روس کی مسلط کردہ جنگ سے صرف یوکرین ہی نہیں بلکہ عالمی معیشت بھی تباہ ہوگی
خام تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ، مہنگائی کو پر لگنے کا اندیشہ
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں شدت کی وجہ سے کورونا قہر سے ابھر رہی عالمی معیشت پر اب اندیشوں کے گہرے بادل چھاگئے ہیں۔ موجودہ حالات سے کئی ممالک کا براہ راست معاشی مفاد وابستہ ہوا ہے۔ اس سے بھارتی معیشت کے مفاد پر بھی زبردست ضرب پڑنے کا اندیشہ ہے۔ لہذا معیشت کے تعلق سے بھارت کی فکر مندی اور تشویش کا بڑھنا لازمی ہے۔ روس کے ذریعے یوکرین کے دو باغی علاقوں کو تسلیم کیے جانے سے جنگ کی آگ بھڑکی ہے جس سے عالمی بازار بھی متاثر ہوں گے۔ اس سے دنیا کے بازاروں میں اتھل پتھل شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے ملک کے شیئر بازار میں بھی گزشتہ ہفتہ 20فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے اس طرح حصص بازار میں سرمایہ کاروں کے 10لاکھ کروڑ روپے ڈوب گئے۔ عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت میں اضافہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ فی الوقت خام تیل کی قیمت 105ڈلر فی بیرل کے پار ہوگئی ہے۔ خام تیل کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کو پر لگ جائیں گے۔ مغربی ممالک کے ذریعے روس کے اثاثے منجمد کرنے سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ کا امکان بڑھ گیا ہے اور بھارتی کرنسی کی قیمت گھٹ گئی ہے۔ اس کا بُرا اثر بھارتی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دے گا۔ روس اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت رواں مالی سال میں 9.4بلین امریکی ڈالر رہی ۔ روس پر اقتصادی پابندی کی وجہ سے روس اور بھارت کے درمیان برآمدات اور درآمدات دونوں کے لیے ادائیگی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گی۔ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے بھی روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ سے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت پر تشویش کا اظہار کیا ہے- فینانشیل اسٹبلیٹی ڈیولپمنٹ کمیٹی کے اجلاس میں خام تیل کی بڑھتی شرح پر بحث ہوئی ہے۔ مگر خوردہ قیمتوں پر فیصلہ تیل کی کمپنیوں کو ہی کرنا ہے۔ ایشیا پیسفک خطہ میں بھارت یوکرین کے لیے سب سے بڑا درآمداتی ملک ہے۔ اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے تو دو طرفہ تجارت متاثر ہوگی ہی۔ یوکرین۔ بھارت کے لیے سورج مکھی تیل کا خاص برآمدکنندہ ملک ہے کیونکہ پام تیل۔ سویا بین تیل اور سرسوں کے تیل کے بعد ہمارے ملک میں سورج مکھی کا تیل ہی کھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 93فیصد سورج مکھی تیل یوکرین اور روس سے ہی ہمارے ملک میں درآمد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت سویا بین کا تیل برازیل اور ارجنٹینا سے اور پام تیل انڈونیشیا وملیشیا سے بڑی مقدار میں منگواتا ہے۔ لوہا، اسپات، پلاسٹک، ان آرگینک کیمیکلس اور دیگرکیمیاوی پیداوار بھی درآمد کرتا ہے۔ اس کے عوض بھارت یوروپی ملک کو فارما سیوٹیکلس، پیداوار، ری ایکٹر / بوائلر ، مشنری، میکانیکل اوزار، تیل کے بیج، پھل، کافی ، چائے اور مصالحوں کو برآمد کرتا ہے۔ اس طرح بھارت کی دو طرفہ تجارت 2019-20میں 2.52بلین ڈالر کی رہی۔ جو 2015-16سے 25فیصد زائد ہے۔ اس مدت میں جہاں درآمدات 1.7فیصد بڑھی ہیں وہیں برآمدات میں 79فیصد کی تیزی دیکھی گئی ہے۔ جرمنی اور فرانس کے بعد ہمارا ملک یوکرین کا تیسرا سب سے بڑا فارمیو سیو ٹیکلس کا برآمداتی ملک ہے۔ مشرقی یوروپی ملک اور روس کے درمیان جنگی حالات کی وجہ سے انڈونیشیا اور ملیشیا نے بھی پام تیل کی قیمت 20فیصد تک بڑھادی ہے۔ ایسے جنگی حالات میں ہمیں متبادل کو تلاش کرنا ہوگا تاکہ اکسپورٹرس کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ ایسے بحران میں اچھے مواقع بھی پیدا ہورہے ہیں۔ مثلاً سرسوں کی تجارت راجستھان میں 660-6700روپے کنٹل سے ہورہی ہے یہ ہمارے کسانوں کے لیے بڑی خوش خبری ہے۔ اس طرح ہمیں پنجاب، ہریانہ ، تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے کسانوں کو تیل کے بیج کے پیداوار کے لیے ہمت افزائی کرنی ہوگی۔
ہمارے ملک نے اقوام متحدہ میں روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور سبھی ممالک نے فریقین سے جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ روسی صدر پوٹین نے مشرقی یوکرین کے روس کے حمایت یافتہ خطہ کو تسلیم کرکے سارے یوکرین پر حملہ کرکے کھلی جارحیت کا ثبوت دیا ہے۔ بہت سارے متفرقات کے باوجود موجودہ حالات میں 1938کی گونج ہے۔ سال 1938کا سب سے اہم سبق ہے کہ بھلے ہی آج طاقت کا توازن پہلے کے مقابلے میں زیادہ پر خطر اور مہنگا ہو سکتا ہے مگر یہ یوروپ کی طویل مدتی سلامتی اور دفاع کے لیے ضروری ہے اس لیے پیوٹن ہٹلر کی طرح سخت قید و بند کے بجائے اپنے مخالفین کو قابو میں کرنے کے لیےہر طرح کی بربربیت اور قتل کا سہارا لیتا ہے۔ دوسری طرف اپنے ملک کی سرحدوں کو آگے بڑھانے کے توسیع پسندانہ عزائم پر یقین رکھتا ہے۔ اس لیے عالمی رہنماوں کو پیوٹن کو جلد از جلد جنگ بندی پر مجبور کرنا ضروری ہے۔ جو اب تک کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ تمام یوروپی ممالک اور اس کے مغربی حلیف زبانی جمع خرچ پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ عوام الناس دو سالوں سے کورونا قہر کی مار سے کمر توڑ مہنگائی کے زد میں ہیں اور کساد بازاری بھی زیادہ ہی ہے۔ اس ضمن میں موڈیز انوسٹرس سرویس کے مینیجنگ ڈائرکٹر مائیکل ٹیلر نے بتایا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگی صورتحال کی وجہ سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے جس کا اثر ضروریات زندگی کے تمام بنیادی اشیا پر ہوگا۔ اس بحران سے تیل برآمد کرنےوالے ایشیائی ممالک کو فائدہ بھی ہوسکتا ہے مگر اس سے عالمی معیشت پر زبردست منفی اثرات پڑیں گے کیونکہ جنگ میں شدت کی وجہ سے خام تیل کی قیمت کئی سالوں کے مقابلے سب سے اونچائی پر پہنچ گئی ہے۔ ہمارا ملک اپنی ضرورت جا80فیصد خام تیل درآمد کرتا ہے۔ اب اس کی قیمت میں اچھال سے معیشت میں سستی آنے کا امکان ہے۔ معاشی سروے 2022-23میں 8-8.5فیصد شرح نمود کا اندازہ لگایا گیا تھا جب کہ عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت 70تا75ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 105ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے۔ اس طرح بڑھی ہوئی قیمت افراط زر پیدا کرے گی اور مالی اور خارجی شعبوں میں رسک پیدا کرے گی۔ آر بی آئی کے تجزیہ کاروں کے مطابق 10ڈالر فی بیرل کے اضافہ سے افراط زر میں 49بیسس پوائنٹس کا اضافہ ہوگا اس سے خوردہ افراط زر کے خدشے بھی بڑھ جائیں گے۔ اس کو قابو میں کرنے کے لیے ٹیکس کی وصولی بری طرح متاثر ہوگی۔ کوٹک اکانومک ریسرچ کے مطابق ہر 10ڈالر کا اضافہ ہوگا جو ہماری جی ڈی پی کا 0.5فیصد ہوگا۔ اس سے بھارتی کرنسی بھی دباو میں آجائے گی۔ دوسری طرف کریسیل کے مطابق گزشتہ تین مہینوں سے اوپیک ممالک اپنی پیداوار کے ہدف کو حاصل نہیں کر پارہے تھے۔ اس سے خام تیل کی قیمت بھی متاثر ہوئی ہے۔ جتنا زیادہ یہ جنگ طویل ہوگی۔ خام تیل میں اچھال کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس کے علاوہ روس اور یوکرین کا بحران زیادہ بڑھا تو یہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ روس کے ذریعے لادی گئی اس جنگ میں یوکرین ہی تباہ نہیں ہوگا بلکہ عالمی معیشت بھی بدترین صورتحال سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔
ایمرجنسی کے طور پر بھارت اب اضافی خام تیل کے قومی ذخیرہ سے زیادہ مقدار میں تیل بازار میں لانے جارہا ہے تاکہ موجودہ بحران کے مد نظر تیل کی قیمت کو کنٹرول میں رکھا جا سکے جب تک سپلائی کے راستے ٹھیک سے نہیں کھلتے ہیں تیل کی قیمت میں اچھال برقرار رہے گا۔ ہمارے ملک کی 5ریاستیں انتخابات کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے گزشتہ سال 4نومبر 2021کو پٹرول اور ڈیزل اور پکوان گیس کی قیمت کو منجمد کردیا گیا ہے۔ اسی کے مد نظر پٹرول اور ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی میں 5روپے اور 10روپے کی کمی کردی گئی ۔ اس کے بعد ریاستی حکومت کی طرف سے ویلیو ایڈیڈ ٹیکس میں کمی کے بعد دلی میں دسمبر 2021کو پٹرول 8روپے سستا ہوگیا جبکہ ڈیزل کی قیمت جوں کی توں برقرار رہی ہے مگر الیکشن ختم ہوتے ہی اس میں بھاری اضافہ کا خطرہ برقرار ہے۔
***
روس اور یوکرین کے درمیان جنگی صورتحال کی وجہ سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے جس کا اثر ضروریات زندگی کے تمام بنیادی اشیا پر ہوگا۔ اس بحران سے تیل برآمد کرنےوالے ایشیائی ممالک کو فائدہ بھی ہوسکتا ہے مگر اس سے عالمی معیشت پر زبردست منفی اثرات پڑیں گے کیونکہ جنگ میں شدت کی وجہ سے خام تیل کی قیمت کئی سالوں کے مقابلے سب سے اونچائی پر پہنچ گئی ہے۔ ہمارا ملک اپنی ضرورت جا80فیصد خام تیل درآمد کرتا ہے۔ اب اس کی قیمت میں اچھال سے معیشت میں سستی آنے کا امکان ہے۔ معاشی سروے 2022-23میں 8-8.5فیصد شرح نمود کا اندازہ لگایا گیا تھا جب کہ عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت 70تا75ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 105ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 تا 19 مارچ 2022