شاید اسی جلنے میں جینے کا مزہ ہوگا
فواز جاوید خان
حفیظ بنارسیؔ نے ایک شعر میں وہ کچھ سمجھا دیا جو شاید وعظ و نصیحت کے دفتر نہ سمجھا سکیں۔ زندگی کا مقصد، زندگانی کی حقیقت، شعر یوں ہے:
کچھ سوچ کے شمع پر پروانہ جلا ہوگا
شاید اسی جلنے میں جینے کا مزہ ہوگا
سامنے میز پر ایک کتاب رکھی ہے۔ ’زنداں کے شب و روز‘۔ زینب الغزالی۔ آزادی کی راہ کا ایک پر شوق مسافر۔ راہ عزیمت کا ایک اور جاں باز۔ اس نے بھی غلامی کو ٹھکرا دیا تھا۔ حکومت کے ایوان میں ہنگامہ مچ گیا۔ مردہ لاشوں کے درمیان ایک زندہ روح کیسے بھٹک رہی ہے۔ فرمان جاری ہوا۔ اسے قید کر دو۔ بھوکا پیاسا رکھو۔ نہ مانے تو تازیانے مارو۔ پھر بھی نہ مانے تو کئی کئی دن الٹا لٹکا کر چھوڑ دو۔ یہ ہے کون؟ کس قدر سخت جاں ہے؟ کیا اسے اپنی جان کی بالکل پرواہ نہیں۔ سزائیں دینے والے تھک گئے۔ تازیانے مارنے والے ہاتھ شل پڑ گئے۔ پتھروں کے کلیجے کانپ گئے۔ وہ ایک عورت۔ ایک تنہا نازک عورت۔ مقابلہ میں ڈٹی رہی۔ ایک بارجو’ لا الہ‘کہہ دیا تو پھر مجال ہے خدائے واحد کے سوا کسی اور کے سامنے سر جھکا دے۔
ایک ’عورت‘ کی یہ ہمت۔ ذرا پتا تو کرو۔ ہاں!اس سلسلہ کی ایک کڑی اور ہاتھ لگی۔ ارے! یہ اس کی بیٹی ہے۔ سمیہ۔ سمیہ بنت خیاطؓ لونڈی تھی۔ ’ابن مغیرہ‘ جیسے درندے کی لونڈی۔ اسلام کا اعلان کرنے میں پیش پیش۔ معلوم تھا۔ غلاموں کی بستی ہے۔ آزادی کی آواز برداشت نہیں کی جاتی۔ آزادی کے متوالوں کو عوض میں جان دینی پڑتی ہے۔ آزاد صفت پنچھیوں کے پر کتر دیے جاتے ہیں۔ شوق نے کہا سب منظور! وصال کی خواہش میں بے خود۔ آخر غلامی کا بندھن توڑنے کی خواہش میں جان ہار دی۔ ’ظالم‘ نے تاک کر نیزہ مارا تھا۔ جسم کو روز روز کی تکلیف سے نجات مل گئی۔ روح کا کیا۔ اسے توجسم نے قید کررکھا تھا۔ آزادی ملتے ہی وہ اپنے رب کی طرف لوٹ گئی۔ رب کریم کی طرف سے اعلان ہوا۔ ’ ’اے نفس مطمئنہ! شامل ہو جا میرے محبوب بندوں۔ اے نفس مطمئنہ! داخل ہو جا میری جنت میں ‘‘۔
غلامی حکومتوں کی ہو، مذہبی شخصیات کی ہو، رسم و رواج کی ہو یا نفس کی ہی کیوں نہ ہو۔ غلامی اپنے ساتھ ذلت و خواری لے کر آتی ہے۔ جس نے’ لا ‘اور ’ الا‘ کے ساتھ اس بات کا حتمی اعلان کر دیا ہو کہ وہ غلامی کی کوئی زنجیر برداشت نہیں کرے گا۔ اسے چاہے قید کر دیا جائے۔ بھوکا پیاسا رکھا جائے۔ تازیانوں سے کھال نوچ لی جائے۔ بدن پر سگریٹ بجھائی جائے۔ جلتے ہوئے انگاروں پرگھسیٹا جائے۔ لوہے کی کنگھیوں سے گوشت نوچ لیا جائے۔ گولیوں سے بھون دیا جائے یا توپ سے باندھ کر اڑا دیا جائے۔ ( یہ تصوراتی باتیں نہیں ہیں۔ تاریخ ’انسانی ‘ گواہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک طریقہ سے آزادی کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا چکی ہے۔ ) وہ کبھی غلامی کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالے گا۔
راوی بیا ن کرتا ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے۔ مصر میں۔ کچھ دیوانے تھا۔ موسیؑ کے جاں نشین۔ فرعون وقت کو خطرہ محسوس ہوا۔ انصاف کے’ سوداگروں ‘ کے ہاتھ جنبش میں آئے۔ فیصلہ صادر ہوا۔ اہلِ خرد کی بستی میں اہلِ جنوں کا گزر کہاں؟ پھانسی کے پھندے نصب کر دیے گئے۔ بے رحم جلاد حرکت میں آئے۔ سید قطب شہیدؒ نے اپنی اور ساتھیوں کی ترجمانی کی۔ ’’مجھے اپنے کیے پر کوئی افسوس ہے نہ عدالت کے اس فیصلے پر کوئی رنج۔ میں اپنی تحریک کی راہ میں کام آجاؤں، میرے لیے اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی؟ مستقبل کی عدالت جلد ہی فیصلہ کر دے گی کہ حق پر کون تھا ‘‘۔ ایک—دو—تین۔ سید قطب شہیدؒ، محمد یوسف ہواشؒ اور شیخ عبدالفتاح اسماعیلؒ جان کانذرانہ بارگاہ ایزدی میں پیش کر چکے تھے۔ فرشتوں کی صفیں ادب سے ہاتھ باندھے استقبال میں کھڑی ہیں۔ رب رحیم کا فرمان۔ ’’سلامتی کے ساتھ، اطمینان سے داخل ہو جاؤ ‘‘۔
سید قطب شہیدؒ ایک جانا پہچانا نام۔ ’فی ظلال القرآن‘۔ ’اسلام میں عدل اجتماعی ‘۔ ’اسلام کا روشن مستقبل‘۔ ’نقوش راہ ‘۔ اس مرد حر کے سامنے دو راستے تھے۔ مصر ی حکومت میں وزارت تعلیم کا عہدہ۔ غلامی کی زندگی—یا—عزت کی موت۔ آزادی۔ راہ شوق کا مسافر روح کی آزادی کے سواچاہتا ہی کیا ہے۔ یہاں پہنچ کر راوی ایک لمحہ کے لیے ٹھہرجاتا ہے۔ اس کا وجود کانپ اٹھتا ہے۔ خیالات کو پرے جھٹک کر۔ ہمت کرتا ہے۔ دوبارہ قلم اٹھاتا ہے۔ سید شہیدؒ کے یہ الفاظ نقل کرتا ہے ’’وہ شہادت کی انگلی جس سے میں ہر نماز میں ’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘کی گواہی دیتا ہوں، نا ممکن ہے کہ وہ کوئی ایک سطر بھی ایسی لکھے جس میں ذلت یا پستی کی کوئی بات ہو! اگر حق کا تقاضا یہی تھا کہ میں جیل میں ڈال دیا جاؤں تو میں حق کے فیصلے پر راضی ہوں۔ اگر میری گرفتاری باطل کے اشارے پر تھی تو میں اس سے بہت بلند ہوں کہ باطل سے رحم کی اپیل کروں!‘‘
ہم سب محض ایک گنتی ہیں۔ ایک عدد۔ ہماری حیثیت نمبر شماری کے ایک نمبر سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں۔ ہم نہیں تھے، کاروبار دنیا سلامت۔ ہم ہیں ہنوز کوئی بدلاؤ نہیں۔ ہم نہیں ہوں گے کوئی تبدیلی نہیں۔ ہم سے پہلے جو آئے وہ کون تھے؟ وہ بھی ہم ہی تھے۔ ہم آج سے پہلے بھی ہزاروں بار پیدا ہوئے۔ ہمارے بعد جو آئیں گے؟ وہ بھی ہمیں ہوں گے۔ پہلی عالمی جنگ میں ’ بیس ملین ‘لوگ مارے گئے۔ آخر وہ’ بیس ملین‘ لوگ تھے کون؟وہ آپ تھے، یا شاید—میں تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں پچاس ملین سے زیادہ’انسانوں ‘ کا ناحق خون بہا۔ یورپ نے جب امریکا کو کالونی بنانا چاہا۔ ساٹھ ملین سے زیادہ لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ کورونا وائرس اب تک ایک ملین سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکا ہے۔ کشمیر میں اب تک چالیس ہزار سے زیادہ لوگ گولیوں سے بھونے جا چکے ہوئے ہیں۔ یہ سب کون تھے؟ ہم اور آپ ہی تھے۔ وقت بدلتا رہا۔ جگہیں بدلتی رہیں۔ صورتیں بدلتی رہیں۔ کہنے کو وجوہات بھی بدلتی رہیں۔ مرنے والے ہر جگہ ’انسان‘ ہی رہے۔ اس حادثاتی موت میں ان کا اپنا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ وہ ’بے قصور‘ تھے۔ مار دیے گئے۔
انسان پیدا ہوتا ہے۔ مر جاتا ہے۔ ’مقصد‘ نہیں مرا کرتا۔ ’ مقصد‘ لافانی ہوتا ہے۔ جس نے اپنی زندگی کو کسی’ مقصد‘ سے جوڑ لیا اس نے ابدی زندگی پالی۔ ’لا زوال ادب ‘۔ جس کی تخلیق کے پیچھے کوئی’ مقصد‘ کار فرما ہو۔ قدیم ادب میں جس ’آب حیات‘ کا ذکر ملتا ہے وہ کچھ اور نہیں۔ یہی ’مقصد‘ ہے۔ جس نے’ مقصد وجود‘ کو پا لیا اس نے حیات جاودانی پا لی۔ مرشدی سید مودودیؒ کہا کرتے تھے ’’میں بے مقصد زندگی بسر کرنا نہیں چاہتا، اس لیے توفیق الہی سے جس قدر کوشش خود اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کرتا ہوں، اسی قدر کوشش اپنے مقصد وجود کو بھی برقرار رکھنے کے لیے کروں گا۔ ‘‘ مقصد سے مصالحت کیے بغیر زندگی بسر کر لینا آسان نہیں۔ اس کے لیے عیش و آرام کی زندگی، بلکہ کبھی توخود زندگی کو بھی تج دینا پڑتا ہے۔ یہی انسانیت کی معراج ہے۔ زندگی کے عناصر میں سب سے قیمتی عنصر ’مقصدِ زندگانی‘ ہے۔ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ زندہ اور مردہ کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ بستیاں اور قبرستان ایک مانند ہو جاتے ہیں۔
سید مودودیؒ کو بھی مقصد کی لگن پھانسی کے پھندے تک لے گئی۔ قصہ یوں ہے کہ ’طاغوت‘ نے اپنے خون آشام پنجے نکال لیے۔ حق گوئی کی پاداش میں انصاف کے مندر سے سزائے موت کا اعلان کر دیا گیا۔ سزا کا اعلان ہوتے ہی زمانہ رک سا گیا۔ تاریخ کا مسافر کان لگا کر سننے لگا کہیں مرشد کی زبان سے معافی کے الفاظ تو نہیں نکل رہے۔ کہیں موت کو سامنے دیکھ مقصد سے انحراف کا خیال تو نہیں پنپ رہاکہ عشق کی راہ میں زبان کی ایک لغزش بھی ناقابل معافی ہوتی ہے۔ زمین و آسمان گواہ ہیں کہ مرشد کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی۔ مرشدی کا ایمان یوں گویا ہوا ’’میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا اور اپنا معاملہ خدا کے حوالہ کرتا ہوں۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں، آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی‘‘۔ یہ عزم ہی تھا کہ جس کے سامنے حکومت کو سپر ڈالنی پڑی اور سزا پر عمل در آمد نہیں کیا جا سکا۔ ’’خدایا! ملک کے مالک!تو جسے چاہے حکومت دے۔ جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت بخشے۔ جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘
’زندگی‘ خود جب’ مقصدِ زندگی‘ کے آڑے آنے لگے۔ اہلِ جنوں زندگی کی قربانی دے کر مقصدِ زندگی کی شان بچایا کرتے ہیں۔ ’’میں اس دن ہی مر گیا تھا جس دن اسلام کی’ صحیح تعلیمات‘ کو امریکا میں پھیلانا شروع کیا تھا۔ روزانہ مجھے یہ لگتا ہے کہ کام کرنے کا ایک نیا موقعہ ملا ہے۔ میں اس کا بھر پور استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب تک زندگی رہی میں اپنی مقصد میں لگا رہوں گا۔ ‘‘ بالآخر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ یہی قانون فطرت ہے۔ سنت اللہ اس کا ہی نام ہے۔ پروانہ دیوانہ وار شمع کے گرد’ طوافِ عشق‘ کرتا رہا۔ آخری وقت قریب آیا تو بزم کو روشنی دیتا ہوئے جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ ’میلکم ایکس‘۔ ایک عظیم قائد۔ زندہ رہے، ایک مقصد کی خاطر۔ جاتے جاتے خون دے کر اپنے الفاظ اور عبارتوں کو لا فانی کر گئے۔ اسٹیج پر تھے۔ سامنے سے بیک وقت کئی بندوقوں نے آگ اگلی۔ میلکم ایکس نہ رہے۔
اما م حسن البنا شہیدؒ دوران زندگی ایک جملہ بار بار دہرایا کرتے تھے۔ ’’وہ امت جو جینے کا عزم کر لے، اس کے مٹنے کا کیا سوال؟ اس سے تو موت دور بھاگتی ہے۔ ‘‘ امام شہیدؒ بھی اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں تھے۔ شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ ایک شہید کی شہادت کا پیغام دوسرے شہید کی ہی زبانی سنیے۔ ’’امام حسن البنا شہیدؒ دعوت کی بنیادیں استوار کر کے اپنے رب کے جوار رحمت میں پہنچ گئے۔ وہ چلے گئے مگر اپنی شہادت سے تحریک اسلامی کے جسم میں ایک نئی جان ڈال گئے۔ ان کی شہادت سے دعوت کی بنیادیں اور زیادہ استوار ہو گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام شہیدؒ کے ہزار ہا خطبے اور رسالے بھی اخوان کے دلوں میں ایمان و یقین کی وہ حرارت پیدا نہیں کر سکتے تھے جو ان کے خونِ معصوم کے گرم گرم قطروں نے پیدا کر دی ہے۔ ‘‘سید قطب شہیدؒ آگے فرماتے ہیں۔ ’’ہمارے الفاظ بے جان اور عبارتیں بے روح ہوتی ہیں۔ جیسے موم کی کوئی گڑیا ہو۔ ہم ان کی راہ میں قربان ہو جاتے ہیں تو ان کے اندر زندگی کی حرارت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر وہ لا فانی ہو جاتی ہیں۔ ‘‘
پروانہ کی صفت یہ ہے کہ وہ ’خود شناس‘ ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ آج شوقِ وصال میں جان نہ بھی دے تو حیاتِ جاودانی اس کا نصیب نہیں۔ ہجر کی راتوں سے مصالحت کر بھی لے تو ان راتوں کو دوام نہیں۔ ایک نہ ایک دن۔ ’الیٰ اجل مسمی‘ٰ۔ ایک متعینہ مدت۔ ’وکل شئی عندہ بمقدار‘۔ اس کے بعد۔ موت۔ ہر ذی جان کا مقدر ہے۔ ’ کل نفس ذائقۃ الموت‘۔ انسان کو اس حقیقت کا صرف’ علم‘ ہے۔ پروانہ’ عین الیقین‘ کے مقام پر فائز ہے۔ انسان’ وہن‘ کا شکار۔ پروانہ شوقِ وصال سے بے تاب۔ ایک کی نظر میں زندگی ہی سب کچھ۔ دوسرے کی نظر میں زندگی بے حقیقت۔ میرے حبیب ﷺنے کہا۔ ’’ قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ‘‘ صحابہ کرامؓ بے چین ہو گئے۔ ’’اے اللہ کے رسول! کیا ہم تعداد میں اتنے کم ہو جائیں گے؟‘‘۔ ’’نہیں، بلکہ اس وقت تم بڑی تعداد میں ہوگے۔ یہ تعداد کسی لائق نہیں ہوگی۔ اللہ تعالی دشمنوں کے دلوں سے تمہارا دبدبہ ختم کر دے گا۔ تمہارے دلوں میں ’ وہن‘ ڈال دے گا۔ ‘‘ اے اللہ کے رسول ’’وہن کیا ہے؟‘‘۔ ارشاد فرمایا’’ دنیا سے محبت۔ موت کا ڈر ‘‘۔ انسان’ اشرف المخلوقات‘۔ پروانہ ایک چھوٹی سی مخلوق۔ انسان’ اسفل السافلین‘ تک گرتاچلا گیا۔ پروانہ اپنی حیثیت بچا لے گیا۔ آج پروانہ ہمیں سبق دیتا ہے۔ وہ سبق جو ہم کوسکھایا گیا تھا۔ وہ درس جو ہم کو رٹایا گیاتھا۔ ’شہادت علی الناس ‘ انسانوں کی ذمہ داری تھی۔ آج ایک ننھا ساپروانہ ہمیں ہمارا بھولابسراسبق یاد دلاتا ہے۔ یہ دنیا ’دار الفنا‘ ہے۔ دنیا کی محبت میں ’ مقصد‘ سے غافل نہ ہو جانا۔ ’وہن‘ کا شکار مت ہو جانا۔
عمر مختارؒ ۔ ایک بطل جلیل۔ اللہ تعالی کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی۔ ’ آیت من آیات اللہ سبحانہ‘۔ اٹلی والے جب اس کے گوریلا حملوں سے تنگ آگئے تو ایک واعظِ کج فہم کو اس کے پاس بھیجا کہ شاید سمجھانے بجھانے سے مان جائے۔ نہیں مانے۔ ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی۔ عمر مختارؒ نے ایک مختصر سا جواب دے کر واپس بھیج دیا۔ ’’ ہم کبھی ہار کر غلامی نہیں قبول کرتے۔ اپنے مقصد میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ یا اس مقصد کو اپنے خون سے سیراب کر جاتے ہیں۔ ‘‘ گویا اہلِ نظر کی زندگی پروانہ کی زندگی سے مماثلت رکھتی ہے۔ بلبل کی زندگی تواہلِ خرد کو زیب دیتی ہے۔
عمر مختار شہیدؒکو’ خاموش‘ کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر عدالت سجائی گئی۔ مقدمہ بلکہ ’ڈرامہ‘ رچایا گیا۔ مہذب قوموں کی مہذب عدالت نے اپنا دفاع کرنے کے جرم میں مجرم کو پھانسی کی سزا سنادی۔ شہیدِ راہِ وفا نے اجازت لے کر دو رکعت’ شکرانہ ‘کی نماز ادا کی۔ زبان پر سورہ فجر کی آخری آیات جاری تھیں۔ آنکھوں میں دیدار الہی کی خواہش نے چمک پیدا کردی تھی۔ ہاتھ میں مصحف۔ پر سکون قدموں سے چلتے ہوئے پھانسی کے پھندے تک پہنچے۔ چشمہ اتار کر ہاتھ میں لیا—۔۔ ’’میری نمازیں تیرے لیے۔ میری قربانیاں تیرے لیے۔ میرا جیناتیرے لیے۔ میرا مرنا تیرے لیے۔ کس کے لیے؟ اس اللہ کے لیے جو دونوں جہان کا رب ہے۔ ‘‘
نمازِ شوق۔ نمازی ایسے ہیں۔ مؤذن کیسا ہوگا؟ مؤذنِ رسول۔ عشقِ رسول کی ایک ایسی مثال کہ ضرب المثل بن گیا۔ ’أشہد أن محمدا رسول اللہ‘ کہتے ہوئے رسول خدا کی جانب اشارہ کرتا۔ حضور کا دیدار ہوتا۔ دل کو قرار آجاتا۔ رسول کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز۔ مؤذن رسول کی آنکھوں کی ٹھنڈک خود رسول۔ رسول کے وصال کے بعد مدینہ میں رہنا دوبھر ہو گیا۔ آنکھیں چہار سو رسول کو ڈھونڈتیں۔ آزان دینا بالکل ہی چھوڑ دیا۔ کسی کل چین نہ آتا تھا۔ یہی بے کسی تھی تمام شب اسی بے کسی میں سحر ہوئی۔ پھر ایک دن مدینہ سے بھی دور چلے گئے۔ بلال حبشیؓ۔ حبشہ کا کالا کلوٹا ایک غلام۔ عشقِ رسول میں ایسا فدا ہوا کہ متاعِ زندگی لٹا بیٹھا۔ وہ اس وقت اسلام لایا جب اہلِ خرد اسلام کے نام پر دی جانے والی سزاؤں کے ذکر سے ہی کانپ اٹھتے تھے۔ مصلحت اندیش اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے ہوئے بھی اس کو قبول کرنے سے کتراتے تھے۔ انجام کار نظروں کے سامنے تھا۔ بلال حبشیؓ۔ غلام ہوتے ہوئے بھی ان کو برملا اسلام کا اعلان کرنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکی۔ پھر کیا تھا۔ جلتی ہوئی ریت پر اس وقت تک لٹائے رکھا کہ پیٹھ کا گوشت جلنے کی مہک آنے لگی۔ ہاتھ باندھ کر چھاتی پر اتنا بھاری پتھر رکھا کہ جس کو اٹھانے کے لیے بھی کئی جوان درکار ہوتے۔ کیا بلالؓ کو معلوم نہیں تھا کہ اسلام لانے کی پاداش میں ان کے ساتھ یہ سب کچھ ہوگا۔ یقینا معلوم تھا۔ عشق نبھالینا مصلحت کوشوں کے بس کی بات نہیں۔ مؤذنِ رسول ہونا اتنا آسان نہیں۔
حضرت زید بن دثنہؓ۔ کفار دھوکہ سے ان کو پکڑ کر مکہ لے آئے ہیں۔ قتل کرنے کے لیے ان کو مکہ سے باہر بھیج دیا گیا۔ قبیلہ قریش پہلے سے وہاں موجود ہے۔ قتل کا تماشا دیکھنے۔ قتل کیوں کیا جا رہا ہے؟ صرف اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہے۔ قتل کرنے سے پہلے ابو سفیان دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے پوچھتا ہے ’’اے زید! میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا تم یہ پسند کرو گے کہ تمہاری جگہ ہم محمد کو قتل کر دیں۔ تم کو چھوڑ دیں کہ تم اپنے گھر میں عیش و آرام کی زندگی گزارو۔ ‘‘ ایک مرتبہ پھر عشق آزمایا جا رہا ہے۔ میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ میں نے دیکھا کہ تمام مجمع کی آنکھیں زید پر ٹکی ہوئی ہیں۔ آسمان جواب سننے نیچے اتر آیاہے۔ لوگ آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے عشق کا مارا ہوا ہے۔ دیوانہ ہے۔ کبھی ہار نہیں مانے گا۔ دوسرے کہتے تھے اپنی جان بچانے کو ایک ذرا سی’ہاں ‘ ہی تو کہنا ہے۔ کیا حرج ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اقرار کرنے سے اہل قریش محمد تک پہنچ ہی جائیں گے۔ لیکن نہیں۔ یہ عقل کا معاملہ نہیں کہ حیلے بہانوں سے کام نکال لیا جائے۔ معاملہ عشق کا ہے۔ یہاں مصلحت کا کوئی کام نہیں۔
حضرت زید بن دثنہؓ نے زبان کھولی۔ میں نے بے اختیار کان قریب کر دیے۔ سانسیں روک لیں۔ غضب ناک لہجہ۔ بلند آواز۔ ’’خدائے عظیم کی قسم! مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ میری جگہ حضور ﷺ کے قدم مبارک میں کوئی کانٹا بھی چبھے۔ ‘‘ جواب سنتے ہی میں نے ایک گہری سانس لی۔ اس صحابی رسول نے جان دے کر عشق کی آبرو بچالی۔ قریش دنگ رہ گئے۔ غصہ سے پھنکارتے ہوئے انھوں نے حضرت خبیب بن عدیؓ کو سولی پر چڑھا دیا۔ ان سے بھی وہی سوال پوچھا۔ عشق جواب کب بدلتا ہے۔ ’’واللہ، مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ حضور اقدس کے پیر میں ایک کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں۔ ‘‘ قریش کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔ ان کوشہید کر دیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ’’بے شک جن لوگوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے۔ اس پر ثابت قدم ہو گئے۔ فرشتے صف بستہ ہو کر آتے ہیں۔ عرض کرتے ہیں۔ نہ ڈرو۔ نہ رنجیدہ ہو۔ خوش ہو جاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ ‘‘ ان کی روح بھی قیدِ حیات سے نجات پانے کے لیے بے تاب تھی۔ اِدھر آنکھیں بند ہوئیں۔ اُدھر جنت کے دروازے وا کر دیے گئے۔
محمد عربیﷺ۔ وہ قندیل جس نے ان چراغوں کو منور کیا۔ وہ چشمہ جس سے ان تمام لوگوں نے مشکیزے بھرے۔ وہ منبعِ فیض جو ہر خاص و عام پر فیض لٹاتا رہا۔ قلم میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ کچھ لکھ سکے۔ زبان میں اتنی تاثیر کہاں کہ وہ کچھ بیان کر سکے۔
مکہ کے سردار حضور کے چچا ابو طالب کے پاس بیٹھے ہیں۔ وہ دو ٹوک انداز میں ان کو دھمکی دے چکے ہیں کہ یا تو محمدﷺکو دعوت کے کام سے روک دو یا پھر قریش محمدﷺ اور ابو طالب دونوں کے ساتھ سخت برتاؤ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ ابو طالب کے دل میں جذبات و خدشات کا ایک طوفان امنڈ پڑا۔ نہ وہ بھتیجے کو ان ظالموں کے حوالے کر سکتے تھے۔ نہ ہی بوڑھی ہڈیوں میں اتنا دم خم تھا کہ سارے قریش سے اکیلے ٹکرا جاتے۔ سوچا کیوں نہ محمدہی کو بلا کر، سمجھا بجھا کر، منع کر دوں کہ دعوت دین کا سلسلہ موقوف کر دے۔ محمدﷺکو طلب کیا۔ ’’پیارے بھتیجے! خدارا مجھ پر بھی رحم کرو۔ خود پر بھی ترس کھاؤ۔ اتنا بوجھ نا ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں۔ ‘‘ ابو طالب اتنا کہہ کر رک گئے۔ جواب کا انتظار کرنے لگے۔ دوسری طرف محمد ﷺ جن کا اس وقت واحد سہارا ابو طالب تھے۔ اس سہارے کوبھی ڈگمگاتے دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ غلط فہمی نہ ہو۔ یہ آنسو کم زوری کے آنسو نہ تھے۔ آپ ابھی بھی اپنے موقف پر استقامت کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے۔ ’’چچا جان! خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور بائیں ہاتھ میں چاند!! اور کہیں کہ یہ کام چھوڑ دوں تو یہ ناممکن ہے۔ یا تو یہ کام پورا ہوگا یا میری جان اسی راہ میں کام آجائے گی‘‘۔
حضرت بلالؓ، حضرت زیدؓ، حضرت خبیبؓ، حضرت سمیہ بنت خیاطؓ، زینب الغزالیؒ، عمر مختارؒ، مرشدی سید مودودیؒ، سید قطب شہیدؒ، حسن البنا شہیدؒ اور ان جیسے تاریخ کے ہر دور میں پائے جانے والے خدا کے چنندہ بندوں میں اتنی ہمت۔ اس قدر عزم و حوصلہ۔ شجاعت و عزیمت کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔ یہ’ علم الیقین‘ کی سی کیفیت۔ یہ قلندرانہ مزاج۔ یہ سب اس ایک عظیم انسان کی دین ہے۔ سب اس ایک شمع کے پروانہ ہیں۔ زندگی لافانی بنانی ہے تو’بامقصد‘ بنایئے۔ عشق کیجیے۔ عشق ایسا کہ اس کے سامنے خود زندگی پھیکی پڑ جائے۔ مقصد سے ایسی لگن کہ زندگی خود بے وقعت ہو جائے۔■