سيرت صحابيات سيريز(32)

حضرت ام خالد بنت خالد بن سعيدؓ

عظيم صحابيہ جنھوں نے رسولؐ اللہ کو شاہ حبش کا سلام پہنچايا تھا
غزوہ خيبر کے بعد کا ذکر ہے کہ ايک دفعہ سرور عالمﷺ کو کہيں سے تحفے ميں ايک پھول دار سياہ چادر آئي۔ حضورؐ نے فرمايا: يہ چادر کس کو دوں؟ لوگ چپ رہے۔ ان کي خاموشي کا مطلب يہ تھا کہ حضورؐ جس کو چاہيں وہ چادر دے ديں۔ حضورؐ نے فرمايا: ام خالد کو بلاو‘‘ ايک صاحب دوڑے ہوئے گئے اور حضرت ام خالدؓ کو بتايا کہ رسول اللہ ﷺ ان کو ياد فرمارہے ہيں۔ وہ فوراً بارگاہ رسالتؐ ميں حاضر ہوئيں۔ رحمت عالمﷺ نے نہايت محبت اور شفقت سے وہ چادر ان کو مرحمت فرمائي اور ساتھ ہي دو دفعہ فرمايا : پہنو اور پراني کرو‘‘۔
پھر حضورؐ نے چادر کے بوٹوں پر ہاتھ کر حضرت ام خالدؓ کو دکھاتے اور فرماتے ’’ام خالدؓ ديکھو يہ سنہ ہے يہ سنہ ہے۔ حبشي زبان ميں ’’سنہ‘‘ کے معني ہيں ’’خوشنما‘‘ ام خالد حبشي زبان جانتي تھيں۔ وہ سرور عالم ﷺ کي زبان مبارک سے يہ الفاظ سن کر باغ باغ ہوئي جاتي تھيں۔
يہ ام خالد جن پر رحمت عالمﷺ اس قدر شفقت فرماتے تھے۔ جليل القدر صحابي حضرت خالد بن سعيد بن العاصؓ کي صاحبزادي تھيں۔
حضرت ام خالدؓ کا اصل نام امۃ تھا، وہ قريش کے نامور خاندان بنو اميہ سے تھيں۔ سلسلہ نسب يہ ہے:
ام خالد امۃ بنت خالد بن سعيد بن العاص بن اميہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي۔ والدہ کا نام امينہؓ يا ہمينہ بنت خلف بن اسعد بن عامر تھا۔ ان کا تعلق بنو خزاعہ سے تھا۔ حضرت خالدؓ کے والد اور والدہ دونوں دعوت حق کے ابتدائي زمانے ميں ہي مشرف اسلام سے بہرہ ياب ہوگئے اور دوسرے سابقون الاولون کي طرح راہ حق ميں بڑي مصيبتيں جھيليں۔ بعد بعثت ميں سرور عالمؓ نے صحابہ کرام کو کفار کے مظالم سے بچنے کے ليے حبش چلے جانے کا مشورہ ديا۔ چناں چہ چند صحابہ کرامؓ اسي سال ہجرت کرکے حبش چلے گئے۔
اگلے سال (6 ھ بعد بعثت ميں) مظلوم صحابہؓ کے ايک بڑے قافلے نے حبش کي طرف ہجرت کي۔ اس قافلے ميں حضرت خالد بن سعيد بن العاصؓ اور ان کے بھائي حضرت عمرو بن سعيد بن العاصؓ بھي شامل تھے۔ ان کے ساتھ ان کي بيوياں امينہؓ اور فاطمہ بنت صفوان بھي تھيں۔ حضرت خالد بن سعيد غزوہ خيبر تک حبش ميں مقيم رہے۔ ان کے قيام حبش ہي کے زمانے ميں حضرت ام خالد امۃؓ کي ولادت ہوئي۔ انھوں نے جس گھرانے ميں آنکھ کھولي۔ اس پر پہلے ہي نوراسلام جلوہ فگن تھا۔ اس ليے وہ پيدائشي مسلمان تھيں۔ علامہ ابن اثيرؒ کا بيان ہے کہ حضرت ام خالد ؓ کے ايک بھائي بھي حبش ميں پيدا ہوئے۔ ان کا نام سعيد ؓ تھا۔ دونوں بہن بھائي شرف صحابيت سے بہرہ ور ہوئے۔ حضرت سعيدؓ نے حضرت ابوبکرصديقؓ کے عہد خلافت ميں شام کے ايک معرکے ميں باپ کے سامنے ہي شہادت پائي۔
مہاجرين حبشہ سے کچھ اصحاب تو مختلف اوقات ميں سرو ر عالمﷺ کي ہجرت الي المدينہ سے پہلے مکہ واپس آگئے ليکن بيشتر حبش ہي ميں رہے اور جنگ خيبر کے موقع پر حضرت جعفر بن ابي طالبؓ کے ساتھ مدينہ منورہ واپس آئے۔ حضرت خالد بن سعيدؓ ان کے اہل و عيال اور دوسرے اہل خاندان بھي انہي اصحاب ميں شامل تھے۔
حضرت ام خالد ؓ اس وقت سن شعور کو پہنچ چکي تھيں، جس وقت يہ لوگ حبشہ سے روانہ ہونے لگے تو نجاشي شاہ حبشہ نےنہايت عقيدت کے ساتھ ان کو پيغام ديا کہ تم سب اللہ کے رسول ؐ کو ميرا،سلام پہنچادينا۔
حضرت ام خالدؓ فرمايا کرتي تھيں کہ ميں بھي ان لوگوں ميں شامل تھي۔ شاہ حبشہ نے رسول اللہﷺ کے ليے پيغام سلام ديا تھا چناں چہ ميں نے بھي دوسرے مسلمانوں کے ساتھ حضور کو نجاشي کا سلام پہنچايا ہے۔
مدينہ منورہ آنے کے بعد حضرت ام خالدؓ کا نکاح حضورؐ کے پھوپھي زاد بھائي حضرت زبير بن العوامؓ سے ہوا۔ ان کے صلب سے دو بيٹے خالد اور عمر اور تين بيٹياں حبيبہ، سودہ اور ہند پيدا ہوئيں۔
سرور عالم ﷺ حضرت ام خالد پر بڑي شفقت فرماتے تھے۔ ايک مرتبہ وہ اپنے والد ماجد کے ہم راہ حضورؐ کي خدمت ميں حاضر ہوئيں۔ اس وقت انھوں نے سرخ کرتہ پہن رکھا تھا۔ حضور اسے ديکھ ار ازراہ خوش طبعي فرمايا: ’’سنہ سنہ‘‘ بہت خوب صورت بہت خوب صورت۔ حبشي زبان ميں يہ الفاظ حضور ﷺ نے ام خالد ؓ کو خوش کرنے کے ليے فرمائے۔ اسي طرح ايک اور موقع پر حضورؐ نے حضرت ام خالدؓ کو بہ طور خاص بلاکر ايک خوب صورت چادر عنايت فرمائي اور اس قت بھي ان کو خوش کرنے کے ليے يہي الفاظ کہے۔
حضرت ام خالد کا سال وفات معلوم نہيں ہے۔ ان سے چند احاديث مروي ہيں۔ روايوں ميں کريب بن سليمان کنديؓ، موسي بن عقبہؒ اور ابراہيم بن عقبہ وغيرہ شامل ہيں۔
رضي اللہ تعاليٰ عنہا
(طالب الہاشمي کي کتاب تذکارصحابياتؓ سے ماخوذ)

 

***

 سرور عالم ﷺ حضرت ام خالد پر بڑی شفقت فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ اپنے والد ماجد کے ہم راہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اس وقت انھوں نے سرخ کرتہ پہن رکھا تھا۔ حضور اسے دیکھ ار ازراہ خوش طبعی فرمایا: ’’سنہ سنہ‘‘ بہت خوب صورت بہت خوب صورت۔ حبشی زبان میں یہ الفاظ حضور ؐ نے ام خالد ؓ کو خوش کرنے کے لیے فرمائے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  29 مئی تا 04 جون  2022