اردو نظم ميں مناظر فطرت

قطب شاہي دَور سے گلوبل وارمنگ تک

صفحات324 :
قيمت175/- :
سنہ اشاعت 2019 :
ناشر: عرشيہ پبلي کيشنز، A-170 سوريہ اپارٹمنٹ، دلشاد کالوني، دہلي 110095-
مصنفہ : اکٹر صبيحہ ناہيد
تبصرہ : محمد عارف اقبال

’گلوبل وارمنگ‘ موجودہ عہد کي ايسي سائنسي اصطلاح ہے جس کا مفہوم اب ايک عام طالب علم بھي خوب سمجھنے لگا ہےکہ اس کے حوالے سے پوري دنيا کے ماحول اور فضا (Environment) پر کيا اثرات مرتب ہو رہے ہيں؟ اس فکر ميں دنيا کے بڑے ممالک بھي گھلتے جارہے ہيں۔ ماحوليات کے تحفظ کو يقيني بنانے کے ليے عالمي حکومتوں کي سطح پر بين الاقوامي کانفرنسز کا انعقاد اس بات کا پتہ ديتا ہے کہ کرہ ارض پر سورج کي غير معمولي تمازت کا احساس، جنگلات کا خاتمہ، نديوں کا خشک ہونا، سيلاب اور ہول ناک طوفان کا وقوع پذير ہونا، موسم کي غير معمولي تبديلي اور اس کے ساتھ ہي فضائي آلودگي (Pollution) کے سبب ذي روح اور غير ذي روح پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات نے قيامت سے قبل آثار قيامت کے احساس کو گہرا کرديا ہے۔
دنيا کي تمام زبانوں کے ادب ميں اديب اور شاعر کے حساس دل اور نازک مزاجي کا ذکر ملتا ہے۔ ہر شاعر کے موضوعات ميں ’مناظر فطرت‘ کو اہم مقام حاصل رہا ہے۔ اس حوالے سے اردو شاعري ابتدا سے مالا مال رہي ہے۔ بارش کے قطرے، سرسبز وادي، ستاروں کي ٹمٹماہٹ، سمندر اور ندي کي لہريں، بادِ نسيم اور باد بہار، فطرت کا شايد ہي کوئي ايسا منظر يا مناظر ہوں جن کو اردو شاعري کا موضوع نہ بنايا گيا ہو۔ ’صبح بنارس‘ اور ’شام اودھ‘ کا تصور اردو شاعري ہي کي دَين ہے۔ ايک انقلابي شاعر نے تو ’صبح‘ کي منظرکشي بڑے اچھوتے انداز ميں کي ہے۔ جوش مليح آبادي کا شعر ہے۔
ہم ايسے اہل نظر کو ثبوت حق کے ليے
اگر رسولؐ نہ ہوتے تو صبح کافي تھي
اردو شاعري کے موضوعات پر بےشمار تحقيقي مقالے لکھے گئے ہيں ليکن زيرنظر کتاب کا عنوان ’اردو نظم ميں مناظر فطرت‘ تمام موضوعات ميں کمياب ہے۔ ڈاکٹر صبيحہ ناہيد کا تعلق بہار کے ويشالي ضلع کے قصبہ ’درگاہ بيلا‘ سے ہے۔ يہ ضلع پہلے مظفرپور کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے متھلا يونيورسٹي (دربھنگہ) سے اردو ميں ايم اے اور بي ايڈ کي ڈگرياں حاصل کي تھيں۔ ازدواجي زندگي کے آغاز کے ساتھ ہي دلّي ان کا وطن ثاني بن گيا۔ ان کے شوہر مسٹر اے يو آصف انگريزي اور اردو کے سينئر صحافي اور پريس کلب آف انڈيا کے ڈائرکٹر ہيں۔ ڈاکٹر صبيحہ ناہيد نے اپنے بچوں کي معقول پرورش کے ساتھ ذوق مطالعہ کو کبھي معدوم نہيں ہونے ديا۔ ادبي، سماجي، تاريخي موضوعات پر مضامين کے ساتھ انھوں نے کئي درجن کتابوں پر تبصرے بھي تحرير کيے ہيں۔ ’اردو بک ريويو‘ کے ليے انھوں نے خاص طور پر کتابوں پر ريويوز لکھے۔ اپنے ذوق مطالعہ کو جلابخشتے ہوئے جب انھوں نے جامعہ مليہ اسلاميہ، نئي دہلي ميں پي ايچ-ڈي کے ليے رجسٹريشن کرايا تو ان کے حوصلے کي سلامتي کے ليے سب نے دعا کي کيونکہ شوہر اور بچوں کي نگہداشت اور گھر کي تمام تر ذمہ داريوں کو ادا کرتے ہوئے پي ايچ-ڈي کرلينا بچوں کا کھيل نہيں ہے۔ زيرنظر کتاب اسي تحقيقي مقالے کي اپڈيٹيڈ ورژن ہے، جس پر ان کو پي ايچ-ڈي کي ڈگري دوسال قبل شعبہ اردو، جامعہ مليہ اسلاميہ، نئي دہلي کي سفارش پر يونيورسٹي نے ايوارڈ کي۔
’اردو نظم ميں مناظر فطرت‘ کا مطالعہ قطب شاہي دَور سے گلوبل وارمنگ تک آسان نہيں۔ اس مطالعے کا خاص پہلو يہ بھي ہے کہ صبيحہ ناہيد نے اردو شاعري کو عصر سے ہم آہنگ کرديا ہے۔ ’مناظرفطرت‘ کا نازک اور لطيف احساس شاعر کے ذہن و قلب ميں ہوتا ہے۔ ليکن ايک صدي قبل کے کسي شاعر نے يہ گمان بھي نہ کيا ہوگا کہ وہ جن فطري مناظر کي تعريف و توصيف کر رہا ہے، آنے والا زمانہ انہي مناظر فطرت کو ديکھنے اور محسوس کرنے کو بھي ترسنے لگے گا۔
اس کتاب کو مصنفہ نے 6 ابواب ميں تقسيم کيا ہے۔ باب اول ميں ’منظر نگاري کے مختلف ادوار‘ کا تذکرہ و تجزيہ ہے۔ ليکن اس سے قبل اپنے ’پيش لفظ‘ ميں انھوں نے اس کتاب کے محرک پر اس طرح روشني ڈالي ہے۔
’’شعرا حضرات نے اپنے کلام کے ذريعے ہر دور ميں پائي جانے والي مختلف آلودگيوں کو دور کرنے کے ليے قلم اٹھايا۔ قلي قطب شاہي سے لے کر نظم جديد کي تحريک نيز آزادي کے بعد تک سياسي، سماجي، معاشي، معاشرتي و تہذيبي آلودگيوں کو دور کرنے کي کوشش اپنے فکر و فن کے ذريعے کي ہے۔ موجودہ دور ميں ان آلودگيوں کے علاوہ ايک ہول ناک قسم کي آلودگي ’فضائي آلودگي‘ ہے۔ ضرورت اس بات کي ہے کہ اس آلودگي کو دور کرنے کي بھي اسي اسپرٹ (Spirit) کے ساتھ کوشش ہمارے شعرا کو کرني چاہيے جيسا کہ ماضي ميں مختلف قسم کي آلودگيوں کے ليے کي جاتي رہي ہے۔ يہي جذبات ميري اس کتاب کا محرک ہيں۔ ‘‘ (صفحہ 12-13)
ڈاکٹر صبيحہ ناہيد کے تحقيقي مقالے کے نگراں ڈاکٹر کوثر مظہري نے بھي اپنے ’تاثر‘ ميں بجاطور سے لکھا ہے۔
’’روئے زمين پر پيڑ پودوں، پہاڑوں اور درياؤں سے جو ماحولياتي توازن پيدا ہوتا ہے، اس حقيقت سے بھي آج کے شعرا کو واقف ہونے اور اس جانب توجہ دينے کي ضرورت ہے۔ صبيحہ ناہيد کي يہ کتاب اس کام کے ليے شعرا اور نقاد دونوں کے ليے مہميز کا کام کرے گي۔‘‘ (صفحہ 16)
’منظرنگاري کي ابتدا‘ کے عنوان سے صبيحہ ناہيد نے لکھا ہے۔
’’دکن کے شعرا نے مناظر فطرت کو زيادہ صاف اور واضح لفظوں ميں پيش کيا ہے۔ انھوں نے منظر کو بيان کرنے ميں بيجا مبالغہ آرائي، تصنع اور تکلف سے پرہيز کيا ہے۔‘‘ (صفحہ 21-22)
’منظر نگاري کے مختلف ادوار‘ (صفحہ 17 تا 35) ميں مصنفہ نے بڑي عرق ريزي سے تاريخي اعتبار سے اردو شاعري کا تجزيہ کيا ہے۔ باب دوم ميں قطب شاہي دور کے دکن و شمالي ہند کے شعرا کا تذکرہ ہے۔ دکن کے شعرا ميں قلي قطب شاہ، عبداللّٰہ قطب شاہ، ملا وجہي، غواصي، ابن نشاطي، نصرتي، ولي گجراتي، سراج اورنگ آبادي اور شمالي ہند کے شعرا ميں فائز، سودا، ميرتقي مير، انشا، مير حسن، قائم چاند پوري، مير انيس، مرزا دبير کے تذکرے ہيں۔
باب سوم ميں انجمن پنجاب کے زيراثر کہي گئي نظموں کا تجزيہ ہے۔ اس ذيل ميں ’انجمن پنجاب‘ کے قيام اور پس منظر کے ساتھ انجمن کے مشاعروں اور شعرا کي منظر نگاري کو موضوع بحث بنايا گيا ہے۔ اس باب ميں محمد حسين آزاد اور خواجہ الطاف حسين حالي کا خصوصي تذکرہ ہے۔
باب چہارم کے تحت آزادي سے قبل کے دور کا احاطہ کرتے ہوئے ترقي پسند تحريک سے قبل کي نظموں ميں مناظر فطرت کا تجزيہ کيا گيا ہے۔ اس باب ميں نظير اکبرآبادي، اسمٰعيل ميرٹھي، اکبر الٰہ آبادي، سيماب اکبر آبادي، سرور جہاں آبادي، علامہ اقبال اور چکبست کے تذکرے شامل ہيں۔ ترقي پسند تحريک کے زيراثر کہي گئي نظموں ميں مناظر فطرت کے حوالے سے فراق گورکھپوري، جوش مليح آبادي، سجاد ظہير، اختر شيراني، اختر اورينوي، فيض احمد فيض، علي سردار جعفري، کيفي اعظمي، سلام مچھلي شہري کے تذکرے ہيں۔ اسي حوالے سے ’حلقہ ارباب ذوق‘ کے شعرا ميں ن م راشد، ميراجي، يوسف ظفر، قيوم نظر، ضيا جالندھري اور مختار صديقي کے اسمائے گرامي ہيں۔ ترقي پسند دور کے غير ترقي پسند شعرا کي نظموں ميں مناظر فطرت کا تجزيہ کرتے ہوئے مصنفہ نے افسر ميرٹھي، حفيظ جالندھري، جميل مظہري، سلام سنديلوي، احسان دانش، مجيد امجد اور اخترالايمان کے تذکرے شامل کيے ہيں۔
باب پنجم کے تحت مصنفہ نے آزادي کے بعد کے دور يعني ’دور جديديت‘ (1960 کے بعد) کے شعرا ميں خليل الرحمٰن اعظمي، شفيق فاطمہ شعريٰ، محمد علوي، ساجدہ زيدي، زاہدہ زيدي، عميق حنفي، مظہر امام، بلراج کومل، شاذ تمکنت، گلزار، وحيد اختر، زبير رضوي، شہريار، ندا فاضلي کو شامل کيا ہے۔ اسي طرح ’دور مابعد جديديت‘ (1980 کے بعد) کے شعرا ميں عنبر بہرائچي، صلاح الدين پرويز، عذرا پروين، جينت پرمار، راشد انور راشد اور عادل حيات کي نظموں ميں مناطر فطرت تلاش کرنے کي سعي کي ہے۔ مصنفہ نے ہر شاعر کا مختصر تعارف پيش کرتے ہوئے ان کے کلام کا جائزہ ليا ہے۔ اس تحقيقي کتاب کا ہر باب درجنوں ادبي و علمي حوالوں سے موثق ہے۔ کتاب کا باب ششم ’گلوبل وارمنگ اور مناظر فطرت‘ کے عنوان سے محض تين صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے مطالعے سے تشنگي کا شديد احساس ہوتا ہے۔ يہ باب اگرچہ بےحد مختصر ہے ليکن عہد جديد ميں گلوبل وارمنگ کے حوالے سے اہميت کا حامل ہے۔ آخر ميں کتابيات (Bibliography) کے عنوان سے دس صفحات ميں اردو کتب، رسائل و جرائد، انگريزي کتب اور ان کتب خانوں کي فہرست دي گئي جن سے مصنفہ نے استفادہ کيا ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ جن ماہرين علم و ادب نے کيا ہے، ان ميں شعبہ اردو، جامعہ مليہ اسلاميہ، نئي دہلي کے سابق صدر پروفيسر خالد محمود کي درج ذيل رائے بےحد اہم ہے۔
’’مذکورہ کتاب کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنفہ نے اپنے موضوع کا سنجيدگي اورباريک بيني سے مطالعہ کيا ہے۔ کوئي گوشہ ايسا نہيں جو ان کي نظر سے پوشيدہ رہا ہو حالاں کہ يہ ايک وسيع موضوع ہے اور اس کا دائرہ کار صديوں کو محيط ہے۔ کوئي دانا و بينا شاعر ايسا نہ ہوگا جس نے مناظر فطرت جيسے سحر انگيز موضوع سے صرفِ نظر کيا ہو يا مناظر و مظاہر کي کرشماتي فضا نے اس کے دل و دماغ کو متاثر نہ کيا ہو۔ مگر يہ ديکھ کر حيرت ہوتي ہے کہ تاحال اس پر اتنا کام نہ ہوا جتنا اس کا حق تھا۔ مجھے خوشي ہے کہ ڈاکٹر صبيحہ ناہيد نے اس کمي کو محسوس کيا اور اس کا ازالہ کرنے کي کامياب کوشش کي۔‘‘
يہ کتاب دفتر ’اردو بک ريويو‘ نئي دہلي سے بھي حاصل کي جاسکتي ہے۔ طباعت عمدہ ہے اور سرورق پر ڈاکٹر صبيحہ ناہيد کي دختر نرگس کے آرٹ کا نمونہ ہے جو جديد ’ماحوليات‘ کي عکاسي کرتا ہے۔
***

 

***

 ’مناظرفطرت‘ کا نازک اور لطیف احساس شاعر کے ذہن و قلب میں ہوتا ہے۔ لیکن ایک صدی قبل کے کسی شاعر نے یہ گمان بھی نہ کیا ہوگا کہ وہ جن فطری مناظر کی تعریف و توصیف کر رہا ہے، آنے والا زمانہ انھی مناظر فطرت کو دیکھنے اور محسوس کرنے کو بھی ترسنے لگے گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  29 مئی تا 04 جون  2022