زندگی کو پرلطف بنانے کے لیے شریک حیات کا خیال رکھیں
گھر کا ماحول خوبصورت بنانے کے لیے خود کو بدلنا ضروری
الطاف جمیل ندوی
انسان جب پسینے میں شرابور ہو کر بھی کام میں مگن رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کا انگ انگ درد سے کراہتا ہے تب بھی اسے تھکاوٹ کے باوجود درد کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ میرے پسینے کے بہنے سے اگر میری بیوی آرام پا سکے تو یہ میرے لیے دنیا کی ہر دولت سے بڑھ کر ہے۔ چنانچہ یہ اپنے کرب کی شکایت نہیں کرتا۔ اسے فکر رہتی ہے کہ میرے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی میرے خوابوں کی ملکہ میرے انتظار میں بیٹھی ہوگی مجھے اس کی دنیا خوشیوں سے بھر دینی ہے۔ ایسا تصورِ حیات اس وقت آتا ہے جب دو انجان مرد وعورت نکاح کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں پھر ان کی اپنی ایک الگ دنیا بن جاتی ہے جسے سجانا سنوارنا ہی مقصد حیات بن جاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں کا سامان کرتے رہتے ہیں ایک دوسرے سے تسکین پاتے ہیں۔ بیوی گھر کی ملکہ بن جاتی ہے اور شوہر روزی روٹی کی تلاش میں اپنی قوتِ جسمانی کو استعمال کرکے دیارِ محبت کو آباد رکھنے کے لیے نکل پڑتا ہے۔ کما کر لاتا ہے اور کمائی کو اپنی شریک حیات کے ہاتھ میں رکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے پھر اسے دن بھر کی تھکن یاد رہتی ہے نہ بھوک پیاس۔ بقول بانو قدسیہ ’میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انہوں نے اپنے بچوں کے لیے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہو رہا ہے۔ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازار کو عید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ہوگئی آپ نے کرتا خرید لیا آپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کونسی روز پہنی تھی جو خراب ہوگئی ہوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ہے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاؤ گی۔ ابھی میں ساتھ ہوں جو خریدنا ہے آج ہی خرید لو۔ میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لیے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لیے بھی کچھ نہ کچھ لے آیا۔ میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک پار کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ہوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ بیٹا ابھی میں زندہ ہوں۔۔ لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ہو چکا ہے، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ہے اسے رونے نہیں دے گا۔
بانو قدسیہ کے آخری لفظ سے میں اتفاق نہیں کرتا کیوں کہ مرد بھی روتا ہے وہ بھی آنسو بہا کر خود کا بوجھ ہلکا کرتا ہے لیکن یہ سوچ کر اس کی شریک حیات کو دکھ نہ ہو وہ تنہائیوں میں آنسو بہاتا ہے۔
بیوی اگر شوہر کو مسرت وخوشی دینا چاہتی ہے تو وہ اس عرب خاتون کی نصیحتیں یاد رکھے جو اس نے بیٹی کو وداع کرتے وقت کی تھیں۔
اس عرب خاتون نے اپنی بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری بیٹی! میری آنکھوں کی ٹھنڈک! شوہر کے گھر جا کر قناعت والی زندگی گزارنے کی کوشش کرنا، شوہر کے گھر جو دال روٹی ملے اس پر راضی رہنا شوہر کی خوشی کے ساتھ مل جائے وہ اس مرغ پلاؤ سے بہتر ہے جو تمہارے اصرار کرنے پر اس نے نا راضگی سے دیا ہو۔
دوسری بات یہ کہ اپنے شوہر کی بات کو ہمیشہ توجہ سے سننا اور اس کو اہمیت دینا اور ہر حال میں شوہر کی بات پر عمل کرنے کی کو شش کرنا، اس طرح تم ان کے دل میں جگہ بنا لو گی۔
تیسری بات یہ کہ اپنی زینت وجمال کا ایسا خیال رکھنا کہ جب وہ تم کو نگاہ بھر کے دیکھے تو اپنے انتخاب پر خوش ہو اور خوشبو کا اہتمام ضرور کرنا۔ چوتھی بات یہ کہ اپنے شوہر کی نگاہ میں بھلی معلوم ہونے کے لیے اپنی آنکھوں کو سرمے اور کاجل سے حُسن دینا کیونکہ پرکشش آنکھیں پورے وجود کو دیکھنے والے کی نگاہوں میں جچا دیتی ہیں۔ غسل اور وضو کا اہتمام کرنا کہ یہ سب سے اچھی خوشبو ہے اور لطافت کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ پانچویں بات یہ کہ شوہر کا کھانا وقت سے پہلے ہی اہتمام سے تیار رکھنا کیونکہ دیر تک برداشت کی جانے والی بھوک بھڑکتے ہوئے شعلے کی مانند ہو جاتی ہے اور شوہر کے آرام کرنے اور نیند پوری کرنے کے اوقات میں سکون کا ماحول بنانا کیونکہ نیند ادھوری رہ جائے تو طبیعت میں غصہ اور چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ چھٹی بات یہ کہ شوہر کے گھر اور اس کے مال کی نگرانی کرنا، اور اس بات کا خیال رکھنا کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی گھر میں نہ آئے اور اس کا مال لغویات، نمائش وفیشن میں برباد نہ کرنا کیونکہ مال کی بہتر نگہداشت حسن انتظام سے ہوتی ہے اور اہل وعیال کی بہتر حفاظت حسن تدبیر سے ہوتی ہے۔ ساتویں بات یہ کہ شوہر کی راز دار رہنا، اس کی نافرمانی نہ کرنا۔ آٹھویں یہ کہ جب تمہارا شوہر کسی بات پر غمگین ہو تو اپنی کسی خوشی کا اظہار اس کے سامنے نہ کرنا یعنی اپنے شوہر کے غم میں شریک رہنا۔ شوہر کی کسی خوشی کے وقت غم کے اثرات چہرے پر نہ لانا اور نہ ہی شوہر سے ان کے کسی رویے کی شکایت کرنا۔ اپنے شوہر کی خوشی میں خوش رہنا، ورنہ تم ان کے قلب کے مکدر کرنے والی شمار ہو گی۔
نویں بات یہ کہ اگر تم شوہر کی نگاہوں میں قابل احترام بننا چاہتی ہو تو اس کی عزت اور احترام کا خوب خیال رکھنا اور اس کی مرضی کے مطابق چلنا تو تم شوہر کو بھی زندگی کے ہر لمحے اپنا بہترین رفیق پاؤ گی۔
اس نے دسویں بات بتاتے ہوئے کہا کہ جب تک تم ان کی خوشی کی خاطر اپنے دل پر جبر نہیں کرو گی اور اس کی بات رکھنے کے لیے اپنی خواہش کو نہیں دباؤ گی تمہاری زندگی میں خوشیوں کے پھول نہیں کھل سکیں گے۔
شوہر کے حقوق
شوہر کا پہلا حق یہ ہے کہ بیوی اس کی عزت اور اپنی ناموس کی حفاظت کرے۔ عفت وعصمت ہر مرد اور عورت کا سب سے بڑا حسن ہے، بالخصوص اس کو عورت کا زیور کہا جاتا ہے۔ بیوی، شوہر کی عزت وآبرو ہوتی ہے، اس کا تحفظ کرنا شوہر کا سب سے اولین فرض ہے۔ پاک دامن اور نیک عورت دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ کسی عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شوہر کی عزت و ناموس پر ڈاکہ ڈلوائے۔
شوہر کا دوسرا حق یہ ہے کہ بیوی اس کے مال واسباب کی حفاظت کرے۔ وہ شوہر کے مال واسباب کی امین ہے۔ کوئی شخص گھر سے باہر اسی وقت سکون واطمینان سے کام کر سکتا ہے جب اسے یہ اطمینان ہو کہ اس کا گھر اور مال ومتاع اس کی عدم موجودگی میں بھی اسی طرح محفوظ ہے، جس طرح اس کی موجودگی میں محفوظ تھا۔ شوہر کی محنت کے پھل کی حفاظت بیوی سے بہتر اور کون کر سکتا ہے؟ اسے شوہر کی محنت اور جانفشانی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے اور پھر شوہر کے مال واسباب کی حفاظت میں خود اس کا اپنا اور اپنی اولاد کا مفاد بھی پوشیدہ ہے۔ کون عورت اپنا اور اپنی اولاد کا نقصان گوارا کر سکتی ہے؟ شوہر کا تیسرا حق یہ ہے کہ بیوی اس کے گھر کے جملہ انتظامات سنبھالے اور اپنے حسنِ انتظام سے گھر کو جنت کا نمونہ بنائے۔ احساس کمتری میں مبتلا افراد چار دیواری کو عورت کا ’’قید خانہ‘‘ بتاتے ہیں لیکن اسلام کا تصور قید خانے کا نہیں بلکہ وہ اسے عورت کی ایک چھوٹی سی ریاست بتاتا ہے جس کی وہ ملکہ ہوتی ہے۔ سارے اندرونی اختیارات اس کو حاصل ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنے گھر کا بجٹ بناتی ہے تو وہ اپنی ریاست کی وزیر خزانہ ہوتی ہے۔ جب وہ اولاد کی تربیت کرتی ہے تو اس کی حیثیت وزیر تعلیم کی سی ہوتی ہے۔ جب وہ انتظامی ضابطہ وضع کرتی ہے تو اس کی حیثیت ایک وزیر قانون کی سی ہوتی ہے۔ غرض جس طرح بھی وہ اپنے گھر کا انتظام کرتی ہے تو اسی کے مطابق اس کی حیثیت متعین ہوتی ہے۔ ایک صاحب فکر ونظر عورت تدبیر وتشکیل میں اتنی ہی خوشی محسوس کرتی ہے جتنا کہ کوئی وزیر۔شوہر کا چوتھا حق یہ ہے کہ بیوی اس کی اطاعت کرے۔ اسلام کے نزدیک اطاعت کا تصور یہ ہے کہ نظم خاندان اور نظام خانہ کو درست رکھنے کے لیے مرد کو اس کی فطری صلاحیتوں کے سبب عورت پر ایک درجہ دے کر قوام (نگراں) بنایا گیا ہے۔ انتظامی نقطۂ نظر سے ایک سپریم اتھارٹی بہر حال ضروری ہے۔ بیوی گھر کی اتھارٹی ہے اور شوہر سپریم اتھارٹی۔ انتظامی، محکوم ومجبور نہیں ہوتی بلکہ بڑے وسیع اختیارات کی حامل ہوتی ہے۔ سپریم اتھارٹی کو مداخلت کا حق صرف اس وقت ہوتا ہے جب کوئی معاملہ اتھارٹی کے کنٹرول سے باہر ہو جائے۔ اتنی بڑی اتھارٹی کو غلام سمجھنا بجائے خود غلامانہ ذہنیت ہے۔
دوسری طرف شوہر کی سپریم اتھارٹی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھاکر بیوی پر ظلم کرے اور اسے لونڈی بنائے رکھے۔ قرآن حکیم نے بیوی اور خاوند کے لیے ’’زوجین‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، جس میں مساوات اور ہمسری کا پہلو خود بخود شامل ہے۔ بیوی کو مساویانہ حیثیت اور ہمسری صرف اسلام نے عطا کی ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بیوی شریک حیات ہے لونڈی نہیں۔لیکن آج کل کی بیویاں شوہر کے لیے سجنے سنورنے کو تیار نہیں(الاّماشااللہ )۔ شوہر جیسے ہی گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہی گرد آلود موٹا چہرا جسم بوسیدہ لباس خشکی بھرے بال لیے ہوئے مردانہ آواز نکالتے ہوئے منہ بنا کر غصہ میں کہتی ہیں فلاں چیز لانا بھول گئے ہوں گے؟ معلوم ہے مجھے،، آپ سے ایک کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ یہاں وہ شوہر آہستہ آہستہ بیوی سے دور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر اسے بیوی سے زیادہ موبائل، ٹیلیوژن اور دوستوں میں دلچسپی بڑھنے لگتی ہے۔ ایمان اور دل میں خدا کا ڈر ہوتا ہے تو نفس پر قابو کیے رکھتا ہے اور کہیں ایمان کمزور، خوفِ خدا کم ہو تو باہر خواتین سے تعلق بنا بیٹھتا ہے۔ ہر شخص اپنی بیوی کو جوان، تر وتازہ اور خوبصورت دیکھنا چاہتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیوی رومانوی انداز میں گفتگو کرے، لیکن خواتین کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ بچوں کے بعد یہ سب نہیں ہوتا۔ بچے کون سنبھالے گا، گھر کے کام کاج کون کرے گا۔ ان تمام معاملات میں انسان کی حالت خراب ہو ہی جاتی ہے اور پھر اس کا نتیجہ کچھ یوں نکلتا ہے کہ شوہر موبائل میں مصروف رہتے ہیں، دوستوں میں مصروف رہتے ہیں، آفس کے کام سے دھیان ہی نہیں ہٹتا، گھر دیر سے آتے ہیں۔ اگر ایک عورت اپنے کمرے کا ماحول شوہر کے لیے رومانوی بنا کر رکھے، خود کو شوہر کے لیے تیار کرے، سج سنور کر رہے، شوہر سے گفتگو کے دوران آواز میں نرمی اپنائے رکھے تو شوہر دوستوں میں جانا تو دور بلکہ اپنے آفس سے جلدی چھٹی لے آئے گا۔ یہ تو اللہ کا حکم ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں کے لیے بن سنور کر رہا کریں تاکہ شوہر کا اپنی بیوی سے دل لگا رہے، وہ کبیرہ گناہوں کی طرف نہ جائے۔ لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ گھر میں شوہر کے سامنے بیوی کے ہاتھوں سے پیاز اور لہسن کی بو آرہی ہے اور کسی تقریب میں جاتے وقت میک اپ کے ڈبے ختم کر دیے۔ آدھے آدھے پرفیوم اور سپرے ہوا میں اڑا دیے بعض جگہ مردوں میں بھی یہ خامیاں پائی جاتی ہیں، وہ بھی بیوی کے پاس جائیں تو صفائی وستھرائی کا خیال رکھیں۔ خود کو چست وفعال رکھیں، آنکھوں میں چمک رہے، چہرے پر مسکراہٹ رہے، بالوں میں کنگھی اور ہلکی خوشبو کا استعمال بے حد ضروری ہے، ایسا نہ ہو کہ باہر سے پسینے میں شرابور آئیں اور اسی حالت میں رہ کر آس پاس کے ماحول میں بو بکھیریں۔ سر کے بالوں میں خشکی نہ آنے دیں داڑھی اور چہرے کو گرد وپسینے سے صاف رکھے کیونکہ بیوی کو بھی اپنا شوہر جوان، خوبصورت، چوکس، تر وتازہ ہی اچھا لگتا ہے۔
تمام باتوں کا مقصد یہ ہے میاں بیوی کی زندگی میں دونوں کا ایک دوسرے کے لیے سجنا سنورنا، ایک دوسرے کے لیے تیار ہونا، بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، اس سے محبت بڑھتی ہے، گھر کا ماحول خوبصورت رہتا ہے تو اسی لیے ہمیں سب سے پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا نہیں تو جس زندگی کو ہم جنت سمجھ کر جینے کے لیے خوشیاں مناتے ہیں وہی باعث اذیت بن جاتی ہے۔
احساس کمتری میں مبتلا افراد چار دیواری کو عورت کا ’’قید خانہ‘‘ بتاتے ہیں لیکن اسلام کا تصور قید خانے کا نہیں بلکہ وہ اسے عورت کی ایک چھوٹی سی ریاست بتاتا ہے جس کی وہ ملکہ ہوتی ہے۔ سارے اندرونی اختیارات اس کو حاصل ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنے گھر کا بجٹ بناتی ہے تو وہ اپنی ریاست کی وزیر خزانہ ہوتی ہے۔