نسخہ پر قائم نہیں رہ سکتا۔ بنابریں اس کے لیے انضباط و توازن کا ایک نفیس تانا بانا درکار ہے۔ (Saving Capitalism From the Capitalists: Raghuram G Rajan)
آزاد منڈی اور مسابقانہ معاشی جدوجہد کے یکساں مواقع کی فراہمی کے لیے ایک جوابدہ جمہوری نظام حکومت کی ضرورت بیان کرتے ہوئے راجن نے اس کی مجبوریوں کا بھی جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ صرف جوابدہ جمہوری حکومت کا وجود اس کے لیے کافی نہیں بلکہ اسی کے ساتھ ملکی سرحدوں کا عالمی معیشت و مسابقت کے لیے کھلا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ قومی حکومتیں ایسی قانون سازی سے باز رہ سکیں جو پہلے سے موجود طاقت ور سرمایہ داروں کا محض آلۂ کار بن کر جدوجہد و مسابقت کے یکساں مواقع پر قدغن لگانے والی ہوتی ہیں۔ رگھو رام راجن نے افزائش دولت اور یکساں مواقع جہد و مسابقت کے لیے صرف آزاد منڈی کی ہی وکالت نہیں کی ہے بلکہ اسے انضباط وتوازن کے ساتھ مستحکم کرنے کے لیے درکار موثر ادارہ سازی کی اہمیت اور اس کے خد و خال بھی بیان کیے ہیں۔
عادلانہ اسلامی نظام اقتصاد ومالیات کی تشکیل کے لیے اسلام پسندوں کو الہامی ہدایات کو پیش نظر رکھ کر متبادل ماڈل فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے درکار موثر ادارہ سازی کے خد و خال بھی طے کرنا چاہیے۔ اور ظاہر ہے اس کے لیے اسلامی معاشی نظریہ سازوں کےعلاوہ جدید معاشی ماہرین کی کھیپ کی کھیپ درکار ہے۔ ڈاکٹر منصف مرزوقی نے نہ صرف ترقی پسندی اور استعماریت کی کشمکش کے حوالے سے دونوں گروہوں کی نظریاتی اور عملی کم زوریوں کو عرب دنیا کے حوالے سے اجاگر کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ بلکہ متبادل کیا ہے؟ اس پر غور کرنے کے لیے بھی ان لوگوں کو بین السطور متوجہ کیا ہے جو عادلانہ نظام کے علم بردار ہیں۔
جمہوریت
اس موضوع پر مزید گفتگو سے پہلے ڈاکٹر مرزوقی کی تحریر کا یہ اقتباس قابل توجہ ہے:
“نمائندہ جمہوریت سے نفرت میں آمریت پسند اور عوامیت پسند ایک نظر آتے ہیں، لیکن ان کی نفرت کے اسباب الگ الگ ہوتے ہیں۔ ”
“عوامیت پسند افراد کے نزدیک پارلیمنٹ اور اس جیسے دوسرے اداروں کے توسط سے جمہور کی نمائندگی کے نام پر جمہوریت ان کی خود مختاری کو ختم کرتی ہے، وہ صرف بدعنوان اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ عوام کی ’’حقیقی‘‘ بالادستی کی بحالی کے لیے بلا واسطہ جمہوریت ضروری ہے جس میں تمام فیصلہ ساز اداروں میں عوام کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ ”
“آمریت پسندوں کی فکر میں جمہوریت کے لیے ذرا بھی جگہ نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ نمائندہ جمہوریت ہو یا راست جمہوریت۔ وہ جمہوریت کو سربراہ اور اس کے ٹولے کی حکمرانی کے لیے بطور پردہ استعمال کرتے ہیں، کیوں کہ عوام تو ان کی نگاہ میں قابل حقارت ہوتے ہیں، کجا کہ وہ ان کی بالادستی کو مانیں۔ ”
جمہوریت کے ساتھ حقیقی مسئلہ کیا ہے؟ ایک بات تو یہ ذہن نشین رہے کہ جمہوریت کوئی نظریہ (ideology) نہیں بلکہ ایک مثالیہ (ideal) ہے۔ اس مثالی قدر کی تجسیم میں الگ الگ نظریات کے حاملین الگ الگ پہلو پر زور دیتے ہیں اور عموماً اعتدال و توازن کے ساتھ اس کی صورت گری نہیں کرپاتے۔ چناں چہ جن کے نظریات کا محور انفرادیت پسندی یا فرد کی بے لگام آزادی ہے وہ ایسا جمہوری نظام چاہتے ہیں جو فرد کی آزادی میں ادنی سی مداخلت بھی نہ کرے۔ یہ لوگ لبرل ڈیموکریٹ کے نام سے موسوم کیے جاتے ہیں۔ جن کے نظریہ میں سماجی مساوات کو کلیدی اہمیت حاصل ہے وہ ایسا جمہوری نظام چاہتے ہیں جس میں حکومتی مداخلت کے ذریعہ افراد کو سماج کے وسیع تر مفادات کا پابند بنایا جاسکے تاکہ کوئی فرد ذاتی مفاد کے لیے سماجی مفادات کو زک نہ پہنچا سکے۔ یہ لوگ سوشل ڈیموکریٹ کہے جاتے ہیں۔ جن کے نظریات کا محور طبقاتی کشمکش ہے ان کے نزدیک جمہوریت کا مطلب پرولتاریہ یا مقہور طبقات کی حکمرانی ہے جو کمیونسٹ پارٹی کی اوپر سے نیچے کی طرف تشکیل کردہ تنظیم کی بے روک حکمرانی کی ہم معنی ہے۔ یہ لوگ عوامی ڈیموکریٹ ہونے کے دعویدار ہیں۔ طویل تجربات کی روشنی میں آخرالذکر طرز حکمرانی کو تو استبدادی حکمرانی کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے اور اسے اب کم ہی لوگ جمہوری مانتے ہیں۔ لیکن بقیہ دو ماڈل آج بھی مختلف ممالک میں کچھ کتر بیونت کے ساتھ رائج ہیں اور انہیں جمہوری تسلیم کیا جاتا ہے۔ فرد اور اجتماعیت، انفرادی حریت اور سماجی مساوات، اور حقوق اور فرائض کے مابین اعتدال و توازن کی متعین عملی صورت گری کیسے کی جائے جس میں انفرادی اکائیاں، سماجی اکائیاں اور ریاستی اکائیاں اس طرح مربوط ہو سکیں کہ “تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری” کی صورت پیدا ہو سکے، آج کی انسانیت کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔
ڈاکٹر مرزوقی نے رائج الوقت جمہوریت کو درپیش دو اہم چیلنجز سے خبردار کیا ہے: اوّل جمہوری ممالک میں عوامیت پسندی (populism) کی لہر اور دوم نمائندہ جمہوری اداروں کی بے وقعتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کووڈ کی عالمی وبا نے ان دونوں چیلنجوں کی سنگینی کو جمہوریت کے لیے سنگین تر بنا دیا ہے۔
آج جمہوریت کو درپیش مندرجہ بالا تینوں مشکلات یعنی (۱) انفرادی آزادی اور سماجی برابری کے مابین مطابقت، (۲) عوامیت پسندی کی لہر اور (۳) نمائندہ جمہوری اداروں کی بے وقعتی، نے مختلف جمہوری ملکوں میں تین سنگین مسائل کو جنم دیا ہے:
عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کو جذباتیت اور نفرت انگیزی کی افیون کا عادی بنایا جا رہا ہے۔
اقلیتی گروہوں کو ملکی دھارے سے الگ کرنے اور انہیں حالت خوف میں مبتلا رکھنے کے لیے نت نئے قوانین اور ضابطے بنائے جا رہے ہیں۔
حکومت اور ریاستی اداروں سے عوام کی امیدیں مسلسل رو بہ انحطاط ہیں۔
ڈاکٹر مرزوقی نے بجا طور پر جمہوریت کی کسوٹی کے لیے درج ذیل پیمانوں کا تعین کیا ہے:
فطری طور پر بنے ایک تکثیری سماج کے اندر معرکہ آرائیوں کو پر امن شکل دے دینا، تاکہ اس کی وحدت اور استحکام محفوظ رہے۔
قانون کی ایسی حکمرانی جس کے سائے میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر میں مذکور تمام حقوق حق داروں کو پہونچ جائیں، نہ تو کوئی محروم کیا جائے اور نہ ہی کسی کو تنگ کیا جائے۔
جہاں ایسے مستقل، پائیدار اور با اختیار اداروں کی حکومت ہو جن میں آزادانہ اور شفاف نظامِ انتخاب رائج ہو، اور جو منتخب افراد سے کام لیں نہ کہ ان کے کام آئیں۔
ڈاکٹر مرزوقی کی یہ بات بھی اہم ہے کہ استبدادی نظام کے برخلاف جمہوریت اپنے نقائص کے باوجود اپنے آپ کو ان نقائص سے پاک کرنے کا فریضہ انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس فریضہ کی ادائیگی مسلسل ہوتی رہے، اس کے ذرائع کیا ہیں۔ ظاہر ہے ایک منظم جمہوری ریاست کی اصلاح کاری کے لیے بھی ایک نفیس انضباطی و اعتدالی تانے بانے کی ضرورت ہے جو ریاستی دخل اندازیوں کو سہارنے کی قوت رکھتے ہوں اور جن کی پشت پر ایسا قانون کھڑا ہوجسے منسوخ کرنا حکومت کے لیے ممکن نہ ہو۔ خاص طور پر مسلم ممالک میں اس حکمرانی سے متعلق شرعی قانون کی اجماعی تعبیر کا نفاذ بڑی حد تک جمہوری اداروں کی من مانی پر قدغن لگا سکتا ہے بشرطے کہ خود عوام الناس ہی اس کے خلاف استبداد پسندوں کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ نہ ہو جائیں۔ اور ظاہر ہے جب عوام خود اپنے مفادات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو پھر انھیں حکمرانوں کی من مانی سے کون بچا سکتا ہے۔
حقوق انسانی
یوں تو حقوق انسانی کا تصور نیا نہیں ہے۔ اس کےنشانات دور جدید میں میگنا کارٹا میں بھی ملتے ہیں اور دور قدیم میں ایتھنس کی عوامی جمہوریہ میں بھی۔ دیگر تہذیبوں اور مذاہب کا دامن بھی اس تصور سے خالی نہیں ہے۔ خود انسان کا ضمیر اپنے جیسے انسانوں ہی نہیں بلکہ دیگر مخلوقات کے حقوق کے بارے میں بھی وہبی طور پر احساس رکھتا ہے۔ لیکن مرتب و مربوط شکل میں حقوق انسانی سے متعلق اہم شقیں میثاقِ مدینہ اور خطبۂ حجۃ الوداع میں پہلی بار سامنے آئیں۔ مزید جامعیت اور جدید ترتیب کے ساتھ نئے حالات و مسائل کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے حقوق انسانی کی شقیں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ۱۹۴۸ء میں ایک عالمی چارٹر کے طور پر منظورکی گئیں۔
ڈاکٹر مرزوقی نے عرب دنیا میں حقوق انسانی کے علم برداروں کی منافقت پر ایک مختصر مگر جامع تبصرہ کیا ہے: انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تحریک بے سمتی اور انتخابیت کا شکار ہو گئی ہے۔ بھلا دمشق کے خوں خوار کے حق میں ڈنکے پیٹنے کی بات کا کیا ذکر کیا جائے!(ہاں ایسا ہی ہوا خدا کی قسم)۔
ڈاکٹر مرزوقی نے عالمی منشور حقوق انسانی کا جائزہ لیتے ہوئے دو تجاویز بھی دی ہیں:اوّل یہ کہ حقوق پامال کرنے والے قانونا قابل گرفت قرار دیے جائیں اور دوم ماحولیاتی فساد کی روک تھام کے لیے دیگر جاندار ونباتات کے حقوق کی شق بھی شامل کی جائے۔ یہ دونوں تجاویز اہم تو ہیں لیکن عملاً قابل نفاذ نہیں ہیں کیوں کہ خود یہ منشور ہی اپنی اصل میں ایک سفارش سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ اس کا نفاذ قومی حکومتوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ گرچہ عالمی رائے عامہ کے دباؤ کی وجہ سے حکومتیں اسے تسلیم کرنے اور سول سوسائٹی کو اس محاذ پر سرگرم کار ہونے کی گنجائش اور اجازت دینے پر مجبور ہیں۔ خود مصنف کا ذاتی تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ریاستیں اس سلسلے میں کتنی رکاوٹیں کھڑی کرتی رہتی ہیں۔
اسلامی نظام حکومت میں حقوق انسانی کے حوالے سے دو باتیں بے حد اہم ہیں جس پر محمد صلاح الدین مرحوم نے اپنی کتاب انسانی حقوق میں تفصیلی بحث کی ہے: (۱) اسلامی نظام میں انسانی حقوق ناقابل تنسیخ بھی ہیں اور ناقابل تعطل بھی، کیوں کہ جو حقوق خدا نے اپنے بندوں کو ودیعت کیے ہیں، نہ تو قانون سازیہ، نہ اسلامی عدالت اور نہ ہی حکمراں انہیں معطل یا منسوخ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں خواہ حالات کچھ ہوں۔ (۲)حقوق کی وہ خلاف ورزی جو قابل شہادت ہے وہ قابل تعزیر ہے۔ لیکن وہ خلاف ورزی جس کا تعلق نیت سے ہے اور اس پر شہادت پیش کرنا ممکن نہیں اس کا مواخذہ آخرت میں ہوگا۔ ان دونوں نکات کا نچوڑ یہ ہے کہ بہت سی محمود اخلاقی تعلیمات سے جان بوجھ کر بے اعتنائی (مثلاً راہ سے ضرر رساں اشیا کو ہٹا دینا) پر دنیا کی عدالت تو گرفت نہیں کر سکتی لیکن اخروی باز پرس بہت سخت ہوسکتی ہے۔ لیکن حقوق کی ایسی پامالی جو قابل شہادت ہے ان پر گرفت کرنا عدالت کی ذمہ داری بنتی ہے اور اس میں عوام اور حکمراں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی۔
نیشنلزم: عرب دنیا کے تناظر میں
نیشنلزم یعنی قوم پرستی نے ایک زمانے میں دنیا کے دوسرے خطوں کے علاوہ تقریباً پوری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس تحریک میں سرخیل کے طور پر مصر، شام اور عراق تھے۔ جمال عبدالناصر کی قیادت کا عروج اسی عرب نیشنلزم اور خاص طور پر مصری نیشنلزم کا مرہون منت تھا۔ بڑے بڑے علما اور دانش ور عرب نیشنلزم کی تائید میں مقالے لکھتے رہے۔ عرب نیشنلسٹ تحریک کا ایک نتیجہ توعثمانی خلافت کے خلاف عربوں کی مغربی استعماریت کے ساتھ ساز باز کی صورت میں ظاہر ہوا اور نام نہاد خلافت کے خاتمہ کے بعد اتاترک کمال پاشا کی قیادت میں دین بیزار ترک نیشنلزم کی نشو ونما کا باعث بنا۔ اس کا دوسرا نتیجہ فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کی شکل میں سامنے آیا جس کے خلاف صف آرائی کرتے کرتے عبد الناصر کی قیادت کو بھی گرہن لگا اور خود عرب نیشنلزم بھی مصر، شام اور عراق کے دھڑوں میں بٹ گیا۔ اور آج صورت حال یہ ہے کہ عرب عجم کشمکش کی وجہ سےملت اسلامیہ کا دامن اتحاد تار تار ہے۔ عرب نیشنلزم کے اثرات بد خود عرب عوام پر کیا پڑے اسے ڈاکٹر مرزوقی نے بہت جامع انداز میں پیش کیا ہے:
امت کی کسمپرسی کے دو مصدر ہیں: ایک استعمار جو بیرونی استبداد بنا ہوا ہے، اور دوسرا استبداد جو اندرونی استعمار بنا ہوا ہے۔ استعمار اور استبداد ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اور دونوں میں موازنہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ کس طرح عرب نیشنلزم خود عرب ممالک میں استبدادی حکمرانوں کا گماشتہ بن گئی۔ انھیں کے الفاظ میں:
جب بدعنوانی، ظلم اور موروثی سیاست کے خلاف عرب بہار کی پہلی لہر میں ہماری قومیں اٹھ کھڑی ہوئیں، تو نیشنلسٹوں نے لیبیا میں قذافی کا ساتھ دیا اور مصر میں سیسی کا، اور اب دیکھو نیشنلسٹوں کو کہ شامی ڈکٹیٹر کی حمایت میں شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، جب کہ بشار کے جرائم طشت ازبام ہوچکے ہیں‏‏‏۔
دنیا بھر میں قوم پرستوں کا مسئلہ یہی رہا ہے کہ انھیں اپنی بالادستی کے لیے مثبت ایجنڈا سے زیادہ اپنے بالمقابل ایک نام نہاد دشمن قوم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ قوم پرستانہ جذبات کو نفرت کی آگ بھڑکا کرگرم رکھا جاسکے۔ قومی پہچان ایک چیز ہے اور قوم پرستی ایک دوسری چیز ہے۔ انسانی آبادیوں میں نسل، زبان، رنگ، علاقہ، تہذیب اور مذہب کی بنیاد پر گروہوں کی قومی شناخت بنتی رہی ہے۔ اور ہر وسیع اجتماعی شناخت کے دائرے میں دیگرشناختوں کے بہت سے چھوٹے چھوٹے شناختی دائرے بھی موجود ہوتے ہیں۔ لیکن شناخت کا ہر دائرہ اتنا لچکیلا اور حساس ہوتا ہے کہ مختلف عصبیتوں کی کھینچا تانی کبھی ایک دائرہ کو دوسرے دائرے پر حاوی کردیتی ہے اور کبھی دوسرے دائرے کو۔ عصبیتوں کی کھینچا تانی اس وقت گمبھیر ہوجاتی ہے جب وہ دوسرے شناختی دائرے کو اپنا دشمن سمجھ کر نفرت اور بالادستی کی لہروں میں تبدیل ہوکر قوم پرستانہ طوفان کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے شناختوں کے مختلف النوع دائروں کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ لیکن یہ تو ممکن ہے کہ شناختی عصبیتوں کو وسیع تر انسانی ہمدردی اور تعاون کے دائرے سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ ڈاکٹر مرزوقی نے بھی اپنے مضمون میں عرب شناخت کے دائرے کو ایک وسیع تر دائرے کے اندر رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
عرب قوم فطری طور پر تکثیری ہے، یہ مضبوط حیثیت والی اور قدیم ماضی رکھنے والی اقوام پر مشتمل ہے۔ اس تکثیریت کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بربروں، کردوں اور عیسائیوں کے ساتھ، جو اسلامی عربی تمدن کے ہمارے تاریخی شراکت دار ہیں، گفتگو شروع کی جائے، اور ایسی شراکت داری پر اتفاق بنانے کی کوشش کی جائے جس میں اقلیت اور اکثریت کی منطق سے اوپر اٹھ کر تمام شراکت داروں کو یکساں اہمیت اور حقوق حاصل ہوں۔
دیگر نکات میں انھوں نے عربیت کو امت کے دائرے میں رکھنے اور پھر پوری انسانیت کے دائرے میں رکھنے اور ایک عملی ماڈل کے طور پر یوروپی یونین کے طرز پر جمہوری اصولوں کی پاسداری کے دائرے میں رکھنے کی تجاویز رکھی ہیں۔
لبرلزم
سب سے پہلے ہم لبرلزم کے لیے چار اردو الفاظ استعمال کرکے اس اصطلاح کے معنوی ابعاد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لبرلزم یعنی (۱) حریت پسندی، (۲)وسیع المشربی، (۳)آزاد روی، (۴) عدم مداخلت۔ پہلا لفظ تو سیاسی نظام میں فرد کی آزادی سے متعلق ہے، دوسرا لفظ فکری اور عملی رویہ سے متعلق ہے جس میں مخالف نقطۂ نظر کے ساتھ رواداری کا پہلو نمایاں ہے، تیسرے لفظ سے طرز زندگی میں اخلاقی ضابطوں یا رسم و رواج سے لاتعلقی کا پتہ چلتا ہے، اور چوتھے لفظ سے معاشی اور مالیاتی سرگرمیوں میں حکومتی مداخلت کی نامطلوبیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مرزوقی نے اس مضمون میں لبرلزم کو معاشی ومالیاتی معاملات میں بے قید آزادی کے حوالے سے برتا ہے۔ لہذا ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ مصنف نے معاشی و مالیاتی سرگرمیوں پر لبرلزم کے اثرات سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے۔ ڈاکٹر مرزوقی کے خیال میں لبرلزم نے معاشی مصائب اور ماحولیاتی فساد کو جنم دیا ہے اور لبرل معاشی ومالیاتی در وبست میں سرمایہ دارانہ اجارہ داری کی وجہ سے دولت مٹھی بھر لوگوں کی تجوریوں میں سمٹ جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں سرمایہ داروں کے خود غرضانہ مفادات کے تحفظ کے لیے ان کی پشت پناہی کے لیے جمہوری حکومتیں بھی دم ہلاتی نظر آتی ہیں۔ لبرلزم کے نام پر بڑی بڑی کمپنیاں عوامی مفادات کو پامال کرتے ہوئے ضروری اور غیر ضروری پیداوار کے ذریعہ تکثیر دولت کی دوڑ میں بے لگام شریک ہیں۔ لبرلزم پر مبنی نظام نے انسانیت کو غربت اور ماحولیات کو فساد کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ چارج شیٹ میں اور بھی جرائم شامل ہیں۔ ڈاکٹر مرزوقی کا لبرل معاشی نظام پر درج ذیل تبصرہ ان کے نتیجۂ فکر کی وضاحت کے لیے کافی ہے:
گفتگو کو مزید جاری رکھنے سے پہلے بطور یاددہانی یہ بتا دیں کہ حکومت — اپنے خاص تکنیکی مفہوم کے اعتبار سے — چند ڈھانچوں (اسٹرکچرز) اور اداروں کا نام ہے۔ اس کے پاس انسانی، مادی اور معلوماتی وسائل ہوتے ہیں۔ اس کا محرک سیاسی نظام ہوتا ہے اور بنیادی ہدف مفاد عامہ کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف لبرلزم ان کمپنیوں کا مجموعہ ہے جن کے پاس انسانی، مادی اور معلوماتی وسائل ہوتے ہیں۔ ان کی باگ چند اشخاص اور مجالس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ان کا بنیادی ہدف مخصوص مفادات کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔
بلاشبہ ڈاکٹر مرزوقی نے لبرلزم پر مبنی معاشی نظام کی بہت ساری خرابیوں کا تذکرہ متعین مثالوں کے ساتھ کیا ہے اور ماضی کے بہت سارے تہلکوں سے بچ نکلنے کے باوجود آج کے حالات میں بے قید سرمایہ دارانہ معیشت کو جو وجودی خطرہ لاحق ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اس کیمپ میں موجود تشویش کی لہروں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
گذشتہ اگست کے مہینے میں امریکہ کی ۱۸۱ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کا ایک ایسے عریضے پر دستخط کرنا کیا معنی رکھتا ہے جس میں انھوں نے یہ عہد کیا کہ وہ نہ صرف بانڈز کے مالکوں کے مفادات بلکہ مزدوروں اور سماج کے مفادات کو بھی اہمیت کی نگاہ سے دیکھیں گے؟ آج ہمیں امریکی رسالوں میں اس قسم کے مضامین پڑھنے کو کیوں مل رہے ہیں جن میں —مختلف انداز سے— وہی سوال پیش کیا جا رہا جو ایک سال پہلے کیا جا رہا تھا کہ ہم سرمایہ داری کو مختلف انداز سے کیسے برتیں؟ (how to do capitalism differently)؟
سرمایہ دارانہ نظام کو سرمایہ داروں سے بچانے کی جو ترکیبیں سجھائی گئی ہیں وہ بنیادی طور پر تین ہیں: اوّل کچھ پیداواری سرگرمیوں مثلاً ادویات کی پیداوار کو قومیا لیا جائے، دوم کچھ مصنوعاتی سرگرمیوں پر روک لگادی جائے جو ماحولیاتی فساد کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں، اورسوم بے قید معاشی اور مالیاتی سرگرمیوں کو ضابطوں کا پابند بنایا جائے۔ پہلے اقدام کا اثر تحقیق اور پیداوار کے مطلوبہ معیار ومقدار پر کیا پڑے گا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی فساد کی ذمہ دار صنعتوں پر روک اور علاقۂ محفوظ کا معاملہ گرین تحریک کا مرکزی ایجنڈا ہے جس پر اب تک کوئی بڑی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی لیکن بہرحال اس سلسلے میں عوامی دباؤ کی موثر تدابیر پر غور کرنا چاہیے اور اسلام پسندوں کو بھی اس تحریک کا حصہ بننا چاہیے۔ تیسری تجویز زیادہ ماہرانہ تجزیہ وتفصیل کی طالب ہے۔ اس سلسلے میں رگھو رام راجن کا تجزیہ بڑی اہمیت کا حامل ہےجسے تفصیل کے ساتھ انھوں نے اپنی تحقیق Saving Capitalism From the Capitalists میں پیش کیا ہے۔ ماہر معاشیات پروفیسر راجن نے آزاد معیشت ومالیات اور کھلے بازار کی تمام لوگوں کے لیے افادیت وضرورت اور اس کی کم زوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے چار نکاتی لائحہ عمل پیش کیا ہے جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔ میرے خیال میں یہ نکات اور کتاب میں پیش کیے گئے تجزیے اسلامی قدروں پر مبنی متبادل نظام معیشت ومالیات کی تشکیل میں معاونت کرسکتے ہیں:
معاشی اور مالیاتی پالیسی کا اہم جز اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ پیداواری سرمایہ پر اختیار چند ہاتھوں میں نہ سمٹ جائے اور جو صاحب اختیار ہیں وہ بھی اپنی سرمایہ کاری بہ احسن کرنے کے لائق بن سکیں۔
مسابقت کے نتیجے میں خسارے سے دوچار ہونے والے بھی ہوں گے۔ اس لیے ایک حفاظتی نظم ناگزیر ہے جو نہ صرف تنگ دستی سے دوچار ہونے والوں کو کاروباری مندی کے چکر سے نبرد آزما ہونے میں مدد کرے بلکہ انہیں کاروباری دیوالیہ پن کے دلدل سے باہر نکل آنے میں بھی معاونت کرے۔
اگر کاروباری سرحدیں کھلی رکھی جائیں تو قومی حکومتوں کی سیاسی پینترے بازی کا امکان محدود ہوجاتا ہے۔ بے شک، انتہائی سنگین حالت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ منڈی مخالف قوتیں کھلی سرحدوں کو زبردستی بند کردیں، اور اسی لیےان چاروں پالیسی ستونوں کو باہم دگر ایک دوسرے کے پشتیبان کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
عوام کو اس پہلو سے بیدار مغز بنانا چاہیے کہ آزاد منڈی میں ان کے لیے کتنے فوائد پنہاں ہیں اور بظاہر بے ضرر نظر آنے والی غیر مسابقتی پالیسیوں کی کتنی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے، تاکہ عوام خاموش تماشائی بن کر کنارے نہ کھڑے رہیں۔ (Saving Capitalism From the Capitalists- Chapter-13)
اپنے مضمون کے آخری حصے میں اپنی پیش کردہ تجاویز کو من وعن قبول کیے جانے پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر مرزوقی موجودہ نظام میں اصلاحی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ لبرلزم پر مبنی مارکیٹ کی بعض خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اصلاحاتی تدابیر کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: “آپ جب اس فہرست پر نظر ڈالیں گے تو اس کے نفاذ کا عدمِ امکان آپ پر واضح ہو جائے گا، کیو ں کہ لبرلزم اس قسم کے اقدامات اور کارروائیوں کے ذریعے اپنے خاتمے کے مقابلے میں دنیا کے خاتمے کو پسند کرے گا۔ لیکن کم از کم کیا یہ ممکن ہے کہ اس میں بعض بہتریاں لے آئی جائیں؟ اس لیے کہ اگر کسی چیز کا کوئی ایک جز قابل اخذ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پورے نظم کو ہی چھوڑ دیا جائے۔ ” ڈاکٹر مرزوقی نے جن بہتریوں کی بات کی ہے اس کو روبعمل لانے میں پروفیسر راجن کا پیش کردہ چار نکاتی لائحہ عمل قابل غور و فکر ہے۔■