دہلی تشدد سے متاثر لوگ کو کونسلنگ اور ہم دردی کی ضرورت ہے: امیر جماعت اسلامی ہند

نئی دہلی3 مارچ : جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی کی قیادت میں جماعت کے اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل ایک وفد نےشمال مشرقی دہلی میں فسادات سے متاثرین کی نوآبادکاری اور ریلیف کے کام کا جائزہ لیا۔  امیرجماعت نے میڈیا کو دیئے گئے اپنے بیان میں کہا : ’’جماعت اسلامی ہند کی طرف سے فساد سے متاثرہ علاقے کا دورہ پہلے دن سے ہی کیا جارہا ہے اور وہاں ضرورت مندوں کو لازمی امداد پہنچانے کی مسلسل کوشش جاری ہے۔ جماعت نے پھر سے علاقے کا دورہ کیا اور اس مرتبہ ہمارے ساتھ جماعت کے علیٰ عہدیداروں کی ایک پوری ٹیم تھی تاکہ راحت کے کام کو بخوبی انجام دیا جاسکے۔ ٹیم نے مصطفیٰ آباد کے اسپتال میں جاکر صورت حال کا جائزہ لیا۔وہاں سینکڑوں مریضوں کا علاج چل رہا ہے۔ اس فساد میں زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک علاقہ شیو وہار ہے۔ جہاں ہم نے متاثرین سے ملاقات کی اور ان کی کہانی سنی کہ کیسے وہ عارضی ٹھکانوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں تاکہ اپنے آبائی وطن لوٹ سکیں۔ بسا اوقات 7 سے 8 خاندان ایک گھر میں رہنے پر مجبور ہیں گویا وہ رفیوجی ہوں۔ انھیں فوری طور پر بازآبادکاری کی سخت ضرورت ہے۔ ہماری ٹیم نے ریلیف کیمپ کا دورہ کیا جسے جعفرآباد عید گاہ میں لگایا گیا ہے۔ اس کیمپ میں دو ہزار لوگوں کے قیام کی گنجائش ہے۔ جماعت ان کیمپوں میں اجناس کی سپلائی کرنے میں سرکاری و علاقائی ہم خیال تنظیموں کو مکمل تعاون دے رہی ہے۔ جماعت نے مصطفی آباد کے مقامی لوگوں کی طرف سے امن مارچ میں حصہ لیا۔

’’ہم نے ڈاکٹر ظفر الاسلام کی دہلی مائنارٹی کمیشن ٹیم سے بھی ملاقات کی اور صورت حال پر بات چیت کی۔‘‘

صورت حال پر بات چیت کرتے ہوئے جناب حسینی نے کہا کہ ’’علاقے پر حملہ اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ یہ ایک منظم منصوبہ بند طریقے پر کیا گیا ہے ۔اسی لیے ان حملوں میں خاص طور پر مسلم طبقے کو ، ان کے کاروبار کو اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیاہے۔ اس فساد میں گوکل پوری ٹائر مارکیٹ کو آگ کے حوالے کردیا گیا جس کے نتیجے میں 200 دکانیں راکھ کا ڈھیر ہوگئیں۔یہاں موجود گیس سلنڈر بہت بڑے نقصان کا باعث بنے۔ گاڑیاں اور اپارٹمنٹ کو چن چن کر نذرآتش کیا گیا۔پولیس کا رویہ بھی انتہائی نامناسب رہا۔کئی فساد زدہ جگہوں پر پولیس محض تماشائی بنی رہی ۔ پولیس کا رویہ شرپسندوں کو تعاون دینے والا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرین اور زندہ بچ جانے والے انتہائی صدمے اور مایوسی کے شکار ہیں۔ انھیں اس وقت کونسلنگ اور ہمدردی کی ضرورت ہے۔

’’ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ بہت سے مواقع پر ہندو طبقے کے افرداد نے مسلمانوں کی جانیں بچائی اور اسی طرح سے کئی جگہ پر مسلمانوں نے ہندووں کی جانوں کو تحفظ فراہم کیا۔جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ فساد مقامی لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ باہری لوگوں کی طرف سے منظم کیا گیا تھا۔‘‘

آگے جماعت کیا کرنا چاہتی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا  ’’ہم نے ایک کنٹرول سینٹر قائم کیا ہے تاکہ ہماری راحتی سرگرمیوں کوصحیح طور پر آرڈینیٹ کیا جا سکے ، اس کی دیکھ ریکھ ہمارے نیشنل سکریٹری محمد احمد کرتے ہیں۔ہماری کچھ ترجیحات ہیں جیسے ایک سروے کراکےنقصانات کا اندازہ لگانا، متاثرین  کی مدد کرنا اور ان کے کاغذات کومکمل کرنے میں ان کی مدد کرنا تاکہ وہ سرکار کی طرف سے اعلان شدہ رقم حاصل کر سکیں ۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر ضروریات جیسے طبی امداد وغیرہ میں بھی ان کو تعاون دینا۔ اب تک بہت سے ایسے زخمی ہیں جن کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا گیا ہے۔ وہ پولیس کی طرف سے انتقامی کارروائی سے ڈرتے ہیں۔انھیں تسلی دینے کی ضرورت ہے تاکہ اسپتال تک لے جایا جاسکے۔ ہم نے اپنے کنٹرول سینٹر پر عارضی اسپتال قائم کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ جنھیں طبی امداد کی ضرورت ہے انھیں امداد دی جاسکے۔بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اپنا مکمل کاروبار اور ذریعہ معاش کھو دیا ہے۔بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے اپنے کمانے والے کو گنوا دیا ہے۔ان تمام کو نو آبادکاری کی ضرورت ہے۔یہ سب انتہائی ضروری کام ہیں۔۔ ایف آئی آر کرانے کی ضرورت ہے اسی طر ح قانونی مدد کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ہمارے پاس محنتی رضاکار ہیں جن میں عورتیں ، لڑکیاں شامل ہیں جو ہماری کوششوں کو عملی جامہ پہنانے میں بھرپور مدد کرتی ہیں۔‘‘

اس وفد میں شریک ہونے والوں میں سید سعادت اللہ حسینی ( امیر جماعت ) محمد ظفر اور سلیم انجینئر ( نائب امیر )،نیشنل سکریٹریز محمد احمد اور شفیع مدنی کے علاوہ معاو ن سکریٹری ندیم خان شامل ہیں۔