ذاتوں کی مردم شماری : منظر پس منظر

مذہب کی بنیاد پر مردم شماری کی جاتی ہے تو ذات کی بنیاد پر کیوں نہیں؟

علی انور، سابق ایم پی
مترجم: ابھے کمار

قومی مردم شماری سال 2021 میں ہونی ہے۔ آخری مردم شماری 2011 میں ہوئی تھی لیکن آج تک اس کے اعداد و شمار شائع نہیں کیے گئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس سال ذات پرمبنی مردم شماری ملک گیر سطح پر ہو۔ مَیں نے 18 دسمبر 2009 کو راجیہ سبھا میں بولتے ہوئے ’اسپیشل مینشن‘ کے ذریعہ مردم شماری کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت مرکزی حکومت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر اگلے اجلاس میں ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو اور شرد یادو سمیت پچھڑے طبقات سے تعلق والے کئی رہنماؤں نے اس مطالبہ کو اٹھایا تھا۔ اس وقت مہاراشٹر کے بی جے پی لیڈر گوپی ناتھ منڈے نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی اس مطالبے کے حامی رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس مرتبہ نہ چاہتے ہوئے بھی اگر پوری توجہ کے ساتھ کاسٹ سینس کے مطالبہ کو سننے پر آمادہ ہوئے ہیں تو اس کی وجہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات اور اس سے بھی پہلے اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے پس منظر میں پڑنے والا دباو ہے تاہم، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ مودی جی کس طرح کا فیصلہ لیتے ہیں۔
پچھلی بار منموہن سنگھ کی حکومت نے بھی اسی طرح کے دباؤ پر لوک سبھا میں مثبت اقدامات اٹھانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ لیکن اندر ہی اندر ایشوز کو بدلنے کی کوشش ہوئی۔ پھر میں نے 9 مارچ 2011 کو دوبارہ راجیہ سبھا میں کاسٹ سینسس کا سوال اٹھایا۔ کسی طرح سے 2011 کی کاسٹ سینسس ہو تو گئی لیکن آج تک اس کے اعداد وشمار شائع نہیں ہوئے ہیں۔ اس بار بھی پہلے جیسی کہانی دوہرانے کے امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حکومت ہر طرح کے اعداد وشمار چھپانے میں ماہر ہے۔ بے روزگاری، آکسیجن کی کمی سے اموات، گنگا میں بہتی لاشوں سے متعلق سارے آنکڑوں کو دبا دیا گیا۔
ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب مذہب کی بنیاد پر مردم شماری کی جاتی ہے تو ذات کی بنیاد پر کیوں نہیں؟ درج فہرست ذاتیں اور درج فہرست قبائل کی گنتی ہوتی ہے تو پسماندہ طبقات اور عام زمرہ کے لوگوں کی گنتی کیوں نہیں ہوتی؟ جہاں تک سیاست کی بات ہے، اس میں تقریباً سبھی پارٹیاں نہ صرف ذات کی بنیاد پر ٹکٹ تقسیم کرتی ہیں بلکہ اس کا ڈھول بھی پیٹتی ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ذات اور طبقہ کا نام لے کر وزرا کا تعارف کرایا جانے لگا ہے۔ سڑکوں کو اسی شناخت والے اشتہاروں سے رنگ دیا جاتا ہے۔
حد تو اس وقت ہو گئی جب ووٹ کے لیے وزیر اعظم مودی کی ذات بتائی جانے لگی۔ مودی جی کی ذات پہلے عام زمرہ میں تھی۔ یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ گجرات نے دوراندیشی دکھاتے ہوئے مودی جی کو انتہائی پسماندہ یعنی موسٹ بیک ورڈ تک بتا دیا۔ ۲۰۱۵ کے بہار اسمبلی انتخابات میں مودی جی کو انتہائی پسماندہ بتایا گیا حالانکہ بی جے پی انتخابات ہار گئی۔ مگر جلد ہی عوام کے مینڈیٹ کو بے معنی بناتے ہوئے ’ڈبل اِنجن‘ کی سرکار بنا لی گئی۔ اس واردات کے فوری بعد میں نے بغاوت کا پرچم اٹھا لیا اور مجھے راجیہ سبھا سے بھی باہر کر دیا گیا۔
خاص کر انتخابات اور ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت تقریباً تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز ایک خاص علاقہ میں مقیم ذاتوں کی تعداد کا خوب پرچار کرتے ہیں۔ امیدوار بھی اپنے دعوے کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی ذات کے لوگوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اس شور وغل کے درمیان چھوٹی اور کمزور ذاتوں کی تعداد اور آواز کہیں گم ہو جاتی ہے۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ نا اہل مگر امیر ومتوسط اور اعلیٰ درجہ کے جرائم پیشہ لوگ سیاسی پارٹیوں کی پسند بن جاتے ہیں۔
ہم نے نمونہ کے طور پر مرکزی اور بہار کی سرکاری فہرست میں درج مسلم پسماندہ طبقات کی فہرست شائع کرائی ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ فہرست میں درج اپنی ذات کے نام کے مطابق ہی مردم شماری کے وقت اپنی ذات کا نام درج کرائیں۔ فہرست میں ایک ہی سلسلہ نمبر میں ایک ہی ذات کے کئی نام درج ہیں۔ لہذا میرا یہ مشورہ ہوگا کہ نہ صرف ریاست بلکہ ملک گیر سطح پر بھی کئی ناموں میں سے کسی ایک معروف ذات کے نام پر ہی متفقہ طور پر مردم شماری کے کالم میں اندراج کروانا بہتر ہو گا۔ اس سے نہ صرف گنتی کرنے والے عملہ کو سہولت ہوگی بلکہ آنکڑوں، ہیرا پھیری اور لفظوں کے جال کے ماہر لوگوں سے بھی بچاو ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک نام پر ملک اور ریاستوں میں اتفاق پیدا کرنا ایک محنت کا کام ہے۔ ہم تمام پسماندہ وانتہائی پسماندہ طبقات کی تنظیموں، ان کے خیرخواہوں کو اس بارے میں بیداری پھیلانے کے کام میں ابھی سے لگ جانا چاہیے۔
آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کی مختلف ریاستوں کے ساتھیوں کو اس کام کو انجام دینے کے لیے شروعات کرنی چاہیے۔ جتنی جلدی ہو سکے اپنی ریاست اور مرکز کی فہرست میں درج ذاتوں کی فہرست کو ایک فولڈر، پرچہ، کتابچہ تیار کر کے لوگوں کو بیدار کرنا ہو گا۔ اسی طرح ہندو پسماندہ وانتہائی پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں کو ریاستی اور مرکزی فہرست ایک فولڈر میں شائع کرنی چاہیے۔ اس کام کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لیے میں ان طبقات کے دانشور طبقات کو رائے مشورے بھیجنے کی دعوت دیتا ہوں۔
آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کا شروع سے ہی یہ مطالبہ رہا ہے کہ بہار کی طرز پر مرکز، اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میں بھی انتہائی پسماندہ طبقے کو دو زمروں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ تمل ناڈو، آندھرا پردیش، کرناٹک اور کیرالا میں بھی اس کے کئی ذیلی زمرے ہیں۔ تمل ناڈو میں تو ۶۹ فی صد ریزرویشن پسماندہ طبقات کو ملا ہوا ہے۔ بہار کے بارے میں ہم ایک اور بات کہنا چاہیں گے کہ وہاں انتہائی پسماندہ طبقات کی فہرست لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ ابھی انتہائی پسماندہ طبقہ کے لیے ۱۸ فی صد اور پسماندہ انیکسر۲ کے لیے ۱۲ فی صد ریزرویشن طے کیا گیا ہے۔ ۲۰۱۵ کے بعد دونوں ہی کمیشن ایک طرح سے مردہ ہو چکے ہیں۔ ان میں ارکان کی بحالی تک نہیں ہوئی ہے۔
ہم شروع سے ہی کہتے آ رہے ہیں کہ مسلم اور عیسائی سماج کے اندر ایسی کئی ذاتیں ہیں جن کی حالت ہندو دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ لہٰذا ایسی ذاتوں کو شیڈول کاسٹ کا درجہ ملنا چاہیے۔ مسلم ہونے کی سزا ان کو ایس سی زمرہ سے باہر رکھ کر مل رہی ہے۔ یہ عام طور پر مذہب کی بنیاد پر بھید بھاو ہے جو آئین مخالف ہے۔ ایسا میرے علاوہ رنگ ناتھ مشرا کمیشن نے بھی کہا ہے۔ ایسا کرنےکے لیے کوٹہ بڑھائے بغیر ہی کئی ہندو نئی ذاتوں کو بھی شیڈول کاسٹ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ پھر مسلم دلتوں کے ساتھ مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ نا انصافی کیوں؟
ہمیں یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ بہار سے پسماندہ تحریک شروع ہونے کے بعد ہی مرکز کی منموہن سرکار نے رنگ ناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی کی تشکیل کی۔ مذکورہ کمیشن اور کمیٹی نے یہ صاف طور پر کہا ہے کہ مسلم اور عیسائی سماج میں بھی ہندو دلتوں کی طرح کی ذاتیں ہیں۔ انہیں بھی وہی سہولتیں ملنی چاہئیں جو ہندو دلتوں کو ملتی ہیں۔ رنگ ناتھ مشرا کمیشن نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آئین کے دفعہ ۳۴۱ میں ترمیم کے بغیر اکزیکیٹیو آرڈر سے بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی تشکیل ہی اس ٹرمس آف ریفرنس کے ساتھ ہوئی تھی کہ ’ہندو دھرم کو چھوڑ کر دیگر مذاہب میں دلت کی پہچان کا کام کمیشن کرےگا‘۔ مگر مشرا جی کی وفات کے بعد بھی اس کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ کی میز پر نہیں رکھی گئی۔ کسی طرح رپورٹ میرے ہاتھ لگ گئی اور میں نے اکیلے ہی ہنگامہ کھڑا کر کے ایک دن میں تین بار راجیہ سبھا کی کارروائی ملتوی کروائی۔ شروع میں صرف حیدرآباد سے سی پی آئی کے ممبر پارلیمنٹ عزیز پاشا نے اس کام میں ساتھ دیا۔ بعد میں سبھی سیاسی جماعتوں کی ثالثی اور رپورٹ پیش کرنے کی یقین دہانی ملنے کے بعد ایوان کی کارروائی شروع ہوئی۔
ہماری تنظیم کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے کہ بہار اسمبلی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کی پہل پر، اتر پردیش اسمبلی نے ملائم سنگھ اور آندھرا پردیش اسمبلی نے وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی پہل پر اس بارے میں غیر سرکاری تجویز پاس کرکے مرکز کو روانہ کی تھی۔ سبھی سیکولر پارٹیوں نے نظریاتی طور پر اس مطالبہ کو قبول کر لیا اور بیشتر نے تو اپنے انتخابی منشور میں اسے شامل کیا تھا لیکن مرکزی حکومت پر دباو نہیں بنایا گیا۔ ۲۰۰۵ میں نتیش کمار نے بطور ایک ایم پی لوک سبھا میں اس سوال کو ضرور اٹھایا تھا اور اس پر بی جے پی لیڈر بی کے ملہوترا سے تکرار بھی ہوئی۔ نتیش کمار کے اس موقف کے خلاف ’پانچ جنیہ‘ میں ایک مضمون بھی شائع ہوا۔ بی جے پی شروع سے ہی اس مطالبہ کے خلاف رہی ہے۔ بی جے پی کی نظر میں مسلمان دوئم درجہ کا شہری ہے۔ ان کی مرضی ہو تو ہمارے ووٹ دینے کے حقوق بھی واپس لے لیے جائیں۔ یہیں پر ہم اپنے اس درد کا اظہار بھی کر دینا چاہتے ہیں کہ روایتی مسلم رہنماوں نے بھی کبھی یو پی اے حکومت پر اس کے لیے کبھی کوئی دباو نہیں ڈالا۔
سچر کمیٹی اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن نے بھی یہ کہا ہے کہ شیڈول ٹرائب کے معاملے میں آئین کی دفعہ ۳۴۲ پر کوئی مذہبی بندش نہیں ہے۔ اس لیے مسلمانوں میں کئی ایسی ذاتیں ہیں جنہیں اس فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے۔ میں نے اپنے مطالعہ کے دوران پایا کہ ہریانہ، راجستھان، اتر پردیش، جھارکھنڈ اور کشمیر جیسی ریاستوں میں خانہ بدوش اور جنگل میں رہنے والے کئی ایسے قبیلے ہیں جن کا طرز زندگی، طور طریقے، کھانا پینا، رسم و رواج سب ایک جیسے ہیں۔ ان کو ایس ٹی میں شامل کیا گیا جانا چاہیے۔ میو، ون گوجر تو صاف طور پر ایس ٹی درجہ کے حقدار ہیں۔ انگریزوں نے تو میو اور مینا کو کریمنل ٹرائب قرار دے دیا تھا۔ ان میں مینا کو تو ایس ٹی کا درجہ حاصل ہے جبکہ میو مسلمان ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں جبکہ میو اور مینا کے گوتر اور پال ایک جیسے ہیں۔
کاسٹ سینس کے سلسلے میں ایک قدیم معلومات یہ بھی ہے کہ ۱۹۴۱ کی مردم شماری کے وقت ہندو مہاسبھا نے یہ اپیل جاری کی تھی کہ ہندو مردم شماری میں اپنی ذات درج نہ کرائیں بلکہ اس کی جگہ وہ صرف ہندو لکھوائیں۔ مسلم لیگ نے بھی ٹھیک اسی طرح کی اپیل میں کہا تھا کہ مسلمان اپنی برادری کی جگہ مسلمان درج کرائیں۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز ہونے کی وجہ سے ۱۹۴۱ کی کاسٹ سینس کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آسکی۔ اس لیے حکومتیں ۱۹۳۱ کے کاسٹ سینس سے ہی اپنا کام چلاتی رہی ہیں۔
ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ کیوں سرکاری نوکریوں کو بڑی تیزی سی کم کیا جا رہا ہے اور کیوں مرکزی اور ریاستی سرکاریں بڑی تیزی سے پبلک سیکٹر کو نجی ہاتھوں میں بیچ رہی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ نجی شعبوں میں ریزرویشن نافذ نہیں ہوتا۔ ایسے میں اس بات کے لیے مہم شروع ہوگی کہ سرکاریں پرائیویٹ سیکٹر میں بھی لازمی طور سے ریزرویشن کا انتظام کریں۔
آخر میں ہم کہنا چاہتے ہیں کہ ایک طرف جہاں ایک پارٹی پسماندہ طبقات کو بااختیار بنانے کی بات کر کے انہیں بانٹنے کی سازش کر رہی ہے تو دوسری طرف بعض مسلم سیاست داں جناح کی طرح مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ایک عجیب وغریب صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ حزب اختلاف بی جے پی کے خوف سے یا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ہم کو ووٹ نہیں دیں گے تو جائیں گے کہاں، ہر موقع پر پسماندہ سماج کو نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ ۲۰۱۴ کے بعد ملک بھر میں مسلسل ماب لنچنگ کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف پُر امن اور طویل تحریک چلی۔ ان مسئلوں پر اپوزیشن پارٹیوں نے بیان دے کر مخالفت تو کی لیکن ان کے بڑے لیڈر کھُل کر خود میدان میں نہیں آئے۔ کئی اپوزیشن پارٹیوں نے تو بی جے پی کے ڈر سے لفظ سیکولر کا استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ وہیں دوسری طرف مٹھی بھر لوگوں کی من مانی چل رہی ہے۔ ایسے میں ہمیں اپنی عددی طاقت، اتحاد، حکمت عملی اور قول و فعل سے کاسٹ سینسس کی اہمیت پر لوگوں کو قائل کرنا ہوگا۔
***

 

***

 یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ گجرات نے دوراندیشی دکھاتے ہوئے مودی جی کو انتہائی پسماندہ یعنی موسٹ بیک ورڈ تک بتا دیا۔پبلک سیکٹر کو نجی ہاتھوں میں بیچ رہی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ نجی شعبوں میں ریزرویشن نافذ نہیں ہوتا۔ ایسے میں اس بات کے لیے مہم شروع ہوگی کہ سرکاریں پرائیویٹ سیکٹر میں بھی لازمی طور سے ریزرویشن کا انتظام کریں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021