سوشل میڈیا کلچر کا تنقیدی جائزہ لینا وقت کی ضرورت

’ٹکنالوجی اور ہم‘ تکنیک کے عنوان پر اردو ذخیرہ کتب میں اہم اضافہ

نام کتاب : ٹکنالوجی اور ہم
مصنف : ڈاکٹر شاداب منور موسیٰ
تبصرہ نگار : اسامہ حمید
سن اشاعت : 2021
ناشر : وہائٹ ڈاٹ پبلشرز
صفحات : 111
قیمت : 120روپے
ستمبر2020میںOTTپلیٹ فارمNETFLIXنےایک ڈاکوڈراما (Documentry+Drama) نشر کیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پہ ایک بڑی بحث شروع ہونے کا امکان تھا۔ The Social Dilemma نام سے جاری یہ ڈاکوڈراما بہت مقبول ہوا اور اس نے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا صارفین اور دانشوروں اور پالیسی میکرس کی توجہ سوشل میڈیا کے ذریعہ جاری استحصال اور فرد و سماج پہ پڑ رہے اس کے برے اثرات کی جانب مبذول کرانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی لیکن اس کا حشر بھی اس سے پہلے کی گئی بہت سی کوششوں جیسا ہی ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹکنالوجی سے جڑی بحث اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود ٹکنالوجی ہے۔ ڈیجیٹل ٹیک (Digital Tech) اس میں ایک نیا اضافہ ہے۔ اور یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ یہ ایک غیر معمولی اضافہ ہے جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس کے فوائد و نقصانات پر بھی ایک لمبے عرصہ سے اہل دانش کے درمیان بحث جاری ہے، اور اب یہ بحث انٹرٹینمینٹ انڈسٹری کے ذریعہ عوام تک آ پہنچی ہے۔ خاص طور پر ہالی ووڈ میں یہ ایک مستقل Genre کی شکل میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ فلموں اور سیریز کی ایک طویل لسٹ ہے جو اس ضمن میں پیش کی جا سکتی ہے۔ گہری، روکھی فلسفیانہ و اکادمی بحثوں سے عوام تک ان مباحث کا سفر یقیناً ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
لیکن اس حقیقت کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج بھی یہ مباحث مغرب میں مرکوز ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف یہ مباحث بڑی حد تک مغربی دانشور طبقہ اور عوام تک محدود ہیں بلکہ اس سے جڑا تحقیقی کام بھی مغرب کو مد نظر رکھ کر کیا جا رہا ہے۔
اس پس منظر میں جب ہم زیر بحث کتاب ’ٹکنالوجی اور ہم‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کی اہمیت کا اندازا بخوبی ہو جاتا ہے۔ راقم کی نظر میں یہ کتاب اردو زبان میں ٹکنالوجی پر مہیا مواد میں بہترین اضافہ اور ڈیجیٹل ٹکنالوجی سے متعلق بحث میں اولین پیش کش ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں Wholistic طریقہ کار اختیار کیا ہے اور ان کی کوشش اس ضمن میں کامیاب ہے کہ موضوع سے متعلق ضروری جہات کا ایک مکمل خاکہ قاری کی نظر میں آ جائے جو نہ بہت فلسفیانہ ہو نہ ہی سطحی۔ کسی بھی سوشل میڈیا صارف (User) کے روزمرہ کے تجربات اور سائنسی تحقیقات کا خاطر خواہ حوالہ کتاب کو مستند اوردلچسپ بنا دیتا ہے اور قاری خود کو اس سے جڑا محسوس کرتا ہے۔
مصنف نے کتاب کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے، جن میں نہ صرف ڈیجیٹل ٹیک کی لت کے انسانی صحت، خاندان اور معاشرہ پر پڑ رہے برے اثرات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے بلکہ اس ٹکنالوجی کے اس نہج پہ پروان چڑھنے یا چڑھائے جانے کے عمل، اس کی سیاست اور مقاصد کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ ڈیجیٹل سرویلانس آج کے دور کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان دنوں اسرائیلی کمپنی NSO کے ایک سرویلانس سافٹ ویر پیگاسس (Pegasus) کو لے کر ہندوستان سمیت دنیا کے تمام بڑے ممالک میں گھمسان مچا ہوا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیک نے نہ صرف اس طرح کے سرویلانس کو نہایت آسان بنا دیا ہے بلکہ یہ ڈیجیٹل ٹیک کے کام کرنے کا طریقہ ہی بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ عوام کو اس سلسلہ میں بے حس بنانے کا کام بھی بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔
مادی دنیا میں ہو رہے ہر امر کا ایک لازمی پہلو معیشت ہے اور کسی بھی مسئلہ کا تحقیقی تجزیہ معاشیات کو نظر انداز کر کے نہیں کیا جا سکتا۔ مصنف نے اس نقطہ نظر کا خیال رکھتے ہوئے ڈیجیٹل ٹیک کی معیشت کا خاطر خواہ مطالعہ کیا ہے۔ اس معیشت کے لیے مستعمل ایک خاص اصطلاح attention economy یعنی صارف کی توجہ حاصل کرکے منافع کمانا، یا دوسرے الفاظ میں صارف کو ہی پروڈکٹ میں تبدیل کر دینا، اس کی تمام معلومات کو ڈیٹا میں تبدیل کرکے اسے بڑی کمپنیوں یا حکومتی ایجنسیوں کو بیچ کر منافع کمانا ہے۔ مصنف اس مسئلہ کی گہرائی تک جاکر اس کو سمجھنے اور ایک عام قاری کو سمجھانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ڈیجیٹل ٹیک عالمی معیشت کو کس طرح متاثر کر رہی ہے، اس نے کس طرح ایک معاشی اجارہ داری کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس کی وجہ سے چند مالداروں اور کثیر تعداد غریبوں کے درمیان بڑھتی خلیج کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں، ان سوالات کو بھی زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تصور کو Surveillance Capitalism یعنی نگرانی پہ مبنی سرمایہ دارانہ نظام بھی کہا جاتا ہے۔
ڈیجیٹل ٹیک کے مضر اثرات انسان کے جسم، ذہن اور معیشت تک ہی محدود نہیں ہیں۔ اس سے انسانی معاشرت و سیاست کو بھی خطرہ ہے۔ جمہوری نظام کی بنیاد اپنی پسند، مرضی اور سمجھ بوجھ سے انتخابی عمل میں شرکت ہے جس میں کسی باہری دباؤ یا Manipulation کا عمل دخل جمہوری فکر کے منافی ہے۔ ڈیجیٹل ٹیک اور الگورتھم پہ مبنی سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کے اس دور میں یہ آزادی ناممکنات میں شامل ہوگئی ہے۔ آج دنیا کی بیشتر پارٹیاں اور سیاست داں ٹوئٹر، فیس بک اور دوسرے سوشل نیٹ ورکس کا استعمال کرکے لوگوں کے ذہن کو خاص رخ پہ ڈھال کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیک کے یہ الگورتھم انسانی طرز عمل کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور حاصل شدہ نتائج کی بنیاد پر مخصوص رخ پہ اس کی رہنمائی کرتے ہیں جس سے فرد اپنے گرد بنے ہوئے اس غیر مرئی جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی ذہن کی ساخت متاثر کرنے میں سوشل میڈیا میں گردش کرنے والی fake news کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے، جو ایک تحقیق کے مطابق صحیح خبروں سے کئی گنا تیزی سے پھیلتی ہیں۔ یہ جھوٹی خبریں ہمیشہ دانستہ نہیں پھیلائی جاتیں بلکہ Information Bombardment کے اس دور میں سچ کو جھوٹ سے الگ کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
ڈیجیٹل ٹیک کے مذکورہ بالا نقصانات سے بچ کر اس کا صحت مند استعمال کس طرح کیا جا سکتا ہے، یہ کتاب اس سلسلہ میں بھی رہنمائی کرتی ہے۔ مصنف قارئین کو آج تیزی سے مقبول ہوتے اس فلسفہ سے متعارف کراتے ہیں جسے Digital Minimalism کا نام دیا گیا ہے۔ اس تصور کی بنیاد یہ ہے کہ ڈیجیٹل ٹکنالوجی کا استعمال پورے ہوش و حواس میں، اس کے فائدے و نقصانات کو سامنے رکھ کر، قناعت کے ساتھ ہی کیا جائے۔ مذکورہ نتیجہ تک پہنچنے کے لیے کچھ سوالات طے کیے گئے ہیں جن کا اطمینان بخش جواب ملنے پر ہی ڈیجیٹل ٹیک کے جانب پیش قدمی ہونی چاہیے ۔ اس نظریہ کے مطابق ایک بہتر اور خوش حال زندگی اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب فرد اپنی زندگی میں انہیں چیزوں کو آنے دے جو لازمی ہوں اور جس سے اسے مسرت حاصل ہوتی ہو۔ مصنف نے مزید کچھ طریقے بتائے ہیں جن پر عمل کرکے ہم اپنے وقت، صحت، آزادی فکر و عمل اور معاشرے کو بچا سکتے ہیں۔
کتاب کی زبان سلیس اور آسان ہے۔ ایک خاص مضمون اور اس کی اصطلاحات کو عام قاری تک عام فہم زبان میں پہنچا دینا، بے شک ایک کمال کی صفت ہے۔ کتاب میں دوران گفتگو آئے حوالہ جات کو کتاب کے آخر میں جگہ دے کر مطالعہ کی مزید راہیں کھول دی گئی ہیں۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ہے کہ اس موضوع پر بیشتر بحث ابھی مغرب تک محدود ہے اور اس لیے فطری طور پر مصنف کی دسترس میں وہی تحقیقات ہیں جو مغرب کو سامنے رکھ کی گئی ہیں۔ اس کی وجہ سے قاری کہیں کہیں ان حصوں سے خود کو منسلک کر پانے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔ مزید، مصنف کے مذکورہ مسائل کے تجویز کردہ حل سے بھی قاری کو نا اتفاقی ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر ڈیجیٹل ٹیک کی دسترس کے رد عمل میں حکومت کو مزید اختیارات دینے کی تجویز پر غور کیا جانا چاہیے ۔ ڈیجیٹل ٹیک اور سوشل میڈیا کلچر کی فلسفیانہ بنیادوں کو بھی problematize کرنے یعنی سوال کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ فاضل مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ایک مختصر کتاب میں اس اہم موضوع کو اردو داں طبقہ میں خوبصورتی سے بحث کا موضوع بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
راقم کی گزارش ہے کہ دیگر نشریاتی ادارے آگے آ کر مصنف کے فراہم کردہ حوالہ جات میں سے کچھ اہم تحریروں کا ترجمہ اردو میں لے آئیں تاکہ اس اہم مسئلہ کو مزید گہرائی سے سمجھا جا سکے اور اس کا حل تلاش کرنے میں پیش رفت ہو سکے۔
(تبصرہ نگار، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےشعبہ کیمسٹری میں ریسرچ اسکالر ہیں)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021