بلقیس بانو مقدمے کے مجرمین کی رہائی سے قانون کی بالادستی مفلوج ہوگی: جماعت اسلامی ہند

نئی دہلی، ستمبر 3: ’’ بلقیس بانو کی عصمت دری میں ملوث مجرموں اور اس کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے قصورواروں اور عمر قید کی سزا پانے والوں کی رہائی اور گجرات حکومت کا اس رہائی میں کلیدی کردار ادا کرنا، ایک شرمناک عمل ہے۔ ’عام معافی‘ کی آڑ میں یہ فیصلہ جرائم کرنے والوں کا حوصلہ بڑھائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ اس گھناؤنے جرم کرنے والوں کی عزت افزائی کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ خواتین کی جانب سے صدر جمہوریہ ہند سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور وزیر اعظم و وزیر داخلہ کے توسط سے گجرات حکومت کو اس فیصلے کو واپس لینے کی ہدایت دیں۔‘‘

یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے جماعت کی جانب سے مرکز، نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’ملک میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ملک کے سنجیدہ شہریوں میں تشویش پید اکردی ہے۔ غریب طبقے میں خودکشی کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ خود کشی کرنے والوں میں سیلف ایمپلائڈ( کاروباری )، طلباء، کسان اور زرعی مزدوروں کی تعدادبڑی ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں نے سب سے زیادہ خود کشی کی ہے۔ یہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔اگرایس سی اور ایس ٹی پر ہونے والے مظالم کی بات کی جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق ریاست اترپردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش، بہاراور اڑیسہ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی ان پر سب سے زیادہ مظالم ہوئے ہیں‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’ملک کی مختلف عدالتوں میں کروڑوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ انصاف میں تاخیر، انصاف ملنے سے محرومی کا سبب بنتی ہے۔ اس وقت ملک کی مختلف عدالتوں میں 4.70 کروڑ سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں‘‘۔

زرعی بحران پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’میڈیا رپورٹ کے مطابق زراعت کے شعبے میں روزانہ تقریبا 30 افراد خود کشی کرتے ہیں۔ کسانوں کو ایم ایس پی نہیں ملتا۔ وہ معاشی تنگی کے سبب زراعت کے لیے مطلوبہ لازمی اشیاء خریدنے سے قاصر ہیں۔ ان کی معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لیے حکومت انھیں بلا سود قرض فراہم کرے اور مستحق و پسماندہ کسانوں کے قرض معاف کرے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’آسام یا دیگر ریاستوں میں مدارس کے خلاف انتقامی کارروائی یا انھیں بند کرنا،غلط ہے۔ کچھ مدارس فرضی ہوسکتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام مدارس کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا جائے جب کہ تعلیم کے فروغ میں مدرسوں کا مثبت کردار نوٹ کیا گیا ہے۔ان مدارس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ حکومت کی کسی بھی طرح کی امداد کے بغیر غریب و نادار طلباء کو تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔ آج کل بیشترمدارس میں عصری علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، اسی لیے ان کی ڈگریوں کو کئی یونیورسٹیز تسلیم کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں مدارس کو بدنام کرنا سیاسی مفاد کے لیے ہی ہوسکتا ہے۔‘‘

جماعت اسلامی ہند ویمن ونگ کی نیشنل سکریٹری محترمہ عطیہ صدیقہ صاحبہ نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ’’وزیر اعظم 15 اگست کو خواتین کی عزت و وقار اور ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے جانے کے خلاف اپنے سخت لب و لہجے کا اظہار کر رہے تھے اور اسی دن ایک خاتون کی عصمت دری کرنے والے، اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والوں کی رہائی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حکومت خواتین کے تحفظ کے تئیں مخلص نہیں ہے۔ گجرات حکومت نے رہائی کو یقینی بنانے میں جو کردار ادا کیا ہے، یہ سب سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے جرائم کرنے والوں کا حوصلہ بڑھے گا اور قانون کی بالادستی بے اثر ہوگی۔ ’عام معافی‘ کا اطلاق چھوٹے جرائم کے سبب جیلوں میں بند مجرمین پر ہونا چاہیے نہ کہ عصمت دری اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم انجام دینے والوں کے لیے۔‘‘