ربّ ِ رحیم سے دعا
عزیز صائب مظاہری
ہم میں سے کون ہوگا جسے کسی ضرورت اور احتیاج سے دوچار نہ ہونا پڑے جب کہ فقر واحتیاج ہمارا خمیر ہے۔ زندگی کی بے شمار وہ ضروریات ہیں جن کے بغیر ہماری اس فانی زندگی کا چراغ ہی نہیں جل سکتا۔ وہ سب کی سب اللہ نے بے طلب اپنے ذمہ لے رکھی ہیں۔ بن مانگے ہی وہ ہم کو مل رہی ہیں، ہوا، پانی، روشنی، غذا اور نہ جانے کیا کیا۔ مگر اس کے باوجود ہمارا وجود ایک سراپا ’’سوال‘‘ ہے۔رب رحمان نے انسان کو کائنات میں اپنی قدرت کا ایک شاہکار پیکر بنایا ہے جس کی حیات، موت پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ عدل اور عقل کا تقاضا ہے کہ یہ وجود موت کے بعد ایک ابدی حیات پائے۔ اس مسلمہ حقیقت، حیات بعد موت کی کیا کیا ضروریات اور وہ کہاں سے اور کس طرح فراہم ہوسکتی ہیں؟ اس کا جواب وحی رسالت اور کتاب اللہ میں پوشیدہ ہے۔ یہ چیزیں بھی ہم کو اسی طرح رب رحمن کی طرف سے فراہم کی گئی ہیں جس طرح آنکھ دے کر خود ہی اس نے روشنی کا بندوبست فرمایا ہے۔ پھیپھڑے دے کر آکسیجن مہیا کی گئی ہے اور جگر کی مانگ کا جواب پانی میں رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اس گوشت پوست اور ہڈی کے ڈھانچے میں سمع و بصر و فواد کی توانائیاں اس طرح سمودی گئی ہیں کہ ان طاقتوں کو آدمی نے بطور خود استعمال کرکے عیش دنیا کی نت نئی ایجادات کیں اور زمان ومکان تک کے حجاب اور بُعد کو ختم کرکے خلاوں اور کہکشانوں اور شمس وقمر سے براہ راست خدمت لینے کے منصوبے بنالیے۔
بدنصیبی اور سخت محرومی یہ ہے کہ بندہ کو دعا کی توفیق نہ ہو یا ہو تو وہ دوسرے آستانوں پر سر پھوڑتا پھرے یا پھر وہ مانگے تو صرف فانی دنیا مانگے۔بندہ کے خمیر میں فقر واحتیاج رکھنے کا راز اور حکمت ہی یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق اور مولا سے جڑا رہے اور اسی کے آستانے سے اپنے مقصدِ وجود کی تکمیل کے اسباب حاصل کرتا رہے۔
مگر۔ مگر۔ ان عطیات الہٰی۔ سمع و بصر فواد کی کرشمہ سازیوں اور ان توانائیوں کے فوائد اور مضمرات ان انسانی کوششوں تک محدود نہیں بلکہ ان کے بارے میں اصل انکشافات تو انبیائے کرامؑ اور کتاب الٰہی کے ذریعے ہی معلوم ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ رب رحمان چاہتا ہے کہ بندہ کا ربط براہ راست اپنے خالق سے پیدا ہو۔ اُس کا منشا یہ بھی ہے کہ اس کے بندے غیروں کے دَر پر ٹھوکریں نہ کھاتے پھریں۔ اس لیے اس نے اپنے آخری رسولﷺ کے ذریعے اپنے بندوں کو دعا پر اُبھارا ہے۔ کیوں کہ انسان کی توانائیوں کا سرچشمہ اور اس کی فلاح ونجات اور کامیابی وخسران کا راز اس کا خالق اور مالک ہی سمجھ سکتا ہے اور اس کا صحیح استعمال بھی وہی بتلا سکتا ہے۔جب بندے کو اپنے خالق کا در معلوم ہوگیا اور اس کو اُسی در پر سرِ نیاز جھکانا اور اسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا آگیا تو گویا رحمت، برکت، کامیابی اور فوز وفلاح کے خزانوں تک اس کی رسائی ہوگئی اور بندہ واقعی اب اُس آستانے تک آگیا جہاں سے سب کچھ پوری کائنات کو مل رہا ہے اور مل سکتا ہے۔ گویا دعا کی توفیق، فوز وفلاح کی کنجی ہے۔
بدنصیبی اور سخت محرومی یہ ہے کہ بندہ کو دعا کی توفیق نہ ہو یا ہو تو وہ دوسرے آستانوں پر سر پھوڑتا پھرے یا پھر وہ مانگے تو صرف فانی دنیا مانگے۔بندہ کے خمیر میں فقر واحتیاج رکھنے کا راز اور حکمت ہی یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق اور مولا سے جڑا رہے اور اسی کے آستانے سے اپنے مقصدِ وجود کی تکمیل کے اسباب حاصل کرتا رہے۔ کس قدر رحیم وحکیم ہے وہ مولا کہ مانگنا سکھائے، اپنا در دکھائے پھر مانگنے کا سلیقہ بھی بتائے اور یہ بھی سکھائے کہ خالق کو اپنے بندے کی کون سی طلب زیادہ محبوب ہے اور وہ طلب عافیت ہے۔ عافیت انجام کی!۔ عافیت ایمان کی!۔ عافیت دنیا کی!۔ عافیت حشر کی!۔ عافیت قبر کی! اور عافیت عدالت الہیٰ میں پیشی کی مشکل گھڑی کی! اور عافیت اس کی دی ہوئی تمام توانائیوں کے صحیح اور درست
استعمال کی!
چنانچہ چوبیس گھنٹے میں کم از کم پانچ مرتبہ خالق ومالک اپنے دربار میں حاضری کا موقع دے کر عرض ومعروض اور دعا ومناجات کا موقع فراہم فرماتا ہے اور اڑتالیس مرتبہ اہدنا الصراط المستقیم کی جامع دعا کی تلقین کرتا بلکہ اس دعا کو واجب گردانتا ہے۔ پھر جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ روزانہ پچھلے پہر آسمانِ دنیا پر عنایت خصوصی کا پرتَو ڈال کر ایک منادی سے صبح صادق تک برابر یہ صدا لگواتا ہے کہ تو پھر اے اللہ کے بندو! پھیلاو ہاتھ اور مانگو اپنے رب سے یہ دعا!!
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
(ماخوذ: تذکرۃ لّمن یخشی)