دنیا انقلاب کے دہانے پر

جمہوریتوں کی ناکامی کے بعد اسلام ہی آخری راستہ (آخری قسط)

پروفیسر احمد سجاد، رانچی

ابھی ابھی کورونا وا ئرس (کوویڈ19) کی وبائے عام کے موقع پر جس طرح لاک ڈاؤن پورے ملک میں نافذکیا گیا اس سے لاکھوں لاکھ مزدور جو روز کمانے اور کھانے پر منحصر تھے وہ مختلف شہروں سے پیدل ہجرت پر مجبور ہوئے۔ نیز ریزرو بینک پر جس طرح ہاتھ مارا جا رہا ہے اور پنشن یافتہ بزرگوں کے پی ایف فنڈ وغیرہ پر دست درازی اور سودی منافع میں کٹوتی کردی گئی۔ ان تمام امور میں اس وفاقی جمہوریت میں دیگر ریاستی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ یا پارلیمنٹ وغیرہ کے فلور پر مشورے یا بحث و مباحثہ کے بغیر انفرادی طور پر وزیر اعظم نے سابق دستور نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور کشمیر میں 7 مہینوں تک کی تالہ بندی کا حکم نامہ جاری کردیا گیا اور ان مواقع پر جمہوریت کی تینوں روایات کو پامال کیا گیا یعنی آزادی اظہار رائے، اظہار اختلاف، شورائیت اور انصاف و مساوات کے حصول کی کوشش کو غداری سے تعبیر کیا گیا اس نے ملک کے دانشوروں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ملک گیر پیمانے پر مختلف شعبہ زندگی کے ماہرین علم و فن کے منتخب افراد پر مشتمل ایک مساوی حکومت کی تشکیل عمل میں لائی جائے کہ یہ وقت کی بڑی ضرورت ہوگی۔ یہی عمل دیگر ملکوں کے عوام کو بھی کرنا چاہیے۔ کیونکہ موجودہ جمہوری نظام کی مضمر خرابیوں کو دور اور کمزرویوں کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔
اصل میں اس فرضی جمہوریت کو ساری دنیا میں پنپنے کا موقع اس لیے مل گیا کہ یورپ کی نشاۃ الثانیہ سے قبل تک چرچ اور بادشاہت کی ملی بھگت سے عوام پر بے پناہ مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ اس عرصے میں ایسے مفکرین پیدا ہوئے جنہوں نے دیکھا کہ مذہب کے نام پر عوام پر ظلم ڈھایا جارہا ہے تو جب تک مذہب کا لبادہ اتار پھینکا نہیں جائے گا تب تک اس ظلم کا خاتمہ ممکن نہیں۔ انہوں نے مذہب کو لوگوں کا ذاتی معاملہ قرار دیا اور حکومت میں اس کی دخل اندازی کو غلط قرار دیا۔ اس طرح سیکولر جمہوریت کا جنم ہوا۔ اس نظریہ کی تشکیل میں وولٹائر،مونٹیسکو اور روسو جیسے مفکرین کا اہم کردار رہا ہے۔ جسے بعد کے پانچ بڑے مفکرین نے اپنے افکار سے اس تصور کو مستحکم کیا اور کئی اضافے کیے مثلاً جرمن فلسفی ای مینول کانٹ (1742 تا 1804) نے خدا کے وجود کو مشتبہ قرار دیا اور انسانی عقل کو معاملات زندگی میں رہنمائی کے لیے کافی سمجھا۔ یہیں سے لبرلزم،ہیومنزم اور سیکولرزم کی شاخیں پھوٹیں۔ برطانوی نژاد مسیحی دانشور چارلس ڈارون (1809 تا 1882) نے ثابت کیا کہ انسان امیبا کیڑے سے عہد بعہد ترقی کرتا ہوا چمپینزی سے انسان بنا۔ اس لیے اخلاق یا مذہب اور جواب دہی کیسی،حیوانی خواہشات کی غلامی کو عین فطرت ثابت کیا۔ کارل مارکس (1818 تا 1883) جرمن یہودی فلسفی کمیونزم سوشلزم اور میٹریلزم افکار کا بانی ہے۔ اس نے ساری زندگی کی دوڑ دھوپ کا مرکز معدہ کو قرار دیا۔ فریڈرک نطشے (1844 تا 1900) یہ مجذوب فرنگی جرمن یہودی تھا۔ اس کے فلسفہ کا بنیادی نکتہ ’’حصول قوت‘‘ ہے۔ وہ جذبہ رحم کا شدید مخالف، اخلاق کا منکر اور خود کو ’بے اخلاق‘ کہلانا پسند کرتا تھا۔ اس کا یہ مشہور جملہ ہے ’’خدا کی موت‘‘۔ سگمنڈ فرائیڈ (1856 تا 1939) آسٹریا کے اس یہودی مفکر نے حیات انسانی کے ارتقا کا محور جذبہ جنس سے جو لاشعور اور ’ریپریشن‘ میں پنہاں ہوتے ہیں کو قرار دیا۔ ساری انسانی زندگی کی تگ و دو اور ثقافتی امور کی انجام دہی جنسی تسکین میں مضمر بتایا۔
ان پانچ فلسفیوں نے مغربی تہذیب کے تار وپود کو موجودہ فرضی جمہوریت کے تعاون سے اس وقت دنیا کی حکمراں تہذیب بنا دیا ہے جو اندر سے تاریک اور کھوکھلی ہے مگر ظاہر میں آنکھیں چندھیا دیتی ہے۔ ان پانچوں کی کاوش نے جمہوری سیاسی اقتدار کے بل پر مغربی تہذیب کے ان پانچ عناصر ترکیبی کو فروغ دیا ہے: ۔
1۔ الٰہی ہدایات سے استغناء۔
2۔ انسان بنیادی طور پر جانور ہے۔
3۔ معاش کے لیے تگ و دو
4۔ حصول قوت،چھین جھپٹ اور غلبہ و تسلط
5۔ جنسی تلذذ
ان عناصر خمسہ نے جمہوری نظام کی اندرونی کمزوریوں سے انسانیت کو زار و زبوں بنا دیا ہے۔ اس نظام جمہوریت میں انسانوں کی گنتی کی جاتی ہے۔ صلاحیتوں اورمہارتوں کے اعتبار سے انہیں تولا نہیں جاتا؎
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
چنانچہ انتخابات کے موقع پر مالدار امیدوار لاکھوں روپے خرچ کرکے ووٹ خریدتے ہیں یا سرمایہ دار لوگ پس پردہ اپنی مملکت قائم کرتے ہیں۔ اس میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں اقلیت ہمیشہ اکثریت کے رحم وکرم پر ہوتی ہے۔ یہاں عوام کو بے قید آزادی ملتی ہے وہ اخلاقیات کے پابند نہیں ہوتے چنانچہ ان کے منتخب نمائندے چاہیں تو قانون بناکر شراب کو جائز کرلیں۔ جنسی تعلق کی کھلی چھوٹ دے دیں۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرلیں۔
اس وقت ساری دنیا منتظر ہے کہ ایسا سیاسی نظام برسرعمل آئے جہاں فکر و خیال کی آزادی ہو، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہو، قانون کی بالادستی ہو، ہر شخص کو ترقی کے یکساں مواقع ہوں مگر ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت ہو یا ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت ہر جگہ ظلم و جبر، قتل و غارتگری اور انسانی حقوق کی پامالی کا منظر عام ہے۔ ابھی کچھ دنوں قبل سابق وزیر مالیات و وزیر داخلہ حکومت ہند مسٹر پی چدمبرم جو خود بھی اپنے صاحبزادے کے ایک مالی گھپلے میں ملوث ہونے کے الزام میں مہینوں جیل کی سلاخوں میں مقید رہنے پر مجبور ہوئے،انہوں نے اپنے ایک شائع شدہ مضمون میں دنیا کے مختلف ممالک کی نام نہاد جمہوریتوں کا کچا چٹھا پیش کرتے ہوئے موجودہ کورونا وائرس یا کوویڈ19 جو ایٹم سے بھی چھوٹا مگر ایٹم بم سے زیادہ ہلاکت خیز اور عبرتناک ماحول کے حوالے سے کئی نام نہاد جمہوری ملکوں کے حکمرانوں کے ظلم و ستم اور اوچھی حرکتوں کی چشم کشا رپورٹ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’ان حکمرانوں کے اقدامات،حکم وفرمان شرائط تا حیات اقتدار، ربر اسٹامپ پارلیمنٹس، جانبدار عدالتیں،اپنے آپ کو موقع کے مطابق ڈھالنے والی ایجنسیاں، جاسوس اور سب سے زیادہ بے جا استعمال کیا جانے والا آلہ یعنی اپنے سیاسی مخالفین کو بنا کسی الزام کے مہینوں،برسوں تک قید خانوں میں پھینک دینا تمام کتنی کھوکھلی چیزیں ہیں‘‘۔
اس ضمن میں موصوف نے مندرجہ ذیل جمہوری ملکوں کی تفصیل پیش کی ہے: ۔
جنوبی امریکہ کے ایک ملک وینزولا میں تیرہ اپوزیشن قائدین کی پارلیمانی رکنیت چھین لی گئی ہے اور یہ کام صدرنکولاس مدورو کی کٹھ پتلی عدلیہ نے کیا ہے۔ یہ اپوزیشن قائدین جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں یا پھر جیلوں میں قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ افریقہ کا ایک ملک ایتھوپیا کے مسٹر ابی احمد کو 2018ء کے الیکشن میں وزیر اعظم کا عہدہ ملا،اریٹیریا کے ساتھ امن معاہدہ کرکے نوبل امن انعام بھی حاصل کرلیامگر اس ملک میں 2019ء میں انٹرنیٹ بند کردیا گیا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم نے کم از کم 64 ماورائے عدالت قتل کا انکشاف کیا ہے۔ نیز 1400؍ ایسے واقعات کا بھی پتہ چلایا ہے جہاں من مانی کرتے ہوئے لوگوں کو حراست میں لے کر محروس رکھا گیا ہے۔ تنزانیہ کے صدر جان ماگوفولی نے اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ اور صحافیوں کو گرفتار کروایا، میڈیا اداروں کو بند کیا اور ناراض سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے قوانین منظور کروائے۔ یورپ پر نظر ڈالیے تو وہاں عجیب و غریب منظر نظر آتا ہے۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اورہان نے عاملہ،مقننہ اور عدلیہ کو اپنا موافق بنا لیا۔ ان کی حکومت نے سنٹرل یوروپین یونیورسٹی کو بند ہونے پر مجبور کردیا۔ مسٹر اورہان نے پہلا انٹرنیٹ ٹیکس نافذ کیا۔ 30؍مارچ کو انہوں نے ایمرجنسی قانون منظور کروایا جس کے تحت وہ جب تک چاہیں حکمرانی کرسکتے ہیں۔ روس اس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک دستوری ترمیم کے ذریعہ جب تک چاہیں صدر برقرار رہ سکتے ہیں۔ اسی قانون کے خلاف جب لوگ سڑکوں پر آگئے تو ان پر لاٹھی چارج کیا گیا جس میں 2000 سے زاید لوگ زخمی ہوگئے۔ درجنوں کو بری طرح زد و کوب کیا گیا۔ بے شمار مظاہرین پر فوجداری مقدمات دائر کیے گئے۔ سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ پولیس عہدہ داروں نے تشدد کی حد کردی۔ بچوں کو بھی حراست میں لیا گیا۔ جبکہ والدین اور سرپرستوں کو دھمکیاں دیا جانا عام ہوگیا ہے۔ فی الوقت روس میں 200 سیاسی قیدی ہیں۔ یہ وہی روس ہے جس کا معاشرہ زار اور کمیونزم کے ظلم و ستم کے بھٹی میں تپ کے نکلا ہے مگر سیاسی مظالم سے نجات ہنوز ایک خواب و خیال ہے۔
ایشیائی ملکوں کا حال اور بھی زار و زبوں ہے، یہاں بہتوں کے یہاں تو یہ نام نہاد جمہوریت کے علاوہ ہنوز بادشاہت اور شیخڈم کا بول بالا ہے۔ تھائی لینڈ کے وزیر اعظم پرایوت چان اوچاکی نئی حکومت نے 2019ء میں اقتدار سنبھالا۔ سیاسی کارکنوں پر جسمانی حملے کیے گئے۔ حقوق انسانی کی پامالی کو روکنے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے جہد کاروں کو روپوش ہونے پر مجبور کیا گیا۔ ضابطۂ فوجداری کی ایسی دفعات سنائی گئیں جو اظہار خیال کی آزادی کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
کمبو ڈیا میں 2019ء کے انتخابات انتہائی جانبدارانہ انداز میں کروائے گئے جس میں رائے دہندوں کو بامعنی پسند کا حق نہیں دیا گیا۔ اصل اپوزیشن جماعت پر پابندی عائد کردی گئی۔ اپوزیشن قائدین کو جیل میں ڈالا گیا یا پھر جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ آزاد میڈیا اور مہذب سماج کے جہد کاروں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ انہیں بند کردیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکمراں جماعت نے دونوں ایوانوں کی ہر نشست پر کامیابی حاصل کی۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے قبل تک چرچ اور شاہی سیاست کے گٹھ جوڑ سے خلق خدا عذاب مسلسل کا شکار تھی تو موجودہ ’’معلومات زدہ‘‘ علمی دھماکہ کے دور میں سیکولر جمہوریت اور کھرب پتی سرمایہ داروں کی ملی بھگت سے دنیا جہنم زار بنی ہوئی ہے۔ اس لیے عالم نقوی صاحب جیسے سینئر صحافی کو اپنے ایک حالیہ مضمون کا عنوان ان الفاظ میں لکھنا پڑا’’ہندوستان بھی فرعونوں اور قارونوں کے شکنجے میں،کروڑوں غریب خاندانوں کے لیے ملک میں زندگی گزارنا ایک مشکل خواب‘‘ (دعوت ہفتہ وار۔ 2 تا8 فروری20ء۔ ص7)
کیونکہ وطن عزیز کے ایک فیصد امرا،ستر فیصد ہندوستانیوں یعنی قریب ایک ارب نوے کروڑ شہریوں سے چار گنا زیادہ دولت ووسائل پر غاصبانہ قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ ’’آکسفیم‘‘کی ایک تازہ ترین رپورٹ بعنوان ٹائم ٹوکیئر کے مطابق دنیا کے صرف دو ہزار ایک سو ترپن امیروں کے پاس موجود دولت اور جائیدادیں دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی یعنی چار ارب ساٹھ کروڑ لوگوں کے مجموعی وسائل سے ناقابل تصور حد تک زیادہ ہیں۔ سماجی عدم مساوات اور معاشی نابرابری یہ پھیلاؤ وقت کے قارونوں کی مدد سے قائم فرعونی حکومتوں کی ظالمانہ،جاہلانہ اور انسانیت دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے ’’بین الاقوامی محنت تنظیم (آئی ایل او) کی سالانہ رپورٹ (22 جنوری 20ء کے اخبارات میں شائع شدہ) کے مطابق ’’دنیا بھر میں سینتالیس کروڑ سے زیادہ لوگ یا تو پوری طرح سے بے روزگار ہیں جو محض جزوقتی ملازم تھے۔ ان کروڑوں غریبوں کے لیے بہتر زندگی بسر کرنا محض ایک ڈراؤنا خواب بن کے رہ گیا ہے‘‘۔
موجودہ قارونی و فرعونی سیاست نے محض بے روز گاری اور غربت اور بدحالی ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ غلامی،انسانی اسمگلنگ اور عصمت فروشی کو بھی فروغ دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے انکشاف کیا ہے کہ غربت، تنازعات اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث لاکھوں کروڑوں لوگ آج کے جدید دور میں بھی غلامی کا شکار بن رہے ہیں اور جدید دور کی یہ غلامی تیزی سے پھیلتی ہوئی تجارت بن گئی ہے۔ بھاری منافع کے لالچ میں لوگ ادھر دھکیلے جاتے ہیں یاایسی ملازمتوں میں باندھ دیے جاتے ہیں جو اصل میں غلامی ہی ہوتی ہے۔ عورتوں کا جنسی استحصال یا عصمت فروشی،جبری مشقت اور بیگار،بھیک منگوانا اور مجبور لوگوں کو جرائم میں ملوث کرنا، گھریلو غلا می، انسانی اعضا کی خرید و فروخت اور انسانوں کی اسمگلنگ سب سے بڑی مجرمانہ سرگرمیاں ہیں۔ جنہیں اقوام متحدہ نے 2030ء تک دنیا سے جبری مشقت کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ مگر عالمی اداروں نے جو ٹھوس اور قابل اعتماد اعداد و شمارحاصل کیے ہیں ان قباحتوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ مثلاً رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم 40.3 ملین لوگ (یعنی چار کروڑ تیس لاکھ لوگ) جدید زمانے کے غلام بنائے جاچکے ہیں۔ تقریباً 20 ملین (یعنی دو کروڑ) افراد سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ ان لوگوں سے کھیتوں، فیکٹریوں اور مچھلیاں پکڑنے والی کشتیوں پر کام لیا جاتا ہے۔ 15.4 ملین (ایک کروڑ چون لاکھ) عورتوں کی زبردستی شادی کی جاتی ہے جبکہ پچاس لاکھ کا زبردستی جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جدید غلاموں کا ایک چوتھائی حصہ بچوں پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر کا جائزہ لیا جائے تو ہر 185 افراد میں سے ایک ماڈرن غلامی میں مبتلا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا میں جدید غلامی میں ملوث افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں پر دس افراد میں سے ایک کسی نہ کسی کی غلامی کا شکار ہے۔ اس کے بعد آسٹریا کا نمبر آتا ہے جہاں 9.3 فیصد غلامی میں مبتلا ہیں۔ برونڈی میں 4 فیصد، افریقن ری پبلک میں 2.2 فیصد، افغانستان میں بھی 2.2 فیصد لوگ غلامی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں جدید غلامی کے حوالے سے بھارت بھی سرفہرست ہے جہاں 8 فیصد لوگ غلامی میں مبتلا ہیں۔ چین میں 3.86 ملین لوگ، پاکستان میں 3.19 ملین لوگ نئی طرز کی غلامی میں مبتلا ہیں۔ جنوبی کوریا میں 3.19 ملین کی شرح سے،نائجیریا میں 64.2 ملین لوگ۔ سب سے بڑا جرم انسانی اسمگلنگ کا ہے جس کے ذریعہ سالانہ 150 بلین ڈالر کی خطیر رقم کمائی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جدید غلامی کا رواج ہے۔ برطانیہ میں 136000 لوگ امریکہ میں 403000 کی تعداد بنتی ہے۔ حدتو یہ ہے کہ 2019ء کے آغاز سے 47 ملکوں نے انسانی اسمگلنگ کو جرائم کی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا ہے اسی طرح 96 ممالک نے جبری مشقت کو اور 133 ممالک نے جبری شادیوں کو جرائم کی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا ہے۔
ان حقائق کے ساتھ کوویڈ۔ 19 (کرونا وائرس) کے دوران موجودہ غیبی عالمی عذاب نے تمام ہی اہل نظر کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ تمام تر سائنس و ٹکنالوجی اور چاند تاروں پر کمند ڈالنے اور سپر پاور ہونے کے دعوؤں کے باوجود ہم اس اندیکھی عذاب مسلسل کے شکار کیوں اور کیسے ہورہے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ سپر پاور کوئی اور ہے ورنہ اس مادی دنیا کے سپر پاور نے تو گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور بدحواس ہیں۔ ہمارے دیسی فرعون بے سامانوں نے بعض کمزوروں اور مظلوموں کو ڈی ٹینشن کیمپوں میں رکھنے کی پوری تیاری اور قانون سازی کرلی تھی مگر مشیت ایزدی نے ان فرعونوں کو بھی عالمی (گلوبل) جیل میں پچھلے پچاس دنوں سے قید کررکھا ہے۔ اس لیے اب وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ حیات و کائنات کے کارخانے مادی ہی نہیں غیر مادی اور مابعد الطبیعاتی حقائق سے بھی رشتہ رکھتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ پچھلی صدی کی دو عظیم جنگوں اور ایک سرد جنگ کے علاوہ مختلف ازموں کے استحصالی اور خون آشام تلخ تجربوں کے بعد مقامی سے بین الاقوامی یعنی پنچایت راج سے لے کر لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ تک کے IMF,WHO,WTO اور WLO وغیرہ کے ذریعہ جو اصلاحی کوششیں کی گئیں وہ بتدریج اصلاح کے بجائے استحصالی ہتھکنڈوں میں اس طرح تبدیل ہوگئیں کہ پوری دنیا جسے ہماری سائنس و ٹکنالوجی نے گلوبل ویلج بنایا تھا وہ گلوبل جیل میں تبدیل ہوگئی ہے۔
اب لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ تین صدیوں کی مادہ پرستی، دہریت پسندی، کرپشن اور اخلاقی بحران کے سبب جزوی اصلاحی اقدامات سے کسی بڑے ہمہ گیر اور ہمہ جہت انقلاب کی توقع خواب پریشاں سے زیادہ نہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر جمہور ی نظام کے حوالے سے بنیادی نوعیت کے سوالات زیر بحث ہیں۔ عالمی سیاسی تجزیہ نگار دنیا میں موجودہ جمہوری نظام پر سخت تنقید کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام آہستہ آہستہ اپنے داخلی تضادات کے باعث عوامی سطح پر اپنی افادیت کھوتا چلاجارہا ہے۔ یہ نظام کمزور طبقات کی صلاح و فلاح کے دعوؤں کے ساتھ اکثریتی بنیاد پر من مانے قانون سازی کے اختیارات حاصل کرکے جمہوری نظام کے ڈانڈے کو کبھی آمریت تو کبھی فسطائیت سے جوڑ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایک تحقیقی رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دنیا میں صرف 20 ایسے ممالک ہیں جہاں مکمل جمہوریت ہے جبکہ 57 ایسے ممالک ہیں جہاں حکومتی نظام ناقص ہے مگر وہ جمہوریت کے تقریباً قریب ہیں۔ اسی طرح 39 ممالک کو ’’نیم جمہوری‘‘ ممالک میں شمار کیا گیا ہے۔ جہاں نہ انتخابی عمل شفاف ہے نہ جہاں قانون پر ایماندارانہ عمل آوری ہوتی ہے۔ جبکہ دنیا کے 53 ممالک ایسے ہیں جہاں جمہوریت کا کوئی وجود ہی نہیں۔ (بحوالہ ویکی پیڈیا اردو)
اس وقت موجودہ جمہوریت کو خارجی اور داخلی دونوں سطحوں پر بڑے اہم چیلنجز درپیش ہیں۔ جمہوریت سے وابستہ افراد اور ادارے اصولوں کی بالادستی کے بجائے آمرانہ سوچ اور فکر کی حمایت کرتے ہیں۔ اہل دانش اور میڈیا کا ایک بڑا حلقہ زرخرید ہوگیا ہے۔ وہ تضادات اور تنازعات کو ابھارنے اور اسلحہ اور جنگوں کی سیاست کے کاروبار کو شہ دے کر جمہوری ملکوں کو سیکوریٹی طرز کی ریاستوں میں تبدیل کرناچاہتے ہیں۔ چنانچہ پارلیمنٹ بتدریج ایک تقریری فورم بنتا جارہا ہے۔ وزیر اعظم، وزرا اور اس کے ارکان کی پارلیمانی امور سے دلچسپی گھٹتی جارہی ہے۔ موروثی سیاست کا عمل دخل، کمزور احتساب، شفافیت کی بے حد کمی، سیاسی جماعتوں کا داخلی انتخابات سے بے پروائی عام ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ انسانیت کو جس زندگی کی جستجو ہے اس سے وہ ہنوز محروم ہے۔ وہ آخری منزل مقصود جہاں مر کے پہنچنا ہے،کوسوں دور ہے اور حیات انسانی کا اصل مرض اس کے رگ وریشے میں ابھی بھی سرایت کیے ہوئے ہے۔ موجودہ جمہوریت میں اس قدر نقائص ہیں کہ اگر انہیں یکجا کردیا جائے تو آمریت وملوکیت کا نمایاں فرق باقی نہیں رہتا، زیادہ سے زیادہ عنوان اور لیبل کا فرق ہوسکتا ہے۔ گویا جمہوریت وملوکیت ایک حقیقت کے دو عنوان ہیں۔ جس کی تصدیق ایک حالیہ سروے سے بھی ہو جاتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تعمیری ادارے ایک ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اشتراک سے ملکوں کی افسر شاہی کو کرپشن کے ذریعہ اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ کالے دھن والے، ٹیکس چرانے والے اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے والے اس طرح کاروبار میں پیسے کی سرمایہ کاری کرکے مافیا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ زمین پر، سمندر پر، پینے کے پانی پر، اناج منڈیوں پر، کھانے پینے کی مختلف اشیا اور دواخانوں تک ہر جگہ مافیا چھا گیا ہے۔ ایماندار سیاست داں، جج، انتظامی افسر، استاد اور عام شہری گومگو کا شکار فریاد کناں ہیں کہ: ؎
خدایا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
موجودہ بدترین صورت حال نے عالمی پیمانے پر ایک نئے کلی وصالح انقلاب کی طلب اور تڑپ کو مہمیز کیا ہے۔ مگر ہمارے نام نہاد دانشوروں نے بھی لفظ انقلاب کی حقیقت وماہیت سے عجیب وغریب بے خبری کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے بعض الیکشنی ہار جیت کو بھی بعض اوقات انقلاب سے تعبیر کردیا ہے۔ پچھلی کئی صدیوں سے آج تک مغربیت کے زیر اثر سیاسی وسماجی اور فکری ومعاشی سطح پر جو اتھل پتھل رہی اس نے ہر جزوی اصلاح احوال کو نام نہاد انقلاب سے موسوم کردیا۔ اصل میں مغربی فکر ونظر کا بنیادی نقص مادہ پرستی کے نتیجے میں اس کی جزو پرستی ہے۔ لہٰذا پچھلی دو تین صدیوں میں ان ’’شکستہ بتوں‘‘ کے عجائب خانے میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں سرمایہ دارانہ جمہوریت، آمریت، فسطائیت، اشتراکیت اور نازیت نام کی لاشوں کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی موجودگی میں اشتراکیت نے قدرے لمبی عمر پائی اس لیے بالخصوص اشتراکی دانشوروں نے اسے ایک بڑے انقلاب سے تعبیر کیا حالانکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی طرح اشتراکیت بھی مادہ پرستانہ تہذیب ہی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ جس کے خلاف تدریجی اصلاحی اقدامات کے ذریعہ سلوپوائزن (Slowpoison ) دے کر پچھلی صدی کی نویں دہائی میں اس کا خاتمہ کیا گیا۔ اس پر بعض امریکی دانشوروں کی بے بصیرتی نے دعویٰ کردیا کہ اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کے آگے کوئی تاریخ یا انقلاب ممکن ہی نہیں۔
حالانکہ یہ جمہوری نظام سیاست غیر فطری تصور پر قائم ہے کیونکہ محض کثرت تعداد کی بنا پر ایک گروہ انسانی کو دوسرے گروہ پر حکم رانی کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ تمام مفاسد کی جڑ ہے کیونکہ انسانی فطرت اس غلامی کی نفی کرتی ہے۔ ایک صالح انقلاب اور مہذب حکومت وہی ہوسکتی ہے جس کی بنیاد اخلاقی اقدار، مابعد الطبیعاتی تصورات اور مادی ومعاشی خوشحالی کے نظریے پر قائم ہو۔ اسی سے انسانی زندگی کے منتشر اجزا میں ربط پیدا ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام نے آج ساری دنیا میں تین بنیادی چیزوں یعنی، انسان اور خدا، انسان اور فطرت اور انسان اور انسان کے مابین رشتوں کا بحران پیدا کر دیا ہے۔ ان تین رشتوں کے بحران نے مزید تین انسانی رشتوں کے توازن کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ یعنی مرد کا مرد سے، مرد کا عورت سے اور مرد کا اپنی ذات ہے۔ ؎
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
ایک حقیقی صالح انقلاب کے اس کلی یا روحانی تعبیر کو پس پشت ڈال دینے کی وجہ سے انسانی واخلاقی ہی نہیں کائناتی بحران بھی پیدا ہوچکا ہے۔ گلوبل وارمنگ، اوژون کا سوراخ، کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فراوانی، فضائی آلودگی اور صاف پانی کی شدید قلت کے بعد آج کرونا وائرس کی وجہ سے پوری عالم انسانیت کا گلوبل جیل میں تبدیل ہوجانا اور کیا معنی رکھتا ہے؟
مغرب کی سرمایہ دارانہ فکر اور نظام کا بنیادی تصورِ اصلاح مادی جز پرستی کی وجہ سے برسرکار رہا ہے جو ’انقلاب‘ کی ضد ہے۔ جس اصلاح کے ذریعہ مغرب نے ستر سال تک کمیونزم کا مقابلہ کیا۔ جبکہ اسلام کے کلی نقطہ نظر سے انقلاب، فرد سے لے کر پورے معاشرے کو روحانی و مادی ہر اعتبار سے منقلب کردینے کا دوسرا نام ہے۔ شاہنواز فاروقی کے لفظوں میں:
’’اسلامی انقلاب،اسلام کے تصور خدا، تصور انسان، تصور علم اور تصور کائنات کی بنیاد پر فرد، معاشرے اور نظام کی مکمل تبدیلی یا قلب ماہیئت کا دوسرا نام ہے۔ ‘‘
اسلامی انقلاب کی نعمت مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لفظوں میں:
’’ہر زمانے میں انسان کو ہدایت دو ہی ذرائع سے پہنچی ہے،ایک اللہ کا کلام اور دوسرے انبیاء علیہماالسلام کی شخصیتیں جن کو اللہ نے نہ صرف اپنے کلام کی تبلیغ وتعلیم اور تفہیم کا واسطہ بنایا بلکہ اس کے ساتھ عملی قیادت ورہنمائی کے منصب پر بھی مامور کیا تاکہ وہ کلام اللہ کا ٹھیک ٹھیک منشا پورا کرنے کے لیے انسانی افراد اور معاشرے کا تزکیہ کریں اور انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نظام کو سنوار کر اس کی تعمیر صالح کر دکھائیں۔ یہ دونوں چیزیں ہمیشہ سے لازم وملزوم رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب کو نبی سے الگ کردیجیے تو وہ ایک کشتی ہے ناخدا کے بغیر اور نبی کو کتاب سے الگ کردیجئے تو خدا کا راستہ پانے کے بجائے آدمی ناخدا ہی کو خدا بنا بیٹھنے سے کبھی نہیں بچ سکتا۔ یہ دونوں ہی نتیجے پچھلی قومیں دیکھ چکی ہیں۔ ہندوؤں نے اپنے انبیا کی سیرتوں کو گم کیا اور صرف کتابیں لے کر بیٹھ گئے انجام یہ ہوا کہ کتابیں ان کے لیے لفظی گورکھ دھندوں سے بڑھ کر کچھ نہ رہیں۔ حتیٰ کہ آخر کار انہیں بھی گم کر بیٹھے۔ عیسائیوں نے کتاب کو نظر انداز کرکے نبی کا دامن پکڑا اور اس کی شخصیت کے گرد گھومنا شروع کیا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی چیز انہیں نبی اللہ کو ابن اللہ بلکہ عین اللہ بنانے سے باز نہ رکھ سکی۔ (دیباچہ محسن انسانیت)
نعیم صدیقی صاحب نے اس حقیقت کی اپنے مخصوص انداز میں اس طرح وضاحت کی ہے: ۔
انبیا کے ماسوا کوئی عنصر تاریخ میں ایسا نہیں دکھائی دیتا جو انسان کو،پورے کے پورے انسان کو،اجتماعی انسان کو،اندر سے بدل سکا ہو۔ حضور ﷺ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپ کی دعوت نے پورے کے پورے اجتماعی انسان کو اندر سے بدل دیا اور صبغتہ اللہ کا ایک ہی رنگ، مسجد سے لے کر بازار تک، مدرسہ سے عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدان جنگ تک چھا گیا۔ ذہن بدل گئے، خیالات کی رو بدل گئی، نگاہ کا زاویہ بدل گیا، عادات و اطوار بدل گئے، رسوم ورواج بدل گئے، حقوق و فرائض کی تقسیمیں بدل گئیں، خیر وشر کے معیارات اور حلال وحرام کے پیمانے بدل گئے، اخلاقی قدریں بدل گئیں، دستور اور قانون بدل گیا، جنگ وصلح کے اسالیب بدل گئے، معیشت اور ازدواج کے اطوار بدل گئے اور تمدن کے ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ گئی۔ اس پوری کی پوری تبدیلی میں جس کا دائرہ ہمہ گیر تھا،ایک سرے سے دوسرے سرے تک خیر وفلاح کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ کسی گوشے میں شر نہیں، کسی کونے میں فساد نہیں، کسی جانب بگاڑ نہیں،ہر طرف بناؤ ہی بناؤ، تعمیر ہی تعمیر،ارتقا ہی ارتقا۔ درحقیقت محسن انسانیت کے ہاتھوں انسانی زندگی کو نشاۃ ثانیہ حاصل ہوئی اور حضورﷺ نے ایک نظام حق کی صبح درخشاں سے مطلع تہذیب کو روشن کرکے بین الاقوامی دور تاریخ کا افتتاح فرمایا۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی ‘‘۔ (محسن انسانیت)
رواں قہر الٰہی کرونا وائرس (کوویڈ۔ 19) نے پوری دنیا کو جس طرح ہلامارا ہے۔ اس نے دنیا بھر کے سنجیدہ اہل دانش کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ جزوی واصلاحی اقدامات سے عالمگیر بداخلاقی کمزور اور پسماندہ ملکوں کے قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لیے وہاں کی لاکھوں لاکھ آبادی کے قتل وغارت گری کا تسلسل اور فضا کی بڑھتی ہوئی بدترین آلودگی مستقبل قریب کی نسل انسانی کو بھی غیر فطری جنگ سے کوئی قوت بچا نہیں سکتی۔
قیامت تک انسانی صلاح وفلاح کے لیے چونکہ اسلام قرآن اور صاحب قرآن کو رب کائنات نے مامور ومبعوث فرمایا ہے اس لیے اسلام کے کلی انقلاب کو اختیار کرنے کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔ معروف صحافی شاہنواز فاروقی نے اپنے ایک مقالہ میں اسلام کے ہمہ جہتی انقلاب پر مفصل روشنی ڈالی ہے اس لیے اس کے بعض اہم نکات کی ذیل میں تلخیص مناسب معلوم ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں اسلامی انقلاب انسانی معاشرے کو تین طریقے سے تبدیل اور منقلب کرتا ہے۔ (1) حکومت کی تبدیلی (2) نظام کی تبدیلی اور (3) انفرادی واجتماعی تناظر کی تبدیلی۔
حکومت کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے جو اسلام کی جامعیت اور کاملیت پر ایمان رکھتے ہوں اور جو انفرادی،اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی میں قول وعمل کی سطح پر قرآن وسنت کو جاری ونافذ دیکھنا چاہتے ہوں لیکن ان معنوں میں بھی انقلاب کے جزو ہی کا اطلاق ہوگا۔ لہذا اسلام میں نظام کی تبدیلی کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اتنی سی بات تو شاید سبھی جانتے ہیں کہ اسلام کوئی سیاسی سلوگن نہیں بلکہ ایک طرز حیات ہے۔ اس لیے نظام کی تبدیلی کے بغیر اسلام کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں طرز حیات بنانا ممکن ہی نہیں۔ اللہ کی حاکمیت کے ہوتے عوام کی حکومت متضاد بات ہے۔ یہاں معاشیات اور مالیات کے میدانوں میں انہیں غیر سودی بنیادیں فراہم کرکے استحصال کے بجائے استحسان کے مقام تک پہنچایا جاتا ہے۔ اسلام کا نظام تعلیم معرفت الٰہی کے علاوہ صرف روزگار کے دائرے سے بہت آگے تک جاتا ہے۔ اس کے دفاع کا تصور،تصور جہاد سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس کا ابلاغی نظام اسلامی اخلاقیات اور تہذیب کا پابند ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں اسلامی حمیت اور ملت وامت کے مفادات کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ یوں اسلام انسان کے انفرادی واجتماعی تناظر کو یکسر تبدیل کردینا چاہتا ہے۔ تناظر کی تبدیلی کا مفہوم یہ کہ مسلمانوں کے تمام علوم وفنون، اسلام کے تصور خدا، تصور انسان، تصور کائنات وغیرہ اس کے تصور علم پر استوار ہوجائیں اور مسلمان اس بنیاد پر نیا علم تخلیق کرنے لگ جائیں۔ تناظر کی اس تبدیلی کے بعد کائناتی مظاہر، مادی مظاہر نہیں رہتے۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں (آیات) بن جاتے ہیں۔ انسان مادی وجود نہیں رہتا،روح،نفس اور جسم کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ سیاسی،سماجی یا معاشی حیوان نہیں کہلاتا،اشرف المخلوقات بن جاتا ہے۔
تناظر کی یہ تبدیلی اسلامی انقلاب کا نقطہ عروج ہے۔ اس تبدیلی پر انقلاب اسلامی کا دائرہ مکمل ہوجاتا ہے۔
اسلامی انقلاب کے ان مقاصد کو قرآن وسنت،سیرت طیبہؐ اور صحابہ کرامؓ کی نظیروں کی روشنی میں بیان کرنا ہو تو قرآن مجید،سیر ت طیبہؐ اور صحابہ کرامؓ کے واقعات پر نظر ٹھہر جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ (الحج۔ 41)
اسی طرح سورۂ ص کی آیت نمبر 26 اور النسأ کی آیت نمبر 76 وغیرہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسلامی حکومت وریاست اور اسلامی انقلاب کے چھ مقاصد یا آئیڈیلس نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں:
1۔ نظام صلوٰۃ کا قیام2۔ نظام زکوٰۃ کی تشکیل 3۔ نیکی کے حکم ونفاذ کا بندوبست 4۔ برائی کی روک تھام کا اہتمام 5۔ نظام عدل کا انتظام اور 6۔ تصورِ جہاد پر عمل۔
ان مقاصد میں علم کی اہمیت ومرکزیت سے متعلق قرآن وحدیث کے احکامات کو شامل کرلیا جائے تو وہ پوری کائنات وجود میں آجاتی ہے جو اسلامی انقلاب تخلیق کرنا چاہتا ہے۔ جس کا دائمی نمونہ رسول اللہﷺ کا برپا کردہ انقلاب ہے۔ یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے برپا کیے ہوئے انقلاب کی خصوصیات کیا ہیں۔ سیرت پاک کے مطالعہ سے اس کی چار خصوصیات نمایاں ہیں: ۔
1۔ برتر اخلاقیات یا اخلاقی فضیلت
2۔ برتر طاقت یا زمانی فضیلت
3۔ برتر استقامت یا انجذابی فضیلت
4۔ علمی فضیلت
حضورؐ کی اخلاقی فضیلت کا ثبوت یہ ہے کہ بدترین دشمن بھی آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اخلاقی فضیلت کیا کردار ادا کرتی ہے؟ یہ لوگوں کے قلب پر اثر انداز ہوتی ہے، گداز پیدا کرتی ہے،اس میں آپ کی شخصیت،تحریک اور پیغام کے لیے گنجائش پیدا کرتی ہے۔
حضورؐ کے عرب معاشرے میں علمی فضیلت کا یہ حال تھا کہ آپ کے حریفوں کے پاس نہ آپ جیسا پیغام تھا، نہ زبان، نہ بیان، نہ تاثیر!چنانچہ قرآن کی سب سے چھوٹی آیت کے ذریعہ کافروں اور مشرکوں کے پورے علم کلام کو چیلنج کردیا گیا، جس کے جواب سے وہ عاجز تھے۔ علم کی دسترس یہ ہے کہ وہ انسانوں کے قلب،ذہن اور ذوق کو بھی متاثر کرتا ہے۔ دنیا میں بعض لوگ نہ اخلاقیات نہ علم سے متاثر ہوتے ہیں وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں اور اس سے اثرانداز ہوتے ہیں۔
رسول اللہﷺ کے پاس طاقت بھی تھی، صرف طاقت نہیں طاقت اور جنگ کا برتر تصور، کافر ومشرک اپنی انفرادی وگروہی اناؤں کے لیے لڑتے تھے۔ لیکن اسلام کا تصور جہاد اللہ کی بڑائی ثابت کرنے کے لیے۔ یہاں اپنے عقائد کے لیے جنگ میں جان دینا بھی معمولی بات ہے۔ صحابہؓ نے جانثاری کی جو مثالیں قائم کی ہیں۔ کفار ومشرکین اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔
حضورؐ کے انقلاب کا ایک وصف استقامت بھی ہے۔ انہوں نے کفار ومشرکین کے ظلم وجبر کی انتہاؤں کو برداشت کیا مگر پایہ استقامت میں ذرا لرزش نہیں آئی۔ استقامت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاد وقتال کے جانی ومالی نقصان کو اپنا سب سے بڑا فائدہ بنالیا۔ استقامت،انسان ہی نہیں، خدا کو بھی بہت پسند ہے۔ اس کے بعد اللہ کی نصرت رہتی دنیا تک ایک نمونہ ہے۔ لیکن اسلامی انقلاب کی بحث یہیں ختم نہیں ہوتی، اس بحث کا ایک عصری پہلو یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے ذہن میں کمیونسٹ انقلاب اور اسلامی انقلاب کا فرق واضح نہیں ہے۔ اہم امتیازات درج ذیل ہیں: ۔
ان امتیازات کی وجہ سے کمیونسٹ انقلاب کا تصور خون آشامی سے وابستہ ہے،یہ پروپیگنڈا نہیں ایک تاریخی حقیقت ہے۔ روس کے کمیونسٹ انقلاب میں دو کروڑ 82 لاکھ اور چین میں 4 کروڑ 30 لاکھ آدمی مارے گئے۔ جبکہ انقلاب محمدیؐ کے دوران 23 برسوں میں 83 جنگیں لڑی گئیں جن میں 56 سرایا اور 27 غزوات ہیں۔ ان جنگوں میں 259 مسلمان شہید ہوئے جبکہ 759 کفار مارے گئے۔ ان جنگوں میں صرف ایک مسلمان قید ہوا اور کفار 6564 قید ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کمیونسٹ انقلاب میں اس قدر خون آشامی کیوں؟ تصور خدا خارج ہو جانے کے سبب انسانی تعلق کی نوعیت منفی ہو جانے کی وجہ سے طاقت کو مرکزیت حاصل ہوگئی۔ جزو،کل ہوگیا، جو غیر فطری ہے،مگر حد سے بڑھی ہوئی مرکزیت کو طاقت کی ضرورت تھی اس پر مستزاد نفرت انگیز طبقاتی کشمکش نے خون آشامی کو بے حد بڑھا دیا۔ چنانچہ طاقت کو کمیونسٹ انقلاب میں مرکز یت حاصل ہوگئی۔ اس کے سامنے ماضی کا کوئی اپنا نمونہ نہیں تھا۔ اسے اپنا نمونہ خود بنانا تھا جو روس اور چین میں بنایا گیا۔ جہاں طاقت پر انحصار بہت بڑھ گیا۔ لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسلامی انقلاب اور کمیونسٹ انقلاب میں لفظ ’’انقلاب‘‘ کے سوا کچھ مشترک نہیں۔ (شاہنواز فاروقی)
اس تفصیلی مطالعہ اور متحقق اعداد وشمار کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب دنیا اگر ایک نئے انقلاب کے دہانے پر ہے تو وہ انقلاب،اسلامی انقلاب ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج اس اسلامی انقلاب کی راہ میں فکری وعملی دونوں اعتبار سے سب سے بڑی رکاوٹ خود اسلام کے نام لیواؤں کا ایک طبقہ شامل ہے جن میں شیوخ عرب سے لے کر بعض مسلم فوجی افسران،مسلم بیروکریٹس اور تفریق بین المسلمین کرنے والے کم علم، نام نہاد’علما‘ کا ایک گروہ، بعض مسلم جماعتیں اور تحریکیں جو اپنے قول وعمل کے تضاد کے سبب ’’عوامی‘‘ نہیں ’’خواصی‘‘ ہوکر رہ گئی ہیں۔ ان تمام موانع ومشکلات کے باوجود پوری امت مسلمہ کے جزو اعظم کا قلب آج بھی اسلام کے لیے ہر طرح کی قربانیوں کے لیے ہمہ دم دھڑکتا رہتا ہے،انہی کے دم سے آج سارے عالم میں اسلام کے بالمقابل کوئی دوسرا معقول انقلابی ماڈل پنپ نہیں رہا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ اسلامی ماڈل کی واقعی تفہیم وتشہیر اور تبلیغ کرکے جابجا اس کے عملی نمونے قائم کیے جائیں۔ ایران،تیونس،مصر،شام،لیبیا وغیرہ میں عوام و خواص جس طرح جابر حکومتوں کے خلاف انقلاب بردوش بن کر اٹھے انہوں نے زمین میں زلزلہ ڈال دیا اور حکومتوں کے تختے الٹ دیے لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں کی سازش اور خلیجی ملکوں کی کوششوں سے اسے ناکام کردیا گیا۔
اس تناظر میں علامہ اقبال کی یہ پیشین گوئی قابل غور ہے؎
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہوجائے گی
دیکھ لوگے سطوت رفتار دریا کا مآل
موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہوجائے گی
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہوجائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے


 

اب دنیا اگر ایک نئے انقلاب کے دہانے پر ہے تو وہ انقلاب،اسلامی انقلاب ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج اس اسلامی انقلاب کی راہ میں فکری وعملی دونوں اعتبار سے سب سے بڑی رکاوٹ خود اسلام کے نام لیواؤں کا ایک طبقہ شامل ہے جن میں شیوخ عرب سے لے کر بعض مسلم فوجی افسران،مسلم بیروکریٹس اور تفریق بین المسلمین کرنے والے کم علم، نام نہاد’علما‘ کا ایک گروہ، بعض مسلم جماعتیں اور تحریکیں جو اپنے قول وعمل کے تضاد کے سبب ’’عوامی‘‘ نہیں ’’خواصی‘‘ ہوکر رہ گئی ہیں۔ ان تمام موانع ومشکلات کے باوجود پوری امت مسلمہ کے جزو اعظم کا قلب آج بھی اسلام کے لیے ہر طرح کی قربانیوں کے لیے ہمہ دم دھڑکتا رہتا ہے،انہی کے دم سے آج سارے عالم میں اسلام کے بالمقابل کوئی دوسرا معقول انقلابی ماڈل پنپ نہیں رہا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ اسلامی ماڈل کی واقعی تفہیم وتشہیر اور تبلیغ کرکے جابجا اس کے عملی نمونے قائم کیے جائیں