پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
مستقبل میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں ۔ماہرین کا انتباہ
ملک کے سرکاری اسپتالوں میں نظم صحت بالکل ہی چرمرایا ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگ خواہ امیر ہوں یا غریب مجبوراً پرائیویٹ اسپتالوں کا رخ کرتے رہیں۔ اگرچہ وہاں علاج مہنگا ہے اس کے باوجود لوگ انہی کا انتخاب کرتے ہیں جہاں وہ اپنی آمدنی کی اسی فیصد بچت اسی مد میں لگادیتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تیرہ فیصد اور شہری علاقوں میں نو فیصد سے زائد لوگوں کو علاج و معالجہ کے لیے قرض لینے پڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس کی خاطر اپنی زمین و جائیداد تک کو فروخت کردیتے ہیں۔ اس طرح ملک کی بڑی آبادی علاج کی مصیبت میں گھر جانے بعد خط افلاس سے بھی نیچے گرجانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ صحت عامہ کی یہ خستہ حالی ہماری حکومت کا منہ چڑھا رہی ہے کیونکہ عام شہریوں کی صحت کی دیکھ بھال کی پوری ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے ۔ ضروری طبی سہولتوں اور بروقت صحیح علاج و معالجہ کی محرومی سے اکثر مریض موت کے شکار ہوجاتے ہیں۔ چند دنوں قبل ہی سپریم کورٹ نے نجی اسپتالوں کے متعلق کہا ہے کہ اب طبی ادارے انتہائی مصیبت پر منحصر بڑی صنعت بنتی جارہی ہے۔ اس لیے انسان زندگی کی قیمت پر انہیں پھلنے پھولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ یہ ایک طرح سے لوگوں کی قیمتی زندگی سے کھلواڑ ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنی خفگی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فائر ڈپارٹمنٹ اور دیگرضروری محکموں سے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) کے بغیر اسپتالوں اور نرنسگ ہومس کو چلانا غیر آئینی ہے۔ ویسے کورونا قہر نے صحت عامہ کی بدحالی کو ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 10189 افراد پر ایک ایلوپیتھ اور 90343 لوگوں پر ایک سرکاری اسپتال کا ہونا لازمی ہے جو ہمارے شہریوں کو میسر نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں فی ہزار آبادی پر اسپتالوں میں بستروں کی تعداد 0.5فیصد ہے جب کہ بنگلہ دیش میں 0.87فیصد اور کینیا میں 1.4فیصد ہے ۔ دیہی علاقوں میں یہ تصویر مزید خراب ہے۔ کورونا کی دوسری لہر نے جس طرح قہر ڈھایا ہے اس سے سبق لیتے ہوئے بنیادی طبی ڈھانچہ کو درست کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ کچھ دہائیوں سے محکمہ صحت میں آئی اصلاح سے لوگوں میں درازی عمر دیکھی گئی ہے۔ زچہ و بچہ کے اموات میں بھی کمی آئی ہے۔ حاشیے پر پڑے لوگوں کے لیے تحفظ صحت پر اخراجات ایک ناقابل برداشت بوجھ سے کم نہیں ہے۔ سالانہ تقریباً چھ کروڑ افراد صحت پر کیے جانے والے اخراجات کی وجہ سے خط افلاس کے قریب ہوجاتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو شعبہ صحت پر وافر مقدار میں رقم مختص کرکے منظم انداز میں خرچ کرنا ہوگا۔ ہماری درجہ بندی بریکس ممالک کے تمام ملکوں سے نچلے پائیدان پر ہے۔ واضح رہے کہ مہنگے علاج و معالجہ کی وجہ سے ملک میں پہلے بھی لوگ غربت کی بھینٹ چڑھتے آرہے ہیں لیکن کورونا کی پے در پے لہروں نے ان کی مصیبتوں میں بہت ہی اضافہ کیا ہے۔ 2012کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ستائیس کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے تھے کیونکہ یہاں بیمار ہونے پر لوگوں کو اپنی جیب سے زیادہ ہی رقم خرچ کرنی ہوتی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق بھارت میں کسی کے علاج پر سو روپے کا خرچہ آتا ہے تو اس میں سے اوسطاً ترسٹھ روپے اسے اپنی جیب سے دینے پڑتے ہیں۔ اس کے برخلاف ہمارے پڑوسی ممالک میں یہ طبی اخراجات نسبتاً کم ہیں۔ چین میں سو روپے میں تیس روپے کے قریب ہے۔اس معاملہ میں امیر اور خوشحال ملکوں کے حالات کہیں بہتر ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ اور جرمنی میں مریضوں کو سو روپے میں سے بیس روپے خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ فرانس میں یہ خرچ نو روپے کے قریب ہے۔ باقی رقم حکومت ادا کرتی ہے۔ بھارتی ریاستوں میں جہاں غریب زیادہ ہے وہیں کے لوگوں کو اپنے علاج و معالجہ پر خطیر رقم خرچ کرنا پڑتا ہے۔ بہار میں یہ فی الوقت 99.90روپے ہے اس کے بعد مدھیہ پردیش، اترپردیش اور اڑیسہ کے لوگوں کو علاج کے خاطر اپنی جیب سے زیادہ ہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے ایسی ریاستوں کی بڑی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایک سروے کے مطابق 94-1993میں 3.9فیصد افراد کا سالانہ علاج و معالجہ کے لیے خرچ پچیس فیصد تھا جو 12-2011میں بڑھ کر ایسے کنبوں کی تعداد 4.3فیصد ہوگئی ہے۔ کورونا وبا کے دوران لوگوں نے علاج و معالجے کے لیے ریٹائرمنٹ فنڈ سے پیسے نکال کر خرچ کیا۔ ہمارے یہاں سماجی سلامتی انتہائی کمزور ہے۔ اس لیے حکومت پر لازم ہے کہ شعبہ صحت اور سماجی ،سلامتی کی بہتری پر زیادہ خرچ کرے۔ اس سال کے معاشی سروے سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ کسی ملک کے شہریوں کی جسمانی صحت اور ان کی عزت نفس کا خیال، کفایتی اور جواب دہ صحت عامہ کے نظم پر بہت حد تک منحصر ہے۔ اس میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ صحت کے شعبہ پر اس طرح اضافہ کیا جائے کہ ہر شہری کے علاج و معالجہ کے سو روپے کے اخراجات پر انہیں محض تیس روپے خرچ کرنے پڑیں۔ اس سے صرف شہریوں کی صحت میں ہی بہتری نہیں آئے گی بلکہ معاشی شرح نمو میں بھی اضافہ ہوگا۔
جیسا کہ ملک کے شعبہ صحت کا حال ہے اس نے ہمیں قومی اور عالمی پیمانہ پر شرمسار کیا۔ کورونا وبا کی وجہ سے معیشت کا حال شعبہ صحت کی طرح ہی بدحال ہے 21-2020میں شرح نمو منفی 7.3فیصد پر آگئی۔ آزادی کے بعد معاشی محاذ پر ہمارے ملک کی یہ بدترین کارکردگی ہے۔ 17-2016 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر چھ فیصد کی شرح نمو سے وزیراعظم مودی ملک کو پانچ ٹریلین ڈالر کا معاشی سپر پاور ہونے کا خواب دکھانے لگے مگر ماہرین اقتصادیات اور تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ بھارت اب ناکام مملکت بننے کی جانب رواں دواں ہے۔ نو مئی کو دوسری لہر کے کورونا قہر کے عروج کے دوران لاکھوں لوگوں کی اموات پر صدر مرکز دانشوران برائے پالیسی سازی یامینی ایّر نے ہندوستان ٹائمز میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ہندوستان ناکام مملکت کہلانے کی سمت تیزی سے پیش رفت کررہا ہے ۔ اشیائے ضروریہ، ادویہ، اسپتالوں میں بستر اور دیگر ضروری اشیاء کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ہیں حالانکہ یہ ایک ذمہ دار فلاحی مملکت کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ برطانیہ کے ایک معاشی رسالہ نے لکھا ہے کہ اب بھارت میں کوئی معاشی مملکت برقرار نہں رہی۔ انڈین ایکسپریس کے ماہر معاشیات اشوک گلاٹی نےاپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ کورونا وبا کی دوسری لہر کے دوران ملک پوری طرح معاشی تباہی کا شکار ہوگیا۔ دراصل کوئی بھی ناکام مملکت کا انحصار اس کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں پر ہوتا ہے۔ ناکام مملکت ایسی ہوتی ہے جس میں اس کے شہری مملکت کی کارکردگی میں حصہ دار نہیں ہوتے اور کوئی بھی اس کے غلط فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے تیار نہیں ہوتا ہے۔ ان کی رائے میں ناکام وہ ہوتی ہے جس کی ابتر حالت کو کوئی انسدادی طریقہ بہتر نہیں بناسکتا ہے۔ حکومت کی پالیسیوں پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا اور حکومت تیزرفتاری سے تمام اختیارات مرکوز کرلیتی ہے۔
تین دہائی قبل کھلے پن (لبرلائزیشن) کی بنیاد رکھنے والے سابق وزیراعظم اور سابق وزیر مالیات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے موجودہ حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی معیشت کا جیسا برحال 1991میں تھا ویسی ہی حالت آنے والے دنوں میں ہونے والی ہے یا اس سے بھی بدتر۔ اس کے لیےچوکس رہیں آئندہ کی راہیں 1991کے آلام کے مقابلے میں زیادہ ہی چیلنج سے بھرا ہوا ہے۔ منموہن سنگھ نے کہا کہ بحیثیت قوم ہمیں اپنی ترجیحات کو پھر سے طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام شہریوں کو صحت مند اور پروقار زندگی میسر ہو۔ ملک کی معاشی تبدیلی کے لیے اٹھائے گئے مضبوط قدم کو چوبیس جولائی کو تیس سال مکمل ہوگئے ہیں ۔ 1991کے مرکزی بجٹ میں اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک میں لائسنسی راج کو تقریباً ختم کردیا تھا ۔ برآمدات اور درآمدات کی پالیسی میں تبدیلی سے گھریلو معیشت کے دروازے دنیا کے لیے کھل گئے تھے جس کی وجہ سے مضبوط بھارت کی بنیاد پڑی تھی اور آج ہم پانچ ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ 1991سے اب تک فی کس آمدنی بائیس گنا بڑھی لیکن روز مرہ کی چیزیں بھی ڈیڑھ سے 12.3 گنا تک مہنگی ہوئیں۔
عالمی بینک کے مطابق بھارت میں کسی کے علاج پر سو روپے کا خرچہ آتا ہے تو اس میں سے اوسطاً ترسٹھ روپے اسے اپنی جیب سے دینے پڑتے ہیں۔ اس کے برخلاف ہمارے پڑوسی ممالک میں یہ طبی اخراجات نسبتاً کم ہیں۔ چین میں سو روپے میں تیس روپے کے قریب ہے۔اس معاملہ میں امیر اور خوشحال ملکوں کے حالات کہیں بہتر ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ اور جرمنی میں مریضوں کو سو روپے میں سے بیس روپے خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ فرانس میں یہ خرچ نو روپے کے قریب ہے۔ باقی رقم حکومت ادا کرتی ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14 اگست 2021