دنیا ایک نئے انقلاب کے دہانے پر

جمہوریتوں کا ایک جائزہ ہندوستانی جمہوریت کے خصوصی حوالے سے

پروفیسر احمد سجاد، رانچی

مقننہ(Legislative ):۔ ۹۰ سالہ جدوجہد کے بعد ۱۹۴۷ء میں ملک کو جو آزادی نصیب ہوئی تھی اس کا ایک بڑا مقصد سامراجی ظلم وستم کے قاعدے قانون کی جگہ ملکی آئین وقانون کے ذریعہ شہریوں کی اپنی آزادی، خوشحالی اور مساوات وبھائی چارہ قائم کرنے کے لیے ہر طرح کے قوانین بنانے کا اختیار رہے گا۔ جس کے لیے ڈاکٹر امبیڈکر کی رہنمائی میں ممبران پارلیمنٹ نے برسوں کی محنت، بحث ومباحثہ کے بعد ایک ایسا دستور مرتب کیا جو دنیا کے بہترین دساتیر میں شمار کیا جاتا ہے۔لیکن آزادی کے بعد ہی سے عمل درآمد میں آئین کے ساتھ جس طرح من مانا سلوک اور اس کی ترجمانی میں ہٹ دھرمی سے کام لیا جا رہا ہے اس نے آئین وقانون اور عدل وانصاف کی تمام قدروں کو پامال کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی کہ وقت کے ساتھ ہر الیکشن کے بعد پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مجرمانہ کردار کے ممبران کی تعداد روز افزوں ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے ۲۰۱۸ء اور ابھی اس سال ۱۳؍ فروری ۲۰۲۰ء کو مختلف کمیٹیوں، بنچوں وغیرہ کے ذریعہ مجرمانہ کردار کے حامل ممبران کے پارلیمنٹ میں داخلے کی راہوں کو بند کرنے کی متعدد بار کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود پچھلے چار الیکشنوں کے اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو اس میں حیرت انگیز (alarming ) اضافہ کی رفتار جاری ہے۔ مثلاً ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں 24 فیصد ممبران پارلیمنٹ کے خلاف مجرمانہ واردات کے مقدمات ملتوی تھے مگر ۲۰۰۹ء کے الیکشن میں یہ تعداد بڑھ کر 30 فیصد ہوگئی۔ تو ۲۰۱۴ء 34 فیصد اور ۲۰۱۹ء میں 43 فیصد پر مجرمانہ مقدمات دائر تھے۔
ایک رضا کار تنظیم (NGOs ) نے انکشاف کیا ہے کہ 539 ممبران پارلیمنٹ میں 233 یعنی 43 فیصد ممبران پارلیمنٹ پر دائر شدہ مقدمات معرض التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب چند سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کی ان کی پارٹی میں ایسے ملزموں کی فیصد تعداد کیا رہی ہے:۔ بی جے پی کے 301 ممبران میں 116 یعنی 39 فیصد۔ آل انڈیا نیشنل کانگریس کے 51 میں 29 یعنی 53 فیصد۔ ڈی ایم کے 23 میں سے 10 یعنی 43 فیصد ۔ ٹی ایم سی کے 22 میں سے 9 یعنی 41 فیصد ۔جے ڈی یو کے 16 میں سے 13 یعنی 81 فیصد کی تعداد داغی ممبران کی رہی۔ گویا موجودہ پارلیمنٹ میں 29 فیصد ممبران پارلیمنٹ اس سنہرے داغ سے آراستہ ہیں۔
سپریم کورٹ کے علاوہ الیکشن کمیشن اور لا کمیشن وغیرہ نے بارہا سفارش کی کہ ایسے داغی ممبران سے پارلیمنٹ کو پاک کیا جائے مگر خود سیاسی پارٹیوں نے ’’ملزم اور مجرم‘‘ جیسی بحثوں میں الجھا کر ان کی تجاویز کو رد کردیا۔ تازہ ترین ایک روشن مثال کا انکشاف انگریزی روزنامہ ’’انڈین اکسپریس‘‘ (مورخہ ۱۳،۱۴ فروری ۲۰۲۰ء) میں آنند سنگھ کے بارے میں کہا گیا ہے، جو کرناٹک کے بلاری ضلع میں یدورپا کی سرکار میں وزیر جنگلات وماحولیات ہیں اور جو ریاستی اسمبلی میں چار بار ایم ایل اے منتخب کیے گئے اور جن پر غیر قانونی کان کنی اور جنگلات کی کٹائی کے مقدمات چل رہے ہیں۔ انہیں تغذیات اور سول سپلائیز کا وزیر بنایا گیا تو ان کے مطالبہ پر انہیں جنگلات ماحولیات اور ایکولوجی کے قلمدان بھی عطا کیے گئے۔
اس طرح کی دھاندلیوں اور بے ایمانیوں پر تو قدغن نہیں لگائے جاتے البتہ طلاق ثلاثہ، CAA اور 370 کے خلاف قانون سازی میں بڑی چستی دکھائی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں سیاسی پارٹیوں نے ہر الیکشن میں ملک کے سرمایہ داروں اور کارپوریٹرو ں سے کروڑہا روپے بطور چندہ وصول کیے مگر کبھی مکمل حساب یا آڈٹ نہیں پیش کیا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم Associate of Democratic Reform=ADP کا یہ دعوی ہے کہ 2005-2004 سے 2019-2010 کے درمیان سات قومی پارٹیوں نے نامعلوم ذرائع سے 112234 کروڑ روپے کا چندہ کیا (مارکسی کمیونسٹ پارٹی، بی جے پی، کانگریس، ترنمول کانگریس، مارکسی کمیونسٹ پارٹی، نیشنل کانگریس پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، بھارتی کمیونسٹ پارٹی)۔سرمایہ دار طبقہ چندے کی اس رقم کو دکھا کر انکم ٹیکس میں ڈنڈی مارتے ہیں اور اس رقم کے بدلے میں طرح طرح کے سرکاری ٹھیکے اور ایکڑوں ایکڑ رعایتی قیمت پر زمین حاصل کرنے کے علاوہ سیاسی استحصال بھی کرتے ہیں۔
(ADR )اے ڈی آر کے بقول سال 19-2018میں بی جے پی نے 104612 کروڑ روپے حاصل کیے یہ قومی پارٹیوں کو نامعلوم ذرائع آمدنی سے ملی۔کل رقم 104612 کروڑ روپے کا 64% ہے۔ اس طرح کی خفیہ اور غیر قانونی آمدنی سے ریاستوں میں عدم استحکام ،مبینہ خرید و فروخت اور ہر محاذ پر کالا بازاری کا ماحول بنانے میں کام لیا جاتا ہے۔اس طرح کی خفیہ آمدنی اور داغی امیدواروں کی آمد پر روک لگانے کی مسلسل رائے دی گئی مگر یہ پارٹیاں اس کے لیے راضی نہیں ہوئیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں مجرمانہ سیاست دن دونی رات چوگنی رفتار سے بڑھتی جارہی ہے ۔تیر ھویں لوک سبھا الیکشن کے 1500 امیدواروں پر مقدمات چل رہے ہیں۔’’الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن فارڈیموکریٹک ریفارمس‘‘ نے لوک سبھا الیکشن 2019 میں کھڑے 8049 امیدواروں میں سے 7928 امیدواروں کے حلف ناموں کا جائزہ لیا تو پایا کہ 1500 (19% ) امیدواروں نے بھیانک جرائم (زنا، قتل، قتل کی کوشش، اغوا، عورتوں کے اوپر مظالم وغیرہ) کے لیے مقدمات چلنے کا اقرار کیا ہے۔56 امیدواروں نے اپنے جرائم کے سچ ہونے کا بھی اقرار کیا ہے۔ 55 امیدواروں نے ہندوستانی قانون کی دفعہ 302 کے تحت 184 امیدواروں نے دفعہ 307 (مثلاً قتل کی کوشش)۔126 نے عورتوں کے خلاف الزامات کو مانا ان 126 میں 9 نے IPC کی دفعہ 376 کی خلاف ورزی 147 پر اغوا،95 پر نفرت پھیلانے کا ملزم ہونا تسلیم کیا ہے۔بی جے پی کے 40% امیدواروں پر مجرمانہ معاملات درج ہیں۔43% ممبران پارلیمنٹ داغی ہیں۔ 2019 کے الیکشن جیتنے والے کل ممبروں میں سے 233 (یعنی 43%)نے بھی مقدمات کو تسلیم کیا ہے۔29% جیتے ہوئے ممبران یعنی 30 میں سے 116 نے بھیانک مقدمات چلنے کا ذکر کیا ہے۔ ان پارٹیوں کی مجرمانہ فیصد اس طرح ہے:۔بی جے پی کے 39% (301 میں 116 ) کانگریس کے 57% یعنی 51 میں 29،ڈی ایم کے 43% یعنی 23 میں 10 ۔ترنمول کانگریس کے 41% یعنی 22 میں 9 اور جدیو کے 81% یعنی 16 میں 13 نے خود پر مجرمانہ معاملے کے اندراج کو تسلیم کیا ہے۔
اس مجرمانہ ماحول کو بڑھاوا دینے کا ابتدائی اظہار راجیو گاندھی کا بابری مسجد کی متنازعہ زمین پر شیلا نیاس کرنے اور نرسمہا راؤ کے زمانے میں اس مسجد کی شہادت پر منتج ہوا۔ آخر اسی نرم اور سخت ہندتوا کے درمیان کانگریس پارٹی ہچکولے کھاتی ہوئی اپنے وجود کی بقا کے لیے ترس رہی ہے۔ گجرات میں کانگریس نے وہی سب کچھ کیا جو دہلی میں کیجریوال نے کیا۔نیتیش کمار جے پی واد اور سوشلسٹ ہونے کے باوجود ’’پلٹو رام ‘‘ بنے۔ دین دیال اپادھیائے کے مجسمہ کا افتتاح کیا۔ پروفیسر پربھات پٹنائک نے دی ڈیلی ٹیلی گراف میں تقریباً اسی طرح کی بات کہی ہے۔اسی ذہنیت نے ۲۶؍ فروری کو مسٹر پرکاش سنگھ (پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز، DGP UP ،DGBSF ،DGP Assam) کو اپنے مضمون (شائع شدہ انڈین اکسپریس۔۲۳ فروری ۲۰ء) کی سرخی ان الفاظ میں لکھنا پڑا: پولیس کی کارروائیوں میں حکم راں جماعت کی جانب داری کا بھرپور عکس‘‘۔جعفر آباد (دہلی) میں (CAA ) شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اور موافقت کرنے والے تصادم پران کا تاثر ہے کہ (سب کچھ اچھا نہیں ہے) All is not well۔ کیونکہ قتل وغارتگری، لوٹ اور آگ زنی اور پتھراؤ ہوتا رہا تو پولیس نہ صرف منہ دیکھتی رہی بلکہ بلوائیوں کی طرف داری کی اور انہیں پتھراؤ کرنے پر اکسایا۔ نیشنل پولیس کمیشن کی سفارشات کو ٹالنے ہی کے نتیجے میں ۱۹۸۴ء کے قتل عام کا منظر گجرات اور دہلی میں دہرایا گیا اور رفتہ رفتہ پولیس فرقہ پرست ہوتی چلی گئی۔
صحافت (پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا):۔ جمہوریت کے اس اہم ترین چوتھے ستون کو صحافت کہا جاتا ہے جس کا کام حکم رانوں اور عوام کے حالات کو بے کم وکاست واشگاف کرنا، کھرے اور کھوٹے، حق وناحق، سچ اور جھوٹ کی قلعی کھولنا بھی اس کا اہم فریضہ ہے۔ مگر ان دنوں ملک کا پورا میڈیا دو حصوں میں بٹا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک جو حق کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے اور دوسرا جو ناحق اور جھوٹ کا خوشامدی اور مطلب پرست ہے۔ چنانچہ ہندوستانی صحافت میں بھی اور ملکوں کی طرح بعض ایسے قابل احترام صحافی بھی گزرے ہیں جنہوں نے جانی قربانیاں تک دی ہیں۔ آج بھی کمتر سہی مگر حق گو اور حق پرست صحافی خطرات مول لے کر اپنا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ مثلاً مولوی باقر علی، مولانا آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، پرنب رائے، رویش کمار وغیرہ۔ مگر موجودہ حکومت کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد اسے لگا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہندو راشٹریہ کے قیام اور آرایس ایس کے اکابرین نے ہندوتوا اور منوسمرتی کی سیاست ومعیشت کو ملک بھر میں لاگو کرنے کا جو خواب دیکھا تھا اس کا مینڈیٹ مل چکا ہے لہٰذا چاہے جو ہو اس کو جلد از جلد پورا کرلیا جائے۔ چنانچہ اس سلسلے میں جمہوریت اور آئین ہند کی خواہ کتنی پامالی ہوتی ہو اس کی پروا نہ کی جائے۔ جس کی ایک جھلک گزشتہ اوراق میں آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔
تمام ہی سیکولر افراد، دانشوروں، مصنفین اور صحافیوں کی تقریباً متفقہ رائے یہ ہے کہ موجودہ بد ترین ملکی صورت حال اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے دور سے ہزار گنا زیادہ ابتر ہے۔ کہ سرکاری زہریلی پالیسی کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اس کی زبان بندی کی گئی انہیں لالچ یا خوف ہی میں نہیں بلکہ انہیں دیش دروہ، اربن نکسل اور قید وبند میں مبتلا کیا گیا۔ ونود دوا اور رویش کمار جیسے صحافیوں کو بدنام ہی نہیں قتل تک کی دھمکی دی گئی۔ بیشتر میڈیا کو خرید لیا گیا جو ہر نازک موقع پر حکومت وقت کی جا وبےجا اقدام کی مدلل مداحی کی کوشش کرتا ہے اور مخالفین کا پوری بے حیائی سے ٹرول کیا جاتا رہا ہے۔ اور سرکار کی ظالمانہ حرکات کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جے این یو، جامعہ ملیہ، اے ایم یو کے طلبا کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا تماشا پوری دنیا نے دیکھا۔ یہی حال کشمیر اور شاہین باغ کے ساتھ ہوا۔ جس پر اقوام متحدہ اور پوری دنیا نے لعنت ملامت کی کیونکہ کچھ چینلوں نے جن میں نیوز نیشن، آج تک، فری پبلک ٹی وی، زی ٹی وی اور انڈیا ٹی وی وغیرہ نے تو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی برابر کوشش جاری رکھی ہے۔ اس پر ایک جوان سال صحافی محمد علم اللہ نے بجا طور پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے (عوامی نیوز، اتوار ۸؍مارچ ۲۰ء) کے ان گودی یا دلال میڈیا نے ’’صحافتی اخلاقیات کی ساری حدوں کو پار کرلیا اور انہوں نے خود ہی جج کا کردار ادا کرتے ہوئے طلبا کو ظالم دکھانے کی کوشش کی‘‘۔
پچھلے کئی مہینوں سے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے معاملے میں فرقہ پرست حکم رانوں کی جس بے حیائی سے وکالت کی گئی ہے اسے کسی طرح سے بھی صحافتی اقدار اور اس کے اصول وضوابط پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انصاف پسند افراد اور ایماندار صحافی اور میڈیا نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ اگر میڈیا کا یہی رویہ رہا تو ملک پر اس کے بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تب میڈیا پر سماج کا اعتبار باقی نہیں رہے گا۔ رویش کمار (اینکر این ڈی ٹی وی) نے تو بار بار کہا ہے کہ میڈیا والے اسی طرح ہندو مسلمان اور ہندوستان پاکستان کا رٹ لگاتے رہے تو اس کا انجام بہت برا ہوگا۔ انہوں نے صاف کہا کہ ادھر برسوں سے ہم نے تو ٹی وی دیکھنا ہی بند کر دیا ہے۔گودی میڈیا کے اس بے رحمانہ رویے کے بھیانک نتائج کی کئی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں۔ اس سلسلے میں ایلن تھومپسن کی مرتب کردہ کتاب ’ دی میڈیا اینڈ دی ریوانڈزجینوسائیڈ ‘
The media and the Rwanda’s genocide کو ایک قابل مطالعہ اور چشم کشا دستاویز کہا جاتا ہے۔اس کتاب کے مطابق میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجہ سے صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ روانڈا میں دو قبائل آباد تھے۔ ایک ’’ہوتو‘‘ جو اکثریت میں تھے اور دوسری ’’ٹوٹسی‘‘ جو اقلیت میں تھے۔ دونوں کے درمیان پہلے ہی سے کشیدگی تھی۔ ان کو میڈیا میں ’کاکروچ‘ کہا جاتا تھا جیسے آج ہندوستانی مسلمانوں کو کچھ لوگ پاکستانی ایجنٹ، کپڑوں سے پہچانے جانے والے غدار کہہ کر گولی مارنے کی دھمکی دیتے تو کچھ نے ’باہر کی اولادوں کو گولی مارو سالوں کو‘ جیسے الفاظ بولے جسے ٹی وی پر بلا کسی خوف اور شرم کے دکھائے جا رہے ہیں۔
تعصب اور فرقہ پرستانہ زہر افشانی کیا کچھ کر سکتی ہے اس کا اندازہ روانڈا میں اقلیتوں کے قتل عام میں دیکھا جا سکتا ہے۔ روانڈا کے صدر جو اکثریتی قبیلہ ہوتو سے تعلق رکھتے تھے جس طیارے میں سفر کر رہے تھے اسے نا معلوم لوگوں نے اینٹی ایرکرافٹ میزائل سے اڑا دیا۔ صدر فوج کے سربراہ بھی تھے۔ اس حادثہ کا الزام ٹوٹسی قبیلہ پر لگا۔ اسی طرح جس طرح مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس کا الزام مسلمانوں پر لگانے کی افواہ اڑا دی گئی تھی۔ سال بھر پہلے ہی ملک آزاد ہوا تھا اس لیے جمہوری قدروں کا احترام تازہ تازہ تھا، مولانا ابوالکلام آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو نے فوراً ہی ریڈیو سے اعلان کیا کہ ایک پاگل ہندو نوجوان گوڈسے نے گولی چلائی۔اس وقت تک راشٹر وادیوں کے بال وپر زیادہ مضبوط ومنظم نہیں ہو پائے تھے اس لیے اس کا ردعمل ویسا نہیں ہوا جیسا روانڈا میں ہوا۔ وہاں کی میڈیا اور ریڈیو روانڈا سے مسلسل زہر افشانی ہوتی رہی تھی کہ ٹوٹسی لال بیگی ہیں اس لیے ان کا قتل واجب ہے۔
چنانچہ فوج نے ہوتیوں کے درمیان ڈنڈے تقسیم کیے۔ مخالفین کی نشان دہی کی گئی۔ جس طرح یہاں فسادات کے موقعوں پر اور ابھی دہلی کے فسادات میں کیا گیا اور چن چن کے انہیں بڑے ماہرانہ انداز میں نشانہ بنایا گیا۔ اور اعلان کر دیا گیا کہ جو رحم کھائے گا وہ غدار کہلائے گا۔ چنانچہ اقلیتی قبیلہ کا قتل عام شروع ہو گیا۔ یہاں تک کہ جن ہوتو کی بیویاں ٹوٹسی قبیلے سے تھیں انہیں ان کے شوہروں نے قتل کر دیا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بلوائی ان شوہروں کو بھی قتل کر دیتے۔ اس لیے صلح جو ہوتو بھی قاتلوں کی زد میں آگئے جس طرح ہمارے ملک میں صلح پسند سیکولر ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہاں کچھ لوگ دھڑلے سے ایسے موقعوں پر ترشول، لاٹھی، ڈنڈا، بلم اور اب تو دہلی میں پستول اور بندوق جیسے ہتھیاروں سے قتل کی وارداتیں انجام دی گئیں۔ روانڈا میں اس وسیع قتل عام کے پیچھے میڈیا کا نفرت انگیز رویہ تھا۔
بڑے منظم انداز میں وہاں انتہا پسندوں کو حکومت مخالفین کی فہرست فراہم کی گئی جس طرح 2002 ء میں گجرات فسادات کے دوران کیا گیا تھا۔ ہمسایوں کو ہمسایوں نے ہلاک کیا۔ لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شناختی کارڈ ساتھ رکھیں۔ بلوائیوں نے سڑکوں کی ناکہ بندی کردی، ٹوٹسی افراد کو روک کر خنجروں سے ذبح کیا گیا۔ ظالموں کے جذبات کو بھڑکایا گیا۔ ہزاروں ٹوٹسی لڑکیوں کو جنسی غلام بنایا گیا کیونکہ انہیں کیڑے مکوڑوں سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ چنانچہ ان کے گرجا گھروں، پادریوں اور راہباؤں کو بھی تباہ اور ہلاک کر دیا گیا۔ اسی طرح جس طرح ہندوستانی گودی میڈیا نے جس انداز سے ہجومی قتل (ماب لنچنگ) کرنے والوں کی قدر افزائی، ضمانت پر رہائی ہونے والوں کی پھولوں کے ہار پہنا کر اور مٹھائی سے قدر افزائی کی گئی۔ حتیٰ کہ جموں کشمیر میں کٹھوعہ قتل کیس میں فرقہ پرست وکلا نے منظم ہو کر قاتلوں کے حق میں جلوس نکالا جسے ساری دنیا نے ٹی وی پر دیکھا۔مسلم اداروں، تنظیموں، علماء اور دانشوروں کو بھی یہ گودی میڈیا مختلف بہانوں سے بدنام کرتا آرہا ہے۔ فسادیوں کی طرف داری اور مظلوموں کو ظالم ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے۔ انہیں حق وانصاف کے بجائے اپنی ٹی آر پی اور بھیک کے ٹکڑوں کی زیادہ فکر رہنے لگی ہے۔ دہلی کے حالیہ فسادات میں کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر وغیرہ کے کھلم کھلا بھڑکاؤ بیانات کے باوجود ان کے خلاف مقدمہ تو کیا درج کیا جاتا الٹا ان کی سیکوریٹی کو بڑھا کر ’y ‘ کے مقام تک پہنچا دیا گیا۔ اس کے برعکس ایک مسلمان کونسلر طاہر حسین جو فساد کے ستائے اور لٹے ہوئے مظلوم ہیں ان کے خلاف ان گودی میڈیا والوں نے ہائے ہو مچاکر انہی کو ملزم بنا دیا۔ حالانکہ آئی بی اہل کار انکت شرما مقتول کے بھائی انکور شرما کا بیان ہے کہ قاتلوں نے جے شری رام کا نعرہ لگا یا۔ میڈیا کی اس کھلی دھاندلی نے عوام کو میڈیا سے بری طرح بدظن کر دیا ہے اور کیوں نہ ہو کہ:
صحافی ہوگیا مرحوم، صحافت مر گئی کب کی
قلم اب جرأت اظہار رائے کو ترستا ہے
گودی میڈیا نے مسلمانوں کے سلسلے میں اپنے منفی رویہ کو مندرجہ ذیل طریقے سے مستقل شکل دے دی ہے:۔
ہر جا وبےجا موقعوں پر وہ ایسی چیزوں کو اچھالتا ہے جن سے مسلمانوں اور ان کے مذہب کی بدنامی ہو۔ جان بوجھ کر پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ کسی مسلمان نے غلطی سے بھی کوئی اشتعال انگیز بیان دے دیا تو اس کی آڑ میں ملک کے تمام مسلمانوں کو نشانہ بنا کر واویلا مچا دیتے ہیں۔ ایک خاص مکتب فکر نے مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے جس کی میڈیا حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ تمام چینلوں پر کسی نہ کسی اہم مسئلہ پر پینل ڈیبیٹ یا اجتماعی مباحثہ میں اینکر کا رول غیر جانب دار کا نہیں بلکہ ایک فریق کا ہو جاتا ہے۔ مسلم پینلسٹ کو کٹ حجتی کر کے آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ اگر مسلمان صحیح اور کھل کے بات کو رکھتا ہے تو اسے بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ بعض نام نہاد منافقانہ ذہن رکھنے والے مسلم یینسلٹ کو بار بار خوب موقع دیا جاتا ہے۔ ماب لنچنگ کے مجرموں کو جیل سے ضمانت پر عارضی رہائی ملتی ہے تو ان کو پھولوں کے ہار پہنا کر اور مٹھائی کھلا کر استقبال کیا جاتا ہے اور اس کی دل کھول کے ستائش بھی کی جاتی ہے۔ رویش کمار نے اس گودی میڈیا کے اس منفی رول پر ایک بار اپنے ردعمل کے ان الفاظ میں اپنے ناظرین کو کہا کہ:’’خدارا آپ لوگ ٹی وی دیکھنا بند کر دیجیے ورنہ وہ آپ کو اور آپ کے بچوں کو ہندو مسلم کے نام پر لڑائے گا اور قاتل بھیڑ میں تبدیل کردے گا‘‘۔
وہ تو شکر ہے کہ نیوز چینلوں میں بعض چینل غیر متعصب ہیں اور سوشل میڈیا پر تو ایسے غیر جانبدار اینکر کی ایک اچھی تعداد کے علاوہ منصف مزاج دانشور اور اخبارات ہیں جو حقائق کو بے خوف ہو کر بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔یہ پوری صورتحال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کی ہے۔ جہاں جمہوریت کے چاروں ستون کو تہہ خاک کیا جا چکا ہے۔ اور کم وبیش دنیا کے دیگر نام نہاد جمہوری ملکوں کا بھی تقریباً یہی حال ہے کہ حکم راں طبقہ نے اپنے اپنے ملکوں کی مقامی صورت حال کے پیش نظر اپنے عوام کو بہلاوے میں رکھ کے جذباتی خطابت اور لفاظی کے ذریعہ ان کا مسلسل استحصال جاری رکھا ہے۔ (جاری)


 

ایک خاص مکتب فکر نے مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے جس کی میڈیا حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ تمام چینلوں پر کسی نہ کسی اہم مسئلہ پر پینل ڈیبیٹ یا اجتماعی مباحثہ میں اینکر کا رول غیر جانب دار کا نہیں بلکہ ایک فریق کا ہو جاتا ہے۔