سياسی مفادات کی رکھوالی سے ميڈيا اپنی افاديت کھورہا ہے

عالمي يوم آزادئ صحافت :چند قابل غور پہلو ہفت روزہ ‘ دعوت’ کی مختلف صحافیوں سےخصوصی بات چیت

افروز عالم ساحل

ہر سال 3 مئي کو ’ورلڈ پريس فريڈم ڈے‘ پوري دنيا ميں منايا جاتا ہے۔ ہندوستان ميں بھي 3 مئي کو يہ دن منايا گيا۔ ليکن کيا واقعي ہمارے ملک کے ميڈيا ميں فريڈم يا آزادي نام کي چيز بچي ہوئي ہے؟ اسي سوال کے ساتھ ہفت روزہ دعوت کے اس نمائندے نے ملک کے متعدد صحافيوں سے بات چيت کي اور ان سے يہ جاننے کي کوشش کي کہ آج ملک ميں نام نہاد مين اسٹريم ميڈيا کي کيا صورت حال ہے؟ ايک صحافي کو کس طرح کي دشواري کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ميڈيا کي آزادي کے بارے ميں وہ کيا سوچتے ہيں؟

ان سوالات کے ساتھ سب سے پہلے ميں نے ملک کے مشہور ميڈيا ہاؤس کے ايک مشہور صحافي کو کال کي۔ ان کے سامنے اپنے سوالوں کو رکھا۔ انہوں نے ميرے سوالوں کے جواب دينے سے پہلے ہي يہ شرط رکھ دي کہ ميرا نام کہيں نہيں لکھنا ہوگا، کيونکہ آپ جانتے ہيں کہ ملک ميں صورت حال کيا ہے۔

ان کي يہ شرط ہي اس بات کو سمجھنے کے ليے کافي تھي کہ ملک ميں ‘پريس فريڈم’ کتني بچي ہوئي ہے اور اس کي کيا دُرگت بني ہوئي ہے؟ بتا دوں کہ يہ صحافي ايک عدد کتاب کے مصنف بھي ہيں۔

ان کي باتيں ميرے ليے اہم تھيں۔ اس ليے ميں نے اپني گفتگو جاري رکھي۔ ان کا واضح طور پر کہنا تھا کہ "ميں خود کو ايک جوابدہ صحافي سمجھتا ہوں۔ ميري ہميشہ سے يہ کوشش رہي ہے کہ جو صحافي کا کام ہے، وہي کيا جائے۔ اقتدار ميں بيٹھے لوگوں سے ہر وقت سوال پوچھا جائے۔ 2011 ميں بھي جو اقتدار ميں تھے ان سے بھي سوال پوچھ رہا تھا اور 2021 ميں بھي يہي کروں گا۔ ميں نے کسي خاص نظريے کے ليے کوئي کام نہيں کيا ہے۔ ميں نے خود منموہن سنگھ، چدمبرم اور راہل گاندھي کا مذاق بنايا ہے اور ميں يہ سب کرتے ہوئے کبھي بھي نہيں ڈرا۔ کبھي نوکري کي پروا نہيں رہي۔ ليکن آج ايک واضح خوف ہے اور اسي وجہ سے مجھے يہ کہنا پڑا ہے کہ آپ کہيں بھي ميرا نام نہيں لکھيں گے۔ آج مرکزي حکومت سے سوال کرنا ممکن نہيں ہے۔”

 ہماري طويل گفتگو جاري رہي۔ اس دوران انہوں نے مجھ سے ہي سوال کيا کہ آج کے دور ميں کتنے ميڈيا ہاؤس ہيں، جو رعنا ايوب سے بات چيت کرنے کے ليے تيار ہيں؟ ايسا تو ہے نہيں کہ وہ کسي ٹي وي شو ميں آنے کي قابليت نہيں رکھتي۔ ليکن وہ آج نہيں آتي ہے۔ ايسا نہيں ہے کہ وہ آنا نہيں چاہتي ہے، ليکن کسي ميں اسے بلانے کي ہمت نہيں ہے۔ آج کتنے ٹي وي چينل سدھارتھ وردراجن کو بلاتے ہيں؟ يا کرن تھاپر آج کہاں ہيں؟ ملک کے جو اصل دانشور ہيں، ان کو لکھنے کي کتني آزادي ہے؟ رام چندر گوہا کے ساتھ کيا ہوا؟

واضح رہے کہ کہ دي وائر کے باني ايڈيٹر سدھارتھ وردراجن کو ‘ورلڈ پريس فريڈم ڈے‘ کے دن ڈوئچے ويلے (ڈي ڈبليو) کے ’فريڈم آف اسپيچ‘ ايوارڈ سے نوازا گيا ہے۔ يہ اعزاز 14 ممالک کے 17 صحافيوں کو ملا ہے۔ يہ اعزاز انساني حقوق اور اظہار رائے کي آزادي کے عزم کے ساتھ صحافت کے شعبے ميں کام کرنے والوں کو ديا جاتا ہے۔ اس بار يہ دنيا بھر کے ان صحافيوں کو ديا گيا ہے جنہوں نے کورونا بحران کے دوران اپنے ملک ميں اقتدار کے ذريعہ ظلم وستم اور کارروائي کا سامنا کيا ہے۔

وہيں رام چندر گوہا ملک کے ايک مشہور مؤرخ ومصنف ہيں۔ ان کا کالم ہندوستان ٹائمز ميں چھپتا ہے۔ ليکن جب انہوں نے مودي حکومت کے بلند نظر سنٹرل وسٹا منصوبے کے بارے ميں ايک تنقيدي مضمون لکھا تو ہندوستان ٹائمز نے اسے شائع کرنے سے انکار کر ديا۔ يہ اطلاع رام چندر گوہا نے خود ٹويٹ کرکے دي تھي۔

ادھر ميري بات ان صحافي سے جاري رہي۔ ميں نے يہ بھي ان کے سامنے رکھا کہ اگرچہ نام نہاد مين اسٹريم ميڈيا نہ چھاپيں، ليکن ملک ميں ميڈيا کے کچھ ايسے متبادل پليٹ فارم موجود ہيں جہاں پوري آزادي کے ساتھ باتيں شائع ہو رہي ہيں۔ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’’يہ پريس فريڈم کي مثال تو بالکل بھي نہيں ہو سکتي، وہ صرف چار پانچ ہم خيال لوگ ہي پڑھ رہے ہيں، فريڈم کي بات تو ماس ميڈيا ميں ہوني چاہيے۔ اور سچ پوچھيں تو يہ پريشر کوکر کے والو کي طرح ہيں۔ جب دباؤ بڑھتا ہے تو والو کھل جاتا ہے اور فسس کي آواز آتي ہے… يہ دباؤ کو دور کرنے کے ليے کوکر کي سيٹي کي طرح کام کرتے ہيں۔ متبادل ميڈيا يہي کوکر کي سيٹي ہيں…‘‘

ان کا مزيد کہنا تھا کہ ميڈيا کے ليے حالات اس وقت ايمرجنسي سے بھي زيادہ بدتر ہيں۔ بنا کہے وہ سارے کام ہو رہے ہيں جو ايمرجنسي ميں ہو رہے تھے۔ آج کسي پر بھي يو اے پي اے لگا ديا جا رہا ہے۔ يہاں تک کہ طلبہ کو بھي نہيں بخشا جا رہا ہے۔ ہم وہ تمام کام کر رہے ہيں جو آمر حکومتيں اپنے ممالک ميں کر رہي ہيں۔ آج حالت يہ ہے کہ صحافي خود کوئي اسٹوري کرنے کو تيار نہيں ہيں، سيلف سنسر شپ کر رہے ہيں۔ ان کو معلوم ہے کہ اگر ان کي اسٹوري حکومت کے خلاف ہے تو وہ چھپے گي نہيں… تو پھر وہ سوچتا ہے کہ ميں اپنے ايڈيٹر سے اپنا منھ کالا کيوں کرواؤں؟ کيونکہ اگر ايڈيٹر کو پسند نہيں آيا تو وہ اس صحافي کو سائڈ لائن کر دے گا۔ يعني پريس فريڈم کي سب سے خطرناک چيز يہي سيلف سنسر شپ ہے۔ اور اس چيز کا کہيں بھي کوئي چرچا نہيں ہوتا ہے۔ يہ بات کسي رپورٹ کا حصہ نہيں بن پاتي ہے۔

ان کي باتيں يقيناً سچ ہيں، اگر آپ ان ميں غور کريں تو ميڈيا کي حقيقت اور اس کي نام نہاد آزادي آپ کو بخوبي سمجھ ميں آجائے گي۔ 

ميرے ايک دوست سے جو اس ملک کي ايک ميڈيا ايجنسي ميں کام کرتے ہيں، بات کي تو ان کا بھي کہنا تھا کہ مجھے بخش ديجيے مہاراج! نام تو غلطي سے بھي مت لکھ ديجيے گا۔يہ پوچھنے پر کہ آج کل آفس ميں کيا کرنا ہوتا ہے۔ تو انہوں نے ہنس کر جواب ديا کہ ہم سوشل ميڈيا، خاص طور پر ٹک ٹاک کي ويڈيو لے کر اسے اسٹوري ميں تبديل کرتے ہيں۔ باقي حکومت کي طرف سے جو بھي ويڈيو آتي ہے، اسي سے ہمارا کام چل جاتا ہے۔ پھر وہي ويڈيو تمام چينلوں کو بھيج ديا جاتا ہے۔ ملک کے سب سے مشہور نيوز چينل ميں کام کرنے والے صحافي کو کال کرکے جيسے ہي ميں نے سوال کيا تو انہوں نے اس بارے ميں کجھ بھي کہنے سے انکار کر ديا۔ ليکن کچھ ہي دير بعد ان کا فون واٹس ايپ پر آيا اور انہوں نے کہا کہ يہاں بات کي جا سکتي ہے، وہاں بات کرنا ميرے ليے محفوظ نہيں تھا، کيوں کہ ہمارے چينل ميں زيادہ تر صحافيوں کي ان دنوں کالز ريکارڈ کي جارہي ہيں۔ 

انہوں نے بات چيت کو آگے بڑھاتے ہوئے بتايا کہ ميں نے اپنے کيريئر کي شروعات يو پي اے ون کي حکومت ميں کي تھي۔ اس وقت ان کے وزراء کے خلاف اسٹوري کرتے تھے، تب ناراض وہ بھي ہوتے تھے۔ ليکن 15 دنوں کے بعد وہ نيتا يا وزير خود ہي کال کرکے چائے پر بلاتا تھا۔ کسي اور ليڈر کي ايسکلوسيو اسٹوري بھي ديتا تھا۔ ليکن اب آپ نے ايک بھي اسٹوري کسي وزير کے خلاف کردي تو اس وزارت ميں آپ کي انٹري پوري طرح ہميشہ کے ليے بند ہو جائے گي۔ اس وزارت کا چھوٹا سا بابو بھي آپ سے بات کرنے کو تيار نہيں ہوگا۔ 

وہ مزيد بتاتے ہيں کہ آج کل 80 فيصد فيلڈ رپورٹرس پريشان ہيں۔ ان پر ہميشہ يہ جھنجھلاہٹ طاري رہتي ہے کہ وہ اسٹوري نہيں کر پا رہے ہيں۔ سچ تو ہے کہ آج کل تقريباً تمام چينلوں ميں ڈيسک پر ہي کام ہو رہا ہے۔ حالاں کہ انہوں نے ڈيسک پر ہي کام کرنے والي ايک صحافي کي کہاني بھي سنائي جسے کچھ مہينوں پہلے ان کے چينل سے صرف اس ليے نکال ديا گيا تھا، کيوں کہ اس نے سرکاري اعداد وشمار کو يکجا کر کے ايک اسٹوري بنائي تھي اور وہ اسٹوري حکومت کے خلاف معلوم پڑ رہي تھي۔ اسٹوري چل جانے کے بعد اوپر سے ہي اس لڑکي کو ہٹانے کے ليے کال آگئي۔ 

واضح رہے کہ ايسي ہي کہاني آج تک چينل کے مشہور صحافي نوين کمار کي بھي ہے۔ نوين کمار اپني اسکرپٹ اور اپني بلند آواز کي وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت کو ان کي اسکرپٹ اور آواز چبھنے لگي۔ بس پھر کيا تھا، چينل نے انہيں باہر کا راستہ دکھا ديا۔ ان کي غلطي يہ تھي وہ اپنے شو ميں ايک غريب کي موت کو لے کر ملک کے وزير اعظم اور وزير داخلہ سے سوال پوچھ بيٹھے تھے۔ معلوم رہے کہ اس سے پہلے لاک ڈاؤن کے پہلے ہي دن دہلي پوليس کے ذريعے ان کي بے رحمي سے پٹائي کي گئي تھي جس کي کہاني خود نوين کمار نے اپنے سوشل ميڈيا پر لکھي تھي۔

اب ميري بات ’ٹيلي گراف’ کے مشہور صحافي فرقان امين صاحب سے ہو رہي تھي۔ انہوں نے بہت طويل گفتگو کي۔ اس گفتگو کا لب لباب يہي تھا کہ زيادہ تر صحافيوں نے سيلف سنسرشپ کرنا شروع کر ديا ہے۔ کچھ نئي نسل کے صحافي ايڈيٹر سے پنگے لے کر اسٹوري کر بھي پا رہے تھے۔ ليکن کوويڈ-19 نے ان کے اس کام کو بھي روک ديا ہے۔ اب سب سے بڑا بحران يہ ہے کہ وہ صحافت کريں يا اپني نوکري بچائيں؟ کيوں کہ بيشتر ميڈيا اداروں ميں صحافيوں کو ملازمت سے محروم ہونے کا خطرہ ہے۔ بہت سے اداروں ميں لوگوں کو فارغ کر ديا گيا ہے۔ وہيں کئي ادارے اپنے اسٹاف کي تنخواہ 30 فيصد کاٹ کر دے رہے ہيں…

فرقان صاحب کے ساتھ گفتگو ميں ايک بات واضح طور پر سمجھ ميں آئي کہ آج کل جو تھوڑي بہت صحافت زندہ ہے، وہ سب آزاد صحافي ہي کر رہے ہيں۔ ميڈيا ہاؤس ميں تو زيادہ تر صحافيوں کو صرف اپني نوکري بچانے کي فکر ہے۔ اور اس ملک کے جو بڑے صحافي ہيں، وہ گراؤنڈ پر کبھي نظر آتے نہيں ہيں۔فرقان سے صحافيوں کي دماغي صحت کے بارے ميں بھي بات چيت ہوئي۔ انہوں نے صاف طور پر بتايا کہ جو کام کرنے والے صحافي ہيں، وہ دہلي ميں 13 دسمبر سے صرف اور صرف تشدد کے واقعات ديکھ رہے ہيں۔ موت کا رقص ديکھ رہے ہيں، قتل وغارت گري ديکھ رہے ہيں، لاشيں ديکھ رہے ہيں، خون ديکھ رہے ہيں… نيوز روم ميں بيٹھے لوگ ان چيزوں کے بارے ميں نہيں سوچتے۔ عام لوگوں کو بھي اس سے کوئي فرق نہيں پڑتا ہے۔ وہ بھي نامہ نگاروں کے دماغي حالت کا اندازہ نہيں کرسکتے…

اب ميں نے سوچا کہ کسي ايسے شخص سے بات کي جائے جو صحافي رہا ہو اور اب بچوں کو پريس فريڈم سے متعلق تھيوري پڑھا رہا ہو۔ ايسے ميں ميرے ذہن ميں پہلا نام محمد رياض کا آيا۔ رياض اس وقت کولکاتا کي عاليہ يونيورسٹي ميں ماس کميونيکيشن ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفيسر ہيں۔ 

محمد رياض نے اپنا نام چھپانے کے ليے نہيں کہا، کيوں کہ وہ في الحال کسي ميڈيا ادارے ميں نوکري نہيں کر رہے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے ملک ميں ميڈيا انتہائي نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ايسا نہيں ہے کہ ہندوستان کبھي پريس فريڈم انڈيکس ميں سرفہرست رہا ہے۔ پچھلي حکومتوں نے بھي اپنے طور پر اس پر قابو پانے کے ليے کام کيا ہے۔ ليکن ملک ميں موجودہ حکومت 2014 سے ميڈيا اور سوشل ميڈيا پر زيادہ زور دے رہي ہے تاکہ وہ ملک کے عوام پر اپنا اثر ورسوخ برقرار رکھ سکے۔ آج سے پہلے کسي بھي پارٹي يا حکومت نے ميڈيا کو اتنا استعمال نہيں کيا يا اس کي اہميت کو نہيں سمجھا‘‘۔

انہوں نے مزيد وضاحت کي کہ آج جتنے بھي بڑے ميڈيا چينلز يا جو ايڈيٹرز ہيں، ان کي آپ شناخت  کر سکتے ہيں کہ وہ کس طرف ہيں، کس پارٹي کے ساتھ ہيں؟ آگے ديکھنا دلچسپ ہوگا کہ يہ حکومت ميڈيا کا کيا حشر کرتي ہے۔ ميڈيا کا يہ حشر جمہوري ملک کے ليے مثبت اشارہ نہيں ہے۔

ميرا خيال ہے کہ يہ ميڈيا کو ’ويلن‘ بنانے کا دور ہے۔ حکومت نے وزارتوں ميں صحافيوں کي رسائي کم کر دي ہے۔ يہاں تک کہ اب وزير اعظم اپنے غير ملکي دوروں ميں بھي صحافيوں کو اپنے ساتھ نہيں لے جا رہے ہيں، جيسا کہ پہلے ہوتا تھا… سوال پوچھنے کا حق تو کسي کو بھي نہيں ہے۔ انٹرويو اب فنکار لے رہے ہيں… اس کے باوجود ميں سمجھتا ہوں کہ اس دور ميں جب کہ ميڈيا کو ’ويلن‘ بنايا جا رہا ہے، صحافيوں کے پاس زميني رپورٹنگ کر کے ’ہيرو‘ بننے کا موقع بھي ہے۔ آج جو ايوارڈ سدھارتھ ورداراجن نے حاصل کيا ہے، وہ ان کے ليے عمدہ مثال ہو سکتي ہے۔

اخباري صنعت کو ہوسکتا ہے 15 ہزار کروڑ روپيوں کا نقصان

مستقبل ميں ميڈيا کي حالت مزيد خراب ہونے والي ہے۔ کيوں کہ انڈين نيوز پيپر سوسائٹي (آئي اين ايس) نے حکومت سے پيکيج کا مطالبہ کيا ہے۔ آئي اين ايس کا کہنا ہے کہ اخباري صنعت کو پہلے ہي چار ہزار کروڑ روپے سے زيادہ کا نقصان ہو چکا ہے اور اگر ريليف نہ ديا گيا تو اگلے چھ سات ماہ ميں مزيد پندرہ ہزار کروڑ کا نقصان ہو سکتا ہے۔

آئي اين ايس نے حکومت سے درخواست کي ہے کہ وہ نيوز پرنٹ پر کسٹم ڈيوٹي پر پانچ فيصد واپس لے۔ آئي اين ايس، جو 800 سے زيادہ اخبارات کي نمائندگي کرتي ہے، کا کہنا ہے کہ اس نقصان کا پہلے ہي 3 ملين کارکنوں اور ملازمين پر بہت سنگين اثر پڑا ہے جو بالراست اور بالواسطہ طور پر اخباري صنعت سے وابستہ ہيں۔ اس نے حکومت سے يہ درخواست بھي کي ہے کہ وہ اخباروں کے اداروں کو دو سال کے ٹيکس کي چھوٹ فراہم کرے۔ بيورو آف آؤٹ ريچ اينڈ کميونيکيشن (بي او سي) کے اشتہاري دروں ميں 50 فيصد اضافہ اور پرنٹ ميڈيا کے بجٹ ميں 100 فيصد اضافہ کيا جائے۔ اب سمجھيے کہ اگر حکومت ان کے مطالبات پر راضي ہو جائے گي تو کيا ہوگا اور اگر اس پر اتفاق نہيں ہوا تو پھر اس ملک ميں اخبارات کا ختم ہونا بھي تقريباً يقيني ہے۔

’ورلڈ پريس فريڈم انڈيکس‘ ميں ہندوستان کا گرتا رينک

آخر ميں يہ بتاتا چلوں کہ اس بار ورلڈ پريس فريڈم انڈيکس کے 180 ممالک کي فہرست ميں ہندوستان 142 ويں نمبر پر ہے۔ حد تو يہ ہے کہ اس معاملے ميں ہندوستان اپنے ہمسايہ ممالک نيپال (112)، بھوٹان (67)، سري لنکا (127) اور ميانمار (139) سے بھي پيچھے ہے۔ 

سوچنے کي بات يہ ہے کہ پچھلے چار سالوں سے ہندوستان کي رينک اس انڈيکس ميں مسلسل گرتي جا رہي ہے۔ 2016 ميں ہندوستان 133 ويں نمبر پر تھا، جو 2017 ميں تين پوائنٹس پھسل کر 136، 2018 ميں 138، 2019 ميں 140 اور 2020 ميں 142 پر پہونچ گيا ہے۔ 

ايک رپورٹ کے مطابق ہندوستان ميں 2014 سے 2019 تک صحافيوں پر 198 حملے ہوئے ہيں۔ سال 2019 ميں 36 حملے ہوئے تھے۔ 40 حملوں ميں صحافي کو ہلاک کرديا گيا، جس ميں 21 ہلاکتيں براہ راست خبروں سے ناراضگي کے سبب ہوئيں۔ کل حملوں کے تہائي معاملوں ميں ايف آئي آر تک درج نہيں ہوئي ہے۔