شمال کا حال
دعوت نیوز ڈیسک
بہترطبی سہولتوں کا فقدان
بہارکے جہاں آباد میں ماں کی گوداجڑگئی
ماں کی ممتا بلک رہی تھی، بد حواس سڑکوں پر بھٹک رہی تھی، اس کی تڑپ ایسی کہ دل چھلنی کردے، وہ ماں تھی جو اپنے مردہ بچے کو اس آس میں لیے دوڑی چلی جارہی تھی کہ شاید کوئی کرشمہ ہو اور اس مردہ جان میں کوئی روح پھونک دی جائے۔ ماں کی لازوال محبت پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی لیکن "موت سے کس کو رستگاری ہے” اب چاہے ماں کی ممتا کا خون ہو یا باپ کی شفقت دم توڑ دے، ظالم دنیا کو بھی اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ حکومتیں آتی ہیں جاتی ہیں مگر عام لوگوں کا بھلا ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی
بہار کی حالتِ زار سے کون ناواقف ہے، نہ وہاں روزگار ہے نہ بہتر طبی نظام اور کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری سے لڑنے کی طاقت تو قطعی نہیں ہے، بہار تو چھوڑیے پورے ملک میں کورونا وائرس کا ایسا خوف بیٹھ گیا ہے کہ معمولی بیماری کے لیے بھی کوئی اگر ہسپتال کا رخ کرے تو ڈاکٹر مریض کو لینے سے ہی انکار کر دیتا ہے، اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ملک میں اعلیٰ درجے کے طبی آلات موجود نہیں ہیں۔ ملک میں کورونا وائرس سے پہلی موت کرناٹک کے گلبرگہ میں ہوئی، مہلوک کے اہل خانہ آج بھی طبی نظام کے شاکی ہیں، بہار کے جہاں آباد کا واقعہ بھی طبی نظام پر ماتم کناں ہے۔ ارول ضلع کے کرتھا تھانہ علاقے میں واقع لاری ساہو پور گاوں میں ایک بچے کی طبیعت خراب ہوئی، جس کے بعد افراد خانہ نے ارول میں ہی ایک اسپتال میں بچے کو داخل کرایا جہاں ڈاکٹروں نے بہتر علاج کے لیے جہاں آباد ریفر کر دیا، بچے کے ماں باپ کسی طرح آٹو رکشا کرکے جہاں آباد پہنچے اور صدر اسپتال میں ایڈمیٹ کیا، یہاں بھی ڈاکٹروں نے ہاتھ اٹھا لیے اور پٹنہ ریفر کر دیا، بچے کے ماں باپ گھنٹوں ایمبولینس کے انتظار میں سڑک پر بیٹھے رہتے ہیں ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں، لیکن کوئی فائدہ نہیں، یہاں تو بڑے بڑے شہروں میں وقت پر ایمبولینس نہیں آتا ہے یہ تو بہار کا چھوٹا سا ایک ضلع تھا لہذا 3 سال کے بچے کی موت ہوگئی اور بلکتی سسکتی ماں اپنے بچے کو گود میں لیے پیدل ہی 25 کیلو میٹر دور ارول کے لیے نکل پڑی، تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک سماجی کارکن کو اس بات کی خبر ملی تو اس نے اپنی گاڑی سے ان لوگوں کو ان کے گاوں تک پہنچا دیا۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ جان اور جہان ہندوستان کے لیے ضروری ہے‘‘ لیکن یہاں نہ جان بچتی ہے نہ جہان ہی سلامت رہ پاتا ہے۔
*****
کہیں دانے دانے کو ترستے لوگ تو کہیں برتھ ڈے پارٹیاں
کورونا بھی غریب اور امیر میں منقسم ہوا؟
(دعوت نیوز ڈیسک)
کیا کورونا وائرس بھی غریب اور امیر کے زمرے میں منقسم ہے؟ کیا کورونا کی تباہی غربت وافلاس اور لاچاری و بیچارگی دیکھ کر آتی ہے؟ کیا اس وائرس کی رسائی عالیشان عمارتوں اور لمبے چوڑے بنگلوں تک نہیں ہے؟ یوں تو دیگر چیزوں میں امیر غریب کا لیبل ضرور لگتا ہے، یہاں تک کہ اہل ثروت قانون کو بالائے طاق رکھ کر اپنی من مانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور تمام شرائط وقوانین غریبوں کے لیے مختص ہوتے ہیں، لیکن کورونا وائرس ایک ایسی وبا ہے جس نے اچھے اچھوں کو دھول چٹا دی ہے، نہ جانے کتنے سورماوں کو ان کی اوقات یاد دلا دی ہے، دنیا کا سُپر پاور امریکہ گھٹنے ٹیک چکا ہے، برطانیہ کے وزیراعظم کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں، اور ابھی اس وائرس کا کوئی ٹیکہ ایجاد نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس وائرس کا اثر زندگی کے تمام شعبوں پر پڑا ہے۔ کھیل کے میدان خالی ہیں، سیاحتی مقامات پہ ویرانی چھائی ہوئی ہے، چمن صحرا میں بدل گئے ہیں، دنیا کے تین ارب سے زائد افراد گھروں میں قید ہیں، ہمارا ملک بھی لاک ڈاون کا شکار ہے
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
حالتِ زار پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے لیکن احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کیے جا سکتے ہیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں جہاں لاک ڈاون کو نظرانداز کیا گیا وہاں تباہی زیادہ آئی مگر سوال یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا پابندیاں صرف غریبوں اور مفلسوں کے لیے ہیں؟ جہاں ایک طرف ریوڑی والے پریشان ہیں، یومیہ اُجرت پانے والے مزدور بھکمری کا شکار ہیں، اب وہ معاشرتی علاحدگی کا خیال رکھیں یا پھر شیلٹر ہوم میں کھانے کے لیے بھیڑ لگائیں مگر دوسری طرف سپر مارکیٹس میں آسانی کے ساتھ سامان مہیا ہیں، سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ قطار میں کھڑے ہوکر باآسانی اشیائے خوردنی حاصل کیے جاسکتے ہیں، جو روزگار سے جڑے ہیں وہ گھروں میں رہنے کی ترجیح دے رہے ہیں، اے سی روم میں بیٹھ کر سوشل ڈسٹنسنگ پر لیکچر دے رہے ہیں، چلیے تھوڑی دیر کے لیے ان سب چیزوں کو درست قرار دیا جاسکتا ہے، ہر شخص اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کورونا وائرس کے خلاف جنگی پیمانے پر میدان میں کود پڑا ہے لیکن ان امیر زادوں میں بھی کچھ لاپروا قسم کے لوگ موجود ہیں جنہوں نے لاک ڈاون کا مذاق اڑایا ہے۔
حال ہی میں کرناٹک کے ٹمکور ضلع میں بی جے پی ایم ایل اے، ایم جئے رام نے اپنے حامیوں کے ساتھ سالگرہ منائی جس میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے، ایک رپورٹ کے مطابق، کرناٹک کے ترویکیرے سے ایم ایل اے ایم جئے رام نے جمعہ، ١٠ اپریل کو بنگلور سے 90 کیلو میٹر دور گبی گاوں میں اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ اپنی سالگرہ منائی۔ لاک ڈاون کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ اس میں شامل ہوئے، اس دوران رکن اسمبلی نے لوگوں میں بریانی تقسیم کی۔ مہاراشٹرا کے وزارت داخلہ میں پرنسپل سکریٹری اور ای پی ایس امیتابھ گپتا نے ودھاون خاندان پر اتنے مہربان ہوئے کہ ایمرجنسی پاس بنا کر ایک یا دو نہیں بلکہ پانچ کاروں کے قافلوں کو کھنڈالا سے مہابلیشور جانے کی اجازت دے دی، اجازت نامہ کے منظر عام پر آنے کے بعد کارروائی بھی ہوئی، آئی پی ایس افسر کو فوری اثر کی بنیاد پر معطل بھی کر دیا گیا لیکن سوال جوں کا توں رہا کہ کیا انہیں کورونا وائرس سے ڈر نہیں تھا یا یہ طے پایا جا چکا ہے کہ مدارس اور تبلیغی جماعتوں سے ہی نکل کر آئے گا۔ اب چھتیس گڑھ کے رائے گڑھ کا واقعہ ہی لے لیجیے کھرسیہ تھانہ علاقے کے رہنے والے سابق ریاستی وزیر کے چچیرے بھائی اپنے ڈرائیور کے ساتھ روزانہ ایوننگ واک پر معمول کے مطابق نکلتے رہے، پولیس کی بارہا وارننگ کے بعد بھی وہ باز نہیں آئے۔ ان تینوں مثالوں میں بس دیکھنے کا نظریہ بدل جاتا ہے، یہی کام اگر غریب کرے تو وہ لاک ڈاون کی خلاف ورزی ہے، سرعام ان کی پٹائی ہوگی، کمانے کے سارے سازو سامان برباد کر دیے جائیں گے، اپنے ہی لوگوں کے سامنے انہیں بے عزت کیا جائے گا لیکن امیر کرے تو اس کے پاس اجازت نامہ ہے، قانون کی دھجیاں اڑانے کا پروانہ ہے اور نظم ونسق کو منہ چڑانے کا گویا انہیں حق حاصل ہے لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کورونا وائرس نہ مذہب دیکھتا ہے نہ اعلیٰ شخصیتوں کو پہچانتا ہے اسے تو بس لاپروا انسانوں کو دبوچنا معلوم ہے۔
****
جعلی خبروں کی تباہ کاریاں!
میڈیا کی زہر افشانی کے سبب نفرت کا بازار گرم
ذیشان آزاد
عام طور پر جعلی خبریں اور فیک نیوز پھیلانے میں تین عناصر کار فرما ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر زمین میں فساد پھیلانے والے اور نفرت وعداوت کو ہوا دینے والے مال غنیمت کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جھوٹی خبروں میں وہ تین اجزاء خوف، حیرانی اور نفرت ہیں جبکہ سچی خبر میں عمومی طور پر افسردگی، خوشی، پیش گوئی اور اعتماد کے پہلو ہوتے ہیں۔ لیکن سچی خبر کے پہلو اکثر وبیشتر سطحی محسوس ہوتے ہیں اور پُرکشش نہیں لگتے، لہٰذا لوگوں کی زیادہ دلچسپی بھی ان میں نہیں ہوتی اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی خبریں، فرضی باتیں اور بےبنیاد اطلاعات پھیلائی جاتی ہیں۔ لیکن موجودہ حالات انتہائی تشویشناک ہیں، سوشیل میڈیا کی نیوز فیڈز اور ٹوئٹر نے روایتی میڈیا کے طرزِ معیار میں بھونچال اور عوام کی ترجیحات میں انقلاب برپا کردیا ہے، اب صرف فرضی خبریں سوشیل میڈیا تک محدود نہیں رہیں بلکہ مین اسٹریم میڈیا تک ان کی رسائی ہو چکی ہے خاص طور پر دہلی کے حضرت نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے اجتماع نے میڈیا کو انتہائی زہریلا بنا دیا ہے۔ 21 دنوں کے لاک ڈاون کے بعد تبلیغی جماعت کا اجتماع کیا مل گیا گویا میڈیا کو نفرت کا زہر پھیلانے کا بہت بڑا ہتھیار ہاتھ لگ گیا، میڈیا نے ٹرائل میں مرکز کو کورونا وائرس کا ہاٹ اسپاٹ مان لیا گیا، عجیب وغریب خبریں چلائی جانے لگیں، تبلیغی جماعت کے افراد پر اخلاق سوزی کا الزام لگایا جانے لگا، کبھی ڈاکٹروں کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آنے کا واقعہ ان پر مڑھا جانے لگا، تو کبھی نرسوں کے ساتھ قابلِ اعتراض اشارے کیے جانے کے الزام لگنے لگے تو کبھی انہیں گوشت اور بریانی کا مطالبہ کیے جانے والے پیٹو کہا جانے لگا حالانکہ یہ تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوئے، Altنیوز، دی کیونٹ جیسے ویب پورٹل نے ان پر سے پردہ اٹھایا اور حقیقت کو واشگاف کیا۔
میڈیا کے نزدیک تبلیغی جماعت کے افراد کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہو گئے تھے بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ تبلیغی جماعت کے بہانے عام مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا اور اس زہر آلود میڈیا کا ساتھ ریاستی حکومتیں بھی دینے لگیں، اپنے اپنے میڈیکل بلیٹن میں کورونا پازیٹو کیسوں کی تعداد کو بتانے میں تبلیغی جماعت کے افراد کو بھی شامل کرنے لگیں ان میں دہلی کی کیجریوال حکومت پیش پیش تھی، یہ وہی کیجریوال حکومت ہے جو شمال مشرقی دہلی تشدد سے نمٹنے میں نکمی ثابت ہوئی تھی لیکن تبلیغی جماعت کے معاملے میں اس سے زیادہ متحرک کوئی حکومت سامنے نہیں آئی۔میڈیا ٹرائل اتنا خطرناک تھا کہ جس کا اثر پورے ملک میں ہوا، اب مسلمان شک کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے حالانکہ پہلے بھی مسلمانوں کو بہت اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا لیکن میڈیا کی نفرت انگیزی اور سوشیل میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے افواہوں کی بنیاد پر مسلمان چور اچکوں سے بھی بدتر نظر آنے لگے، ملک کے شہر، گاؤں، چوراہوں، گلیوں اور سڑکوں پر مسلمانوں کو بے عزت کیا جانے لگا اب جنگ کورونا وائرس کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف لڑی جانے لگی، سبزی فروشوں کو اپنی کالونیوں سے بھگایا جانے لگا، مسلمانوں کی دوکانوں پر تالا لگایا جانے لگا یعنی یہ تسلیم کر لیا گیا کہ کورونا جہاد جاری ہے وہیں یہ بھی مانا گیا کہ مسلمان کورونا بم لے کر گھوم رہے ہیں اور کیوں نہ ہو سوشیل میڈیا پر پرانے اور دوسرے ملک کے ویڈیو شیئر کیے جا رہے ہیں اور اس کا تعلق تبلیغی جماعت سے بتایا جارہا ہے۔اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے ملک میں جھوٹ کو عام کیا جارہا ہے، رائی کو پہاڑ اور پہاڑ کو رائی بنایا جارہا ہے، ریاستی اور مرکزی حکومت کی نااہلی، مین اسٹریم میڈیا کی زہر افشانی اور سوشیل میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے افواہوں کی بنیاد پر مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے، پہ در پہ ایسے ہولناک اور دردناک واقعات رونما ہونے لگے جس سے انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔ درج ذیل کچھ واقعات کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
دلی کے بوانا میں 22 سالہ محبوب علی کو کورونا وائرس پھیلانے کے الزام میں ہجوم نے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا، معاملے میں پولیس نے مقدمہ درج کیا اور تین لوگوں کو گرفتار کیا۔
بنگلورو کے دسراہالی میں یوگیندر یادو کے ساتھ کام کرنے والی سماجی کارکن زرین تاج کے ساتھ عجیب وغریب اور دردناک واقعہ پیش آیا، اہلخانہ کے ساتھ ضروری اشیا تقسیم کر رہی تھیں کہ اسی دوران نامعلوم افراد نے ان پر حملہ کردیا جس میں 5 اشخاص زخمی ہوگئے۔ زرین نے اس حملے کا الزام آر ایس ایس پر لگایا ہے، گجرات میں مسلمانوں کے خلاف جعلی خبریں پھیلاتے ہوئے 7 افراد کو گرفتار کیا گیا، تبلیغی جماعت کے تعلق سے یہ بات پھیلائی جا رہی تھی کہ وہ کورونا جہاد کر رہے ہیں، گجرات پولیس نے اس طرح کی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف ایڈوائزری جاری کی ہے۔
اروناچل پردیش میں ضروری اشیاء لے جاتے ہوئے مسلم ٹرک ڈرائیوروں کو پیٹا گیا، نتیجتاً انہیں اپنے ٹرکس چھوڑ کر آسام بھاگنا پڑا۔
جھارکھنڈ کے گملہ میں انسانیت سوز واقعہ پیش آیا، ایک آدیواسی نوجوان کورونا وائرس کو تھوک پھینک کر پھیلانے کے الزام میں ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کر دیا گیا جبکہ دو افراد زخمی ہوئے، یہ واقعہ جعلی نیوز کے ذریعے پھیلائے گئے افواہوں کی وجہ سے ہوا۔
شمال مغربی دلی میں ایک مسلم سبزی فروش کی دکان کو جبراً بند کرایا گیا جبکہ دیگر سبزی فروشوں سے آدھار کارڈ کا مطالبہ کیا گیا۔
کرناٹک میں منگلورو کے کرشنا نگر کے قریب ایک گاؤں میں نوٹس لگا گیا کہ ہمارے علاقے میں کسی بھی مسلم ریڑی والوں کے داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
کرناٹک کے باگل کوٹ میں ایک مسلم شخص کو کورونا وائرس کے پھیلانے کے نام پر کچھ لوگوں نے زدوکوب کیا وہیں کرناٹک کے بیلگاوی میں دو مسجدوں پر اس وجہ سے حملہ ہوا کیونکہ پانچ اپریل کی نو بجے شب کو دونوں مساجد روشن تھیں۔
کرناٹک کے باگل کوٹ کے ایک گاوں میں کچھ مسلم افراد کو تبلیغی جماعت سے منسلک ہونے کی وجہ سے پٹائی کی گئی۔
ہماچل پردیش کے اونا ضلع کے ایک گاوں میں دلشاد محمد نے صرف اس وجہ سے خودکشی کرلی کیوںکہ اس کے گاوں والے الزام لگا رہے تھے کہ یہ شخص کورونا وائرس کو معاشرے میں پھیلا رہا ہے۔ ہریانہ کے جند میں ایک مسلم خاندان کو اس وجہ سے ظلم وستم کا شکار بنایا گیا کیونکہ انہوں نے پی ایم مودی کی اپیل پر 5 اپریل کو دیے نہیں جلائے تھے۔
پنجاب کے ہوشیار پور کا واقعہ تو حیوانیت و بہیمیت پر مبنی ہے جہاں سے 80 افراد پر مشتمل ایک خاندان کو کوچ کرنے پر مجبور کیا گیا اور کھلے آسمان کے نیچے بھوکے پیاسے دریا کے کنارے پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا، ان پر بھی تبلیغی جماعت سے جڑے ہونے کا الزام تھا۔
ہریانہ کے گڑگاؤں میں ایک خاندان پر اس وجہ سے حملہ کیا گیا کیونکہ انہوں نے پانچ اپریل کو اپنے گھر کے چراغوں کو گل نہیں کیا تھا۔
راجستھان کے بھرت پور ضلعی ہسپتال نے ایک حاملہ عورت لینے سے انکار کر دیا جس کے بعد اس نے ایمبولینس میں بچے کو جنم دیا اور تھوڑی دیر میں بچے کا انتقال ہوگا، اسپتال انتظامیہ پر الزام ہے کہ اس نے خاتون کے شوہر کو تبلیغی جماعت کا کارکن سمجھتے ہوئے اسے ہاسپٹل میں شریک کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ تو حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے تئیں تعصب وتنگ نظری پہلے سے تھی لیکن تبلیغی جماعت کے بہانے اس میں مزید شدت لائی گئی کیوں کہ ہندوستان کا مسلمان کورونا وائرس کے تعلق سے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہا تھا اور لاک ڈاون کو کامیاب بنانے کی پوری کوشش کر رہا تھا، کم از کم ہندوستان میں دس لاکھ سے زائد مساجد ہیں جو لاک ڈاون کی وجہ سے مقفل ہیں۔ علماء نے پہلے ہی سے گھروں میں نمازیں ادا کرنے کی اپیل کر دی تھی۔ اکثر مساجد میں لاک ڈاون کا پہلا جمعہ ادا نہیں کیا گیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کے فرزندان توحید نے جمعہ کی نماز مسجد میں ادا کرنے کے بجائے گھر میں نماز ظہر ادا کی ہے لیکن تبلیغی جماعت کے واقعے کو سامنے رکھ کر تمام مسلمانوں کو بد نام کرنے کی کوشش کی گئی۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
***