سیرت ابراہیم علیہ السلام:اللہ پر توکل اور حُبّ الٰہی کا درس

مستحکم اسلامی خاندان اور اولاد کی تربیت کا عملی پیغام

خان مبشرہ فردوس ، اورنگ آباد

 

واقعہ ابراہیم پر کچھ دیر غور کریں تو وقت کے ساتھ تیزی سے گزرتی ہوئی زندگی سوچنے پر مجبور کردیتی ہے ۔کیوں ؟کیسے اور کب اور کن حالات میں ایک شخص کی آزمائش مکمل ہوجاتی ہے ۔
آزمائش کی تکمیل کیا ہے ۔؟
کس درجہ رب سے محبت کا تقاضہ ہے۔۔؟؟
کونسی سطح پر محبت عشق میں بدل کر دنیا کی ہر طمع سے بے نیاز کردیتی ہے ۔؟
کونسے پائے کی سعی رہتی دنیا تک کے لیے دوام کا سبب بنی تھی ۔۔؟؟
کیا یہ دعا تھی جو پورے احساس کے ساتھ کی گئی تھی ۔
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا
اور یہ کہ ابراہیمؑ نے دعا کی ’’اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے‘‘
کونسا نشہ تھا جو والدین نے پیا تو اسکے اثرات اولاد کی تربیت میں بھی نظر آتے ہیں ۔۔۔؟؟
کیا تڑپ تھی جس میں اپنے رب سے پوچھا گیا تھا کہ ’’کیا یہ وعدہ میری اولاد کے ساتھ بھی ہے ‘‘۔
ہاں والدین ایسے ہی ہیں انکی تڑپ یہی ہے جب انہیں خوش خبری دی گئی تو فورا سوال۔کیا کہ یہ وعدہ میری اولاد کے ساتھ بھی ہے ۔؟
کونسی دعا ہے مستجاب ہوکر ایک سنسان وادی کو پر امن شہر میں بدل دیتی ہے ۔۔؟؟
کونسی بے قراری و سعی و جہد دنیا کے مثال بن جاتی ہے ۔۔؟؟
ان باتوں پر غور کریں تو ممکن ہے کہ اس کے عشرِ عشیر کو ہی سہی ہم پہنچ سکیں ۔۔۔کتنے سوال ہے جو ہمارے سامنے سوچ کے در کھولتا ہے
روحانیت کے اس معراج کا بھلا کون تصور کرسکتا ہے کوئی ہے جو کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے اسکی تلاش جب تکمیل کو پہنچتی ہے تو لا” کی کلہاڑی ہر معبودان باطل کو مسمار کردیتی ہے ۔۔دل کا بت مسمار ہوتے ہی سبھی طبع زاد بت پر بھی کاری ضرب پڑتی ہے ۔
ہم اپنے دل میں بیٹھے ان بتوں کا جائزہ لیں کہ روئے زمین پر اس درجے کے ایمان کی کتنی ہم نے سعی کی ہے ۔؟
خوف کا بت،، مستقبل کابت،، زر و دولت کا بت،، شہرت کا بت،، غالبہ پانے کا بت،، یہ کب ہمارے دلوں کو آزاد کرے گا۔؟
’’ وہی کامیاب ہوا جس نے اللہ پر پورے شعور کے ساتھ ایمان رکھا‘‘
جب ہر بت پاش پاش ہو تو پھر کونسی خدائی کا خوف غالب آسکتا ہے ۔۔نمرود کی جھلسادینے والی آگ بھی ایمان کی کسوٹی پر ایک خراش کی بھی حیثیت نہیں رکھتی ۔
ملک و وطن کو چھوڑنے پر اگر کوئی چیز مجبور کرتی ہے تو وہ دنیا کی مال و متاع،، شہرت،، اور عظمت نہیں بلکہ رب کائنات کا عشق ہے
’’اے میرے رب مجھے پاک اولاد عطا فرما۔‘‘ (ال عمران)
اور خلیل اللہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی آنے والی نسلوں کو نیک بنانے کی یوں دعا مانگی، مفہوم: ’’ اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور میری اولاد کو۔‘‘ (سورۂ ابراہیم)
دعا کی قبولیت میں بڑھاپے تک صبر کرنا پڑا ۔ہم اپنی دعاؤں کی عجلت کا جائزہ لیں اور اس ایمان کا جس میں آزمائش سے گھبرا کر ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں کہ اے رب باطل کو آج اور ابھی نیست و نابود کر
کیا کبھی ان مقدس دعاؤں کی قبولیت کے دورانیہ کا جائزہ لیا یا دعا کے مستجاب ہونے کی حکمت کا جائزہ لیا ۔؟
یہ بھی واضح ہے کہ ابراہیم علیہ سلام نے ہاجرہ کو وہی ربِ کریم سے عشق، وہی جذبہ ایمانی،، توکل کے ساتھ ساتھ وہی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت،، راضی بہ رضا رہنے کی قوت،، خوشنودی رب کے لیے فنا ہوجانے کا احساس ،احساسِ ذمہ داری ۔ایک استاد کی طرح سکھادی پھر ذمہ دار ہاتھوں جب وہ اس قابل ہوئیں کہ تربیت کا بوجھ سہار سکیں تب اولاد رب نے عطا فرمائی ۔۔۔اللہ اپنی حکمت کے ساتھ بندے کی دعا کو ثمر آوار بنا دیتا ہے،،
پھر ٹھہر کر سوچیں کہ ہم کس بے دردی کے ساتھ اولاد جیسی نعتِ خداوندی کو ضائع کرتے ہیں،،
ہمیں اولاد تفاخر ِ معاشرہ کے لیے چاہیے، ہم نے کبھی نسلوں کو ذمہ دار ہاتھوں میں سونپنے کی سعی سرے سے کی ہی نہیں ۔۔۔۔کس مرد نے بھلا یہ تصور کیا کہ میری نسل جن ہاتھوں میں سنورنے والی ہے ان ہاتھوں میں پہلے ایمان کا پیالہ تھمادوں ۔
اس دماغ کو میں حّب للہ سے بھر دوں تاکہ میری نسلوں کی دنیا و آخرت سنور سکے ۔
یاد رہے وفا شعاری،، اخلاقیات،، امن پسندی،، مثبت سوچ،، جذبہ قربانی یہ خدا خوفی خاندانی استحکام کی بنیاد ہے اور یہ نسلوں میں والدین سے منتقل ہوتی ہے ۔۔۔ہمیں تلاش ہوتی ہے مال و دولت کی , ناک نقشے اور رنگ کی،، دوامی چیزوں پر ہم نے ہمیشہ فوقیت دی ہے فانی چیزوں کو ۔
یہ وہ خاندان ہے جس نے اپنا رخ سب طرف سے پھیر کراس کی جانب کیا تو کیسے کیا کہ اہل خانہ کا بھی رخ اپنے سربراہ کے ساتھ اس خالقِ کائنات کی طرف تھا ۔
اسی قوت ایمانی کا عنصر جہاں حضرت ابراہیم کا حصہ تھا، وہیں بی بی ہاجرہ کا بھی تھا اور وہی منتقل ہوا حضرت اسمعیل میں۔
جب خبر دی جاتی ہے
’’میرے رب کا حکم ہے میں یہاں سے سفر کروں‘‘
بی بی ہاجرہ سوال کرتی ہیں :
’’ کس کے بھروسے ہمیں چھوڑے جارہے ہو۔۔؟؟‘‘
جواب ملتا ہے ’’ربِ کائنات کے بھروسے جو سب کا خالق ہے،،
پھردعا کی جاتی ہے پہلی دعا کی طرح ایک طویل انتظار کے لیے توکل تھا کہ دعا کی قبولیت لازماً ہوگی اور اپنی پوری رحمت کے ساتھ ہوگی ۔’’اے میرے رب ان کی حفاظت فرما‘‘۔
بے آب وگیا میدان میں صحرا کے حوالے جب دو نفوس کو کیا تو احساس تھا کہ میرا رب انہیں ضائع نہیں کرے گا۔۔باپ جاتے ہوئے سب کو نظر آتا ہے اسکے دل میں چل رہی دعاؤں کا تو رب ہی گواہ ہوسکتا ہے ۔
ماں کی سعی و جہد کو ایک طرف دیکھیں کوئی ہائے واویلہ نہیں کوئی سطحی حرکت نہیں ۔۔۔بچے کے لیے پانی کی تلاش کو ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔
دنیا کی ساری ماؤں کا سر نگوں ہوجاتا ہے اس ماں کی تگ ودو کے سامنے ہر ایک ماں کا جو آج بھی اپنے بچوں کی انگلی تھامے اسکول پہنچانے پیدل چلی آرہی ہوتی ہے،،
ہر اس ماں کی بھی جو صبح گھروں کے برتن دھو کر باسی کھانا پلو میں پکڑے اپنے بچوں کے لیے لے جاتی ہے اور چمکتی آنکھوں سے ان بچوں کی خوشی تلاش کررہی ہوتی ہے ۔
ہر اس ماں کا بھی جو بچوں کو کھانا کھلا کر سمجھ لیتی ہے کہ وہ خود بھی
کھا چکی۔۔
ہر اس ماں کا بھی جو حالت جنگ میں اپنے بچوں کو دعاؤں کے حصار میں گھر سے نکلتے ہوئے بے شمار واہموں کو سنبھالے تڑپ کر رہ جاتی ۔
ہر اس ماں کا بھی سر نگوں ہوتا ہے بی بی ہاجرے کی سعی پر جو اپنے بچوں کے جیل سے رہائی پر ہاتھ اٹھا اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھ کر اپنی دعا کے مستجاب ہونے کی منتظر ہے ۔
ان سب ماؤں کے علاوہ بھی وہ مائیں جو سعی و جہد میں جہاں بی بی ہاجرہ سے کم پڑتی ہیں وہ جذبہ قربانی میں جو اسماعیل کو منتقل ہوا وہ جذبہ قربانی تھا ۔۔جس کے عوض زم زم عطا ہوتا ہے ۔
توکل تھا اس سعی کے دوران کوئی دہائی شوہر کو نہیں دی گئی ۔
بے قراری کے ساتھ صرف ایک غلبہ تھا کہ تو میرے بچے کو ضائع نہیں کرے گا ۔
ہمارے پاس آزمائشیں ہیں اس سے انکار نہیں ۔
ماؤں کے پاس سعی و جہد کی کیفیت بھی ہے اس سے بھی انکار نہیں ۔۔۔لیکن آہ و بکا ۔۔نالا و فریاد بھی ساتھ ساتھ ہے وہی رب سے شکوہ ہے ۔دوسروں پر رشک ہے ۔۔۔طنز ہے طعن و تشنیع ہے،، دوسروں سے حسد ہے آزمائش کو عذاب سمجھنا ہے ،، خوش دلی خلوص سے عاری سعی جو ہماری لگن کو متاثر کرتا ہے ہمارے خلوص ربِ کو پراگندہ کردیتا ہے ۔۔ہم ایمان کے اس مقام کو پہنچنے میں کہیں کم ضرور رہتے ہیں جہاں صبر کی کیفیت پیدا کریں وہیں خیال رہے
ہم کم کہاں رہ جاتے ہیں ۔؟
وہ صبر جس میں اپنے مسائل سے نکلنے کی سعی بغیر کسی شکایت کی جاتی ہے۔جہاں اپنے شوہر کی دعا اور توکل پر مکمل بھروسہ ہوتا ہے
کہاں شکایتوں کی وجہ سے فیمیلی میں دراڑھ پڑ جاتی ہے
کہاں والدین کے دل سے الوہیت ختم ہوجاتی ہے ۔کہاں نسلیں ہمیں خدا کی امانت کم اور دنیا کا تفاخر زیادہ نظر آتی ہے ۔
اور ہماری نسلوں میں بھی عشق ِ رب کی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی ہے جب وہ اپنی زندگی کو رب کی امانت سمجھنے لگتے ہیں ۔
اور پھر وہ وقت ہماری زندگی میں آ نہیں پاتا ہے جو تاریخ میں دوام پانے والا لمحہ ہے جب باپ کے خواب پر بیٹا کہنے لگتا ہے
’’ آپ وہ کیجیے جس کا حکم آپ کو دیا گیا‘‘
یہ جواب آپ کو یہ نہیں سمجھاتا کہ یہ بچہ خواب میں احکام کی نوعیت سے واقف ہے یہ بچہ تعلیم و تربیت کے لحاظ سے اپنے ویژن میں بالکل کلئیر ہے اس بچے کی تربیت میں فرمانبرداری کا غلبہ ہے ۔
ان سب باتوں پر غور کریں تو آپ کو زندگی تربیت کے ہر مرحلے پر یہ واقعہ رہنمائی کرسکتا ہے جب سوچیں گےجب ہماری کیفیت یہ پیدا ہو کہ ہماری سعی و جہد میں یہ اخلاص یہ ایمانی تصور پیداہوا وہیں ہمیں بچوں کے اندر بھی رب کی مشیت پر سرنگوں ہونے کی کیفیت پیدا کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔۔۔مجھ کو ہمیشہ ہی یہ لگا کہ حضرت ابراہیم کا واقعہ اسلامی خاندان کے استحکام کا نمونہ ہے، بچوں تربیت کے والدین کو ایک عملی پیغام ہے، دنیا کی بے ثباتی اور جذبہ عشق کا اعلی نمونہ ہے ۔
یہ ایک قربانی اپنے پیچھے مضبوط خاندان کے مضبوط اعلی نظام کا مرصع ہے۔
کبھی ہم جانور گوشت اور قربانی کے اس روح کو کہیں ہم نے زبان کی لذتوں میں کھودیا ۔۔۔قربانی تو، صلہ ہے ۔۔انعام ہے ۔۔اس انعام سے پہلے کی سعی و جہد اور احساسِ ذمہ داری،، رب سے عشق،، اور پوری زندگی کو رب کی خوشنودی کے محور پر گردش کروانا یہ اصل پیغام ہے۔

وفا شعاری، تقویٰ، اخلاقیات،امن پسندی، مثبت سوچ اور جذبہ قربانی وہ چیز ہے جو خاندان کے استحکام کی بنیاد ہوتی ہے اور یہ نسلوں میں والدین سے منتقل ہوتی ہے۔ہمیں تلاش ہوتی ہے مال و دولت کی ۔۔۔ناک نقشے اور رنگ کی۔ دوامی چیزوں پر ہم نے ہمیشہ فانی چیزوں کوفوقیت دی ہے۔