شاہو مہاراج ‘دلتوں اور پچھڑوں کے حقوق کے محافظ

انصاف و مساوات کے نظام کو رائج کرنے والے حکمراں

سدھارت
ترجمہ: ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین

بھارت کی تاریخ کے پہلے راجہ جو اپنی ریاست میں برہمنواد کے خلاف برسر پیکار رہے
برہمنوادی نظام میں سب سے بڑی حکومت رام کی حکومت اور سب سے بڑے حکمراں رام ہوئے ہیں، لیکن اس رام کی حکمرانی میں لوگوں کا اصل کام ’ورن‘ (ذات پات) کے نظام پر عمل کرنا تھا۔ یعنی شودروں (پسماندہ طبقات) کا اعلیٰ طبقات کی خدمت کرنا۔ اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا تو خود راجا رام اپنے ہاتھوں سے اس کو قتل کر دیتے تھے۔ اس کے برعکس بہوجن شرمن رواج میں ایسے راجا ہوئے ہیں جن کی حکمرانی حقیقت میں عوام کی فلاح و بہبود اور انصاف کے قیام کے لیے تھی جنہوں نے ورن ذات پات کے نظام کو مٹانے میں اپنی زندگی لگا دی۔ ایسے ہی ایک راجہ شاہو مہاراج تھے۔ وہ ایک ایسے راجہ تھے جنہوں نے جوتی راو پھولے اور ساوتری بائی پھولے کے خوابوں کو تعبیر دی۔
شاہو جی مہاراج 2 جولائی 1894 میں کولہاپور کے راجا بنے تھے۔ راجہ بنتے ہی انہوں نے ریاست اور سماج پر برہمنوں کی بالادستی کو توڑنے کی شروعات کر دی۔ 26 جولائی 1902 کو ہندوستان کی تاریخ میں انہوں نے وہ کام کر دکھایا، جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ شاہو جی مہاراج نے برہمنوں کی بالادستی کے خلاف 26 جولائی کو اپنے راجیہ کولہاپور میں تعلیم اور سرکاری نوکریوں میں دلت اور پچھڑے طبقات کے لیے پچاس فیصد تحفظات کو لاگو کیا۔ یہ جدید بھارت میں ذات پات کے نام پر حاصل شدہ پہلے تحفظات تھے۔ اس وجہ سے شاہو جی جدید تحفظات کے بانی کہلائے۔ بعد میں بابا صاحب ڈاکٹر امبیڈکر نے شاہو جی کے ذریعے لاگو کیے گئے تحفظات کی بھارتی دستور میں ترجمانی کی۔ دستور میں دلتوں کے لیے تحفظا ت تو لاگو کیے گئے لیکن او بی سی طبقات کے لیے تحفظات کو مستقبل پر چھوڑ دیا گیا۔ جب کہ شاہو جی نے اپنے دور حکمرانی میں پچھڑوں اور دلتوں دونوں کے لیے تحفظات لاگو کیے تھے۔ بھارت میں پچھڑے یا او بی سی طبقات کو تحفظات آزادی کے قریب 45 سال بعد 16 نومبر 1992 کو حاصل ہوئے۔ یعنی شاہو جی کے ذریعے تحفظات لاگو کرنے کے 90 سال بعد۔
1894 میں جب شاہو جی مہاراج راجہ بنے تھے اس وقت کولہاپور کے زیادہ تر عہدوں پر برہمنوں کا قبضہ تھا۔ اس وقت کولہاپور کی عوامی انتظامیہ (جنرل ایڈمنسٹریشن) میں جملہ 71 عہدوں میں سے 60 پر برہمن عہدیدار فائز تھے۔ اسی طرح کلرک کی 500 جائیدادوں میں سے صرف 10 پر غیر برہمن تھے۔ شاہو جی مہاراج کے ذریعے پچھڑے طبقات کو 50 فیصد تحفظات فراہم کرانے کی وجہ سے 1912 میں 95 عہدوں میں سے برہمن عہدیداروں کی تعداد 35 رہ گئی تھی۔
شاہو مہاراج نے پچھڑے دلت طبقات کے درمیان میں ناخواندگی کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ بھارت کی تاریخ میں وہ پہلے راجا تھے جنہوں نے 25 جولائی 1917 میں ابتدائی تعلیم کو لازمی اور مفت قرار دیا۔ اس سے پہلے 1912 میں ہی انہوں نے پرائمری تعلیم کو لازمی قرار دیا تھا۔ تعلیم نسواں کے پھولے خاندان کے خواب کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر خاص زور دیا۔ 500 سے 1000 تک کی آبادی والے ہر گاؤں میں اسکول کھولا گیا۔ انہوں نے 1920 میں طالب علموں کو رہنے کے لیے مفت ہاسٹل کھلوایا۔ اس ہاسٹل کا نام ’پرنس شیواجی مراٹھا فری بورڈنگ ہاؤس‘ رکھا گیا تھا۔
ہم سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ پیشواؤں کی برہمنوادی حکومت کے قیام کے بعد مہاراشٹر کے مذہبی زندگی کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی پر بھی برہمنوں کا غلبہ اور انتظام حاصل ہو گیا تھا۔ اس غلبہ اور انتظام کو توڑنے کے لیے 50 فیصد تحفظات، مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ شاہو جی نے مذہبی بالادستی کو بھی توڑنے کا بیڑا اٹھایا۔ 9 جولائی 1917 کو انہوں نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ کولہاپور کے تمام مندروں کی آمدنی اور جائیدادوں پر حکومت کا اختیار ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مراٹھا (پسماندہ) طبقہ کے پجاریوں کی تعیناتی کا بھی حکم جاری کیا۔ 1920 میں انہوں نے پوجا اور پجاریوں کی تربیت کے لیے اسکولس کھلوائے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے ہندو کوڈ بل سے تو ہم سبھی واقف ہیں، لیکن 11 نومبر 1920 کو ہی شاہو جی مہاراج نے بھی ایک ہندو کوڈ بل پاس کیا تھا، یہ شاید ہی کسی کو معلوم ہے۔ اس بل کے ذریعے انہوں نے جائیداد کے وارث کے تعلق سے ’’متاکشرا‘‘ قانون کو ختم کر دیا جس میں خواتین کو وراثت سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ اس پر طرح طرح کی شرطیں اور پابندیاں عائد کی گئی تھی۔ انہوں نے گاؤں میں پروہتوں اور پجاریوں کے تسلط کو ختم کیا۔
اچھوتوں (دلتوں) کو سماج میں برابری کا حق دلانے اور ان کے مقام میں بہتری کے لیے شاہو جی نے مزید خصوصی اقدامات کیے۔ 1919 سے پہلے اچھوت کہے جانے والے سماج کے کسی بھی فرد کا علاج کسی ہسپتال میں نہیں ہو سکتا تھا۔ 1919 میں شاہو جی نے ایک حکم جاری کیا جس کے مطابق اچھوت سماج کا کوئی بھی شخص ہسپتال آکر باعزت طریقے سے علاج کرا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1919 میں ہی یہ حکم بھی جاری کیا کہ پرائمری اسکول، ہائی اسکول اور کالجوں میں طبقات کی بنیاد پر طلبا کے ساتھ کوئی بھی بھید بھاو نہ کیا جائے۔ انہوں نے دلتوں کو نوکریوں میں جگہ دینے کے ساتھ ہی اس بات کا حکم دیا کہ سرکاری دفاتر میں برسرخدمت دلت طبقات کے ملازمین کے ساتھ برابری اور مساوات کا برتاؤ کیا جائے۔ کسی طریقہ کا چھوت چھات نہیں ہونا چاہیے۔ جو عہدیدار اس حکم کو ماننے کے لیے راضی نہ ہوں وہ 6 مہینے کے اندر استعفیٰ دے دیں۔
دلتوں کی سمت میں تبدیلی لانے کے لیے انہوں نے دو ایسے خصوصی رواج کو ختم کیے جو بہترین ثابت ہوئے۔ پہلا 1917 میں انہوں نے اس ’بلوتداری پرتھا‘ کا خاتمہ کیا، جس کے تحت ایک اچھوت کو تھوڑی سی زمین دے کر بدلے میں اس سے اور اس کے خاندان والوں سے پورے گاؤں کے لیے مفت خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ اسی طرح 1918 میں انہوں نے قانون بنا کر ریاست کے ایک اور قدیم رواج ‘وتنداری’ کا خاتمہ کیا اور زمین کے قانون میں سدھار لاگو کر کے مہاروں کو بھو سوامی بننے کا حق دلایا۔ اس حکم سے مہاروں کی معاشی غلامی کافی حد تک دور ہو گئی۔ دلتوں کے راجا کولہاپور نریش نے 1920 میں منماڈ میں دلتوں کے بڑے اجلاس میں اعلان کرتے ہوئے کہا تھا ’’مجھے لگتا ہے امبیڈکر کے روپ میں تمہیں تمہاری آزادی دلانے والا مل گیا ہے۔ مجھے امید ہے وہ تمہاری غلامی کی بیڑیاں کاٹ ڈالیں گے۔‘‘ انہوں نے دلتوں کو ’’آزادی دلانے والے‘‘ کی محض زبانی ستائش نہیں کی بلکہ ان کی ادھوری بیرون ملک تعلیم پوری کرنے اور دلت مکتی (دلتوں کی آزادی) کے لیے سیاست کو ہتھیار بنانے میں سب سے زیادہ تعاون کیا۔
پچھڑوں، دلتوں اور عورتوں کو انصاف اور مساوات کا حق دلانے کے لیے شاہو جی مہاراج کو مہاراشٹر کے برہمنوں کے غصہ کا شکار ہونا پڑا۔ انہیں مختلف طریقوں سے بے عزت کرنے کی کوشش کی گئی۔
پچھڑوں اور دلتوں کو آزادی دلانے والے راجا شاہو جی مہاراج کا جنم کنبی (اتر بھارت میں کرمی) طبقہ میں 26 جون 1874 میں ہوا تھا۔ 20 سال کی عمر میں وہ 1894 کولہاپور ریاست کے راجا بنے۔ وہ چھتر پتی شواجی کے پوتے اور آپا صاحب گھاٹگے کاگلکر کے بیٹے تھے۔ ان کے بچپن کا نام یشونت راؤ تھا۔ تین سال کی عمر میں اپنی والدہ کے دیہانت کے بعد 17 مارچ 1884 کو کولہاپور کی رانی آنندی بائی نے گود لیا اور انہیں چھترپتی کی اعزاز سے نوازا گیا۔ 2 جولائی 1894 میں انہوں نے کولہاپور کی حکومت اپنے ہاتھوں میں لی اور 28 سال تک حکومت کی۔ 19 اپریل 1919 کو کانپور میں منعقد اکھل بھارتیہ کرمی مہاسبھا کے 13ویں قومی اجلاس میں انہیں راج رشی کے خطاب سے نوازا گیا۔ جون 1902 میں انہیں کیمبرج وشوودیالیہ سے ایل ایل ڈی کی سند حاصل ہوئی جسے پانے والے وہ پہلے ہندوستانی تھے۔ اس کے علاوہ انہیں جی سی ایس آئی، جی سی وی اؤ، ایم آر ای س کی ڈگریاں بھی ملیں۔
پچھڑے دلتوں کے اس راجا کا عہد صرف 28 سال ہی رہا۔ صرف 48 سال کی عمر میں 6 مئی 1922 کو ان کا دیہانت ہو گیا، لیکن جو مشعل انہوں نے پھولے سے تحریک پاکر جلائی تھی، اس کی روشنی آج بھی قائم ہے۔
(بشکریہ۔ فارورڈ پریس ڈاٹ کام)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  15 تا 21 مئی  2022