شمال مشرق سرحدی تنازعہ: امن و سلامتی کو خطرہ !

نارتھ ایسٹرن کونسل سے لیکر نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس تک کا سفر ناکام ثابت ہوا

 

بھارت کے شمال مشرق میں سرحدی تنازعہ کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ ماضی میں نسلی تشدد سے لے کر، دہشت گردی اور بغاوت کے واقعات کافی دیکھنے کو ملے ہیں۔ لیکن شمال مشرق میں سرحدی تنازعہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سرحد کے تعلق سے دستوری اور تاریخی اعتبار سے ہر ریاست کی اپنی الگ الگ سمجھ کی وجہ سے یہ مسائل اب تک حل نہیں ہو پائے ہیں جس کی ایک تازہ مثال سترہ اکتوبر کو دیکھنے کو ملی جب آسام کے سرحدی حدود میں کچھار ضلع کے لیلہ پور علاقے میں میزورم انتظامیہ کی جانب سے ایک کووڈ جانچ مرکز قائم کیا گیا جہاں آسام پولیس کی موجودگی میں آسام کے مقامی افراد نے توڑ پھوڑ کی اور حفاظتی دستوں کے دھکا مکی کا واقعہ بھی پیش آیا۔ اسی پیچ میزورم اور آسام کے مقامی لوگوں کے بیچ جھڑپ ہوئی اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔ دونوں ریاستوں کا سرحدی تنازعہ 1972 سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت تک میزورم، آسام کا حصہ تھا لیکن بعد میں اسے مرکز کے زیر اقتدار علاقہ قرار دے دیا گیا اور 1987 میں اسے باقائدہ ریاست کا درجہ ملا۔ جنوبی آسام کے تین اضلاع کچھار، ہیلا کانڈی اور کریم گنج کے قریب ایک سو پینسٹھ کلومیٹر کے سرحدی علاقے میزورم کی سرحد سے ملتے ہیں۔ لیکن متفقہ طور پر حدود بندی نہیں ہونے کی وجہ سے آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو پایا ہے۔
آسام کا سرحدی تنازعہ صرف میزورم کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ناگالینڈ، میگھالیہ اور اروناچل پردیش کے ساتھ بھی ہے۔ یہ ریاستیں پہلے آسام کا حصہ ہوا کرتی تھیں لیکن بعد میں انہیں الگ ریاست کا درجہ مل گیا۔ قبائلی اور علاقائی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے ریاستوں کا وجود عمل میں آیا تو ضرور لیکن غیر واضح سرحد بندی کی وجہ سے آپسی تنازعہ آج بھی برقرار ہے۔
آسام اور میزورم کے درمیان حالیہ تنازعہ سے پہلے بھی دوسری ریاستوں کے ساتھ جھڑپ کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ 2014 میں آسام اور ناگالینڈ کے لوگوں کے درمیان بھی جھڑپ کے واقعات پیش آئے تھے۔ آسام کے ضلع گولا گھاٹ میں جھڑپ کے نتیجے میں گیارہ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور ہزاروں لوگ اپنا گھر چھوڑ کر محفوظ جگہ پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ میگھالیہ اور آسام کے درمیان بھی سرحدی تنازعہ جوں کا توں برقرار ہے اور میگھالیہ کا شروع سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ’’بارڈر کمیشن‘‘ کی تشکیل ہو تاکہ سرحدی مسائل حل کیے جا سکیں۔
ایسا نہیں ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں کے درمیان سرحدی تنازعہ کو کم کرنے کے لیے کوششیں نہیں کی گئیں۔ ان ریاستوں کے درمیان بہتر تال میل، تعاون اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے پارلیمنٹ میں قانون پاس کرکے 1971 میں نارتھ ایسٹرن کونسل (این ای سی) کی تشکیل ہوئی اور کچھ سالوں قبل جب بی جے پی آسام میں اقتدار میں آئی تو شمال مشرق کی مقامی پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی پہل کے طور پر نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس (این ای ڈی اے) کا وجود سامنے آیا۔ لیکن آسام۔میزورم سرحد پر حالیہ جھڑپ سے عملاً یہ بات ثابت ہوتی ہے اب تک کی تمام سیاسی کاوشیں بے سود رہی ہیں۔ اس لیے شمال مشرق میں سرحدی تنازعہ کے مستقل حل کے لیے سیاسی جماعتوں کو جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔بہرحال آسام۔میزورم کا سرحدی مسئلہ ہو یا پھر آسام۔میگھالیہ یا آسام ناگالینڈ کا، بھارت کی حکومت کو شمال مشرقی سرحدی مسائل کو جلد سے جلد حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان علاقوں کی سرحدیں پڑوسی ممالک نیپال، میانمار، بھوٹان، بنگلہ دیش اور چین سے ملتی ہیں۔ اگر یہاں امن قائم نہیں ہوا تو پڑوسیوں کو ہمارے ملک میں بدامنی اور شورش پھیلانے کا موقع مل جائے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020