رسائل و مسائل
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ولیمہ کا وقت؟
سوال: ہمارے علاقے میں بعض حضرات اس چیز کی تحریک چلا رہے ہیں کہ ولیمہ نکاح کے بعد فوراً کر لینا بہتر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ولیمہ لڑکی کی رخصتی کے بعد کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ براہ کرم یہ بھی واضح فرمادیں کہ ولیمہ کا درست وقت کیا ہے؟ اور یہ کہ ولیمہ کب تک کیا جا سکتا ہے؟
جواب: نکاح کے موقع کا ایک اہم عمل ولیمہ ہے۔ یہ اصلاً خوشی کا اظہار ہے۔ نکاح کے نتیجے میں ایک اجنبی مرد اور عورت یکجا ہوتے ہیں اور خاندان وجود میں آتا ہے۔ دو خاندان جڑتے ہیں اور ان کے درمیان قریبی تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف نئے جوڑے کے لیے، بلکہ پورے خاندان کے لیے بہت خوشی کا موقع ہوتا ہے، اس کے اظہار کے لیے ولیمہ کیا جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ سے ولیمہ ثابت ہے۔ آپ نے جتنے نکاح کیے ان کے بعد ولیمہ کیا اور صحابۂ کرام کو بھی ان کے نکاح کے بعد ولیمہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے نکاح کیا تو آپ ﷺنے رشاد فرمایا:
أولِم وَ لَو بِشَاۃٍ (بخاری:3781، مسلم:1427) ’’ ولیمہ کرو، چاہے ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘
اسی لیے ولیمہ کو مسنون یا مستحب کہا گیا ہے۔
ولیمہ کا لغوی معنیٰ ہے ’اجتماع‘، یعنی میاں بیوی کا جمع ہونا۔ اس لحاظ سے ولیمہ کا صحیح وقت بیوی کی رخصتی اور شبِ زفاف، یعنی میاں بیوی کی ملاقات کے بعد کا ہے۔ بہتر ہے کہ شبِ زفاف کے اگلے دن ولیمہ کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش ؓسے نکاح کے اگلے دن ولیمہ کیا تھا۔ (بخاری:5466) ولیمہ ایک سے زائد بار یا ایک سے زائد دن کیا جاسکتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت صفیہ بنت حیی ؓسے نکاح کے بعد تین دن تک برابر آپ نے ولیمہ کیا تھا۔
بعض علاقوں میں نکاح اور رخصتی کے درمیان خاصا وقفہ رکھا جاتا ہے۔ بسا اوقات یہ وقفہ کئی برس کا ہوتا ہے۔ اس صورت میں کیا نکاح کے بعد ولیمہ کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولیمہ یوں تو رخصتی کے بعد مسنون ہے، لیکن نکاح کے بعد بھی اس کی گنجائش ہے۔
بعض حضرات جو یہ تحریک چلا رہے ہیں کہ نکاح کے فوراً بعد ولیمہ کردیا جائے، اس کا سبب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آج کل نکاح کی تقریب کے بعد لڑکی والوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سماجی رسوم کی وجہ سے وہ ایسا کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ زیر بار ہوجاتے ہیں۔ ان کو اس سے بچانے کا طریقہ یہ ہوسکتاہے کہ نکاح کے فوراً بعد، یعنی رخصتی سے قبل، لڑکے والوں کی طرف سے ولیمہ کردیا جائے۔ میرے نزدیک یہ طریقہ درست نہیں۔ ایک غلط کام سے روکنے کے لیے غیر مسنون طریقہ کیوں اختیار کیا جائے؟ غلط رسوم سے لڑکے والوں کو روکنا چاہیے اور لڑکی والوں کو بھی۔ نکاح کے موقع پر دعوت کا اہتمام کرنا لڑکی والوں کی ذمے داری نہیں ہے۔ نکاح کی تقریب سادگی سے انجام دی جانی چاہیے۔ البتہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سماجی قدروں کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ تقریب نکاح میں شرکت کے لیے رشتے دار دور دور سے آتے ہیں۔ آمد و رفت کے ٹکٹ بہت پہلے سے بک کرائے جاتے ہیں۔ ممکن ہے، نکاح کے دن ہی واپس جانا بعض رشتے داروں کی مجبوری ہو۔ اس بنا پر اگر نکاح کے دن ہی لڑکے والے ولیمہ کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ مسنون طریقہ اگرچہ رخصتی اور شبِ زفاف کے بعد ولیمہ کا ہے، لیکن رخصتی سے قبل ولیمہ کرنا ناجائز نہ ہوگا۔
ولیمہ رخصتی کے کتنے دنوں کے بعد تک کیا جاسکتا ہے؟ اور اس کی آخری حد کیا ہے؟ بعض کتب فقہ میں اس کی مدّت تین دن بیان کی گئی ہے، لیکن یہ تحدید درست نہ معلوم ہوتی۔ اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، جس کا مضمون یہ ہے:
الوَلِیمَۃُ أوَّلَ یَومٍ حَقّ، وَ الثَّانِی مَعرُوف، وَالیَومَ الثَّالِثَ سُمعَۃ وَّ رِیَاء (ابو داؤد:3745، ترمذی:1097)
’’ولیمہ پہلے دن برحق ہے، دوسرے دن عرف ہے۔ تیسرے دن نام و نمود اور ریا ہے۔ ‘‘
لیکن اس حدیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ حسب سہولت ولیمہ تیسرے دن کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ خوشی کا اظہار ہے تو ظاہر ہے کہ اسے جلد از جلد کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا اسوہ بھی اس کے جلد کرنے کا ہے۔
وراثت کا ایک مسئلہ
سوال: ایک خاتون، اس کے شوہر اور لڑکے کا انتقال کار حادثے میں ہوگیا۔ اس کی صرف ایک لڑکی بچی ہے، جو نازک حالت میں اسپتال میں داخل ہے۔ یہ خاتون شادی سے پہلے نوکری کرتی تھی، جو شادی کے بعد دو ماہ تک جاری رہی۔ نوکری کے وقت کی کچھ رقم بینک میں جمع ہے۔ اس بینک اکاونٹ میں مرحومہ نے اپنے والد کوnominate کیا تھا۔ شادی کے وقت والد نے اپنی بیٹی کو کچھ سونا بشکل زیور دیا تھا۔ شوہر نے بھی مہر بشکل زیور ادا کیا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس کی کمائی ہوئی رقم میں شوہر کی رقم ملاکر اس کے نام پر مکان لے لیا جائے، لیکن یہ نہ ہو سکا۔ اس وقت اس رقم میں شوہر کی رقم شامل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس خاتون کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ اس کے ورثہ میں اس کی لڑکی ہے، جو نازک حالت میں اسپتال میں ہے اور اس (مرحومہ) کے والد اور والدہ ہیں۔ مرحومہ کی ساس اور سسر بھی بقید حیات ہیں۔ اس خاتون کی وراثت میں ان لوگوں کا کچھ حق بنتا ہے یا نہیں؟ وہ لڑکی جو زخمی حالت میں ہے، اس کی عمر صرف ساڑھے تین سال ہے۔ وہ کس کے زیر پرورش رہے گی؟ ددھیال یا ننہیال کے؟ براہِ کرم شریعت کی روشنی میں تشفی بخش جواب سے نوازیے، بہت نوازش ہوگی۔
جواب: کسی شخص کا انتقال ہو (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) تو اس کی مملوکہ تمام چیزیں اس کے ورثہ میں تقسیم ہوں گی۔ سوال میں جس مرحومہ خاتون کا تذکرہ ہے انھوں نے دورانِ ملازمت جو کچھ کمایا، ان کی شادی کے وقت والد نے جو زیور انھیں بہ طور تحفہ دیا، شوہر نے مہر کی شکل میں انھیں جو زیور دیا، وہ سب ان کی ملکیت سمجھی جائیں گے۔ بینک اکاؤنٹ میں بہ طورnominee اگرچہ ان کے والد صاحب کا نام ہے، لیکن صرف وہی اکاؤنٹ میں موجود رقم کے مالک نہیں سمجھے جائیں گے، بلکہ تمام ورثہ کا اس میں حصہ ہوگا۔
ورثہ میں مرحوم کی ایک بیٹی، ماں اور باپ ہیں۔ بیٹی کا حصہ نصف (50%) اور ماں کا حصہ چھٹا (16.7%) ہوگا۔ باقی (33.3%) باپ کو ملے گا۔ خاتون کی وراثت میں اس کی ساس اور سسر کا کچھ حصہ نہ ہوگا۔
آئندہ زندگی میں نابالغ لڑکی سے دو حقوق متعلق ہیں: ایک حضانت یعنی بچی کو ساتھ رکھنے کا حق اور دوسرا کفالت یعنی بچی کے اوپرخرچ کرنےکی ذمہ داری۔ فقہا نے حضانت کا حق رکھنے والوں کی جو ترتیب بنائی ہے اس میں ماں کے بعد نانی کا نمبر آتا ہے، اس کے بعد دادی کا، البتہ کفالت کی ذمہ داری باپ یا اس کے خاندان والوں کی ہے۔ بہرحال مقاصد شریعت کا تقاضا ہےکہ حقوق کی کشمکش اور ذاتی پسند ناپسندسے اوپر اٹھ کر اس کا لحاظ کیا جائےکہ بچے یا بچی کی پرورش کہاں اور کس کے پاس رہ کر اچھے طریقے سے ہوسکتی ہے؟ اس لیے زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ لڑکی کے ددھیال اور ننہیال والے باہم مشاورت کرکے، لڑکی کے حق میں جو بہتر ہو اس پر اتفاق کرلیں۔ ■