سیرت صحابیات سیریز(۲)

حضرت سودہ بنت زمعہؓ

ام المومنین جنہوں نے شہادت کا مرتبہ پایا
حضرت سودہ قریش کے قبیلہ عامر بن لوی سے تھیں۔ماں کا نام سموس بنت قیس تھا جو انصار کے خاندان بنو نجار سے تھیں۔ حضرت سودہؓ کا پہلا نکاح اپنے چچا زاد بھائی حضرت سکران بن عمروؓ سے ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سودہؓ کو نہایت صالح طبیعتعطا کی تھی، جب رسول کریمﷺ نے دعوت حق کا آغاز کیا تو انہوں نے فوراً اس پر لبیک کہا۔ ان کے سعید الفطرت شوہر نے بھی ان کے ساتھ اسلام قبول کرلیا۔ حبشہ کی دوسری ہجرت میں حضرت سودہؓ اور حضرت سکرانؓ بھی دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبش کی طرف ہجرت کر گئے۔ کئی برس وہاں رہ کر مکہ واپس لوٹے، جہاں چند دن بعد حضرت سکرانؓ نے وفات پائی اور حضرت سودہؓ بیوہ ہوگئیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت خدیجۃ الکبریؓ نے وفات پائی تھی۔ بن ماں کی بچیوں کو دیکھ کر سرور کائنات ﷺ کی طبعیت مبارک افسردہ رہتی تھی۔ رسول کریمﷺ کی ایک جاں نثار صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیمؓ نے ایک دن بارگاہ نبویؐ میں عرض کی :
’’یا رسول اللہ ؐ خدیجہؓ کی وفات کے بعد میں ہمشہ آپؐ کو ملول دیکھتی ہوں‘‘۔
حضور نے فرمایا : ’’ہاں گھر کا انتظام اوربچوں کی تربیت خدیجہؓ ہی کے سپرد تھی‘‘۔
خولہ ؓ نے عرض کی: ’’تو پھر آپؐ کو ایک رفیق و غم گسار کی ضرورت ہے۔ اگر اجازت ہوتو آپؐ کے نکاح ثانی کے لیے سلسلہ جنبانی کروں۔‘‘
حضوؐنے اسے منظور فرمالیا۔ حضرت خولہؓ اب حضرت سودہؓ کے پاس تشریف لے گئیں اور ان سے رسول کریمﷺ کی خواہش بیان کی حضرت سودہ ؓ نے بہ خوشی حرم نبوی بننے پر اظہار ضامندی کیا۔ ان کے والد زمعہ نے بھی حضورؐ کا پیغام قبول کرلیا اور اپنی لخت جگر کا نکاح سرور کائنات ﷺ سے چار سو درہم پر خود پڑھادیا۔ نکاح کے بعد ان کے صاحب زادے عبداللہ گھر تشریف لائے وہ ابھی تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے۔ اس نکاح کا حال سن کر سخت رنجیدہ ہوئے اور سرپر خاک ڈالی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں ساری عمر اپنی اس نادانی کا بہت قلق رہا۔
یہ مبارک نکاح رمضان ۱۰ بعد بعثت میں ہوا۔
زرقانیؒ کا بیان ہے کہ اپنے پہلے شوہر حضرت سکرانؓ کی زندگی میں ایک دفعہ حضرت سودہؓ نے خواب میں دیکھا کہ تکیہ کے سہارے لیٹی ہیں کہ آسمان پھٹا اور چاند ان پر گرپڑا۔ انہوں نے یہ خواب حضرت سکرانؓ سے بیان کیا تو وہ بولے۔ ’’اس خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں عنقریب فوت ہوجاوں گا اور تم عرب کے چاند محمدﷺ کے نکاح میں آو گی‘‘۔
واقعی اس خواب کی تعبیر چند دن بعد پوری ہوگئی۔
بعض روایتوں کے مطابق حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی وفات کے بعد حضرت سودہؓ حضور ؐ کی نکاح میں آئیں اور بعض کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہؓ سے حضور کا نکاح ثانی ہوا۔
۱۲ بعد بعثت میں سرور عالمﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں سے حضرت ابو رافعؓ اور زید بن حارثہؓ کو مکہ بھیجا کہ حضرت فاطمۃ الزہراؓ، ام کلثومؓ اور حضرت سودہؓ وغیرہ کو ساتھ لے کر آئیں۔ چناں چہ وہ سب حضرت زید بن حارثہؓ اور ابو رافعؓ کے ہم راہ مدینہ آئیں۔
حضرت سودہؓ کے مزاج میں کسی قدر تیزی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی ظرافت بھی تھی، جس سے رسول کریمﷺ بعض اوقات محظوظ ہوتے تھے۔ ابن سعدؓ کا بیان ہے کہ کبھی کبھی جان بوجھ کر بے ڈھنگے پن سے چلتی تھیں۔ حضورؐ دیکھتے تو ہنس پڑتے تھے، ایک دن رات کو رسول ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، حضور بڑی دیر تک رکوع میں رہے۔ صبح ہوئی تو کہنے لگیں: ’’یا رسول اللہؐ رات کو نماز میں آپ نے اتنی دیر تک رکوع کیا کہ مجھے اپنی نکسیر پھوٹنے کا اندیشہ ہوگیا۔ چناں چہ میں بڑی دیرتک اپنی ناک سہلاتی رہی‘‘۔ حضورؐ ان کی بات سن کر متبسم ہوگئے۔
حضرت سودہؓ نہایت رحم دل اور سخی تھیں۔ جو کچھ ان کے ہاتھ آتا تھا اسے نہایت دریا دلی سے حاجت مندوں میں تقسیم کردیتی تھیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے اصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت سودہؓ دستکار تھیں اور طائف کی کھالیں بنایا کرتی تھیں ۔ اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اسے راہ خدا میں خرچ کردیتی تھیں۔
حضرت عمر فاروقؓ نے ایک دفعہ ان کی خدمت میں درہموں کی ایک تھیلی ہدیتاً بھیجی۔ انہوں نے پوچھا، اس میں کیا ہے۔ لوگوں نے بتایا ’’درہم‘‘۔ بولیں، ’’تھیلی میں کھجوروں کی طرح؟‘‘ یہ کہہ کر تمام درہم ضرورت مندوں میں اس طرح بانٹ دیں جس طرح کھجوریں تقسیم کی جاتی ہیں۔
چوں کہ حضرت سودہؓ کا سن زیادہ ہوچکا تھا اور حضرت عائشہ ؓ ابھی نو عمر تھیں اس لیے انہوں نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ کو دے دی جو انہوں نے خوشی سے قبول کرلی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا قول ہے:
’’میں نے کسی عورت کو جذبہ رقابت سے خالی نہ دیکھا سوائے سودہؓ کے ‘‘۔
حضرت سودہؓ اتنے پاکیزہ اخلاق کی حامل تھیں کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’سوائے سودہؓ کے کسی عورت کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ اس کے جسم میں میری روح ہوتی‘‘۔
حضرت سودہؓ ۱۰ ہجری میں رسول کریمﷺ کے ساتھ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئیں۔ چوں کہ دراز قد اور فربہ اندام تھیں اس لیے تیز چلنے سے مجبور تھیں۔ حضورؐ نے مزدلفہ سے روانگی سے پہلے انہیں چلے جانے کی اجازت دے دی، تاکہ ان کو بھیڑ بھاڑ سے تکلیف نہ ہو۔
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول کریمﷺ نے تمام ازواج مطہرات ؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اس حج کے بعد اپنے گھروں میں بیٹھنا‘‘
چناں چہ حضرت سودہؓ اور حضرت زینب بنت جحشؓ نے اس حکم کی نہایت سختی سے تعمیل کی۔ دوسری ازواج مطہراتؓ ادائے حج پر اس حکم کا اطلاق نہیں کرتی تھیں لیکن حضرت سودہؓ اور حضرت زینبؓ رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد ساری عمر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ حضرت سودہؓ فرمایا کرتیں:
’’ میں حج اور عمرہ دونوں کرچکی ہوں۔ اب خدا کے حکم کے مطابق گھر سے باہر نہ نکلوں گی‘‘۔
حضرت سودہ ؓ نے حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں ۲۲ ہجری میں وفات پائی۔ حضرت سکران ؓ کے صلب سے ان کے ایک فرزند تھے جن کا نام عبدالرحمنؓ تھا۔ انہوں نے خلافت فاروقی میں جنگ جلولا میں شرکت کی اور نہایت بہادری سے لڑکر مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔
رسول کریم (ﷺ) سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
حضرت سودہ ؓ سے پانچ حدیثیں مروی ہیں۔ ان میں سے ایک صحیح بخاری میں ہے اور چار سنن اربعہ میں۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021