عظیم صحابیہ جنہیں حضرت عائشہؓ کی خدمت میں رہ کر فیض اٹھانے کا موقعہ ملا
حضرت بریرہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی آزاد کردہ کنیز تھیں۔ ان کے شرف اسلام اور صحابیت پر سب اہل سیر کا اتفاق ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ام المومنینؓ کی خدمت میں آنے سے پہلے وہ جس شخص کی لونڈی تھیں اس سے انہوں نے طے کیا کہ وہ نو (یا پانچ) اوقیہ سونا سالانہ قسطوں میں ادا کرنے کے بعد آزاد ہوجائیں گی لیکن پھر انہیں اتنا طویل عرصہ غلامی میں گزارنا گوارا نہ ہوا۔ ایک دن ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کی کہ میری مدد کیجیے اور اپنی کنیز بنالیجیے۔ ام المومنینؓ نے زر مکاتبت کی پوری رقم یکمشت دینے کا وعدہ فرمالیا۔ ان کے آقا سے دریافت کیا گیا تو وہ ان کو فروخت کرنے پر تو رضامند ہوگیا لیکن اپنا حق وراثت برقرار رکھنے پر مصر ہوا۔ سرور عالمﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپؐنے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا کہ وراثت کا حق اسی شخص کو پہنچتا ہے جو کسی غلام (یا لونڈی) کو خرید کر آزاد کردے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس موقع پر حضورؐنے لوگوں کو جمع کیا اور ایک خطبہ دیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے فرمایا کہ بعض لوگ ایسی شرطیں کرنا چاہتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے یاد رکھو جو شرط اللہ کی کتاب میں نہیں ہے وہ باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نہایت سچا ہے اور اس کی شرط نہایت پختہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اولاء (غلام کی ورثہ) غلام آزاد کرنے والے ہی کی ہوتی ہے‘‘۔ چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضرت بریرہؓ کو خرید کر آزاد کردیا لیکن انہوں نے ام المومنینؓ کی خدمت ہی میں رہنا پسند کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے فیض صحبت کے ساتھ فیضان نبوی سے بھی خوب بہرہ یاب ہوئیں اور معدن فضل و کمال بن گئیں۔ ارباب سیر کا بیان ہے کہ تمام مسلمان جن میں اکابر صحابہؓ بھی شامل تھے، حضرت بریرہؓ کی بے حد تعظیم و تکریم کرتے تھے۔
مسند ابو داود میں ہے کہ حضرت بریرہؓ کی شادی حضرت مغیثؓ سے ہوئی تھی جو ایک حبشی غلام تھے اور سرور عالم ﷺ کے صحابی تھے۔ حضرت بریرہؓ کو کسی وجہ سے ان سے نفرت ہوگئی۔ آزاد ہوئیں تو ان سے قطع تعلق کرنا چاہا حضور ؐکو معلوم ہوا تو آپؐنے ان کو اس سے روکنا چاہا۔ حضرت بریرہؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ یہ آپ کا حکم ہے؟‘‘ فرمایا نہیں میں سفارش کرتا ہوں۔ حضرت بریرہؓ نے مغیثؓ کے ساتھ رہنے سے معذرت کردی۔ اس پر حضورؐنے دونوں کی علیحدگی پر حکم صادر کردیا کہ بریرہؓ ایک مطلقہ عورت کی طرح عدت پوری کریں۔ حضرت مغیثؓ کو بریرہؓ سے بہت محبت تھی اس علیحدگی سے وہ اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں ان کے پیچھے روتے پھرتے تھے، ایک مرتبہ حضورؐنے ان کو اس حالت میں دیکھ کر حضرت عباسؓ سے فرمایا: ’’چچا جان، مغیث کی محبت اور بریرہؓ کی نفرت آپ کو عجیب نہیں معلوم ہوتی‘‘۔
حضرت بریرہؓ اس قدر مفلس تھیں کہ ان پر صدقہ کا مال حلال تھا، چناں چہ بعض لوگ ان کو صدقہ بھیجا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ان کے پاس جو کچھ صدقہ میں آتا تھا وہ ازواج مطہرات کوہدیتہً دے دیا کرتی تھیں۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ گھر تشریف لائے تو آپؐنے دیکھا کہ چولہے پر ہانڈی رکھی ہے اور اس میں گوشت پک رہا ہے۔ لیکن کھانے کے وقت آپؐکے سامنے گوشت کے بجائے کوئی اور چیز رکھی گئی تو آپؐنے اس کا سبب دریافت فرمایا، ازواج مطہرات (یا حضرت عائشہ صدیقہؓ) نے آپؐکو بتایا کہ گوشت بریرہؓ کو صدقے میں ملا ہے اور انہوں نے ہمیں ہدیتہً دیا ہے۔ ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ صدقے کا گوشت آپ ؐکی خدمت میں پیش کریں۔
حضورؐنے فرمایا کہ یہ بریرہؓ کے لیے صدقہ ہے لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے۔
واقعہ افک (ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت طرازی) کے موقع پر حضرت بریرہؓ نے جن الفاظ میں ام المومنین کی پاک دامنی کی تصدیق کی وہ ان کی کتاب سیرت کا درخشندہ باب ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پہلے ان سے اس بہتان کے بارے میں کنایتاً پوچھا گیا تو وہ سمجھیں کہ یہ استفسار عام خانہ داری کے سلسلے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کے طرز عمل کے بارے میں ہے، بولیں اور تو کوئی برائی نہیں البتہ بچپن ہے سوجاتی ہیں اور بکری آٹا کھاجاتی ہے۔
اس پر صاف لفظوں میں ان سے اس بہتان کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بے ساختہ کہا ’’سبحان اللہ خدا کی قسم جس طرح سنار کھرے سونے کو جانتا ہے اسی طرح میں ام المومنین عائشہؓ کو جانتی ہوں وہ بالکل بے عیب ہیں‘‘۔
بعض روایتوں میں ہے اس سلسلے میں ان پر سختی بھی کی گئی لیکن وہ اپنے بیان پر قائم رہیں اور اس سے سر مو انحراف نہ کیا یہاں تک کہ خود اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی پاک دامنی ک تصدیق کردی۔
حضرت بریرہ کا سال وفات کسی سیرت نگار نے نہیں لکھا البتہ مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرور کائنات ﷺ کے وصال (۱۱ ھ) کے بعد بہت عرصے تک زندہ رہیں۔
حضرت بریرہؓ سے کئی احادیث بھی مروی ہیں۔ ان کے تلامذہ اور شاگردوں کا حلقہ بڑا وسیع ہے، ان سے سماع حدیث کرنے والوں میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان بھی شامل ہے۔
حضرت بریرہؓ کے گلشن اخلاق میں حب رسول ، تحمل، بردباری، استغنا، زہد و اتقا، حق گوئی، سلامتی طبع اور مخلوق خدا کی خیر اندیشی سب سے خوش رنگ پھول تھے۔ سرور عالمﷺ کے اہل بیت اور دوسرے متعلقین کا بے حد احترام کرتی تھیں۔ عبادت الٰہی سے بڑا شغف تھا، حضورؐکی احادیث بیان کرنے لگتیں تو فرط عقیدت و احترام سے ان پر رقت طاری ہوجاتی اور آنکھیں نم ہوجاتیں۔
بعض روایات میں حضرت بریرہ ؓ کے متعدد اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ ان سے ان کی مومنانہ بصیرت اور فراست کا ثبوت ملتا ہے ۔ ان میں سے چند اقوال یہ ہیں:
۱۔ کسی کو نیکی کی بات بتانے میں بخل کرنا امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔
۲۔ ہمیشہ رزق حلال سے اپنا پیٹ بھرو کہ اس میں بے شمار برکتیں ہیں
۳۔ لغو باتیں کرنے سے دل سیاہ ہوجاتا ہے، پرہیزگار وہی ہے جو اپنی زبان کو قابو میں رکھے۔ ضرورت سے زیادہ باتیں کرنے والا دروغ گوئی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
۴۔ کسی کے ساتھ نیکی کرو تو اس کا بدلہ نہ چاہو۔
۵۔ بہادر وہ ہے جو کم زور اور ناتواں پر وار نہیں کرتا اور نہ کم زور سے انتقام لیتا ہے
۶۔ غنی وہ ہے جو حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرتا ہے
۷۔ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے احتراز کرو کہ ایسا کرنا بعض اوقات ذلت کا باعث بن جاتا ہے
۸۔ دنیا کے فائدے چند روزہ ہیں ان کے حصول کے لیے زیادہ دوڑ دھوپ نہ کرو
۹۔ جھوٹ بولنا بہت بڑا فتنہ ہے ہمیشہ راست بازی سے کام لو
۱۰۔ اپنا کام خود کرو اور دوسروں کے محتاج نہ بنو
۱۱۔ بات ہمیشہ سیدھی اور صاف کرو اور کسی کو غلط فہمی میں مبتلا کرکے اپنا مطلب نہ نکالو
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب تذکار صحابیاتؓ سے ماخوذ )
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 مئی 2022