دہشت گردی طشت ازبام

ناندیڑ بم دھماکوں میںھندوتو وادی تنظیم کے ملوث ہونے کا انکشاف

ترجمہ: سلیم الہندی، حیدرآباد

نوٹ :آر ایس ایس ٹولے کا کارکن یشونت شندے ناندیڑ اور 2003-2004 کے تمام بم دھماکوں میں ملوث اعلیٰ لیڈروں کا پردہ فاش کرنے کے لئے گواہ بننا چاہتا ہے۔ اس کے مجوزہ حلفیہ بیان کا مکمل ترجمہ قاریین دعوت کے لیے پیش ہے
میں یشونت شندے، عمر 49 سال، پیشہ تجارت، ساکن ممبئی۔ میرا تعلق وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بجرنگ دل سے اس وقت سے رہا ہے جب میری عمر صرف 18 سال تھی۔ 1990 میں میں نے ٹی وی چینلس اور اخباروں کے ذریعے مشاہدہ کیا تھا کہ جموں میں مسلم دہشت گرد، معصوم ہندوؤں کا قتل عام کر رہے ہیں اور انہیں ریاست سے نکل جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس کے چار سال بعد یعنی 1994ء میں میں جموں گیا اور وہاں آر ایس ایس کے’’ہمگری پرانت پرچارک‘‘ اندریش کمار سے ملاقات کی۔ اندریش کمار نے مجھے پاکستان کی سرحد سے لگے علاقہ راجوری اور جواہر نگر کے علاقوں کا آر ایس ایس پرچارک مقرر کیا۔
دسمبر 1994ء میں جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، راجوری کے دورے پر تھے اور وہاں ایک مقامی جلسے کو مخاطب کر رہے تھے۔ اس جلسے میں میں بھی شریک تھا۔ چیف منسٹر کی تقریر کے چند نکات مجھے سخت ناگوار گزرے۔ مجھے ایسا لگا جیسے یہ شخص بھارت کا کھلا دشمن ہے۔ میں اپنی جگہ سے اسی وقت اٹھا، شہ نشین پر گیا اور فاروق عبداللہ کو ایک تھپڑ جڑ دیا۔پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا اور میرے خلاف راجوری پولیس اسٹیشن میں ایک کیس درج کرلیا اور مزید تحقیقات کے لیے مجھے Terrorism Interrogation Branch of Jammu کے حوالے کر دیا گیا۔ بارہ دن بعد مجھے ضمانت پر رہا کر دیا گیا لیکن Public Safety Act کے تحت دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور چار ماہ بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اسی مقدمے میں 1998 میں عدالت نے مجھے باعزت بری کر دیا۔ 1994ء میں میں نے آر ایس ایس کے ابتدائی تربیتی کورس ’’پرتھمک سنگھ شکشا ورگ‘‘ کی تکمیل کی۔ 1996-97 میں چندی گڑھ میں آر ایس ایس کے ایک اور تربیتی کورس کی تکمیل کرنے کے بعد مجھے جموں کے ضلع ادھم پور کے ریاستی تحصیل کا پرچارک مقرر کیا گیا۔ 1999 ء میں میں ممبئی واپس آیا جہاں مجھے بجرنگ دل کا چیف مقرر کیا گیا۔ ممبئی میں میری ملاقات وشو ہندو پریشد مہاراشٹرا یونٹ کے صدر ملند پراندے سے ہوئی۔ اس دوران بجرنگ دل کے ساتھ میرے کچھ اختلافات پیدا ہوئے جس کے بعد میں نے بجرنگ دل کو چھوڑ دیا اور اکھل بھارتیہ ودیا پریشد (اے بی وی پی) کی ایک طلباء تنظیم ’’گرجنا‘‘ سے منسلک ہو گیا۔ اپنی شخصی دلچسپی کی بنیاد پر میں نے مہاراشٹرا کے سارے علاقوں کا دورہ کیا اور طلباء کی ذیلی تنظیم ’’گرجنا‘‘ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس مہم کے دوران کثیر مالی اخراجات کی وجہ سے تنظیم نے اخراجات پر پابندی لگا دی۔ اس طرح اخراجات پر پابندی لگائے جانے کی وجہ سے ’’گرجنا‘‘ کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور پھر وہ دوبارہ ابھر نہ سکی۔ 1999ء میں مہاراشٹرا میں قیام کے دوران میری ملاقات اندریش کمار سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے چند شدت پسند اور جھگڑالو قسم کے نوجوانوں کو لے کر جموں جانے کا حکم دیا اور مجھے بتایا گیا کہ وہاں انہیں جدید اسلحہ کے استعمال کی تربیت دی جائے گی۔ اس ٹیم کے لیے نوجوانوں کا انتخاب کرنے کے لیے تھانے مہاراشٹرا میں وی ایچ پی نے ایک ریاستی سطح کی میٹنگ کا اہتمام کیا۔ اس میٹنگ میں میری ملاقات ناندیڑ کے ایک شخص ہیمانشو پانسے سے ہوئی جو گوا میں وی ایچ پی کا فل ٹائم ملازم تھا۔ اسی مقام پر ہمانشو پانسے اور اس کے سات ساتھیوں کو جدید اسلحہ کی تربیت کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ چنانچہ میں ہیمانشو پانسے اور دیگر سات افراد کے ساتھ جموں پہنچا۔ جموں کے ایک انڈین آرمی کیمپ میں سرکاری فوجی عہدہ داروں نے اس گروپ کے افراد کو جدید اسلحہ چلانے کی تربیت دی۔ 2000ء میں تریپورہ کے ضلع اگرتلہ میں باپٹسٹ چرچ کے قریب آر ایس ایس کے ان سات پرچارکوں میں سے چار کا کسی نے اغوا کر لیا۔ آر ایس ایس کے کیندریہ پرسار پرمکھ (سنٹرل پروپگنڈہ چیف) سریکانت جوشی نے مجھے ان اغواء شدہ ارکان کو تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ ان کی تلاش میں میں نے اگرتلہ کے علاوہ مغربی بنگال کے چند اضلاع کا دورہ کیا۔ اس دوران میں مغربی بنگال کے سنگھ کے دفتر بھی پہنچا جہاں مجھے سریکانت جوشی نے آر ایس ایس کے سہکاریہ واہ سے ملاقات کروائی جو دراصل موجودہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت تھے۔ اس دوران اغوا کنندگان نے آر ایس ایس کے مغویہ چاروں پرچارکوں کو آزاد کرنے کے لیے دو کروڑ روپے تاوان ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ آر ایس ایس کے ذمہ داروں نے انہیں تاوان کی یہ رقم دینے سے صاف انکار کر دیا لیکن میں نے ان کی تلاشی مہم جاری رکھی۔ ایک دن ہمیں اطلاع ملی کہ اغوا کنندگان نے چاروں پرچارکوں کا قتل کر دیا ہے اور اس کی تصدیق مرکزی حکومت کی طرف سے بھی کر دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد سریکانت جوشی نے اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کو اطلاع دی کہ جس گروپ نے آر ایس ایس کے چاروں پرچارکوں کا اغوا اور قتل کیا تھا اس کے دو ارکان دہلی ایئرپورٹ پہنچ رہے ہیں، انہیں فوراً گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ مرکزی وزیر داخلہ نے ان کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ اس وقت انہیں گرفتار کرنے سے پوروانچل میں ہونے والے انتخابات پر عیسائی برادری کی ناراضگی کی وجہ سے خراب اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس سے پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پارٹی کے مفاد میں محض خود غرضی کی بنیاد پر وزیر داخلہ کا ایسا جواب سن کر مجھے سخت ذہنی صدمہ پہنچا اور میں نے اپنے آپ کو تنظیم کے قائدین کے ساتھ دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ میں نے صرف سریکانت جوشی کے ساتھ اپنا تعلق برقرار رکھا لیکن ہیمانشو نے میرا مشورہ قبول نہیں کیا۔ پانسے نے جب مجھے بھی بم سازی کے اس کیمپ میں دیکھا تو اسے تعجب ہوا بلکہ وہ کچھ مایوس بھی نظر آرہا تھا۔ ملند پراندے بم سازی ٹریننگ کیمپ کا ماسٹر مائنڈ اور کرتا دھرتا تھا۔ راکیش دھواڑے ایک دن بجرنگ دل کے ایک سرگرم کارکن کو جس کا نام متھن چکرورتی تھا، بم سازی کیمپ میں لایا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کا اصلی نام روی دیو ہے۔ راکیش دھواڑے ہی اس کو روز کیمپ لاتا اور لے جایا کرتا تھا۔ یہ وہی راکیش دھواڑے ہے جسے 2008 کے مالیگاوں بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ متھن چکرورتی نامی شخص روزانہ صبح دس بجے بم سازی تربیتی کیمپ پہنچتا، دو گھنٹے تک الگ الگ گروپس میں بٹے ہوئے افرادکو بم سازی کی تربیت دیتا۔ زیر تربیت نوجوانوں کو بم بنانے کے لیے تین چار قسم کا مواد دیا جاتا تھا جیسے بارود، پائپ کے ٹکڑے، دھاتی تار، بلبس اور کچھ گھڑیاں وغیرہ۔ بم سازی کے اس تربیتی کیمپ میں خود متھن چکرورتی ہی کی غلطی کی وجہ سے ایک حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا جب ادھ جلی ماچس کی کچھ تیلیاں، بارود کے پاؤڈر تک پہنچ چکی تھیں۔ حادثہ ہونے سے پہلے ہی اس پر فوری قابو پا لیا گیا ورنہ پتہ نہیں کتنے لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ خود متھن چکرورتی نے کہا تھا کہ ہم آج ایک بہت بڑے حادثے سے بچ گئے۔ میں نے اب تک بی جے پی سے اپنے آپ کو دور ہی رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن جولائی 2003ء میں اچانک بی جے پی نے مجھے حکم دیا کہ جنوبی ممبئی کے علاقہ کھیت واڑی کے گول دیول نامی مندر میں ہونے والی ایک بہت اہم میٹنگ میں ضرور شرکت کروں۔ چنانچہ میں اس میٹنگ میں شریک ہوا اور دیکھا کہ اس میٹنگ میں صرف دو ہی آدمی تھے جو آر ایس ایس کے کارکن اور وی ایچ پی ریاست مہاراشٹرا کے صدر ملند پراندے کے قریبی ساتھی تھے۔ انہیں دو افراد نے مجھے بتایا کہ بم سازی کا تربیتی کیمپ بہت جلد مقرر کیا جانے والا ہے جس کے بعد ملک کے زیادہ سے زیادہ علاقوں میں بم دھماکوں کے ذریعے تباہی مچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ یہ سنتے ہی مجھے سخت ذہنی صدمہ پہنچا، میں نے اس صدمے کو برداشت کر لیا، بہت ضبط کیا لیکن رد عمل ظاہر نہیں ہونے دیا، ان دونوں پرچارکوں کو یقین ہو گیا تھا کہ میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔ اس موقع پر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ تیاریاں 2004 کے عام انتخابات کے لیے کی جا رہی ہیں؟ انہوں نے میرے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا، وہ صرف مجھے گھورتے رہے۔ میں نے اپنے لیے بم دھماکوں کی اس منصوبہ بندی کو قبول نہیں کیا اور اس کا کھل کر اظہار بھی نہیں کیا۔ اس کے بعد پونے کے قریب ایک مقام سنہگاڈ پر بم سازی کی تربیت کا مقام طے کیا گیا۔ میں اس مقام پر بادل ناخواستہ پہنچا تاکہ ان لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں جو بم بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ چنانچہ سنہگاڈ قلعے کے قریب ایک ریسارٹ میں تین یومی ٹریننگ کیمپ منعقد ہوا جس میں اورنگ آباد، جلگاوں، ناندیڑ اور مہاراشٹرا ہی کے دیگر مقامات سے تقریباً بیس (20) نوجوان شامل ہوئے۔ ہیمانشو پانسے بھی اس گروپ میں شامل تھا۔ ہیمانشو پانسے نے جب مجھے اس کیمپ کی تفصیلات بتائیں تو میں نے عملاً اس میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد منتظمین نے سارے دھماکو مادوں کے ساتھ تمام تربیت یافتہ نوجوانوں کو بشمول میرے ایک قریبی گھنے ویران جنگل میں لے گئے جہاں بم دھماکوں کا عملی تجربہ کیا جانا تھا۔ جنگل پہنچنے کے بعد تربیت یافتہ نوجوانوں نے کئی چھوٹے بڑے گڑھے کھودے اور ان سب میں ٹائمر لگے ہوئے تیار بم رکھ کر انہیں بڑے بڑے پتھروں اور مٹی سے بند کر دیا۔ ٹائمر کے وقت کے حساب سے الگ الگ گڑھوں سے الگ الگ طاقت کے بم ایک کے بعد ایک پھٹنے شروع ہوئے۔ تجربہ کامیاب رہا۔ متھن چکرورتی کو ٹریننگ کیمپ تک روز ساتھ لانے والا شخص راکیش دھاواڑے ہماری رہائش، کھانے پینے اور دیگر انتظامات کا ذمہ دار تھا۔ ہماری ٹریننگ کے آخری دن، رات میں اس نے ہم سب کو ایک ایک قلم اور کاغذ دے کر کہا کہ اس میں آپ لکھیے کہ کیا آپ نے بم بنانا اور انہیں کسی بھی جگہ دھماکہ کرنا بھی سیکھ لیا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو لکھیے کہ وہ ملک کے کس مقام پر بم دھماکہ کرنا پسند کریں گے؟ اس سوال پر میں نے سخت اعتراض کیا اور ان سے پوچھا کہ اس طرح کا تحریری بیان ہم سے کیوں لیا جا رہا ہے؟ میں نے ایسا کوئی بیان لکھنے سے صاف انکار کر دیا۔ بم سازی کے اس تربیتی کیمپ کے اختتام کے بعد میں کئی مرتبہ ناندیڑ گیا اور ہیمانشو پانسے کو یہ بات سمجھانے کی مسلسل کوشش کرتا رہا کہ وہ بم دھماکوں کے معاملے میں ہرگز ملوث نہ ہو۔ میں نے کہا کہ یہ سنگھ پریوار کی ملک کے اگلے عام انتخابات جیتنے کی مجرمانہ سازش ہے۔ ناندیڑ ہی میں میری ملاقات ایک مقامی دوست کونداور سے ہوئی۔ ہر ملاقات میں میں ہمیانشو پانسے کو بم دھماکوں کی سیاست سے دور رہنے کی تاکید کرتا تھا۔ وہ بھی محض دوستی کی خاطر اور بادل ناخواستہ میری ہاں میں ہاں ملایا کرتا تھا لیکن حقیقت میں وہ سیاسی قائدین کے دباو کا پوری طرح شکار ہو چکا تھا۔ چنانچہ ٹریننگ کے بعد مرہٹواڑہ میں اس نے تین بم دھماکے کیے تھے۔ وہ اورنگ آباد کی جامع مسجد میں دھماکہ کرنے کی اس کی بڑی خواہش تھی۔ لیکن افسوس! 2006ء میں اسی منصوبے پر عمل آوری کے تحت ایک انتہائی طاقتور بم بناتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا اور مقام حادثے پر ہی مرگیا۔
2007ء میں یعنی 2003ء کے بم سازی کی ٹریننگ کے چار سال بعد میں نے ممبئی کے علاقے پریل میں آر ایس ایس کے ہیڈ آفس یشونت بھون میں متھن چکرورتی کو دیکھا۔ یہیں پر کسی نے مجھے بتایا کہ اس کا اصلی نام روی دیو ہے۔ جب میں نے اسے روی جی کہہ کر پکارا تو اس نے مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا اور پوچھا کہ میں اسے کیسے جانتا ہوں؟ میں نے برجستہ جواب دیا کہ تم ہی نے تو ہمیں سنگھڑ میں بم سازی کی تربیت دی تھی۔ اس جواب پر روی کے چہرے کے تاثرات یکسر بدل گئے۔ میں نے اس کی آنکھوں میں انجانا خوف دیکھا اور وہ مجھے چھوڑ کر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے دوڑا۔ وہ آگے جا کر رکا اور میرے کان میں کھسر پسر کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہمارے ساتھ موجود پراندے بھی خوف زدہ لگ رہا تھا کیوں کہ اسے یقین تھا کہ میں نے اسے بھی پہچان لیا ہے۔ درحقیقت مجھے معلوم تھا کہ ملند پراندے سارے ملک میں بم دھماکوں کے منصوبوں اور تمام واقعات و حادثات میں ملوث ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے قائدین نے مجھے جان بوجھ کر ان بم دھماکوں کے پروجیکٹس میں شامل کیا تاکہ اگر وہ چاہیں تو میں بھی سارے ملک میں بم دھماکوں کو انجام دینے میں بہتر رول ادا کر سکتا ہوں چنانچہ ’’گرجنا‘‘ کے توسط سے وہ ہمیشہ ان سے ربط میں رہتا تھا۔ مجھے ہیمانشو پانسے نے یہ بتا دیا تھا کہ ملک گیر پیمانے پر بم دھماکوں کی منصوبہ بندی کا ماسٹر مائنڈ ملند پراندے ہی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے قائدین بھی جانتے تھے کہ میرا تعلق مہاراشٹرا کی تنظیم ’’گرجنا‘‘ سے ہے۔ اس کے علاوہ میرا تعلق جموں وکشمیر، پنجاب، ہریانہ اور مغربی بنگال میں ’’ہندو یووا چھاترا پریشد‘‘ سے اور کرناٹک میں ’’شری رام سینا‘‘ سے اور بنگال کے سینئر لیڈر تپن گھوش سے بھی ہے۔ ان کی منظم تیاریوں کا حال یہ ہے کہ سارے ملک میں ایک ساتھ ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر 500تا600 بم دھماکے کرواسکتے ہیں۔ میں ان کے ظالمانہ ارادوں اور ان کی خراب نیتوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ شاید ان سے میری اسی دوری نے ان کے ناپاک ارادوں پر پانی پھیر دیا اور کہیں بھی بم دھماکے نہیں کیے جا سکے۔ وہ تپن گھوش کو بھی یہ سمجھانے میں کامیاب رہا کہ بی جے پی قائدین کے ارادے کتنے خطرناک ہیں اور تپن گھوش نے اپنے آپ کو ان غیر انسانی کارروائیوں سے دور ہی رکھا۔ اسی طرح کرناٹک کی ’’شری رام سینا‘‘ کا قائد پرمود متالک جو تپن گھوش سے قریبی تعلق رکھتا ہے، اس نے بھی منصوبہ بند بم دھماکوں کی کارروائی میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں نے تنہا، آر ایس ایس اور بی جے پی جے کے تباہ کن منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ آج میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ ایسا کرکے میں نے ملک کے ہندوؤں، مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک بہت بڑے نقصان سے بچا لیا ہے۔ 2004کے عام انتخابات سے پہلے ملک گیر پیمانے پر بم اندازی کے ذریعے ملک میں تباہی پھیلانے میں ناکامی کے بعد بی جے پی عام انتخابات ہار گئی اور کانگریس اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت گئی۔ بی جے پی کی اس شکست کے بعد ملند پراندے اپنے سیاسی آقاوں سے خوف زدہ رہنے لگا اور روپوش ہو گیا لیکن پس پردہ اپنی چالبازیوں سے باز نہیں آیا۔ روپوشی کی حالت میں اس نے ملک میں پولیس کی مدد سے کئی جگہ بم دھماکے کروائے۔ یکطرفہ چلنے والے میڈیا کو ساتھ لے کر ان تمام دھماکوں کا الزام مسلمانوں پر ڈالنے میں کامیاب رہا۔ چنانچہ اس کا فائدہ بی جے پی کو 2014 کے عام انتخابات میں ہوا، جب بی جے پی نے مرکز میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور نریندر مودی وزیر اعظم بن گئے۔ ان انتخابات کے پس پردہ تخریب کاری میں ملوث سیاسی جماعتیں اور ہندو مذہبی تنظیمیں جو پوشیدہ طور پر ملک کو توڑنے کا کام کر رہی تھیں، آج وہ آزادانہ طور پر کھلے عام یہی کام کر رہی ہیں۔ ان میں وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) قابل ذکر ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ایسی تمام تنظیمیں ماضی میں بھی غیر دستوری، غیر اخلاقی اور غیر انسانی کاموں میں ملوث پائی گئی ہیں۔ مغربی بنگال، جموں وکشمیر اور اتر پردیش کے علاوہ دیگر ریاستوں میں یہ خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی جستجو میں لگی رہتی ہیں۔ ملند پراندے بھی اس وقت دوبارہ پوری طرح ان تخریبی کاروائیوں میں ملوث ہو چکا ہے اور سپاری لے کر آقاوں کے ناجائز اور غیر قانونی کاموں میں مصروف ہے۔ میں نے ملک میں ملند پراندے کی جانب سے کی جانے والی تخریبی کارروائیوں کے بارے میں سینئر وی ایچ پی لیڈر وینکٹیش آبداوے کے علاوہ آر ایس ایس کی سنٹرل لیول ورکنگ کمیٹی کے صدر سریکانت جوشی سے بات کی اور انہیں تفصیل سے سمجھایا لیکن آج تک کسی نے بھی ملند پراندے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس وقت ملند پراندے، وی ایچ پی کے کیندریہ سنگھٹک یعنی نیشنل آرگنائزر کے عہدے پر فائز ہے، جس کا دفتر آر کے پورم دہلی میں وی ایچ پی کے ہیڈ آفس کی عمارت ہی میں ہے۔ اس کے بعد میں نے بم دھماکوں کے خلاف دوبارہ آواز اٹھائی اور کارکنوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ محض سیاسی اور انتخابی فوائد کے لیے بی جے پی، آر ایس ایس اور وی ایچ پی، اپنے تمام کارکنوں کو استعمال کر رہی ہے۔ فیروزہ منشن ممبئی کے وی ایچ پی کے مرکزی دفتر میں میں نے آبدیو سے کئی مرتبہ ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ وہ موجودہ صورت حال کو بدلنے میں وہ دلچسپی کیوں نہیں لیتے۔ اس پر وہ مجھے تسلی دیتے ہوئے بولے کہ ہاں ضرور اس بارے میں کچھ قدم اٹھاؤں گا لیکن آج تک عملاً کچھ بھی نہیں کیا۔
اسی موضوع پر میں نے سریکانت جوشی سے بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے اس بارے میں آر ایس ایس کے اس وقت کے سہکاریہ اور موجودہ سرسنچالک شری موہن بھاگوت سے جب بات کی تھی تو انہوں نے اس بارے میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا تھا۔ ان تمام قائدین سے بات کرنے کے بعد مجھے یقین ہو چکا تھا کہ آر ایس ایس اور وی ایچ پی، دہشت گردوں کی اسی طرح کھلم کھلا حمایت اور ہمیشہ ان کے غیر قانونی کاموں کی تائید کرتی رہے گی۔ بی جے پی کے 2014 کے انتخابات جیتنے اور اپنی حکومت بنانے کے بعد اس میدان میں ان تنظیموں کی ہمتیں مزید بڑھ گئیں۔ اب وہ دہشت گردوں کے ساتھ اور دہشت گر ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ چل رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندو مذہب ایک مہذب مذہب ہے اور اسی وجہ سے ہندو قوم، کسی بھی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہو سکتی۔ لیکن چند خود غرض ہندو مذہبی تنظیمیں، جیسے آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل، محض بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے نوجوانوں کو دہشت گردی کے جال میں پھنسا رہے ہیں۔
میں نے جو کچھ اپنے حلف نامے میں لکھا ہے وہ میں نے اپنے پورے ہوش و حواس کے ساتھ بالکل صحیح لکھا ہے۔ اس کے علاوہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جن واقعات کا ذکر میں نے کیا ہے اس کی تصدیق سرکاری ریکارڈ اور اس وقت کے اخبارات سے کی جا سکتی ہے۔ اس موضوع پر میں ان تمام ہندو مذہبی تنظیموں کے ذمہ داروں سے جن کا ذکر میں نے اپنے اس حلف نامے میں کیا ہے، ان سے میں خود راست بات کرنے کے لیے تیار ہوں۔ جن واقعات کا میں نے اس حلف نامے میں ذکر کیا ہے عدالت میں اس کے تمام ثبوت پیش کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔
2003ء میں ملک میں جگہ جگہ کیے گئے بم دھماکوں کے واقعات خود میرے اس دعوے کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ 2006ء کے ناندیڑ دھماکے بھی انہیں جرائم کی کڑی ہیں جس کے لیے میں بھی ایک مجرم کی حیثیت سے عدالت میں پیش کیا گیا ہوں۔میں آج بھی کہتا ہوں کہ ہمانشو پانسے اور اس کے تمام ساتھی جنہوں نے 2003 میں سنگھڑ میں بم سازی کی تربیت حاصل کی تھی، وہی سب آج بھی اورنگ آباد میں بم دھماکے کرنے کی سازش میں مصروف ہیں۔
میں اس مقدمے کا ایک بہت اہم گواہ ہوں کیوں کہ میں نے ان تمام ملزمین کے ساتھ سیہنا گڑھ کے جنگلوں میں بم سازی کی تربیت حاصل کی ہے۔ میں نے اس جرم میں اپنے آپ کو اس وقت پوری طرح ملوث سمجھا جب میں نے 2003ء میں ممبئی کے کھیت واڑی علاقے میں گول دیوی مندر کے اجتماع میں شرکت کی تھی۔ اسی احساس جرم کی اساس پر میں عدالت عالیہ سے گزارش کرتا ہوں کہ مجھے اس مقدمے میں گواہ بنا لیا جائے کیوں کہ میں اس مقدمے سے جڑ ی ہوئی تمام معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار ہوں، جن سے میں شخصی طور پر بخوبی واقف ہوں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ناندیڑ بم دھماکوں میں جو افراد ملوث ہیں وہ ملند پراندے، راکیش دھاواڑے اور روی دیو عرف متھن چکرورتی ہیں۔ ان سب نے بم سازی کی تربیت حاصل کی تھی اور ابھی تک ان تینوں کو پولیس نے آج تک گرفتار نہیں کیا ہے۔ میں ان کے رہائشی پتے بھی جانتا ہوں۔
ملند پراندے: کیندریہ سنگھٹک، وی ایچ پی۔ یہ وی ایچ پی کے صدر دفتر واقع آر کے پورم نئی دہلی میں موجود رہتا ہے۔
راکیش دھاواڑے: اس کا تعلق پونے مہاراشٹر سے ہے، اسے 2008 میں مالیگاوں بم دھماکوں کے علاوہ دیگر کئی علاقوں میں بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اب یہ ضمانت پر جیل سے باہر ہے۔
روی دیو عرف متھن چکرورتی: یہ ہردوار میں رہتا ہے، اس کا موبائل فون نمبر 9411786614 ہے۔
میں اقرار کرتا ہوں کہ 2006 کے ناندیڑ بم دھماکوں میں مذکورہ تینوں افراد ملوث ہیں، لہٰذا میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ ان تینوں افراد پر بھی مقدمہ چلایا جائے۔ میں اس مقدمے کا گواہ بننا چاہتا ہوں اور اس بات کا مطالبہ کرتا ہوں کہ ان تینوں افراد کو ملزم قرار دیتے ہوئے انہیں گرفتار کیا جائے اور ان پر بھی باضابطہ مقدمہ دائر کیا جائے۔
دستخط: یشونت شندے

 

***

 میں نے جو کچھ اپنے حلف نامے میں لکھا ہے وہ میں نے اپنے پورے ہوش و حواس کے ساتھ بالکل صحیح لکھا ہے۔ اس کے علاوہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جن واقعات کا ذکر میں نے کیا ہے اس کی تصدیق سرکاری ریکارڈ اور اس وقت کے اخبارات سے کی جا سکتی ہے۔ اس موضوع پر میں ان تمام ہندو مذہبی تنظیموں کے ذمہ داروں سے جن کا ذکر میں نے اپنے اس حلف نامے میں کیا ہے، ان سے میں خود راست بات کرنے کے لیے تیار ہوں۔ جن واقعات کا میں نے اس حلف نامے میں ذکر کیا ہے عدالت میں اس کے تمام ثبوت پیش کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022