صومِ ِحیاتاور اخروی افطار
رمضان کے روزے ساری زندگی کو بندگی رب میں ڈھالنے کا پیام دے گئے
ڈاکٹر ساجد عباسی
اللہ کے رسول نے فرمایا روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں، ایک فرحت تو افطار کے وقت ہے اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت (مشکوٰۃ مصابیح ،رواۃ ابوہریرہؓ ) افطار کے وقت کی خوشی و لذت کا تجربہ تو ہر روزہ دار کو ہوتا ہے جو اللہ رب العزت کی خوشنودی کی خاطر دن بھر بھوک و پیاس برداشت کرکے شام میں افطار کرتا ہے۔ حدیث کے مطابق ایک اور خوشی ہے جو بندہ کو اس وقت ہوتی ہے جب بندہ اللہ کے حضور پہنچ کر اس سے ملاقات کرتا ہے اور اس کے دیدار کی لذت سے آشنا ہوتا ہے۔ یہ تمام خوشیوں سے بڑی خوشی ہوتی ہے اور یہ خوشیوں کی انتہا کا مقام ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک بندہ ساری زندگی کو ایک روزہ دار کی طرح گزارے اور اس کی ساری زندگی صومِ زیست بن جائے تو اس کی افطاری بھی ناقابلِ بیان اور ناقابلِ تصور حد تک پر لطف و لذت بنادی جائے گی۔ یہ ایسا روزہ ہے جو ساری زندگی پر محیط ہے اور اس کا افطار ابدی اور لازوال نعمتوں سے لبریز ہو گا۔رمضان کے روزے دراصل ہمیں ہماری ساری زندگی کو روزہ بنانے کے لیے فرض کیے گئے ہیں جس میں ہم اللہ کے بنائے ہوئے حدود کے اندر رہ کر کچھ پابندیوں کو اختیار کرتے ہوئے اطاعت کی زندگی گزاریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ محدود عمل پر لا محدود اجر عطا فرماتا ہے۔ یہ اس لیے کہ بندہ نے اس کو بغیر دیکھے اور گناہوں پر اختیار رکھتے ہوئے گناہوں سے پرہیزگاری اختیار کی۔ اللہ تعالیٰ پر بندے کا توکل اور اس سے امید اور اس کو دیکھے بغیر غیب پر ایمان لاتے ہوئے مسلسل اس کی اطاعت یہ وہ اوصاف ہیں جس پر اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے بہت خوش ہوتا ہے اور اس کے لیے ابدی جنت کی صورت میں ناقابل تصور انعام و اکرام رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ارشاد ہوگا ’’یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا، جو بے دیکھے رحمٰن سے ڈرتا تھا، اور جو دل گِرویدہ لیے ہوئے آیا ہے۔ داخل ہو جاو جنت میں سلامتی کے ساتھ ‘‘۔ وہ دن حیات ابدی کا دن ہو گا۔ وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ان کے لیے ہے۔
(سورۃ ق ۳۱ تا ۳۵)
اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا تصور دلانے کے لیے ارشاد فرمایا:
پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے
(سورۃ السجدۃ ۱۷)
اس دنیا میں انسان کا سب سے پہلا امتحان اس کی عقل کا امتحان ہے اس لیے کہ انسان کی عقل ہی اس کو دوسرے حیوانات سے ممیز کرتی ہے۔ عقل کا امتحان یہ ہے کہ انسان اللہ کو بے دیکھے ڈرے۔ اللہ نے بندہ کے سامنے اپنی ان گنت نشانیاں رکھ دیں۔ ان نشانیوں کو دیکھ کر اور اس کے بے حد و حساب احسانات کو محسوس کر کے جو شخص اپنے خالق کو نہ پہچانے وہ اس امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی بلڈنگ میں فائر الارم بجنا شروع ہو تو اس کے مکین فوراً بلڈنگ خالی کرنا شروع کر دیتے ہیں اور کوئی یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ جب تک میں آگ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں یقین نہیں کروں گا جبکہ اس بلڈنگ میں اگر کوئی بلی یا کتا موجود ہو تو وہ آگ کو دیکھ کر یا اس کی گرمی کو محسوس کرتے ہی باہر نکلنے کا فیصلہ کرے گا۔ معلوم ہوا کہ کسی بھی چیز کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے حواس و مشاہدہ کا مطالبہ کرنا دراصل اپنی عقل کو حیوانات کی سطح پر لے جانا ہے۔ دنیا میں جتنے ملحد و دہریے پائے جاتے ہیں وہ دراصل حیوانی سطح پر پہنچ کر مطالبہ کرتے ہیں کہ خدا کو دکھایا جائے۔ عدم مشاہدہ ان کے نزدیک عدم وجود کا ثبوت ہے۔ اللہ کی عبادت میں اللہ کی معرفت پہلا زینہ ہے جس کے بعد ہی اطاعت کا مرحلہ آتا ہے۔ اللہ کی معرفت کا مطلب ہے ایمان بالغیب اور یہ ایسی صفت ہے جو تقویٰ کی اساس ہے۔ اس صفت کے بغیر ایک انسان قرآن سے ہدایت حاصل نہیں کر سکتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جنت میں اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا۔(صحیح بخاری)
جس فرد نے اس احساس کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے کہ ان کے ذریعے زندگی میں روزے کی اسپرٹ پیدا ہو جائے اور جس کی بدولت ہماری شعوری زندگی ایک طویل المیعاد روزہ بن جائے جس کا افطار ہمیں جنت میں داخلہ کی صورت میں کرنا ہو گا تو یقیناً اس سے اس کی زندگی میں بہت ہی مثبت تبدیلی آئے گی۔ ہماری نظر اللہ سے ملاقات اور جنت کے حصول پر لگی ہو گی۔ جس طرح ایک روزہ دار کی نظر افطار کے وقت پر لگی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک روزہ دار افطار تک صبر کرتا ہے اسی طرح ایک مومن اللہ سے ملاقات اور لذتِ دیدار حاصل ہونے تک صبر کے ساتھ تقویٰ کی زندگی گزارتا ہے۔ یہ احساس روزے کا ایساماحصل ہے جس کا اثر اگلے رمضان تک رہے گا اور اگلا رمضان اس احساس کو مزید مہمیز عطا کرے گا۔ اس احساس کو ساری زندگی باقی رکھا جائے تو اخروی افطار کے انتظار میں متقیانہ زندگی گزارنا آسان ہو جاتا ہے۔لیکن دنیا کی کشش اکثر اس احساس کو کمزور کرتی ہے اور جنت کے حصول کو دشوار بنا دیتی ہے۔ اس لیے کہ اس دنیا میں انسان کی توجہ کو تقویٰ سے ہٹانے کے لیے بے شمار رغبتوں اور شہوتوں کو رکھ دیا گیا ہے۔ جنت کا راستہ آسان راستہ نہیں ہے۔ جنت جتنا قیمتی انعام ہے اسی قدر اس کا حصول بھی دشوار گزار ہے۔
حدیث میں ہے کہ جنت نا پسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھری ہوئی ہے اور جہنم شہوات سے۔
لوگ جہنم کی طرف اس لیے رواں دواں ہیں کہ اس کے راستے میں مرغوبات نفس اور شہوات کی کثرت رکھ دی گئی ہے اور جنت کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں رکھ دی گئی ہیں جن کو عبور کیے بغیر جنت تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ جنت کے راستے میں سب سے پہلی رکاوٹ استکبار اور انسان کی بڑائی کا احساس ہے۔ جب تک انسان حق کے آگے سرنگوں نہ ہو جنت کا راستہ صاف نہ ہو سکے گا۔ اس کے بعد خواہشات نفس اگلی رکاوٹ ہیں۔ پھر باپ دادا کے طریقوں کی اندھی پیروی اور عصبیت بھی ایک رکاوٹ ہے۔ حق شناسی کے راستے میں اشتباہ کے پردے بھی رکھ دیے گئے ہیں اور جب تک ان پردوں کو چا ک کر کے غیبی حقیقتوں کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی جنت کی طرف پیش قدمی نہیں ہو سکتی۔ انسان کے لیے نفس کی اکساہٹوں پر قابو پانا بھی جنت کے راستے پر گامزن ہونے کے لیے ضروری ہے۔ آخر میں شیطان کے پھیلائے ہوئے فریب سے بچ کر اپنی راہ کو کھوٹی ہونے سے بچانا بھی جنت کو پانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ تو وہ چیزیں ہیں جو جنت کے لیے اہل اور مستحق ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے امتحان کے طور پر رکھ دی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت کے اس پر آشوب راستے میں اپنے نیک بندوں کو بے سہارا نہیں چھوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کے اندر نفس امّارہ رکھا ہے وہیں نفس لوّامہ بھی ودیعت کر دیا ہے جو ہر برے عمل کے آغاز ہی میں ہمیں متنبہ کر دیتا ہے۔ ہمارے نفس میں خیر و شر کی تمیز کروانے والا ایک مفتی بٹھا رکھا ہے جو اندر سے فتوی دیتا رہتا ہے کہ حلال و حرام کے درمیان حدِ فاصل کہاں ہے۔ حتمی طور پر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے جو کلام اپنے پیغمبر پر قرآن کی صورت میں نازل فرمایا ہے وہ ہمارے لیے قولِ فیصل ہے جس کی تفصیل اللہ کے رسول کی سیرت و احادیثِ مبارکہ بیان کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر دم اپنے بندوں کی استعانت و مغفرت فرماتا رہتا ہے جب وہ اس سے توبہ و استغفار طلب کرتے ہیں۔ جہاں جنت کا راستہ امتحان کے لیے دشوار بنایا گیا ہے وہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں کے لیے اسے آسان بھی فرما دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود نہیں چاہتا کہ اس کے بندے جہنم کا ایندھن بنیں۔ جو انسان بھی ہدایت کی طلب اپنے دل میں رکھے اور اپنی عقل کو حق کی تلاش میں استعمال کرے اس کے لیے اللہ تعالیٰ ہدایت کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ جو بندے اس پر ایمان لاتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے صیام و قیام اور شبِ قدر کی صورت میں خصوصی انتظام فرمایا کہ ان کے گناہوں کو غیر معمولی طریقے سے بخش دیا جائے اور ان کی معمولی نیکیوں کو غیر معمولی طور پر بڑھا دیا جائے تاکہ جنت میں ان کا داخلہ سہل اور آسان ہو جائے۔
ملت کے اکثر و بیشتر افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے رمضان کے اختتام پر کھانے پینے کی پابندیوں سے آزاد ہو کر گناہ کرنے کی بھی آزادی حاصل کرلی ہے۔ ایسے افراد کے اندر یہ تصور پیدا کرنا چاہیے کہ ایک مسلمان کی ساری زندگی دراصل ایک طویل المیعاد روزہ ہے جس میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اختیار کرنا ہے اور ہر معصیت سے بچنا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمیں جنت کی نعمتوں کی صورت میں ایسا افطار ملے گا جو ابدی افطار ہو گا۔ اس افطار کے بعد نہ ہمیں کوئی بھوک لگے گی نہ پیاس لگے گی اور نہ ہی گرمی ستائے گی۔ وہاں انسان نہ بوڑھا ہوگا اور نہ ہی بیمار ہو گا۔ ان نعمتوں کو سب سے بڑی نعمت بنانے والی چیز یہ ہے کہ وہاں زندگی دائمی ہو گی۔ بغیر مشقت کے انسان کو وہ کچھ ملے گا جو اس کا دل چاہے گا۔ یہ وہی اس کا اصلی مقام ہے جہاں سے اس کے ماں باپ آدم و حوا علیہم السلام نکالے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتیں عین انسان کی فطرت کے مطابق رکھی ہیں۔ انسانی فطرت یہ تقاضا کرتی ہےکہ انسان کو موت نہ آئے، نہ وہ کبھی بوڑھا ہو اور نہ ہی اس کو بیماری، غم فکر و پریشانی لاحق ہو۔ انسان چاہتا ہے کہ بغیر محنت کے اس کو نعمتیں ملتی رہیں اور جو بھی نعمتیں بھی اس کو میسر ہوں ان سے وہ کبھی نہ چھینی جائیں۔ وہ نعمتوں کا دوام چاہتا ہے۔ اکثر انسان ایسی ہی خیالی جنت کے اسی دنیا میں متلاشی ہیں۔ جتنا وہ ایسی خیالی جنت کی تلاش میں سرگرم ہیں اسی قدر حقیقی جنت ان سے دور ہوتی جا رہی ہے یہاں تک کہ موت آ کر اس کے خوابوں کو بکھیر دیتی ہے اور تمام عارضی لذتوں کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنے فرمان کے ذریعے اطلاع کرتا ہے کہ انسان کی خیالی جنت سے بھی بدرجہا بہتر جنت اس کو نصیب ہو گی جو عین اس کی فطرت سے ہم آہنگ ہو گی مگر اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی اور قیمت یہ ہے انسان اپنے ارادہ و اختیار کو اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں فروخت کر دے۔ ارشاد ربانی ہے:حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور اُن کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں (سورۃ التوبہ۱۱۱)
جنت کی قیمت یہ ہے کہ جان و مال کے تصرف کے تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دیے جائیں۔ جنت کی نعمتوں کا جتنا استحضار ہو گا اسی قدر اس تجارتِ لن تبور کی قدر وقیمت ہمارے دلوں میں پیدا ہو گی اور ہم ہمیشہ شوقِ لقاءاللہ لیے ہوئے جنت کے حصول میں اعمال صالحہ میں مستعد رہیں گے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے کہ ہماری جتنی عمر اعمال صالحہ میں گزرتی ہے تو اس کی جزا ہمیں جنت میں بھی اسی عمر کے بقدر محدود نہیں ہو گی بلکہ اس کی جزا دارالخلد کی شکل میں ملے گی۔ یہ کتنا عظیم الشان سودا ہے کہ محدود عمل کا لا محدود انعام، لامحدود مدت تک ملتا رہے گا۔اس کے بالعکس جو معاملہ ہو گا وہ نہایت ہی سنگین ہے۔ جو لوگ اس محدود مدت کو اللہ تعالیٰ کی عدم معرفت میں، کفر و شرک میں اور معصیت میں گزارکر لذتوں کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے ان کے لیے دردناک سزا ہے اور وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ محدود مدتِ کفر و شرک اور معصیت کا بدلہ کیوں کر ابدی عذاب کی شکل میں دیا جائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دنیاوی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو لا محدود نعمتوں سے نوازا ہے۔ لا محدود احسانات کی اگر کوئی ناشکری کرے تو اس کی سزا بھی اتنی ہی بڑی اور لا محدود ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہر کافر اور مشرک کو اس کے کفر و شرک کے باوجود مہلت پر مہلت دیتا چلا جا رہا ہے اور ان کو سامانِ زیست ملتا چلا جا رہا ہے۔ چاروں طرف آفاق میں اور خود ان کے انفس میں ایک خالق اور معبود ہونے کی ان گنت نشانیاں دیکھنے کے بعد وہ ان سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ دنیا میں پیغمبروں اور مبلغین کی آواز کو انہوں نے سنی ان سنی کر دیا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو معاف کرنے کا وعدہ کیا تھا کہ وہ جب بھی گناہ کرنے کے بعد نادم ہو کر پلٹیں گے تو وہ ان کو معاف کرے گا۔ موت کے آثار نمودار ہونے سے کچھ دیر قبل تک یہ موقع ان کے لیے موجود تھا کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹیں اور اپنے تمام گناہوں سے معافی مانگ کر پاک ہوں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کر کے جنت کے حق دار بنیں لیکن انہوں نے اس زرّین موقع کو کھو دیا اور لا محدود رحمت الہی کا فائدہ نہیں اٹھایا تو ایسی صورت میں ان کا ٹھکانہ لا محدود اور ہمیشگی کا عذاب ہی ہو گا اور کفر و شرک تو ناقابل معافی جرائم ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم جس رمضان سے ابھی ابھی گزرے ہیں وہ دراصل ہماری پوری زندگی کو ایک روزہ نما زندگی بنانے آیا تھا۔چنانچہ ہم اپنی بچی ہوئی زندگی کو طویل المیعاد روزہ سمجھ کر آخری سانس تک اس روزہ کو مکمل کریں تاکہ ہم کو اس روزہ کا افطار آخرت میں جنت کی نعمتوں کی شکل میں میسر آئے اور ہم کو وہ اصل مسرت حاصل ہو جب ہماری اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہو گی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 15 تا 21 مئی 2022