صدی کی ڈیل اور مغربی کنارہ (West Bank) کا اسرائیل میں انضمام

ڈاکٹر رضوان رفیقی – نئی دہلی

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہونے گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ وہ یکم جولائی 2020 کو مغربی کنارے ( West Bank ) کو باقاعدہ اسرائیل سے ضم کرنے جارہے ہیں، اس طرح وہ اپنے اس انتخابی وعد ہ کی تکمیل کریں گے،  جسے وہ بار باراسرائیلی عوام کو رجھانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔  واضح رہے کہ مغربی کنارہ  پر اب تک فلسطینی اتھارٹی کی حکمرانی رہی ہے‏۔ یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ڈیڑھ سال کے مختصر دورانیے میں اسرائیلی عوام کو تین عام انتخابات  کے مراحل سے گزرنا پڑا ہے، مگر کسی بھی انتخاب میں کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی ہے۔ بالآخرمئی  2020 میں نہ چاہتے ہوئے بھی  نتن یاہو کو اپنے سخت مخالف بینی گانٹس سے سمجھوتہ کرنا پڑا اور شریک وزیراعظم اور وزیردفاع کی کرسی اپنے مخالف کے حوالے کرنی پڑی‏ اور اس طرح تقریباً ڈیڑھ سال کے عرصے کے بعد صہیونی ریاست میں حکومت تشکیل پا سکی‏۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ہمیں امریکہ کا آشیرواد حاصل ہے‏۔ صدر ٹرمپ کا امریکی صدارت کے عہدے پر رہنا ہمارے لیے زریں موقع ہے‏۔ اس موقع سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے اور ڈیل کے مندرجات کو جلد ازجلد زمین پرنافذ کرنا چاہیے‏۔ ہم جولائی کی پہلی تاریخ سے اپنے اس خاکےمیں رنگ بھرنے جارہے ہیں اور مغربی کنارے کے پورے اختیارات کو اپنے تابع کرنے جارہے ہیں‏۔ مخلوط حکومت کے قیام کے پہلے دن دونوں پارٹیوں میں یہ بات طے پائی تھی کہ مغربی کنارہ کو اسرائیل میں ضم کیا جائے اور اسی شرط پر بینی گانٹس نے  نتن یاہو  کی حکومت میں شمولیت میں رضا مندی کا اظہار کیا تھا‏۔  پہلے مرحلے میں اسرائیل نے وادیِ اردن (Jordan Valley) کو اپنے تسلط میں لینے کی پیش قدمی کی، جہاں پر پہلے سے ہی اسرائیل نےجبراً  کئی  کالونیاں بسا ڈالی ہیں اور وہاں پر یہودیوں کو آباد کررکھا ہے‏۔ وادیِ اردن کا علاقہ پورے مغربی کنارے کا تقریباً تیس فیصد ہے اور اسٹریٹجک لحاظ سے فلسطین، اسرائیل اور اردن کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے‏۔ اسرائیل نے اس کی ابتدا گذشتہ مہینے وادیِ اردن کے فلسطینی باشندوں کو بجلی کے بل  پہنچا کے کردی ہے اور ان کو اس بات کا عندیہ دے دیا ہے کہ یہ علاقہ اب ان کے تسلط میں ہے، اس سے پہلے تما م انتظامی امور فلسطینی اتھارٹی کے پاس تھے ‏اور عسکری لحاظ سے اس علاقے پر اسرائیل کا قبضہ تھا۔

اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے اس اقدام سے دو ریاست کے قیام  کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردے جس کا وعدہ عالمی برادری نے 4 جون 1967 کو فلسطینی عوام سے کیاتھا ‏اور پھر کسی جانب سے یہ آواز نہ اٹھے کہ اس سرزمین پر فلسطینیوں کا بھی حق ہے‏۔ جن علاقوں کو اسرائیل باقاعدہ طور پر اپنے قبضے میں لینا چاہتا ہے، ان علاقوں پر اسرائیل کا پہلے سے عملاً قبضہ ہے اور اسی کی بنا پر وہ ان علاقوں میں یہودی کالونیوں کو بساتا رہا ہے‏۔ نتن یاہو کے اس جارحانہ اقدام کی  مشرق وسطیٰ میں اقوام متحدہ کے ایلچی نیکولی مالدونیو (Nickolay Mladenov) نے مذمت کی ہے اور اسے  بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قراردیا ہے‏۔ مگر یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے‏۔ اسرائیل کو  اچھی طرح معلوم ہے کہ اقوام متحدہ کی کیا بساط ہے، جب اس کی پشت پر امریکہ بہادر کا ہاتھ ہے‏‏۔

صدی کی ڈیل جسے امریکہ نے  فلسطینوں کو ان کی سرزمین سے محروم کرنے کےلیے ترتیب دیا ہے اور اس امریکی منصوبے میں مشرق وسطیٰ کی دیگر طاقتیں بھی ہاں میں ہاں ملا رہی ہیں، دراصل  ظلم وجبر کا ایک تاریک باب ہے، جو فلسطینیوں کو کسی صورت قبول نہیں۔ اس ڈیل کے پہلے  بند کےتحت پورا قدس شہر اسرائیلیوں کے حوالے کرنے کامنصوبہ ہے، جس میں فلسطینیوں کےلیے، جو اس کے اصل باشندے ہیں، کوئی جگہ نہ ہو۔ حالاں کہ1967 ميں جنگ بندی کے بعد قرارداد اورپھر 1993 میں اوسلو کے معاہدے کےتحت قدس کے مشرقی حصے پر مجوزہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوگا اور مغربی حصہ اسرائیل کے تابع ہوگا‏، مگر صدر ٹرمپ نے  دسمبر 2017 کو  پورے قدس (مشرقی ومغربی) کو اسرائیلی دارالحکومت کا اعلان کرکے نام نہاد صدی کی ڈیل کی بنیاد رکھ دی اور 14 مئی 2018 کو  اپنے یہودی نژاد داماد جارڈ کشنر کی موجودگی میں امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے قدس منتقل کردیا‏۔ جس طرح سے قدس کو اسرائیلی قبضے میں دے کر امریکہ نے فلسطینیوں کے جائز استحقاق کو خارج  کردیا ہے، اسی طرح مغربی کنارہ کو اسرائیل سے ضم کرکے فلسطینیوں کے مطالبات پر آخری قدغن لگانے کی تیاری ہے، تاکہ مستقبل میں کسی بھی مذاکرات کا قدس کے ساتھ ساتھ مغربی کنارہ حصّہ نہ بن پائے‏۔

اوسلو معاہدے کے مطابق مغربی کنارہ (West Bank)  انتظامی لحاظ سے تین علاقوں میں منقسم ہے، جس کے 39 فیصد علاقے کا انتظام وانصرام جزوی یا کلی طور پر فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہے تو بقیہ 61 فیصد علاقہ اسرائیل کے زیر انتظام ہے‏۔  معاہدے کےتحت 1999 میں اسرائیل کے زیر انتظام علاقے بھی فلسطینی اتھارٹی کو منتقل ہونے تھے مگر اس کے برخلاف اسرائیل نے اپنی دریدہ دہنی سے فلسطینی اتھارٹی والے علاقوں میں بھی اپنی کالونیاں بسا لیں‏۔ اگر صرف مغربی کنارے کی بات کی جائے تو معاہدے کے بعد سے 2018 کے اواخر تک  اسرائیل نے تین گنا سے زیادہ کالونیوں میں اضافہ کیا ہے اور اس کی تعداد ایک لاکھ سولہ ہزار( 1,16,000 ) سے بڑھ کر چار لاکھ تیرہ ہزار ( 4,13,000) ہوگئی ہے۔ ان ناجائز کالونیوں کی حفاظت کے نام پر فلسطینی آبادیوں اور گاؤں کو اسرائیل بڑی بے دردی سے تاراج کرتا رہا ہے‏۔ معاملہ یہاں تک آ پہنچا ہے کہ اسرائیلی فوجی کسی وقت بھی سیکورٹی کے بہانے کسی بھی فلسطینی کے گھر میں داخل ہوسکتے ہیں اور  گھر میں موجود کسی بھی نوجوان کو گرفتار کرسکتے ہیں‏۔ موجودہ صورت حال میں وادیِ اردن میں فلسطینی اتھارٹی کے پاس صرف 7.4 فیصد زمین پر قبضہ ہے اور 88.3 فیصد زمین پر مکمل اسرائیلی تسلط ہے اور 4.3 فیصد زمین پر اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کا مشترکہ انتظام وانصرام ہے۔  وادیِ اردن میں اس وقت 56 ہزار فلسطینی اریجا شہر کے علاوہ مختلف گاؤں میں بستے ہیں‏، جس میں سے صرف اریجا میں بیس 20 ہزار سے زائد فلسطینی رہائش پذیر ہیں ‏ اور یہ پورا علاقہ وادیِ اردن (Jordan Valley) کا صرف دو فیصد بنتا ہے، باقی حصہ خالی ہے، جہاں پر کوئی آبادی نہیں رہتی‏۔ اسرائیل وادیِ اردن اور مغربی کنارہ کو  اپنے سے ضم کرنے کی یہ دلیل دیتا رہا ہے کہ  اس کی 413 کالونیاں ان علاقوں میں ہیں جن میں اسرائیلی رہائش پذیر ہیں، ان علاقوں کے فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام رہنے سے اسرائیلی باشندوں کو سیکیورٹی کے خطرات رہتے ہیں اور ہم کسی صورت ان کی سیکیورٹی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے‏۔

ایسا نہیں ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور  اس کے صدر محمود عباس نے اسرائیل کے ان جارحانہ عزائم پراوّل روز سے ہی  سرِ تسلیم خَم کردیا ہو، صدر عباس نے نتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل میں دائیں بازو کی جماعت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد 2009 میں ہی  اوسلو معاہدے کی خلاف ورزی کو ہر عالمی پلیٹ فارم پر زور شور سے اٹھایا  اورعلاقائی  وعالمی سطح پر فلسطین کی صورت حال کو بتانے کی کوشش کی، یہاں تک  کہ 2012 میں اقوام متحدہ میں فلسطین کو ایک مشاہد کی حیثیت سے درجہ دلانے میں کامیابی حاصل کی‏۔ اگست 2018 تک محمود عباس نے تقریباً 80 عالمی پلیٹ فارموں پر فلسطین کی پوری قوت سے نمائندگی کی، مگر  امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کی فتح نے پور ے پانسے کو پلٹ دیا اور دھیرے دھیر ے  ان کی یہ مہم کمزور پڑتی گئی اور یکے بعد دیگرے  حلیف ممالک ان سے دور ہوتے گئے‏۔ جب تک صدر ٹرمپ نے ڈیل آف سنچری سے پردہ نہیں اٹھایا تھا اور قدس کو اسرائیلیوں کی جھولی میں ڈالا تھا، اس وقت تک صدر محمود عباس کو امریکہ سے بڑی توقعات تھیں اور امریکی سرپرستی میں فلسطینی مسئلے کا حل دیکھ رہے تھے، مگر صدر ٹرمپ کے اس فیصلہ نے محمود عباس کو متبادل پر غور کرنے پر مجبور کیا، لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک اب دائیں بازو کی جماعتوں یا افراد کی گرفت میں ہیں، جن سے اسرائیل کے دیرینہ تعلقات ہیں‏۔ عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں اپنی مصلحت سمجھتے ہیں اور ڈیل آف سنچری پر اپنی مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔

محمود عباس نے گرچہ اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ تمام  معاہدات جو امریکی سرپرستی میں اسرائیل کے ساتھ ہوئے ہیں، وہ اس سے کنارہ کش ہوتے ہیں اور صدی کی ڈیل کو مکمل طور پر رد ّ کرتے ہیں، جس پر صدر محمود عباس کی مقبولیت میں کافی اضافہ بھی ہوا اور ان کی مقبولیت کا گراف 68 فیصد تک پہنچا، مگر ایک سروے کے مطابق 73 فیصد فلسطینی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ صدر محمود عباس اپنے اس موقف پر قائم نہیں رہ سکتے اور وہ علاقائی و عالمی طاقتوں کا دباؤ جھیل  نہیں سکتے‏۔  فلسطین کی سب سے منظم و مضبوط تحریک مزاحمت "حماس ” نے اسرائیل کے اس اقدام کو احمقانہ قرار دیا ہے اور اسے اسرائیل کی حق میں خودکشی سے تعبیر کیا ہے‏۔ حماس کی پریس ریلیز کے مطابق اسرائیل نے امریکہ اور بعض عرب ممالک کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کو زمیں بدر کرنے کی ٹھانی ہے، جس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکتے‏۔ فلسطینی عوام  کواسرائیل نے ایک نئے انتفاضہ کا موقع بہم پہنچایا ہے، مغربی کنارہ کو اسرائیل سے ضم کرنے کی مذموم سازش کو حما س نے 1948 کے نکبہ اور 1993 کے اوسلو معاہدے کی تیسری کڑی قرار دیا ہے‏۔  فلسطینی وزیراعظم محمد اشتیہ نے جاپان کے نمائندے کے ساتھ یہ ردّعمل دیا کیا کہ عالمی برادری  اسرائیل کے اس ناجائز تصرف کوردّ کرتی ہے۔ انھوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اگر اسرائیل اپنے اس ناجائز منصوبے کو روبہ عمل لانے کی کوشش کرے تو عالمی برادری کو اُسے سبق سکھانا چاہیے‏۔  یوروپی یونین کے مختلف ممالک کے1000 سے زیادہ ممبرانِ پارلیمنٹ نے بھی اسرائیل کے اس اقدام کی مذمت کی ہے، مگر لگتا نہیں ہے کہ اسرائیل اپنے اس  منصوبے سے اتنی آسانی سے پیچھے ہٹے گا، جب کہ اسے امریکہ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے اور پڑوسی ممالک کی خاموش تائید بھی‏۔ ایسے میں فلسطینی عوام سے ہی اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی تحریک اور قربانیوں سے اسرائیل کو گھٹنوں پہ لا سکیں۔