شہر جل رہا تھا اور کوئی تماشا دیکھ رہاتھا

(دعوت نیوز ڈیسک)

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف خود ذلیل وخوار ہوتے گئے بلکہ ان کی وجہ سے امریکہ بھی شرمسار ہوا۔ امریکی جمہوری تاریخ کو انہوں نے ایک بدنما داغ دیا۔ پوری دنیا اس وقت حیران وششدر نظر آئی جب گزشتہ دنوں واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں متشدد حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا ۔ کیپٹل ہل پر اس وقت دھاوا بولا گیا جب وہاں کانگریس کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس جاری تھا. جس کا مقصد جو بائیڈن کی صدارتی انتخاب میں فتح کی باقاعدہ تصدیق کرنا تھا۔ اسی دوران ٹویٹر، فیس بُک اور انسٹاگرام نے ضابطہ شکنی کے الزام میں ٹرمپ کے اکاؤنٹ کو عارضی طور پر معطل کر دیا۔ ٹویٹر نے 12 گھنٹے کے لیے جبکہ فیس بُک اور انسٹاگرام نے 24 گھنٹے کے لیے ٹرمپ کے اکاؤنٹ کو بند کردیا وہیں یوٹیوب نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پر مبنی ویڈیوز کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا تھا جبکہ بعد میں ٹویٹر نے ہمیشہ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے انکاؤنٹ پر پابندی لگا دی۔ جس کے بعد ٹویٹر پر کئی ٹرینڈ گردش کرنے لگے
TrumpTwitterBan#
TrumpConceded#
TrumpBanned#
TrumpOffTwitter#
ایک امریکی فلسفی جیسن اسٹینلے اپنے ٹیوٹر ہینڈل پر تشدد کا کچھ یوں نقشہ کھینچتے ہیں۔
‘‘میڈیا کے الفاظ نہیں تھے، پولیس اہلکار نااہل نہیں تھے بلکہ وہ جرم میں شریک تھے۔ وہ اس انداز میں دوستانہ تھے کہ میں نے ایسا منظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ صدر کسی کو تشدد سے باز رہنے کی اپیل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ صدر تو الٹا آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہے تھے۔‘‘ واقعی ٹرمپ اور ان کے اہل خانہ کا ایک ویڈی وائرل ہوا جس میں کنٹرول روم سے تشدد کا جائزہ لیا جا رہا تھا اور وہاں ڈونلڈ ٹرمپ سمیت اکثر افراد خوش نظر آرہے تھے۔ اسی ویڈیو کو سپریم کورٹ کے مشہور وکیل پرشانت بھوشن نے بھی اپنے ٹویٹر ہینڈل پر شیئر کیا اور لکھا کہ ’’اپنے غنڈوں کو کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے کے لیے اکسانے کے بعد ٹرمپ اور ان کا بیٹا اپنے کنٹرول روم سے افراتفری کے مناظر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں! یاد کریں! مودی کا دوست ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘!۔۔‘‘
ٹویٹر پر ٹرمپ مواصلات کے سابقہ ڈائریکٹر ایلیسہ فرح لکھتی ہیں ’’پیارے میگا
(Make America Great Again) میں آپ ہی میں سے ایک ہوں، میں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کام کیا ہے، ٹی پارٹی ریلیوں میں مَیں نے مارچ کیا ہے، ٹرمپ کے لیے تشہیری مہم میں حصہ لیا ہے اور ووٹ بھی انہی کو دیا ہے اس لیے آپ کو میری بات سننے کی ضرورت ہے۔ الیکشن میں چوری نہیں ہوئی ہے بلکہ ہم شکست کھا چکے ہیں‘‘
انسانی حقوق کی وکیل derecka لکھتی ہیں ’’بائیڈن: یہ امریکہ نہیں ہےراوی: یہ امریکہ ہوا کرتا تھا‘‘
فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے سینئر امریکی سینیٹر مارکو روبیو(Marco Rubio): ’’کیپیٹل ہل پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں محب وطن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ تیسری عالمی طرز کی امریکہ مخالف انتشار ہے۔‘‘
دی کاروان اور منٹ کے معاون ایڈیٹر سلیل ترپاٹھی مارکو روبیو کے ٹویٹ کو ٹیگ کرکے لکھتے ہیں ’’آپ نے ایسے شخص کو صدر بنا دیا جس نے اپنے آپ کو وفاداروں اور کنبہ کے ساتھ گھیر لیا اور آئین کی توہین کی، جیسے ’تیسری دنیا کے قائدین کرتے ہیں۔ اور آپ حیران ہیں؟‘‘
افریقی ملک صومالی نژاد خاتون سیاست داں الہان عمر نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ میں مواخذے کی شقیں تیار کر رہی ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایوان نمائندگان کے ذریعہ مواخذہ کیا جانا چاہئے اور انہیں امریکی سینیٹ کے ذریعہ عہدے سے برطرف کر دینا چاہیے۔ ہم انہیں اپنے عہدے پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں ،یہ ہماری جمہوریت کے تحفظ کی بات ہے اور ہمیں اپنے حلف کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
بھارت میں تو ٹرمپ کی جیت کے لیے سنگھی شروع سے ہی ہون (دعاؤں) کا اہتمام کر رہے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکت سے انہیں مایوسی ہوئی ہے اسی لیے ٹویٹر پر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں بھی سنگھی ٹولوں نے ٹرینڈس عام کیے۔ وہیں بی جے پی آئی ٹی سیل کے ہیڈ امت مالویہ اور بی جے پی رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹر اکاؤنٹ کو بلاک کیے جانے پر کافی برہم ہوئے۔ کیپٹل ہل پر تشدد کے وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں کچھ بھارتی نوجوان بھی دیکھے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے آفشیل ٹویٹر ہینڈل سے ٹویٹ کر کے تشدد کے دوران بھارتی پرچم کے نظر آنے پر سخت مذمت کی گئی۔ سی پی آئی کے ٹویٹر ہینڈل پر لکھا گیا کہ ’’شرمناک ہے کہ امریکی پارلیمنٹ پر انتہا پسند ٹرمپ کے دائیں بازو کے حملے میں بھارتی پرچم نظر آتا ہے۔ ہاوڑی موڈی کے حامی خاموش کیوں ہیں؟ کیا یہی نمستے ٹرمپ کو نافذ کرنے کا ان کا طریقہ ہے؟ ان این آر آئیز کو شرم آنی چاہیے جو اس طرح کے اشتعال انگیز کام کی حمایت کرنے کے لیے ہندوستانی پرچم تھامنے کی جرأت کرتے ہیں۔‘‘
یہ الگ بات ہے کہ جب کیپٹل ہل میں تشدد برپا تھا ڈونلڈ ٹرمپ نے ویڈیو جاری کر کے امن کی اپیل کی اور اپنے شکست کو بھی تسلیم کیا لیکن بیس جنوری کو ہونے والی حلف برداری تقریب میں جانے سے انکار کیا۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021