صحافیوں کی آنکھوں دیکھی دلی …..

تصویریں نہ بنائیں صرف نظاروں سے محظوظ ہوں
صحافیوں کے ساتھ سفاکانہ سلوک سے قبل فسادیوں کا انتباہ
—رنجن شرما ،دلی

یہ ہے’’نئی دلی‘‘ جہاں زندگی کی بھیک مانگنی پڑی
مسلمان نہ ہونے کا ثبوت دینا پڑا۔ فون سے تصاویر مٹاد ی گئیں
—سوربھ شکلا
منگل کو خبروں کی رپورٹنگ کے لیے میرا دن ایک عام دن کی طرح شروع ہوا لیکن دن کے آخری حصہ میں یہ میری زندگی کا سب سے خوفناک دن بن گیا۔
میں اتوار سے ہی شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد کی رپورٹنگ کر رہا تھا۔ منگل کی صبح سات بجے راست رپورٹنگ کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس سے ۱۵ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع موج پور پہنچا۔ یہاں پہنچ کر جو منظر میں نے دیکھا وہ نہایت خوفناک تھا۔ مشتعل ہجوموں کی ٹولیاں لوٹ مار کر رہی تھیں، پتھراؤ کر رہی تھیں اور دکانوں میں توڑ پھوڑ مچا رہی تھیں۔ ماحول انتہائی کشیدہ تھا۔ گولیوں کی آوازیں سنا ئی دے رہی تھیں۔ مجھے دلی مختلف محسوس ہو رہی تھی، مختلف نظر آ رہی تھی۔
موج پور کی صورتحال کا احاطہ کرنے کے بعد تقریباً دوپہر بارہ بجے میرے ساتھی اروند گنا شیکھر اور میں کاروال نگر اور گوکل پوری کی طرف بڑھے جو انتہائی حساس علاقے ہیں۔ ہم نے این ڈی ٹی وی کا مائک استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ فسادی میڈیا سے سخت ناراض تھے۔ ہم اپنے موبائل فونس کو اپنے آس پاس ہونے والے تشدد کی رپورٹنگ کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
جلد ہی تشدد بڑی سڑکو ں سے تنگ گلیوں میں پہنچ گیا۔ ہم نے دیکھا کہ مکانات جل رہے ہیں، مذہبی مقامات میں توڑ پھوڑ کی جارہی اور ہجوم کا غصہ ہر لمحہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ہجوم میں شامل نوجوان جنونی انداز میں گھوم رہے تھے۔ پولیس کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔
جب ایک بج رہا تھا ہم نے سنا کہ سیلم پور کے قریب ایک مذہبی مقام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ لگ بھگ 200 افراد کا ایک ہجوم توڑ پھوڑ کر رہا ہے۔ ہم نے فلائی اوور کے اوپر ٹھہر کر ریکارڈنگ شروع کی۔ سی این این نیوز 18 کی رنجھن شرما بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ آس پاس بہت کم پولیس والے موجود تھے۔ وہ خاموش تماشائی بنے تھے۔
میں اروند سے تقریباً 50 میٹرکے فاصلے پر تھا جب ایک فسادی نے اسے پکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھ سکتے پچاس سے ساٹھ لوگوں پر مشتمل بھیڑ نے اروند کو مارنا شروع کر دیا۔ بھیڑ نے کہا کہ وہ اپنے موبائل فون پر موجود تمام ریکارڈ شدہ فوٹیج کو حذف کر دیں۔ اروند زمین پر گرپڑا، اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کے تین دانت ٹوٹ چکے تھے۔ میں اروند کی مدد کے لیے پہنچا جیسے ہی میں نے اروند کو بچانے کی کوشش کی میری پیٹھ پر لاٹھی لگی جو اروند کے سر پر پڑنے والی تھی۔ جب میں اروند کو بچانے کے لیے اس سے لپٹ گیا تو ہجوم نے مجھے گھونسے مارے اور مجھ پر لاٹھیاں برساتے رہے۔
میں کسی طرح اٹھ کھڑا ہوا اور بھیڑ کو ایک غیر ملکی نمائندے کا پریس کلب کارڈ دکھایا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم کسی ہندوستانی ٹیلی ویژن چینل کے لیے نہیں بلکہ غیر ملکی ایجنسی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے میری عرفیت ’’شکلا‘‘ دیکھی۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ برہمن ہے۔ میں نے اپنا مذہب ثابت کرنے کے لیے اپنے گلے میں پہنے ہوئے ’’ردرکشا ‘‘بھی دکھائے۔ یہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ لمحہ تھا۔ مجھے میری جان بچانے کے لیے اپنے مذہب کو ثابت کرنا پڑا۔ فسادیوں نے مجھ سے کہا کہ جب میں ان کی برادری سے ہوں تو میں ویڈیو کیوں شوٹ کر رہا تھا؟ (جو ان کے لیے مصیبت بن سکتا ہے) انہوں نے برہمی ظاہر کی اور پھر پیٹنے لگے۔ ہم نے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ ہمیں جانے دیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اروند ٹاملناڈو سے ہیں اور ہندی نہیں جانتے۔ رنجھن بھی ہمارے ساتھی تھیں اور وہ بھی ان کے سامنے زندگی کی بھیک مانگتی رہیں کہ ہم سب کو جانے دیں۔ ان میں سے ایک نے ہم سے ہمارے موبائل فون چھین لیے اور تصاویر اور ویڈیوز حذف کرنا شروع کیا۔ وہ آئی فون کو استعمال کرنے کا طریقہ جانتا تھا۔ اس نے فون کے تمام فولڈرس چیک کیے تاکہ ایسی تصاویر حذف کی جاسکیں جو انہیں مجرم قرار دے سکتی تھیں۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ہمیں مذہبی نعرے لگانے پر مجبور کیا اور دھمکی دی کہ اگر ہم دوبارہ انہیں نظر آئے تو وہ ہمیں جان سے ماردیں گے۔
اس کے بعد ہم ابتدائی طبی امداد کے لیے ہاسپٹل گئے اور واپس دفتر آگئے۔ جب ہم واپس ہو رہے تھے میں حیران تھا کہ دلی کیسے ’’نیشنل شیم‘‘ بن گئی۔ تب میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ دلی اب ویسی نہیں رہی جیسی 2011میں تھی جب میں پہلی بار دلی آیا تھا۔
(سوربھ شکلا این ڈی ٹی وی کے سینئر کرسپانڈنٹ ہیں)
’’شکل سے تو ہندونہیں لگتی ‘‘
’’ ساتھی صحافی کی حاضر دماغی نے مجھے جنونی اشرار سے بچا لیا‘‘
دی پرنٹ سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی اپنی بپتا سناتے ہوئے کہتی ہیں پچھلے چار دنوں کے دوران ہر چہرے نے مجھے نفرت سے گھورا، ہجوم کی شکل میں میرا پیچھا کیا۔ میری ظاہری شناخت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے مجھے دھمکیاں دینے لگے۔ فاطمہ خان بتاتی ہیں کہ وہ ۲۴ فروری کو اپنی ساتھی صحافی اُرجیتا بھردواج کے ساتھ مشرقی دہلی کے جعفرآباد، موج پور پہنچیں جہاں پر ہم نے پر امن احتجاجی مظاہرین پر موافق سی اے اے حامی گروپ کو اچانک جارح ہوتا ہوا دیکھا۔ اس کے ساتھ ہی غنڈوں نے ایک خاص فرقے کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی جس کی بناٗ پر ماحول میں تناو بڑھنے لگا۔ اسی دوران کچھ لوگ ہمارے قریب آئے اور ہمارا نام پوچھنے لگے، میری ساتھی نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے میرا نا تبدیل کر دیا اور اس نے انہیں ہندو شناخت والا نام بتایا۔ جس پر وہ شک کا اظہار کرنے لگے میرے دوسرے صحافی دوست مجھے بتانے لگے کہ وہ تمہارے ظاہری حلیہ اور نام کی عدم مماثلت سے مطمئن نظر نہیں آرہے تھے۔ میرے چہرے کی طرف دیکھ کر کہنے لگے شکل سے ہندو نہیں لگتی۔۔ اور مجھے اپنا صحیح نام ظاہر کرنے کے لیے دھمکاتے رہے۔ شکر ہے اس وقت کسی طرح میری جان بچ گئی۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ کچھ دنوں پہلے وزیر اعظم نریندر مودی لوگوں کو کپپڑوں سے پہنچاننے کا مشورہ دیتے نظر آئے تھے۔ شاید وہ مجھ پر یہی مشورہ آزما رہے تھے ۔(بشکریہ دی پرنٹ)