مولانا جلا ل الدین عمری کے انتقال پر علماء و دانشوران کا مرکز جماعت اسلامی ہند میں تعزیتی اجلاس

نئی دہلی، اگست 29: ”مولانا جلال الدین عمری کی خصوصیات میں ایک بڑی خصوصیت ان کی جامعیت ہے۔ وہ ایک بلند پایا مصنف تھے۔ ان کی تصنیفات کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے عام طور پر ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جو سلگتے ہوئے ہوتے تھے اور جن پر بہت کم لکھا گیا ہو۔انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس میں قرآن و حدیث، متقدمین، سلف صالحین کی کتابوں اور جدید علوم سے بھرپور استفادہ کیا۔ جدید علوم سے استفادہ کے لیے انہوں نے باقاعدہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں گریجویشن مکمل کیا۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے تھے، انتہائی سلاست اور عام فہم انداز میں لکھتے۔ انہوں نے یہ سارا کام دعوتی مصروفیات، تحریک اسلامی کی قیادت کی مصروفیات اور دیگر مصروفیات کے درمیان انجام دیا“۔

یہ باتیں امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے مسجد اشاعت الاسلام، مرکز جماعت اسلامی ہند میں منعقدہ ایک تعزیتی اجلاس میں کہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”مولانامرحوم نوجوانی کی عمر ہی سے جماعت کی مرکزی قیادت سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس عرصے میں جماعت کی مختلف ذمہ داریاں ادا کیں۔ صرف جماعت اسلامی ہند ہی ان کا میدان عمل نہیں تھی بلکہ ملک و ملت کے کئی میدانوں میں غیر معمولی خدمات دینا، مولانا مرحوم کا منفرد خاصہ تھا۔ آپ کے جانے سے کئی خلا پیدا ہوگئے ہیں۔ اب نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خلا کو پُر کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ ان کی وفات سے ہم سب کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ مولانا نے جو یہ غیر معمولی کام انجام دیا ہے، اس میں جہاں ان کی ذہانت و فطانت اور غیر معمولی محنتوں کا دخل ہے، وہیں اس عظیم کامیابی میں ان کی مقصدیت کا بھی دخل ہے۔ انہوں نے اپنے مقصد اور اپنی زندگی کے مشن کے لئے بھرپور یکسوئی کا مظاہرہ کیا۔ مولانا نے بالکل نوعمری 19 سال کی عمر میں فیصلہ کیا تھا کہ انہیں اپنی زندگی کو تحریک اسلامی کے لئے لگانی ہے، خاص طور پر علمی زندگی کے لئے وقف کرنی ہے، وہ اپنے اس فیصلے پر 87 سال کی عمر تک پہاڑ کی استقامت کے ساتھ قائم رہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنا وطن تک چھوڑدیا ۔ اپنے فیصلے کے نٖفاذ کے لئے پوری یکسوئی کے ساتھ لگے رہے۔ یہ ہمارے لئے ایک بڑا سبق ہے۔ ہم کوئی بڑا کام کرنا چاہتے ہیں تو یہی وصف پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت اور جنت میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے اور اپنے محبوب ترین بندوں شہداء اور صالحین کے جوار میں جگہ عطا کرے اور ان کی عظیم خدمات کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے، اسے اللہ اپنے فضل خاص سے پُر فرمائے“۔

اس موقع پرجمعیت علماء ہند کے مفتی عبد الرازق نے کہا کہ مولانا میں قوم و ملت کی اور پورے عالم کی فکر تھی،ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہےاس کا پُر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر علی امام اصغر سلفی مہدی نے کہا کہ مولانا مرحوم کی کتابیں ان کا عظیم کارنامہ ہیں۔ نوجوان نسل ان کی کتابوں سے استفادہ کریں۔

مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق چیر مین پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ایک عالِم کی موت ایک عالَم کی موت ہے۔ ان کی وفات کا درد پوری دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے۔ مولانا کی وفات ہوچکی ہے مگر ان کی کتابوں سے روشنی ملتی رہے گی۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا کہ مولانا غیر معمولی شخص تھے۔ ان میں حد درجہ تواضع اور انکساری پائی جاتی تھی۔ دیگر علوم کے علاوہ ان میں قانون دانی کی زبردست صلاحیت تھی۔

سکریٹری آل انڈیا شیعہ کونسل مولانا آغا جلال حیدر نقوی نے کہا کہ میں نے ملی مسائل پر ان سے بہت سے فیوض حاصل کئے ہیں۔

انڈین نیشنل لیگ کے صدر پروفیسر محمد سلمان نے کہا کہ مولانا اپنے چھوٹوں سے بڑی شفقت اور محبت سے ملتے تھے اور ناموافق حالات میں بالکل نہیں گھبراتے تھے۔

ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ان کی وفات امت کے لئے بڑا سانحہ ہے۔ ان سے ہر کس و ناکس بلا روک ٹوک مل سکتا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مدلل اور واضح بات پیش کرتے تھے۔

مولانا مرحوم کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر سید صفی اطہر نے کہا کہ مولانا کی پوری ز ندگی جہادی تھی، ان کے عادات و اطوار اور خاندان کے لئے طریقہ اصلاح مشفقانہ تھا۔وہ ہم لوگوں کو کسی بات کی نصیحت کرتے تو نرم روی اختیار کرتے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندہ سہیل انجم نے مولانا کی زندگی کا مختصر خاکہ اس طرح پیش کیا گویا کہ وہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔

روزنامہ خبریں کے ایڈیٹر قاسم سید نے کہا کہ مولانا نے امت مسلمہ کے مابین مسلکی اختلافات کو دور کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

شعبہ اسلامی معاشرہ،جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اجلاس کی ابتدا ان کلمات سے کی کہ مولانا کی وفات کے درد کو میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں۔ وہ میرے لئے ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تھے۔میں چالیس برسوں تک ان کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھا۔

اجلاس کے دوران دنیا بھر سے جماعت کو موصول ہونے والے تعزیتی پیغامات میں سے کچھ اہم صوتی پیغامات اسکرین کے ذریعے پیش کئے گئے۔