صائب الرائے صحابیہؓ جنہیں قدیم الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہے
غزوہ خیبر کے کچھ عرصے بعد کا ذکر ہے کہ ایک دن ایک باوقار خاتون بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئیں اور اپنی کچھ ضروریات بیان کرکے سرور عالم ﷺ سے درخواست کی کہ نقدی یا جنس وغیرہ کی صورت میں انہیں کچھ عطا فرمایا جائے۔ اتفاق سے اس وقت حضور پر نورؐ کے پاس کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ اس لیے آپؐ نے معذرت فرمائی لیکن وہ خاتون اصرار کرتی رہیں کہ ان کے درخواست کو شرف پذیرائی بخشا جائے۔ اتنے میں اذان کی آواز آئی اور حضورؐ نماز کے لیے مسجد تشریف لے گئے وہ خاتون بھی اٹھ کر قریب ہی اپنی بیٹی کے گھر چلی گئی، جو جلیل القدر صحابی حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کی اہلیہ تھیں۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ ان کے داماد حضرت شرحبیلؓ تہبند باندھے گھر میں ہی بیٹھے ہیں اور نماز کے لیے مسجد نہیں گئے۔ یہ خاتون داماد کو گھر میں بیٹھا دیکھ کر سخت آزردہ خاطر ہوئی اور غضب آلود لہجے میں انہیں ملامت کرنا شروع کیاکہ نماز کا وقت ہوگیا ور تو گھر ہی میں ہے۔ حضرت شرحبیلؓ نے کہا ۔ خالہ جان مجھے ملامت نہ کیجیے۔ بات یہ ہے کہ میرے پاس ایک ہی قیص تھی جس پر میں نے پیوند لگا رکھا تھا۔ حضورؐ نے اسے مجھ سے عاریتاً مانگ لیا ہے، میں نہیں چاہتا کہ ننگے بدن مسجد جاوں اور جب لوگ مجھ سے اس کا سبب پوچھیں تو میں ان کو بتاوں کہ میری قمیص حضورؐ نے عاریتاً لے لی ہے۔
وہ خاتون داماد کی بات سن کر سکتے میں آگئیں اور کہنے لگیں، میرے ماں باپ رسول اللہؐ پر قربان مجھے کیا معلوم کہ حضورؐ کا آج کل یہ حال ہے۔ میں نے اپنی درخواست پر اصرار کرکے خواہ مخواہ آپؐ کو اذیت دی۔
یہ خاتون جن کو شریعت کا اس قدر پاس تھا کہ نماز کے وقت اپنے داماد کو گھر میں بیٹھے دیکھ کر غضب ناک ہوگئیں اور پھر بے خبری کے عالم میں بارگاہ رسالت میں اپنی بات پر بے جا اصرار نے جنہیں سخت پشیمان کیا، حضرت شفا بنت عبداللہؓ تھیں۔
حضرت شفا بنت عبدللہؓ کا شمار نہایت جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے ان کا تعلق قریش کے خاندان عدی سے تھا۔ سلسلہ نسب یہ ہے: شفا بنت عبدللہؓ بن عبد شمس بن حلف بن سداد بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی۔
عدی کے دوسرے بھائی مرہ تھے، جو رسو ل اکرمﷺ کے اجداد میں سے ہیں۔ اس لحاظ سے حضرت شفا کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول ﷺ کے نسب نامہ سے جاکر مل جاتا ہے۔ اسی طرح پانچویں پشت (عبداللہ بن قرط پر) حضرت شفا ؓ کا سلسلہ نسب سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کے نسب نامہ سے جاکر مل جاتا ہے۔
والدہ کا تعلق بنو مخزوم سے تھا۔ ان کا نام فاطمہ بنت وہب (بن عمرو بن عائذ بن عمر بن مخزوم) تھا۔
حضرت شفا کی شادی ابو حثمہ بن حذیفہ عدوی سے ہوئی۔ ابو حثمہ کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملتے۔ کتب سیر میں حضرت شفاؓ کے قبول اسلام کے زمانہ (سال) کی تخصیص نہیں کی گئی لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ ہجرت سے قبل کسی وقت بڑے ناسازگار حالات میں سعادت اندوز اسلام ہوئیں اور پھر جب بارگاہ رسالت سے صحابہ کرامؓ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مرحمت ہوئی تو انہوں نے بھی ہجرت کا شرف حاصل کیا۔ حافظ ابن حجرؒ نے ’’اصابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ ان چند خواتین میں سے تھیں، جنہوں نے سب سے پہلے ارشاد نبوی پر لبیک کہا اور ارض مکہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر مدینہ منورہ میں مستقل اقامت اختیار کرلی۔
رحمت عالمﷺ نے مدینہ منورہ میں نزول اجلال فرمایا تو کچھ عرصے کے بعد آپؐ نے حضرت شفاؓ کو ایک مکان عنایت فرمایا، جس میں وہ اپنے فرزند سلیمان ؓ کے ساتھ مدت العمر قیام پذیر رہیں۔
حضرت شفاؓ قریش کی ان معدودے چند خواتین میں سے تھیں، جو لکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔ کئی امراض کے مریض ان کے پاس آتے تھے اور وہ کچھ پڑھ کر ان کا علاج کیا کرتی تھیں۔ اہل سیر نے ان کے چیونٹی کاٹنے کے منتر کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔ علامہ ابن اثیر صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں کہ جب کسی کو چیونٹی (زہریلی یا سخت قسم کی) کاٹتی تو وہ یہ پڑھ کر پھونکتیں:بسم اللہ صلو صلب جبر تعوذا من افواھھا فلا تضر احدا اللھم اکشف الباس رب الناس
۳ ہجری میں سرور عالمﷺ نے حضرت حفصہ بنت حضرت عمر فاروقؓ سے نکاح کیا تو ایک مرتبہ حضرت شفاؓ سے فرمایا کہ حفصہ کو بھی لکھنا سکھادو، انہوں نے ارشاد نبویؐ کی تعمیل کی اور حضرت حفصہؓ کو لکھنا سکھادیا۔
ایک دفعہ حضرت شفاؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی، یا رسول اللہؐ میں جاہلیت میں جھاڑ پھونک کیا کرتی تھی اور چیونٹی کاٹنے پر یہ منتر پڑھا کرتی تھی۔ کیا مجھے اب بھی ایسا کرنے کی اجازت ہے چوں کہ اس منتر میں شرک کی آمیزش نہیں تھی۔ اس لیے حضورؐ نے انہیں اجازت دے دی بلکہ یہ فرمائش بھی کی کہ یہ منتر حفصہؓ کو بھی سکھادو۔ حافظ ابن حجرؒ کا بیان ہے کہ اس موقع پر حضور نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ (حفصہ کو بھی چیونٹی کا منتر سکھادو، جیسا کہ تم نے اسے لکھنا سکھایا) چناں چہ انہوں نے حضرت حفصہؓ کو لکھنے کے علاوہ چیونٹی کاٹے کا منتر بھی سکھادیا۔ اس لحاظ سے وہ ام المومنین حضرت حفصہؓ کی استاد ہیں۔ ارباب سیر نے لکھا ہے کہ حضرت شفاؓ نہایت عاقلہ اور فاصلہ تھیں اور ان کو رحمت عالمﷺ سےغایت درجہ محبت اور عقیدت تھی۔ حضورؐ بھی ان پر بہت شفقت فرماتے تھے اور گاہے گاہے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ حافظ ابن حجرؒ کا بیان ہے کہ حضورؐ کبھی کبھار حضرت شفاؓ کے گھر آرام فرماتے تھے۔ انہوں نے ایک تہمد اور بستر حضور ؐ کے استعمال کے لیے علیحدہ رکھ چھوڑا تھا، چوں کہ ان چیزوں سے سرور کائناتﷺ کا جسد اقدس مس ہوا تھا اس لیے حضرت شفاؓ کے نزدیک یہ بڑے تقدس کی حامل تھیں۔ چناں چہ انہوں نے ان دونوں مقدس چیزوں کو زندگی بھر اپنی جان کے ساتھ رکھا لیکن اموی حکمراں مروان بن الحکم نے یہ دونوں چیزیں ان سے لے لیں۔ اس طرح حضرت شفاؓ کا خاندان اس برکت سے محروم ہوگیا۔
حضرت شفاؓ کو بارگاہ نبوی میں جو تقرب حاصل تھا اس کی بنا پر تمام صحابہ کرامؓ ان کی بڑی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے نزدیک ان کی قدر و منزلت کی یہ کیفیت تھی کہ جب وہ سر پر آرائے خلافت ہوئے تو بعض اہم مسائل میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے اور ان کی رائے کی بہت تعریف کرتےتھے۔ حافظ ابن حجرؓ نے ابن سعدؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کو حضرت شفاؓ کی فضیلت اور رائے کا بڑا پاس تھا اور وہ ان کو بازار کا اہتمام سپرد کرتے تھے۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شفاؓ صائب الرائے ہونے کے ساتھ انتظامی صلاحیتوں کی مالک بھی تھیں۔ علامہ ابن اثیر نے ’’اسد الغابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے عہد خلافت میں حضرت شفاؓ کو بلا بھیجا۔ جب وہ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچیں تو اتفاق سے عاتکہ بنت اسدؓ بھی وہاں آگئیں۔ حضرت عمرؓ نے دونوں کو ایک ایک چادر عنایت فرمائی۔ جو چادر حضرت عاتکہؓ کو عطا ہوئی وہ حضرت شفاؓ کی چادر سے بہتر تھی۔ حضرت شفاؓ کو یہ بات نا گوار گزری۔ انہوں نے ناراضی کے لہجے میں حضرت عمر سے مخاطب ہوکر فرمایا :میں عاتکہؓ سے زیادہ قدیم الاسلام ہوں، تمہاری بنت عم بھی ہوں اور پھر تم نے مجھے خود بلا بھیجا تھا لیکن ان ساری باتوں کے باوجود تم نے عاتکہ کو مجھ سے بہتر چادر دی حالاں کہ وہ بن بلائے محض اتفاق سے یہاں آگئی تھیں‘‘۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔۱۸
حضرت عمر نے فرمایا:
’’واللہ یہ چادر تمہارے ہی لیے تھی لیکن جب عاتکہ آگئیں تو مجھے ان کی رعایت کرنی پڑی کیوں کہ یہ نسب رسولﷺ سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘۔
حضرت شفاؓ نے کب وفات پائی؟ اس کے بارے میں تمام کتب سیر خاموش ہیں۔ قیاس یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عمرؓ کی خلافت کے آخری دور یا حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے عہد خلافت میں کسی وقت داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت شفاؓ کی اولاد میں صرف ایک فرزندسلیمانؓ اور ایک بیٹی کا پتہ چلتا ہے۔ دونوں شرف صحابیت سے بہرہ ور تھے۔ بیٹیمشہور صحابی حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کے نکاح میں تھیں۔
حضرت شفاؓ نے رسول اکرمﷺ اور حضرت عمر فاروق سے چند (بہ قول بعض بارہ) حدیثیں روایت کی ہیں۔ راویوں میں ان کے بیٹے سلیمانؑ اور پوتے ابوبکرؓ اور عثمانؒ ، ام المومنین حضرت حفصہؓ ، ابو سلمہؓ اور ابو اسحاق ؒ شامل ہیں
رضی اللہ تعالی عنہا
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 تا 19 مارچ 2022