دہلی حکومت کے ذریعے بڑا راحت کیمپ لگانے سے انکار سے دلی تکلیف ہوئی: ہرش مندر

نئی دہلی، فروری 29: نامور حقوق کارکن اور سابق سرکاری ملازم ہرش مندر نے اروند کیجریوال کی دہلی حکومت پر تنقید کی ہے جس نے مبینہ طور پر شمال مشرقی دہلی تشدد کے متاثرین کے لیے بڑے امدادی کیمپ لگانے سے انکار کردیا ہے۔ چار دن تک جاری رہنے والے تشدد نے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کردیا جب فسادیوں نے ان کے مکانات کو جلا دیا۔

اتوار کی سہ پہر شروع ہونے والے اور اگلے تین دن تک جاری رہنے والے اس تشدد میں 40 سے زیادہ افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ فسادات کرنے والوں نے سینکڑوں دکانیں، مکانات، دفاتر اور گاڑیاں جلا دیں۔

جمعرات اور جمعہ کو کیجریوال نے متاثرین کے لیے مختلف مالیاتی امدادی اقدامات کا اعلان کیا تھا جس میں ہر مرنے والے کے لیے 10 لاکھ روپے اور مکمل طور پر تباہ ہونے والے مکانوں کے لیے 5 لاکھ روپے کی امدادی رقم شامل ہیں۔ بے گھر ہونے والوں کے عارضی قیام کے بارے میں کیجریوال نے کہا تھا کہ متاثرین رات کی پناہ گاہوں میں رہ سکتے ہیں، ان کے لیے کچھ کمیونٹی مراکز بھی کھول دیے گئے ہیں اور بہت سے اپنے لواحقین کے گھروں میں چلے گئے ہیں۔

مکانات کی بڑے پیمانے پر تباہی کے پیش نظر مندر کا خیال ہے کہ ریاستی حکومت کو بڑے امدادی کیمپ کھولنے چاہئیں۔ ہفتے کی صبح ٹویٹس کے ایک سلسلے میں انھوں نے اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ سول گروپس اپنے طور پر امدادی کیمپ لگانے کے لیے کوشاں ہیں۔

مندر نے ٹویٹ کیا ’’دہلی حکومت بڑے امدادی کیمپ لگانے سے انکار کرتی ہے۔ بے گھر پناہ گزینوں کا کوئی متبادل نہیں ہے: وہ حفاظت اور وقار کی پیش کش نہیں کرتے ہیں جس کی فرقہ وارانہ منافرت سے دوچار لوگوں کو اور دہشت زدہ ریاست کو ضرورت ہوتی ہے۔ شہریوں کے اقدامات خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’متاثرہ علاقوں میں لوگ غیر معمولی فراخدلی سے، صدمے سے دوچار مہاجرین کے لیے اپنے گھر کھول رہے ہیں۔ عام شہری اورخالصہ ایڈ جیسی تنظیمیں قیمتی سامان تک پہنچا رہی ہیں۔ ہم آج ان نجی کیمپوں کی نقشہ سازی کر رہے ہیں تاکہ ان کی ضروریات کو مؤثر طریقے سے پورا کیا جاسکے۔‘‘