سائبر جرائم سے انٹرنیٹ صارفین پریشان
سائبر سکیورٹی کے لیے موثر قومی ریگولیٹری پالیسی کی ضرورت
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
نارٹن لائف لاک کی تحقیق سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ۱۰ ممالک میں تقریباً ۳۳ کروڑ افراد نے گزشتہ ۱۲ مہینوں میں سائبر جرائم کا سامنا کیا ہے جس کے نتیجے میں ۲۷ لاکھ گھنٹے خرچ ہوئے ہیں۔
پچھلے ایک سال کے دوران دنیا بھر میں ۶۵ فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ انہوں نے پہلے سے کہیں زیادہ وقت انٹرنیٹ پر گزارا ہے۔ کوویڈ-۱۹ کے پھیلنے کی وجہ سے انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت انٹرنیٹ میں صرف کردیا۔ موجودہ دور میں انٹرنیٹ زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہے، یہ زندگی کے ہر شعبے کی ضرورت بن گیا ہے گویا کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ ہمارا ہرکام اس سے جڑا ہوا ہے، چاہے وہ تعلیم ہو یا تفریح، سماجی رابطہ ہو یا اشیائے ضروریہ کی خرید و فروخت اور تجارت، گویا کہ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت ہے وہ انٹرنیٹ سے مربوط ہوچکی ہے اور اسی کا فائدہ جرائم پیشہ افراد نے خوب اٹھایا ہے۔ انہوں نے عوام پر سائبر حملے شروع کردیے، حملے بھی اتنے شدید تر کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والا اس کی تاب نہیں لاسکتا۔ کئی لوگوں نے اپنا سب کچھ گنوا دیا۔ کسی نے اپنی دولت تو کسی نے اپنی عزت گنوائی۔ سائبر تحفظ کے عالمی رہنما نورٹن لائف لاک نے انکشاف کیا ہے کہ پچھلے سال ۱۰ ممالک کے تقریباً ۳۳ کروڑ افراد سائبرحملوں کا شکار ہوئے ہیں اور وہیں ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد لوگ شناختی چوری کا شکار ہوئے۔ سائبرجرائم کے متاثرین نے مجموعی طور پر اپنے تقریباً ۲.۷ ارب گھنٹے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں ضائع کیے ہیں ۔ان دس ممالک میں آسٹریلیا، فرانس، جرمنی، ہندوستان، اٹلی، جاپان، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں ۔
چھٹی سالانہ نورٹن سائبر سیفٹی انسائٹس رپورٹ ۱۰ ممالک کے ۱۰ ہزار سے زائد بالغ افراد کے سروے کے بعد بنائی گئی ہے۔ یہ رپورٹ نورٹن سائبر سیفٹی اور ہیرس پول نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔ ان میں بشمول امریکہ ایک ہزار افراد نے اور ایک چوتھائی یعنی ۲۵ فیصد امریکیوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پچھلے بارہ ماہ میں ان کے اکاؤنٹ یا ڈیوائس تک کسی نے غیر مجاز طریقے سے رسائی حاصل کی ہے ۔ وہیں تقریباً ۱۱ کروڑ یعنی ۴۱ فیصد امریکیوں نے کہا کہ وہ کوویڈ-۱۹ کے دوران سائبرجرائم کا شکار ہوئے ہیں، سائبر حملوں کے متاثرین نے روزانہ اوسطاً ۷ گھنٹے حملوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں خرچ کیے ہیں یعنی اندازے کے مطابق ۷۲ کروڑ گھنٹے امریکیوں نے سائبرحملوں کے مسائل کو حل کرنے میں صرف کردیے۔ ساتھ ہی وہ بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس وبائی مرض کے دوران سائبر جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ، وہیں تقریباً نصف امریکی یعنی ۴۷ فیصد افراد اپنے آپ کو سائبر جرائم کے مقابلے میں زیادہ بے بس محسوس کرتے ہیں۔
سائبر سیفٹی ایجوکیشن نارٹن لائف لاک کے چیف پیج ہینسن کا کہنا ہے کہ ’’پچھلا سال ہمارے لیے ناقابل یقین حد تک چیلنجنگ رہا ہے کیونکہ ہم نے عالمی وبائی مرض کی وجہ سے عوام کو نفسیاتی اور جسمانی مسائل کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس پر مزید یہ کہ ہمارے خاندانوں کی صحت اور ان کی حفاظت بھی ہمارے لیے اضافی تشویش کا باعث بنی ہوئی تھی کیونکہ وہ اپنے اوقات کا بڑا حصہ انٹر نیٹ پر گزار رہے تھے ۔ اسی وجہ سے سائبرجرائم پیشہ افراد نے ہمارے بدلتے رویوں کاناجائز فائدہ اٹھایا ۔‘‘
امریکیوں کا آن لائن وقت میں اضافہ اور افسانوں سے حقیقت بتانے میں ناکامی ان کے لیے سائبر جرائم سے عدم تحفظ کے اہم اسباب ہو سکتے ہیں۔ ۷۳ فیصد امریکیوں کا یہ خیال ہے کہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ وقت آن لائن گزار رہے ہیں، جبکہ۵۹ فیصد افراد نے کہا کہ وہ سائبرجرائم کا شکار ہونے سے متعلق پہلے سے کہیں زیادہ پریشان ہیں اور ۵۶ فیصد نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ جو معلومات آن لائن فراہم ہورہی ہیں وہ معتبر ہیں بھی یا نہیں، کیوں کہ ان کے ذریعے پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ ۷۶ فیصد عوام کا خیال ہے کہ ریموٹ پر کام کی وجہ سے ہیکرز اور سائبرمجرمین کے لیے آسانی ہوگئی ہے کہ وہ لوگوں کے آلات کو ہیک کریں اور ان پر آن لائن حملہ کریں ۔
ہمارے ملک میں سائبر تحفظ ایک بڑا چیلینج بنا ہوا ہے ۔ جہاں ہمارے ملک نے آئی ٹی کے شعبے میں اپنا ایک الگ مقام بنایا ہے وہیں ٹیکنالوجی پر اس کا انحصار بھی اتنا ہی بڑھ گیا ہے۔ہندوستانی اپنی تقریباً تمام ہی ضروریات کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، خریداری سے لے کر بینکنگ تک، تعلیم و مطالعہ سے لے کر ڈیٹا کو ذخیرہ کرنے تک۔ چنانچہ اسی تناسب سے سائبر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں سائبر جرائم کے حوالے سے وہ کیا چیلنجز ہیں جو ہمارے ملک کو درپیش ہیں۔
پہلا یہ کہ آلات میں عدم یکسانیت ہے :انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد مختلف قسم کے آلات استعمال کرتے ہیں جن میں یکسانیت نہیں پائی جاتی ۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں مختلف آمدنی والے لوگ ہیں اور ہرکوئی مہنگے فون خرید نہیں سکتا۔ امریکہ کے بازار میں ایپل کی حصہ داری تقریباً ۴۴ فیصد سے زیادہ ہے۔وہیں ہندوستان میں آئی فون اپنے اعلیٰ تحفظی ضوابط والے آلے کے ساتھ ایک فیصد سے بھی کم موبائل استعمال میں ہیں۔ اعلیٰ درجے کے آئی فون اور کم لاگت والے موبائل فون کی جانب سے دیے جانے والے تحفظ میں بڑا فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے قانونی اور تکنیکی معیارات کا تعین تقریباً ناممکن بات ہے۔
دوسرا یہ کہ سائبرتحفظ کے لیے قومی سطح پر کوئی نظام موجود نہیں ہے: بحران سے نمٹنے کے لیے جس فنی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے وہ خانگی شعبے کے پاس ہے جبکہ قومی سطح پر ایسا کوئی نظام نہیں ہے جوتمام ایجنسیوں کی کوششوں کو یکجا کر سکے تاکہ کسی بھی خطرے کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکے اور اس سے مؤثر طریقے سے نمٹا جا سکے۔
تیسرا سرحدوں کا فقدان ہے: ممالک یا ریاستوں کی طرح سائبر کی دنیا میں کوئی حدود نہیں ہوتیں اور نہ ہی ملکوں کی طرح اس کی کوئی دفاعی فوج ہوتی ہے جو ملک کے سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ مثال کے طور پر او این جی سی کے ڈیجیٹل اثاثےہوں یا بینکنگ کے معاملات ان پرکہیں سے بھی سائبر حملہ کیا جاسکتا ہے یا انہیں حملوں کا شکار بنایا جاسکتا ہے ۔ ان حملوں کے نتیجے میں قومی سطح پر حفاظتی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے ایک بحران پیدا کیا سکتا ہے جس سے پیسے، املاک یہاں تک کہ جانی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ سب سے قیمتی اثاثوں اور وسائل پر ممکنہ خطرات کا جواب دینے کے لیے قومی سطح ایک تکنیکی طور پر لیس ہمہ جہت کام کرنے والی تنظیم یا ایجنسی کی ضرورت ہے جو ان خطرات سے نمٹ سکے ۔ شعور و بیداری کی کمی: ہمارے پاس سائبرتحفظ کے لیے کوئی قومی ریگولیٹری پالیسی موجود نہیں ہے اس لیے کمپنیوں کی سطح پر اور ساتھ ہی ساتھ انفرادی سطح پر بھی شعور و آگہی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے کمپنیاں اور گھریلو انٹرنیٹ صارفین سائبر حملوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ان کی حفاظت اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جب کہ ان کے لیے رہنمائی اورنگرانی کا قانون موجود ہو۔
***
***
ہمارے ملک میں سائبر تحفظ ایک بڑا چیلینج بنا ہوا ہے ۔ جہاں ہمارے ملک نے آئی ٹی کے شعبے میں اپنا ایک الگ مقام بنایا ہے وہیں ٹیکنالوجی پر اس کا انحصار بھی اتنا ہی بڑھ گیا ہے۔ ہندوستانی اپنی تقریباً تمام ہی ضروریات کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، خریداری سے لے کر بینکنگ تک، تعلیم و مطالعہ سے لے کر ڈیٹا کو ذخیرہ کرنے تک۔ چنانچہ اسی تناسب سے سائبر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021