دردمندی ، حلم وبردباری اور سخاوت نمایاں اوصاف
نام صفیہ تھا۔ وہ حضرت ہارونؑ کی اولاد میں سے تھیں۔ ماں کا نام برہ (یاضرہ) تھا، جو بنو قریظہ کے ایک نامور سردار سموئیل کی بیٹی تھیں۔ زرقانی کا بیان ہے کہ حضرت صفیہؓ کا اصل نام زینب تھا۔ عرب میں مال غنیمت کا جو حصہ فاتح سردار کے حصہ میں آئے وہ صفیہ کہلاتا ہے چوں کہ وہ غزوہ خیبر کے بعد سرور عالم ﷺ کے عقد نکاح میں آئیں اس لیے صفیہ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ لیکن یہ روایت چنداں معتبر نہیں کیوں کہ عرب میں صفیہ نام کی اور بھی بہت سی خواتین تھیں۔ خود حضورؐ کی پھوپھی کا نام صفیہؓ تھا۔
حضرت صفیہؓ کا باپ حیی بن اخطب یہودیوں کے نامور قبیلہ بنو نضیر کا سردار تھا۔ وہ اپنی قوم میں بے حد معزز و محترم تھا اور تمام قوم اس کی وجاہت کے آگے سر جھکاتی تھی۔
۱۴ برس کی عمر میں حضرت صفیہؓ کی شادی ایک مشہور اور نامور شہسوار سلام بن مشکم القرظی سے ہوئی لیکن دونوں میاں بیوی میں بن نہیں سکی نتیجتاً سلام بن مشکم نے طلاق دے دی۔ اس طلاق کے بعد حیی بن اخطب نے ان کا نکاح بنی قریظہ کے ایک مقتدر سردار کنانہ بن ابی الحقیق سے کردیا۔ وہ خیبر کے رئیس ابو رافع کا بھتیجا تھا اور خیبر کے قلعہ القموص کا حاکم تھا۔
اوائل ۷ ہجری میں نبی اکرمﷺ نے یہودیوں کی روز روز کی شرارتوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ان کے مرکز خیبر پر چڑھائی کی۔ خیبر مدینہ کے شمال مغرب میں ایک نہایت زرخیز مقام تھا، جہاں یہودیوں نے چند نہایت مضبوط قلعے بنا رکھے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ مدینہ پر قبضہ کرکے اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں، چناں چہ اس مقصد کے لیے وہ مدت سے لشکر اور آلات حرب و ضرب جمع کررہے تھے۔ اپنی تیاری مکمل کرلینے کے بعد انہوں نے دور اور قریب کے قبائل بنو غطفان اور بنی اسد کو بھی اس وعدہ پر اپنے ساتھ ملالیا کہ مدینہ کی فتح کے بعد نصف نخلستان انہیں دے دیا جائے گا۔
جب نبی کریم ﷺ کو یہودیوں کی اس تیاری کا علم ہوا تو آپؐ نے حضرت سباع بن عرطفہ غرفانی کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا اور خود ۱۴۰۰ صحابہ کے ہم راہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کی روانگی کی اطلاع یہودیوں کو دے دی۔ چناں چہ وہ مقابلے کے لیے تیار ہوکر کھلے میدان میں نکل آئے۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو خیبر پہنچنے میں کافی دن لگیں گے لیکن اسلامی لشکر نے حضور اکرمؐ کی زیر قیادت نہایت تیزی سے مسافت طے کی اور دن رات سفر کرتے ہوئے ایک دن صبح کے وقت خیبر کے نواح میں پہنچ گیا۔ انہیں دیکھ کر یہودی ششدر رہ گئے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلمان اتنی جلدی آپہنچیں گے۔ کھلے میدان میں لڑنا انہوں نے مناسب نہ سمجھا اور قلعہ بند ہو کر مسلمانوں پر تیر اور پتھر برسانے لگے۔ مجاہدین اسلام نے نہایت پامردی سے تیروں اور پتھروں کی بوچھاڑ کا مقابلہ کیا اور جانبازی سے لڑتے ہوئے یہودیوں کے تین قلعوں پر قابض ہوگئے۔ یہودیوں کا سب سے مضبوط قلعہ القموص تھا۔ کئی دن گزرگئے لیکن سر توڑ کوششوں کے باوجود یہ قلعہ فتح نہ ہوا۔ آخر ایک دن حضورؐ نے حضرت علیؓ کو بلا بھیجا۔ وہ آشوب چشم کےعارضہ میں مبتلا تھے لیکن نبی کریم ﷺ کے لعاب دہن کی برکت اور دعا سے انہیں صحت ہوگئی۔ پھر حضور نے عَلم دے کر انہیں القموص کی تسخیر پر مامور فرمایا: المقوص کا دفاع مرحب اور حارث دو یہودی سردار کررہے تھے۔ وہ نامور جنگجو تھے اور ان کی قوت اور شجاعت کی زمانے بھر میں دھوم تھی۔ سب سے پہلے حارث حضرت علیؓ کے سامنے آیا اور فنون جنگ میں اپنی بے مثال مہارت کے باوجود ذوالفقار حیدرؓ کا شکار ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا بھائی مرحب غضب ناک ہوکر حضرت علیؓ پر جھپٹا لیکن اس کا حشر بھی اپنےبھائی جیسا ہوا۔ حضرت علیؓ کی اس عدیم النظیر بہادری سے مسلمانوں میں بے پناہ جوش پیدا ہوا اور انہوں نے تکبیر کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے پوری قوت سے یہودیوں پر حملہ کیا۔ یہودی سراسیمہ ہوکر قلعہ کے اندر گھس گئے۔ حضرت علیؓ نے جوش شجاعت میں قلعہ القموص کے پھاٹک کو زور سے ہلایا اور پھر اسے اکھاڑ کر پرے پھینک دیا۔ مسلمان قلعہ کے اندر گھس گئے اور یہودیوں کو اپنی تلواروں پر رکھ لیا۔ انہوں نے بہت جلد ہتھیار پھینک دیے اور عاجزی کے ساتھ صلح کے طالب ہوئے۔ رحمۃ للعلمین ﷺ نے ان پر رحم فرمایا اور اس شرط پر صلح کرلی کہ زمین انہی کے پاس رہے گی البتہ پیداوار کا نصف حصہ وہ مسلمانوں کو دیں گے۔
جنگ خیبر میں ۹۳ یہودی مارے گئے اور ۱۵ مسلمان شہید ہوئے۔ یہ لڑائی یہودیوں کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوئی۔ ان کے کئی نامور بہادر اور سردار اس لڑائی میں مارے گئے۔ حضرت صفیہؓ کے خاندان کے سارے افراد میدان جنگ میں کام آئے یا جنگی قیدی بنالیے گئے۔ مقتولوں میں ان کے باپ اور شوہر بھی تھے اس طرح وہ نہایت قابل رحم حالت میں تھیں۔
جنگ کے بعد تمام قیدی اور مال غنیمت ایک جگہ جمع کیے گئے۔ سیدنا بلال حبشیؓ حضرت صفیہؓ اور ان کے رشتہ کی ایک بہن کو پکڑ لائے۔ راستے میں یہودی مقتولین کی لاشیں خاک و خون میں لتھڑی پڑی تھیں۔ ان میں حضرت صفیہؓ کے محبوب والد، بھائی اور شوہر کی لاشیں بھی تھیں اور خاندان کے بعض دوسرے بزرگ بھی کٹے پڑے تھے۔ حضرت صفیہؓ نے حسرت سے ان لاشوں پر نظر ڈالی اور چپ کی چپ رہ گئیں۔ البتہ ان کی ساتھی بہن بے قابو ہو گئیں اور نہایت شدت سے گریہ وزاری اور سینہ کوبی شروع کر دی۔ جب حضرت بلالؓ نے انہیں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو سرکار دو عالمؐ اس عورت کی گریہ وزاری سے متاثر ہوئے۔ بی بی صفیہؓ تو خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئیں اور اس عورت کو حضورؐ نے دوسری طرف لے جانے کا حکم دیا اور پھر بلالؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’بلال تمہارے دل میں رحم نہیں ہے کہ ان عورتوں کو اس راستے سے اس لائے جہاں ان کے باپ اور بھائی کی لاشیں خاک و خون میں لتھڑی پڑی ہیں‘‘۔
جب مال غنیمت کی تقسیم ہونے لگی تو حضرت وحیہ کلبی نے حضرت صفیہؓ کو اپنے لیے پسند کیا۔ چوں کہ وہ تمام اسیران جنگ میں ذی وقعت تھیں۔ اس لیے بعض صحابہؓ نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ! صفیہ بنی قریظہ اور بنی نضیر کی رئیسہ ہے خاندانی وقار اس کے بشرے سے عیاں ہے۔ وہ آپ کے لیے موزوں ہے‘‘۔ حضورؐ نے یہ مشورہ قبول فرمالیا۔ وحیہ کلبیؓ کو دوسری لونڈی عطا فرما کر حضرت صفیہؓ کو آزاد کر دیا اور انہیں اختیار دیا کہ چاہے وہ اپنے گھر چلی جائیں یا پسند کریں تو آپؐ کے نکاح میں آ جائیں۔
حضرت صفیہؓ نے حضورؐ کے نکاح میں آنا پسند کیا اور ان کے حسب منشا حضورؐ نے ان سے نکاح کر لیا۔ صہبا کے مقام پر رسم عروسی ادا کی گئی اور وہیں دعوت ولیمہ بھی ہوئی۔ صہبا سے چلتے وقت حضورؐ نے انہیں خود اپنے اونٹ پر سوار فرما لیا اور خود اپنی عبا سے ان پر پردہ کیا۔ حضرت صفیہؓ کی عمر اس وقت سترہ برس کی تھی۔ اس نکاح کے بعد یہودی پھر مسلمانوں کے خلاف کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے۔
مدینہ پہنچ کر حضرت صفیہؓ کو حضورؐ نے حضرت حارث بن نعمان انصاریؓ کے مکان پر اتارا۔ ان کے حسن و جمال کا شہرہ سن کر انصار کی عورتیں اور دوسری ازواج مطہراتؓ انہیں دیکھنے آئیں۔ جب دیکھ کر جانے لگیں تو حضورؐ ان کے پیچھے چلے اور حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا: عائشہ تم نے اس کو کیسا پایا؟‘‘
جواب دیا ’’یہودیہ ہے‘‘
حضورؐ نے فرمایا : ’’یہ نہ کہو۔ وہ مسلمان ہو گئی ہے اور اس کا اسلام اچھا اور بہتر ہے‘‘
حضرت صفیہؓ نہایت حلیم الطبع، خلیق، کشادہ دل، سیر چشم اور صابر تھیں۔ جب وہ ام المومنین کی حیثیت سے مدینہ تشریف لائیں اور حضرت فاطمہ الزہراؓ انہیں دیکھنے آئیں تو انہوں نے اپنے بیش قیمت طلائی جھمکے اپنے کانوں سے اتار کر حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو دے دیے اور ان کی ساتھی خواتین کو بھی کوئی نہ کوئی زیور دیا۔
حضورؓ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے اور ان کی دل جوئی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک بار سفر میں ازواج مطہرات ساتھ تھیں اتفاق سے حضرت صفیہؓ کا اونٹ بیمار ہو گیا۔ وہ بہت غمگین اور پریشان ہوئیں۔ حضورؐ نے خود تشریف لا کر ان کی دل جوئی کی اور حضرت زینب بنت جحشؓ سے فرمایا: ’’زینب تم صفیہ کو ایک اونٹ دے دو‘‘
حضرت زینبؓ بہت سخی اور با مروت تھیں لیکن نہ معلوم کیوں ان کی زبان سے نکل گیا۔
’’یا رسول اللہ کیا میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ دے دوں‘‘۔
یہ کلمہ رسول کریم ﷺ کو پسند نہ آیا اور آپ نے نا راضگی کا اظہار فرمایا۔
ایک بار نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو حضرت صفیہؓ رو رہی تھیں۔ وجہ دریافت کی تو کہا: ’’عائشہؓ اور زینبؓ کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج سے افضل ہیں کیوں کہ بیوی ہونے کے علاوہ ہم حضورؐ کے قرابت دار بھی ہیں لیکن تم یہودن ہو‘‘۔ حضورؐ نے حضرت صفیہؓ کی دل جوئی کے لیے فرمایا:
اگر عائشہؓ اور زینب ؓ کہتی ہیں کہ ان کا خاندان نبوت سے تعلق ہے تم انہیں یہ کہہ دینا کہ میرے باپ ہارونؑ اور میرے چچا موسیٰؑ اور میرے شوہر محمدؐ ہیں‘‘۔
ایک دفعہ کسی بات پر حضورؐ حضرت صفیہؓ سے ناخوش ہو گئے۔ حضرت صفیہؓ حضرت عائشہ کے پاس گئیں اور کہا ’’آپ جانتی ہیں کہ میں اپنی باری کسی چیز کے معاوضے میں نہیں دے سکتی لیکن اگر آپ سرور عالمؐ کو مجھ سے راضی کردیں تو میں اپنی باری کا دن آپ کو دیتی ہوں‘‘حضرت عائشہؓ اس کام کے لیے تیار ہو گئیں اور زعفران کی رنگی ہوئی ایک اوڑھنی لے کر اس پر پانی چھڑا تاکہ اس کی خوشبو مہک جائے۔ اس کے بعد حضورؐ کی خدمت میں تشریف لے گئیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ عائشہؓ یہ تمہاری باری کا دن نہیں‘‘۔
بولیں۔ ’’یہ خدا کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے‘‘
پھر تمام واقعہ حضورؐ کو سنایا اور حضورؐ حضرت صفیہؓ سے راضی ہوگئے۔
حضرت صفیہؓ کو سرور عالم ﷺ سے بے حد محبت تھی۔ حضورؐ کے مرض الموت میں تمام ازواج مطہرات حضورؐ کی عیادت کے لیے حضرت عائشہؓ کے حجرے میں تشریف لائیں، حضرت صفیہؓ نے حضورؐ کو بے چین دیکھا تو عرض کیا ۔ ’’یا رسول اللہ کاش آپ کی بیماری مجھے ہو جاتی‘‘ دوسری ازواجؓ نے ان کی طرف دیکھا۔ تو حضور نے فرمایا : ’’واللہ وہ سچی ہے‘‘ یعنی ان کا اظہار عقیدت نمائشی نہیں بلکہ سچے دل سے وہ یہی کہتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ میں نے کوئی عورت صفیہؓ سے اچھا پکانے والی نہیں دیکھی۔
حضرت عمر فاروقؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت صفیہؓ کی ایک لونڈی نے امیر المومنین سے شکایت کی کہ ام المومنینؓ میں ابھی تک یہودیت کی بو پائی جاتی ہے۔ کیوں کہ وہ اب بھی ہفتہ (سبت) کو اچھا سمھتی ہیں اور یہودیوں سے دلی لگاو رکھتی ہیں۔
حضرت عمرؓ تحقیق احوال کے لیے خود ام المومنین صفیہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے جواب دیا : ’’جب سے خدا نے مجھے سبت (ہفتہ) کے بدلے جمعہ عنایت فرمایا تو ہفتہ کو دوست رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ ہاں یہودیوں سے بے شک مجھے لگاو ہے کہ وہ میرے قرابت دار ہیں اور مجھے صلہ رحمی کا خیال رکھنا پڑتا ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ ام المومنینؓ کی حق گوئی سے بہت خوش ہوئے اور واپس تشریف لے گئے۔
اس کے بعد حضرت صفیہؓ نے لونڈی کو بلا کر پوچھا ’’تجھے امیر المومنین کے پاس میری شکایت کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ‘‘۔
اس نے کہا ’’مجھے شیطان نے بہکایا تھا‘‘۔
ام المومنین نے فرمایا : ’’جا میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کیا‘‘۔
علم و فضل میں حضرت صفیہؓ کا مرتبہ بلند تھا۔ کوفہ کی عورتیں اکثر ان کےپاس مسائل دریافت کرنے آتی تھیں۔ وہ بے حد درد مند تھیں۔ جب ۳۵ ہجری میں خلیفہ سوم حضرت عثمان ذو النورینؓ کے مکان کا مفسدوں نے محاصرہ کرلیا تو ان کو بہت رنج ہوا، ضعیف العمر امیر المومنینؓ کی مصیبت نے انہیں بے چین کر دیا۔ انہوں نے ایک غلام کو ساتھ لیا اور اپنے خچر پر سوار ہو کر حضرت عثمانؓ کے مکان کی طرف روانہ ہوئیں۔ اشتر نخعی نے ان کے غلام کو دیکھ کر پہچان لیا اور آگے بڑھ کر خچر کو مارنا شروع کردیا۔ چوں کہ حالات بگڑے ہوئے تھے اور اشتر نخعی کے مقابلہ میں کامیابی مشکل تھی اس لیے وہ مصلحتاً واپس چلی گئیں اور حضرت حسن بن علی مرتضیؓ کے ہاتھ حضرت عثمانؓ کو کھانا بھیجا۔
حضرت صفیہؓ نے رمضان المبارک ۵۰ ہجری میں ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ انہوں نے اپنا ذاتی مکان اپنی زندگی میں راہ خدا میں دےد یا تھا۔ البتہ ترکہ میں ایک لاکھ درہم نقد چھوڑے اور اس کے ایک تہائی کی وصیت اپنے یہودی بھانجے کے لیے کی۔ لوگوں نے اس کا حصہ دینے میں تامل کیا۔ حضرت عائشہؓ نے سنا تو کہلا بھیجا ’’لوگو اللہ سے ڈرو اور صفیہؓ کی وصیت پوری کرو‘‘۔
ان کے ارشاد کے مطابق وصیت کی تعمیل کردی گئی
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)
***
حضرت صفیہؓ نہایت حلیم الطبع، خلیق، کشادہ دل، سیر چشم اور صابر تھیں۔ جب وہ ام المومنین کی حیثیت سے مدینہ تشریف لائیں اور حضرت فاطمہ الزہراؓ انہیں دیکھنے آئیں تو انہوں نے اپنے بیش قیمت طلائی جھمکے اپنے کانوں سے اتار کر حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو دے دیے اور ان کی ساتھی خواتین کو بھی کوئی نہ کوئی زیور دیا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 14 نومبر تا 20 نومبر 2021