سفرنامہ: برطانیہ جسے میں نے دیکھا۔۔

لندن کی ایک یاد گار کانفرنس: مشاہدات وتاثرات امکانات کی دنیا اور برف پوش کہساروں کی سرزمین کا سفر نامہ

رحمت النساء
(معاون سکریٹری شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند)
ترجمہ: آسیہ تنویر

بے شک سفر تجربات کا حاصل ہوتا ہے۔ ایک مومن کے لیے یہ قادر مطلق کی تخلیق کردہ عجائبات کی دنیا سے روبرو ہوکر روحانی ارتقا کے منازل طئے کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔ شاید نبی کریم ﷺنے اسی وجہ سے سفر کی ترغیب دی ہے۔ وہ خود بھی تجارتی قافلوں کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے اور اسی لیے وہ اختلافات کا احترام کرنے والے اور مختلف ثقافتوں کو قبول کرنے کے کرنے والے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حضرت خضر کے ساتھ سفر کو قرآن مجید میں بہت واضح انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ لوگوں کو بردبار بنانے کے لیے سفر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم مختلف مقامات، افراد اور ثقافتوں کا قریب سے مشاہدہ کریں گے اور جب ہم ان کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہماری معلومات کتنی کم ہیں۔ اپنے ہمسفر ساتھیوں کے بارے میں اور یہاں تک کہ خود اپنے بارے میں بھی ہم زیادہ سمجھنے لگتے ہیں۔ عربی زبان میں لفظ ’ اسفار‘ کا استعمال سفر کے معنی میں ہوتا ہے جس کے معنی ہیں’ظاہر کرنا‘۔
منتظمین کی دعوت کے مطابق اسٹرائیو یو کے، کے زیر اہتمام ’’ میں اور میری دنیا ‘‘ کے عنوان سے 29 فروری کو ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے میں نے23 فروری کو برطانیہ کے سفر کا آغاز کیا۔ حقیقت میں میرے لیے ایسے حالات میں سفر کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل تھا جب پورا ملک سی اے اے کے خلاف مہم چلا رہا تھا۔ لیکن اس سفر کے طویل مدتی فوائد کے پیش نظر اور جماعت اسلامی ہند کے رہنماوں سے مشاورت کے بعد آخر کار میں نے روانگی کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن منتظمین کے شدید اصرار کے باوجود کچھ اور وجوہات کی بناء پر میں وہاں پر اپنا قیام طویل نہیں کر سکی۔ پھر بھی منتظمینِ سفر، بھائی شاہین اور ان کی اہلیہ عابدہ کی اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی اور حسن انتظام کی وجہ سے ہم وہاں بارہ دنوں کا بہترین استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
کانفرنس
وہ 17 جولائی کا دن تھا جب بہن عابدہ نے مجھے اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ یہ ان کی مہینوں پر محیط، مسلسل کوششوں کا نتیجہ تھا جس کی بناء پر وہ لندن میں خواتین کی ایسی کانفرنس کو منعقد کرنے میں کامیاب ہوگئے جس میں بہت سارے شرکاء اور مندوبین شامل تھے اس میں لندن کی موجودہ بہترین با اثر خواتین بطور پینل ممبران کی حیثیت سے شریک تھیں۔ ان مہمانوں نے اس کانفرنس کو لندن کی ایک منفرد کانفرنس قرار دیا۔ ان میں ایک نمایاں خاتون مندوب لامیا تھیں، جو 1990 کی دہائی کے اواخر میں میری ایک طالب علم رہ چکی تھیں جنہوں نے خیر مقدمی خطاب کیا تھا۔ یہ وہ خوشی اور مسرت کے لمحات تھے جن سے صرف اساتذہ ہی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد بہن کلاوت نے صدارتی خطاب کیا جس میں STRIVE-UKکی سرگرمیوں اور کانفرنس کے اغراض ومقاصد سے سامعین کو آگاہ کیا گیا۔ اس کے بعد میری باری تھی میں نے’’خواتین اور سوسائٹی: اسلامی نقطہ نظر سے‘‘ کے عنوان پر افتتاحی خطاب کیا۔ اس کے بعد مختلف موضوعات پر پینل مباحثے ہونے لگے جیسے ‘کہانیاں، کامیابی وکامرانی پر مبنی تجربات،’’مستقبل کی نسل کی تربیت‘‘اور’’معاشرے کی رہنمائی‘‘ عنوانات پر مباحثے انتہائی مدلل تھے۔ اس کانفرنس میں اپنے اپنے شعبوں کی ماہر نامی گرامی خاتون مندوبین شریک تھیں۔ جیسے ایک مقررہ مندوب رغد التکریتی تھیں جو مسلم ایسوسی ایشن آف برطانیہ کی صدر ہیں۔ اور وہ پہلی مسلم خاتون ہیں جنہوں نے اس بڑی اسلامی تحریک کی رہنمائی کی جو کہ یورپین فورم آف مسلم وومن کی امرت ولسن کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ اسی طرح مصنف، کلاڈیا ریڈوین ایشیا سولیڈیریٹی گروپ اور یونیورسٹی آف لیڈز کی ایک سرگرم کارکن ہیں۔ انہیں میں ریسرچ اسکالر شریفہ فدھیل بھی شریک تھیں جو ایک تاجر خاتون اور معلمہ بھی ہیں اور 2014 میں عرب دنیا کی سو سب سے طاقتور خواتین میں شامل تھیں- ایک اور مندوب خاتون ساریہ چیروال تھیں جو کہ کوونٹری یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں جو ریسرچ گروپ کو سچائی پر مبنی پرامن تعلقات کی رہنمائی کرتی ہیں اور مصنف بھی ہیں۔ رشادت حسن ایک اور مندوب تھیں جو کہ مسلم کونسل آف برطانیہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ہیں۔ ان کے علاوہ ماہرہ روبی سابقہ چیئر پرسن مسلمیت برطانیہ، فاطمہ رجینہ سابق ریسرچ اسسٹنٹ کیمبرج یونیورسٹی، انسٹیٹیوٹ آف کریمنولوجی، نسرین ساید سابق صدر اسلامی مشن برطانیہ ( ویمن ونگ) رملہ اختر فٹ بال ایسوسی ایشن کونسل کی پہلی مسلم اور ایشین خاتون اور دوسرے شریک تھے۔ ہم نے زیادہ دن لندن میں ہی گزارے۔ لندن میں ہماری رہائش کا انتظام بھائی رشید کے ذمہ تھا۔ لندن کے مرکزی مقامات کی سیاحت کانفرنس سے پہلے ہی ممکن تھی۔ کانفرنس کے بعد ہم نے ناٹنگھم اور اسکاٹ لینڈ کا دورہ کیا۔
اسلامک فاؤنڈیشن
شکیل بھائی کی مدد سے لیسٹرشائر میں آٹھ ایکڑ اراضی میں پھیلے ہوئے اسلامک فاؤنڈیشن کا دورہ، ایک بہت بڑا تجربہ تھا۔ ان کی تعلیمی سرگرمیوں، تحقیقات اور تقریبا ساڑھے تین سو عنوانات پر شائع کتب کے توسط سے مسلم دنیا کے لیے ان کا تعاون مثالی ہے۔ فاؤنڈیشن کا قیام 1973 میں عظیم اسکالرز خرم مراد اور خورشید احمد نے کیا تھا۔ ان کے عملے میں سے ایک بھائی عبداللہ نے ہمیں ان کی سرگرمیوں کے متعلق تمام تفصیلات کو بہت وضاحت کے ساتھ واقف کروایا۔ فاؤنڈیشن کے تحت مختلف تنظیموں کے سربراہان کے ساتھ گفتگو ہوئی جیسے ڈائریکٹر KUBE پبلشنگ کے بھائی حارث احمد، کنورٹ مسلم فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بتول التوما، مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن کے پرنسپل ڈاکٹر زاہد پرویز، سابق پرنسپل عطاء اللہ صدیقی، خواتین پروفیسرز ڈاکٹر نورہ اور ثروت عجرا اور انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل تقلید شخصیات تھیں۔ ان کی لائبریری میں انگریزی، عربی اور اردو میں اسلامی کتابوں کا بہت اچھا ذخیرہ ہے نیز آن لائن تحقیقاتی مواد کی سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ طلباء اور عملہ کے علاوہ لائبریری سے عوام بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ اسلامک فاؤنڈیشن کیمپس میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے جو ماحول کو پاکیزہ اور پر امن
بناتی ہے۔
افراد خاندان کے ساتھ ایک معانقہ
صغیر بھائی کی سربراہی میں منعقد ملیالی خاندانوں سے بہت ہی دلچسپ ملاقات رہی۔ اس فیملی گیڈ ٹو گیدر پروگرام میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ ،ملیالی اور ہندوستانی شناخت "ہم ” والی کیفیات کی تجدید سے سرشار ہونے کے لیے ان لوگوں نے میلوں لمبا سفر طئے کیا۔ ہر کوئی ہندوستان میں سی اے اے مخالف تحریکوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ ہندوستان میں اپنے پیارے اور قریبی لوگوں کے لیے ان کی تشویش ان کے مباحث میں واضح تھی۔ برطانیہ میں بھی مختلف تنظیموں کے ذریعہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں اور برطانیہ کے حکام نے ان کی بھر پور حمایت کی۔ وہ احتجاج کرنے کے عوام کے حق سے انکار نہیں کرتے ہیں۔
مساجد
ہم نے برطانیہ میں چار مساجد دیکھیں اور ہمیں تین مساجد کے منتظمین کے ساتھ بات چیت کرنے اور ان کی سرگرمیوں کے متعلق تفصیلات جاننے کا موقع ملا۔ ہماری جمعہ کی نماز مشرقی لندن کی مسجد میں ہوئی۔ آٹھ ہزار کے قریب نمازی یہاں دو شفٹوں میں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔ خواتین کے لیے دو بڑی منزلیں خصوصی طور پر ہیں۔ برطانیہ میں مسجدیں صرف نماز کے لیے مختص نہیں ہیں۔ وہ اسلام سے متعلق تمام سرگرمیوں کے مراکز ہیں جہاں صنف یا عمر کا کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔ مختلف قسم کے لیکچرز، کلاسز یا شعور وآگہی پروگرامس، گیڈ ٹو گیدرس، کونسلنگ سیشنس، فلاح وبہبود اور خیراتی پروگراموں، قانونی معاونت اور اس طرح کے کئی پروگرامس ملک کے متعین کردہ ضوابط کے تحت منعقد کیے جاتے ہیں۔ بہت ساری بہنوں نے مجھے بتایا کہ یہ پروگرامس ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں۔ زیادہ تر مساجد میں جمعہ اور پنچوقتہ نمازیں دو مرتبہ ادا کی جاتی ہیں جو مساجد کے زیادہ سے زیادہ استعمال اور دکانوں میں کام کرنے والے افراد کو شفٹس میں نماز پڑھنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ بیشتر مساجد کا پچاس فیصد رقبہ نماز کے لیے ہوتا ہے اور باقی جگہ پر اچھی طرح آراستہ کانفرنس ہالز ہوتے ہیں۔
میوزیم کا دورہ
میں کسی بھی ملک کے تاریخ اور ثقافت کو جاننے کے لیے اس ملک کے میوزیم کا دورہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں اس حقیقت کے باوجود کہ حکمرانوں کی پسند اور ناپسند کے مطابق بہت سی چیزوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے یا جن چیزوں کو نمایاں کرکے پیش کیا جاتا ہے وہ کچھ اور ہی ہوتی ہیں۔ لیکن مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ برطانوی میوزیم ایسا نہیں ہے۔ یہاں چیزیں جیسی ہیں ویسی ہی پیش کی جاتی ہیں۔ یہ ایک وسیع وعریض دنیا ہے جس کو مکمل دریافت کرنے کے لیے ایک یا دو دن کافی نہیں ہیں، پھر بھی اس سروے کے دوران ایک علاقہ اچانک ہمارے قدم روک لیتا ہے جہاں ہندوستانی تاریخ، برطانوی تاریخ وغیرہ دکھائی جاتی ہے۔ مہاتما گاندھی اور ٹیپو سلطان وہاں نظر آنے والے دو ممتاز ہندوستانی ہیں۔ شاید اس لیے کہ انہوں نے ہی ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خلاف سخت مزاحمت کی تھی۔ ہم نے نیچرل ہسٹری میوزیم، سائنس میوزیم اور وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم کا بھی دورہ کیا۔ یہ سب طلباء کے لیے کلاس رومز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہاں تحقیق کرنے والے طلباء کو اپنے اساتذہ کے ساتھ گروپوں میں آنے کے لیے تمام ضروری سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

انگریزی ادب کی دنیا کی دوبارہ سیر

میں نے اپنے دوران تعلیم (UG اور PG) انگریزی ادب کے طالب علم کی حیثیت سے اپنے کالجوں کی کلاس رومز اور لائبریریوں میں بیٹھے بیٹھے کئی بار دریائے ٹیمز، ہائی لینڈز، اسٹریٹفورڈ ایون وغیرہ کا دورہ کیا تھا اور جب میں ان سے ملی تو میں بہت زیادہ جذباتی محسوسات سے ہوکر گزر رہی تھی۔ جہاں پر اب بھی ولیم ورڈز ورتھ، شیلی، کیٹس جیسے رومانوی شاعروں کے الفاظ کے ذریعے فطرت کی پُرسکون خوبصورتی کو پیش کیا گیا ہے۔ ایک مومن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تخلیق کردہ برفانی چوٹیوں، سر سبز وادیوں، وسیع میدانوں، بھیڑوں کے ریوڑ، دریاؤں، جھیلوں، تالابوں اور پہاڑوں کے نظارے دیکھ کر قدرت کی کاریگری کا منکر نہیں ہوسکتا۔ ان سب نظاروں نے مجھے رومی کے الفاظ یاد دلائے:

’’اس کے عجائبات کا مشاہدہ کر لے اور خوف خدا سے خود کو ان میں ضم کرلے۔ جب کوئی قدرت کے عجائبات کو دیکھے تو فخر اور انا کے دعوے ترک کردے۔ اس کے تخلیق پر غور وفکر کرتے رہو، آپ کو اپنا اصلی مقام مل جائے گا اور آپ بنانے والے کی وسعت سے خاموشی سے قائل ہوجاو گے تب آپ اپنی روح کی گہرائیوں سے کہیں گے۔’’میں آپ کی خاطر خواہ حمد بیان نہیں کرسکتا‘‘

شہروں کی مصروف ترین سڑکوں کے درمیان بھی آپ اچھی طرح سے سجے سنورے پارکوں کے وسیع ترین علاقے دیکھ سکتے ہیں۔ ان سب جگہوں پر معذور افراد کو خصوصی سہولتیں دی جاتی ہیں۔ آپ پانی کے تمام ذخائر کے قریب فربی کبوتر، ہنس اور دوسرے پرندے دیکھ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں تمام ہنس ملکہ کی ملکیت ہیں اور انہیں پکڑنا یا نقصان پہنچانا مستوجبِ سزا جرم ہے۔ اگرچہ ہمیں موسم بہار کی مکمل پھولوں سے بھری خوبصورتی نظر نہیں آرہی تھی کیوں کہ ہماری آمد پر موسم سرما اپنے آخری مرحلے پر تھا پھر بھی ہم یہاں ہر طرف کثیر رنگ کے ڈفودلز، چیری پھول اور گلاب دیکھ سکتے تھے۔ یہاں مکانات فطرت کے خوبصورتی کو ختم کیے بغیر تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر علاقے میں یکساں ڈھانچے اور ڈیزائن والے مکانات کی تعمیر کی اجازت دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ سب مکانات کی کلر اسکیم ایک ہی رنگ وروپ کا امتزاج ہے۔ باہر کی دیواروں کی سمنٹ سے استرکاری نہیں کی جاتی۔ اینٹوں کی خصوصی دیکھ بھال کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ یہ رہائشی علاقوں کی قدرتی خوبصورتی میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔

یہ بھائی سمیر اور ان کی اہلیہ صفورا تھے جنہوں نے ہائی لینڈ کے سفر کے تمام انتظامات کیے تھے۔ دراصل ہم وقت کی کمی اور موسمی تغیرات کی وجہ سے اسٹریٹ فورڈ ایون کا دورہ رد کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ لیکن بھائی ثابت کی حمایت کی وجہ سے یہ دورہ بھی ممکن ہوا۔ یہ میوزیم ولیم شیکسپیئر کی زندگی کے باقیات کی حفاظت کرتا ہے جس کو دنیا کا سب سے بڑا ڈرامہ نگار سمجھا جاتا ہے۔ میوزیم میں اوتھیلو، ہیملیٹ اور مارک اینٹونی جیسے کردار زندہ ہیں۔ ہم نے ایک بھارتی لڑکی سے بھی ملاقات کی جو ان اداکاراؤں میں سے ایک تھی جو سیاحوں کی فرمائش پر شکسپئر کے مختلف کرداروں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ویسے بھی ایک ادب کے طالب علم کے لیے یہ سب خواب سے حقیقت کی طرف سفر تھا۔

یو کے آئی ایم (UKIM) آفس کا دورہ

ایک اور تعلیمی تجربہ بہن نسیہ کی ہمراہی میں یونائٹیڈ کنگڈم اسلامک مشن کے دفتر کا دورہ تھا۔ یو کے آئی ایم برطانیہ کی ایک سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے۔ وہاں ہم نے شعبہ خواتین کے عہدیداروں کے ساتھ ایک طویل بات چیت کی۔ ان میں سے دو ہندوستانی نژاد ہیں۔ وہ خود کو اسلامی فریم ورک کے اندر ہر طریقے سے سماجی طور پر بااختیار بنانے کی سرگرمیوں میں شامل کرتے ہیں۔

تعلیم

برطانیہ میں بہت اچھی تعلیمی سہولیات موجود ہیں۔ سولہ سال کی عمر تک کی تعلیم مفت اور لازمی ہے۔ درس وتدریس اس طریقے کار سے کی جاتی ہے کہ اس سے طلباء کسی قسم کا بوجھ یا دباو محسوس نہیں کرتے۔ یہاں کوئی باقاعدہ تشخیص ( امتحانات ) یا ٹیسٹ نہیں ہوتے۔ تشخیص یا تشخیص پر مبنی مختلف سرگرمیاں روزانہ کی بنیاد پر منعقد کیے جاتی ہیں۔ زندگی کی مہارت اور آداب کو بڑے زور کے ساتھ سکھایا جاتا ہے اور بچے بہت کم عمری میں ہی آزاد ہونا سیکھتے ہیں۔ لیکن حاضری کے بارے میں اصول بہت سخت ہیں اس کی وجہ سے کچھ ہندوستانی والدین نے ہم سے کہا کہ وہ اسکول کی طویل تعطیلات کے علاوہ دوسرے دنوں میں وطن جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہیں جبکہ اس دوران ہندوستان جانے والے ٹکٹوں کے کرایے بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہر سال بہت سے خاندانوں کا سفر ناممکن ہوجاتا ہے۔ بہت سے اسکول ایسے ہیں جن میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے الگ الگ کیمپس موجود ہیں۔ ہندوستانی والدین اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم دینے کے لیے مختلف طریقوں کا سہارا لیتے ہیں۔ کچھ مسلم انجمنیں اسلامی اسکول چلاتی ہیں اور ان میں سے کچھ کو دنیا کے بہترین اسلامی اسکول ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ برطانیہ کے تمام سرکاری اسکولوں کی درجہ بندی میں بھی ٹاپ ٹین لسٹ میں پہلے تین ایسے ہی اسکول ہیں جو مسلمانوں کے زیر انتظام ہیں۔ لیکن ان اسکولوں کی بھاری فیسوں اور حمل ونقل کے وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت کم ہندوستانی اپنے بچوں کو ایسے اسکول بھیج سکتے ہیں۔ اس پر قابو پانے کے لیے وہ آن لائن مدرسوں، گھریلو ٹیوشنوں، مساجد میں ویک اینڈ کلاسز وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں چونکہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے بہت کم عمری میں ہی پڑھنے کی عادت پیدا کرلیتے ہیں اس لیے وہ پڑھنے کے ذریعہ بھی اسلامی علم حاصل کرتے ہیں اور انہیں اس مقصد کے لیے بہت اچھی کتابیں دستیاب ہیں۔ یہاں پر بچے پاکٹ منی کمانے کے لیے خود ہائی اسکول کی سطح سے ہی چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرنا شروع کردیتے ہیں اور آہستہ آہستہ والدین پر انحصار کم کرنا سیکھتے ہیں۔ اسکول کی تعلیم کے بعد وہ یا تو ملازمت میں داخل ہو سکتے ہیں یا پارٹ ٹائم ملازمتوں کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ برطانیہ میں آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی دنیا کی کچھ بہترین یونیورسٹیاں ہیں۔ بھائی رفیق کی مدد سے ہم پورا ایک دن کیمبرج میں گزارنے میں کامیاب ہوگئے اور یہ اپنے تمام معنوں میں ایک حقیقی تعلیمی دورہ تھا۔ کیمبرج میں ایک خوبصورت کیمپس ہے جس میں جھیل کے اوپر بہت سے پل ہیں، کشتیوں کی سہولیات، پرندے، پھول، درخت اور وسیع سبز مرغزار۔ ہوٹلوں، کتابوں کی دکانوں اور اسٹیشنریوں میں طلبا کے لیے خصوصی رعایت ہے۔ طلبا مہمات کا اہتمام کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں یا کسی بھی چیز پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں جس کا ان کے ملک یا دنیا کے کسی بھی ملک کا تعلق ہو۔ مختلف عنوانات پر متعدد پوسٹرز اور نوٹسز ان کی نمائش کے لیے تفویض کردہ علاقے میں پائے گئے تھے۔ ہم کچھ پوسٹروں اور دھرنوں کا مشاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور کچھ مظاہرین کے ساتھ بات چیت کی۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ہم ہندوستان سے ہیں تو کہنے لگے کہ بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر وہ قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور وہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک میں خواتین کے نمایاں کردار کی تعریف کر رہے ہیں۔ کارپس کرسٹی کالج میں ٹیلر لائبریری کی دیوار پر طے شدہ کارپس کلاک یا گراس ہوپر کلاک کیمبرج گلی میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ کیمپس کے قریب گلیوں کے اندر صرف سائیکلوں کی اجازت ہے۔ یہ ہر ایک کیمپس کے لیے ضروری ہے جو پرسکون اور غیر آلودہ ماحول کو برقرار رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

آپ کو برطانیہ کی بیشتر یونیورسٹیوں میں ہندوستانی طلبہ مل جائیں گے۔ ہونہار طلبہ کے لیے وظائف کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے اچھے مواقع موجود ہیں۔ زیادہ سے زیادہ معلومات کی فراہمی کے لیے مددگار ڈسک کی مدد سے بہت سارے طالب علم آسانی سے مزید تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور برطانیہ میں ملازمتیں تلاش کرسکتے ہیں۔ میری اس رائے سے وہاں کے بہت سارے لوگ متفق ہیں۔ میں نے ان لڑکیوں سے ملاقات کی جو وہاں اکیلی رہتی ہیں اور تحقیق کرتی ہیں۔ ناٹنگھم یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر سسٹر شیرنا کا کہنا ہے کہ “ہر ایک کیمپس کے قریب ہی کچھ ایسے خاندان رہتے ہیں جن سے آپ مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جو کوئی انتخاب کے طریقہ کار وغیرہ سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ویب سائٹ www.findaphd.com پر معلومات تلاش کرسکتا ہے۔ ایک بار جب کسی امیدوار کا انتخاب ہوجاتا ہے تو وہ مختص ویزے کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ کورس کی تکمیل کے بعد ویزے کی مدت تقریباً ایک سال تک بڑھ جاتی ہے۔ یہ مدت نئی ملازمت تلاش کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہم نے کچھ خاتون طلباء کے شوہروں سے ملاقات کی جو وہاں تحقیق کرنے والی اپنی بیویوں پر منحصر ہیں۔ طلباء ہر ہفتے بیس گھنٹے تک تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کرسکتے ہیں۔ آئی ایس او سی یا اسلامک سوسائٹی ایک مسلم طلباء تنظیم ہے جو برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں کام کرتی ہے۔ وہ مختلف ممالک سے آنے والے مسلمان طلبا کو اپنی اسلامی زندگی کو ہموار اور آسان بنانے کے لیے بہت سی خدمات فراہم کرتی ہے۔

معاشرہ اور کنبہ

برطانوی عوام معاشرتی آداب کی سختی سے پیروی کرتے ہیں۔ خدمت پر ’شکریہ‘ اور غلطی پر ’معذرت‘ نہ کہنا بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ ایک بھائی نے لندن میں اپنے ابتدائی دنوں میں ایک سپر مارکیٹ سے گروسری خریدنے کے بعد ’’آپ کا شکریہ‘‘ نہ کہنے کا اپنا تجربہ شیئر کیا۔ اس کا مشاہدہ ایک بزرگ برطانوی خاتون نے کیا جس نے اسے سیلز مین کے پاس واپس جانے اور ’’ شکریہ ‘‘ کہنے پر مجبور کیا۔ ہم نے قطار کے نظام کو بھی بغیر کسی فرق کے ساتھ دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ عام معاملات جیسے ڈاکٹر کے ساتھ وقت مقرر کرنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ ہوائی اڈوں پر سکیورٹی عہدیداروں سمیت تمام عہدیداروں کا برتاؤ نہایت ہی حساس اور شائستہ ہے۔ جسمانی جانچ پڑتال کرنے سے پہلے انہوں نے میری اجازت لی۔ گھٹنوں کی بیلٹ جو میں نے درد کی وجہ سے پہن رکھی تھی اسے مزید جانچ پڑتال میں ڈال دیا گیا تھا لیکن جانچ پڑتال کے بعد اہلکار کو مجھے ایک ورزش سکھانے میں لگ بھگ دس منٹ لگے جو تکلیف دور کرنے میں مددگار تھی۔ سکاٹش پارلیمنٹ ہاؤس کا دورہ کرنے پر بھی یہی تجربہ ہوا۔ وہ سختی کے ساتھ تفصیلی جانچ پڑتال کرتے ہیں لیکن اپنی شائستگی اور آداب کے ذریعہ ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر اپنے کام کو انجام دیتے ہیں۔وقت کی پابندی کو برطانیہ میں ہر ایک کی مشترکہ خصوصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں سب کو لازماً عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ عام طور پر لوگ بہت مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ بیشتر خواتین، بچوں اور بوڑھوں سمیت ہر ایک اپنی زندگی کے لیے کام کرتے ہیں۔ بچوں کے حقوق کو بہت اہمیت دی جاتی ہے جبکہ بظاہر خاندانوں میں بوڑھے لوگوں کے حقوق نظر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

 

ہر کوئی ہندوستان میں سی اے اے مخالف تحریکوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ ہندوستان میں اپنے پیارے اور قریبی لوگوں کے لیے ان کی تشویش ان کے مباحث میں واضح تھی۔ برطانیہ میں بھی مختلف تنظیموں کے ذریعہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں اور برطانیہ کے حکام نے ان کی بھر پور حمایت کی

وہ صرف رسمی خاندانی تعلقات کو برقرار رکھتے ہیں۔ بزرگ لوگ عام طور پر اپنے گھروں میں الگ تھلگ زندگی گزارتے ہیں۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے بوڑھے افراد کے لیے اچھی فلاحی اسکیمیں موجود ہیں لیکن اس کمزوری کی حالت میں بھی وہ اپنے ہی بچوں کی دیکھ بھال اور توجہ سے محروم رہتے ہے۔ برطانیہ کے معاشرتی ضوابط میں بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ کام کرنے والی ماؤں کو اپنے بچوں کی پرورش کے لیے تنخواہ کے ساتھ پورے سال کی چھٹی مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم پارکوں اور عوامی گاڑیوں میں لوگوں کے ساتھ بچوں سے زیادہ کتے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ معاشرے میں کتوں کی بہت زیادہ قدر ہوتی ہے۔ کتوں کے لیے قبرستان، کھانے پینے کی خصوصی اشیاء اور ان کے لیے خصوصی طور پر کپڑے موجود ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کو سزا دینے یا ڈانٹنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ چونکہ اسکولوں پر اس کی اچھی طرح سے نگرانی کی جاتی ہے اور بچوں کو پہلے ہی خصوصی طور پر آگاہ کر دیا جاتا ہے لہٰذا والدین انہیں مشورہ دینے سے بھی گھبراتے ہیں کیونکہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ بچے اس کو نہ جانے کس طرح لیں گے۔ لیکن یہ ان کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث نہیں ہوتا کیونکہ طلباء کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے والدین، بہن بھائیوں وغیرہ سے اور اسکولوں کے ساتھیوں سے کس طرح برتاؤ کریں۔ بیشتر ہندوستانی کرایے کے اپارٹمنٹس اور فلیٹوں میں رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ گھر خرید سکتے ہیں۔ موت کے بعد کی تقریبات ایک مہنگا معاملہ ہوتا ہے اور بہت سارے لوگ پہلے ہی ایجنسیوں میں اس کے لیے بہت بڑی رقم جمع کرواتے ہیں۔ یہاں شاید بچوں کو اپنی حقیقی وراثت حاصل کرنے کا موقع نہ ملے کیونکہ ان کے والدین کی پوری جائیداد ایسے لوگوں کو مل سکتی ہے جن کے حق میں انہوں نے وصیت کی ہے۔ بعض لوگوں نے اپنا پورا اثاثہ پالتو کتوں بلیوں کو بھی دے دیا ہے۔ وہ جائیداد کا کچھ حصہ خیرات بھی کرتے ہیں۔ ویسے بھی ایک ایسے معاشرتی نظام میں جہاں والدین اپنے بچوں کو ایک مخصوص عمر کے بعد اچھی طرح سے پرورش نہیں کرتے اور بچے اپنے والدین کی بڑھاپے میں دیکھ بھال نہیں کرتے اس سے زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔

کچھ بہنوں نے مجھے بتایا کہ وہ آٹھ بجے کے بعد مکسر گرائنڈر چلانے سے گھبراتی ہیں۔ ایک اور بہن نے بتایا کہ جب اس کا بچہ رات کو روتا ہے تو وہ ڈر جاتی ہیں کیونکہ پڑوسی خلل کی شکایت کر سکتا ہے۔ کسی بھی طرح کی آلودگی پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔ بھیک مانگنے پر مکمل پابندی نہیں ہے ہم نے لوگوں کو بازار میں اور ریلوے اسٹیشنوں پر بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ وہ عام طور پر ایک بورڈ لیے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں جس پر ان کی ضروریات کی وضاحت ہوتی ہے اور مدد کے لیے سوال کرتے ہیں۔ عموماً لوگ مکان، دفتر یا گاڑیوں کے دیکھ بھال کے اپنے چھوٹے کام خود ہی کرتے ہیں کیونکہ اس کی اجرت بہت زیادہ ہے۔ آپ do it yourself والے اوزار سپر مارکیٹوں، خصوصی دکانوں اور کارنرز پر دیکھ سکتے ہیں۔

سفری سہولیات اور ٹریفک کے قواعد

اگر آپ اویسٹر کارڈز حاصل کرتے ہیں تو آپ کسی بھی عوامی حمل ونقل جیسے بس، ٹرین، ٹیوب (زیر زمین ٹرین) ٹرام یا کشتی استعمال کرسکتے ہیں۔ زائرین اور سیاحوں کے لیے خصوصی اویسٹر وزیٹر کارڈز ہیں۔ وہ بہت مہنگے نہیں ہیں۔ ٹریفک کے سخت قوانین کی بدولت حادثات بہت کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ شہر کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ سڑک پر پہلی ترجیح پبلک ٹرانسپورٹ کی ہے۔ سائیکل سواروں اور پیدل چلنے والوں کو خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ سائیکلنگ کی بہت حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ان بسوں اور کاروں کے ڈرائیوروں پر جو سائیکل سواروں سے مناسب فاصلہ برقرار نہیں رکھتے ہیں سخت جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ وہاں پر لوگ تقریباً ایک سال تک ہندوستانی لائسنس کے ساتھ گاڑی چلا سکتے ہیں۔

مفت اخبارات

تمام نمایاں مراکز پر اخباری اسٹینڈز دیکھے جاتے ہیں۔ کوئی بھی ٹیبلائڈ قسم کے اخبارات مفت میں لے سکتا ہے۔ ان کی لاگت اشتہارات سے پوری کی جاتی ہے جو اخبارات کو حاصل ہوتے ہیں۔ آپ ٹرینوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اخبارات پڑھتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ لندن شہر کو پہلے ہی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے افراد کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔

کسی بھی عقیدے کی تشہیر کی آزادی

کوئی بھی شخص اپنے مذہب یا عقیدے کو عوامی سطح پر عام کرنے کے لیے آزاد ہے۔ آپ شہر کے مراکز اور گلی کوچوں کے کونے کونے میں ایسے اسٹالز دیکھ سکتے ہیں جس پر زیادہ تر عیسائی اور مسلمان تبلیغ کرتے ہیں۔ لوگ آزادانہ گفتگو اور مباحثوں میں ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ مجھے کچھ افراد نے کہا کہ انگریزوں میں الحاد میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے گرجا گھر خالی یا بند پڑے ہیں۔ اسلام کی طرف رغبت خاص طور پر خواتین میں بہت عام ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام خواتین کو خاندانی نظام زندگی میں مضبوط حیثیت، مقام اور آزادی دیتا ہے۔ ایک ہی خاندان کے لوگوں کو مختلف مذہبی عقائد اور عقائد کی پیروی کرتے دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کے ذہن میں رنگ، نسل، مذہب، خطے وغیرہ پر مبنی منافرت ہے اور جس کے نتیجہ میں وہ معاشرے سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں یا پھر دھونس اور حملوں کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ ان کے خلاف قواعد وضوابط بہت مضبوط ہیں۔ مسلمانوں کے لیے حلال اسٹور عام ہیں۔ ایک دوست نے کہا کہ یہاں تک کہ برطانوی شہری بھی صحت کے فوائد کی وجہ سے حلال اشیاء کو ترجیح دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پریوں، چڑیلوں، بھوتوں وغیرہ کا اعتقاد انگریزوں میں اب بھی بہت عام ہے۔

غیر ملکیوں پر برطانوی سلطنت کا جادوئی اثر

ملازمت یا تعلیم کے لیے برطانیہ آنے والے بیشتر افراد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ دراصل وہاں آباد ہونے کی نیت سے آئے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً بہتر خدمات سے متعلق فوائد، حکام اور اعلیٰ افسران کا اچھا طرز عمل، تعلیم، صحت اور رہائش میں فلاحی اسکیمیں اور خدمات، اعلیٰ معیار زندگی اور اسی طرح کی کئی اور سہولتوں کی فراوانی۔ ایک بھائی نے ہمیں بتایا کہ ایک بار شہریت ملنے کے بعد آپ کو اپنے کنبے کے مستقبل کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن اس کا طریقہ کار مشکل ہے اور شہریت حاصل کرنے کے لیے فیسیں زیادہ ہیں۔ میں نے بہت ساری خواتین کو انگریزی زبان کے ٹیسٹ اور "لائف ان یو کے ٹسٹ ” کے لیے تیار ہوتے دیکھا ہے۔ اس کے لیے انہیں مفت کوچنگ مل جاتی ہے۔ انہیں اپنے اوپر کوئی الزام عائد نہ کروانے کا بھی بہت خیال رکھنا چاہیے۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک شہری ہے یا اگر وہ جو خود یو کے میں پیدا ہوئے ہیں انہیں خود بخود شہریت مل جائے گی۔ وہ جو کم سے کم پانچ سال سے یو کے میں مقیم ہیں شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ اس کے لیے عام طور پر پہلے سال سے ہی رقم کی بچت کی جاتی ہے اور اس کے لیے ہر طرح کے جتن کیے جاتے ہیں۔ ہندوستانیوں کے مقابلہ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگ ایک صدی سے برطانیہ میں آباد ہیں اور اب یہ ان کی تیسری نسل ہے۔ لیکن ہندوستان سے زیادہ زیادہ یہ دوسری نسل ہوگی۔ ہندوستانی زیادہ تر نرسنگ یا آئی ٹی کے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ کاروبار میں بہت کم ہیں۔

حرف آخر

یو کے کا سفر زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ ہم اس اطمینان کے ساتھ واپس آئے کہ کچھ ہی دنوں کے اندر زیادہ سے زیادہ کام کر سکے۔ STRIVE۔ UK سینئر ممبران جناب عزیز اور مسٹر موسا کی مہمان نوازی قابل تعریف ہے۔ میرے شوہر جناب عبدالرحیم کی صحبت میرے اور منتظمین کے لیے ایک بہت بڑی راحت تھی۔ اللہ کی راہ میں سفر کے دوران آپ کے اہل خانہ کے تعاون سے زیادہ کوئی نعمت نہیں ہوسکتی۔ ان کے لیے سب کی جانب سے ستائش اور نیک تمنائیں پیش ہیں۔