دلی تشدد کے معاشی اثرات

مسلمانوں کی املاک کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ کروڑوں روپے کے نوصان کی تلافی کیسے ہوگی

(دعوت نیوز ڈیسک)
۳۵ سال کے عمران کا درد ان کی آنکھوں سے صاف جھلک رہا ہے۔ یمونا وہار میں رہنے والے عمران کی دواؤں کی ہول سیل دکان گوکل پوری مارکیٹ میں تھی، جس کا فسادیوں نے پہلے شٹر کاٹا، پھر اسے جلا کر خاک کر دیا۔ یہ وہی گوکل پوری علاقہ ہے جہاں ایک مسجد کو بھی کافی زیادہ نقصان پہونچایا گیا اور اس کے میناروں پر بھگوا جھنڈا لہرا دیا گیا تھا۔ اپنی آنکھوں سے آنسو پوچھتے ہوئے عمران بتاتے ہیں، میرے والد نے یہ دکان 32 سال پہلے کھولی تھی۔ اس دکان میں قریب ڈیڑھ کروڑ روپے کی دوائیں تھیں، جو اب سب جل کر خاک ہو چکی ہیں۔ کچھ بھی نہیں بچا ہے۔وہ مزید کہتے ہیں، جس طرح دودھ سے مکھی نکالا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح یہاں کے مسلمانوں کے مکانوں و دکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ سب کو برباد کر دیا۔ کسی کی دکان لوٹ لی تو کسی کی دکان کو پوری طرح سے آگ کے حوالے کردیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ فسادیوں میں یہاں کے مقامی لوگ بھی شامل تھے۔ ہم پولیس کو فون کرتے رہے لیکن پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہ پوچھنے پر کہ پڑوسی دکانداروں سے آپ کے تعلقات کیسے ہیں؟ تو اس پر عمران کا کہنا ہے کہ سب سے کافی بہتر تعلقات ہیں، لیکن اڑوس پڑوس کے کسی بھی دکاندار نے نہ تو فسادیوں کو روکا اور نہ اب وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ سب انجان بن کر کے ہماری بربادی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کاروبار دھندے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، لیکن یہاں آکر صاف پتہ چلتا ہے کہ کاروبار دھندے کا بھی مذہب ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے یہاں صرف مسلمانوں کے دکانات ہی جلے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ یہاں کے دیگر مذاہب کے لوگوں سے سوال کرنے پر وہ خاموش رہتے ہیں، لیکن ان کے چہروں پر خوشی ومسرت کے اثرات بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔
چاند باغ میں سڑک کے کنارے قریب 45 دکانوں اور مکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان میں سے کئی آتشزدگی کے شکار ہوئے ہیں، وہیں کچھ دکان و مکان لوٹ لیے گئے ہیں۔ مورس کلاتھنگ نام کے شو روم کے مالک اکرام الدین نے بتایا کہ اس علاقے میں ان کی تین دکانیں ہیں۔ فساد کے دوران ان کی تینوں دکانوں کو جن میں تقریباً 90 لاکھ روپے کا مال تھا، پوری طرح لوٹ لیا گیا۔ ان کا سب کچھ برباد ہوچکا ہے۔ پھر سے کاروبار کھڑا کرنے میں 20 سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
عمران و اکرام کی طرح نہ جانے کتنے دکاندار اب پوری طرح تباہ وبرباد ہو چکے ہیں۔ وہیں دہائیوں سے پنپ رہی کئی طرح کی چھوٹی موٹی گھریلو انڈسٹریاں بھی اب خطرے میں ہیں۔ سینیئر صحافی ابھینؤ اپادھیائے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس فساد کا سب سے زیادہ اثر گاندھی نگر کے ریڈی میڈ مارکیٹ پر پڑا ہے، کیونکہ اس مارکیٹ میں بکنے والا سامان انہی علاقوں میں بنتا تھا جہاں تشدد ہوا۔ اب یہ اثر کتنے دنوں تک رہے گا، یہ سب کچھ یہاں رہنے والے مزدوروں پر منحصر ہے، اور فی الحال مزدور طبقے میں کافی خوف ہے اور اس خوف کی وجہ سے وہ یہاں سے چلا گیا ہے۔ اشوک وہار گاندھی نگر ہول سیل ریڈی میڈ گارمنٹ ایسوسی ایشن کے صدر کے کے بلی بتاتے ہیں کہ اس مارکیٹ پر اس فساد کا دوہرا مار پڑا ہے۔ ایک تو یہ کہ گزشتہ کئی دنوں سے پروڈکشن ہی نہیں ہوا، دوسرا یہ کہ جو مال ہے وہ فروخت بھی نہیں ہو پا رہا ہے۔ یہاں تک کہ آرڈر کے مال کو بھی ہم نہیں بھیج پا رہے ہیں۔ کیونکہ جس علاقے میں فساد ہوا ہے زیادہ تر اسی علاقے میں ہماری مارکیٹ میں کام کرنے والے لوگ رہتے تھے، جو فی الحال ڈر کی وجہ سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ اب وہ مزدور اپنے گاوں سے واپس کب آئیں گے کسی کو نہیں معلوم۔ ایسے میں ہمارا گرما کا پورا سیزن اس فساد کی بھینٹ چڑھ گیا۔ خاص طور پر کبیر نگر میں ریڈی میڈ کپڑوں کی فیکٹریاں تھیں، وہاں ہماری فیکٹریوں کو کافی نقصان ہوا ہے۔
گاندھی نگر میں تقریباً 14-12 ریڈی میڈ دکانیں ہیں، سب کا کام متاثر ہوا ہے اور اس ریڈی میڈ کپڑوں کے علاوہ بھی دوسری انڈسٹریاں ہیں جو کافی متاثر ہوئی ہیں۔
بتا دیں کہ شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں کئی طرح کے پروڈکشنس ہوتے ہیں۔ ان کاموں کا سیزن بھی طے ہوتا ہے۔ موسم سرما میں جعفر آباد میں جیکٹس بنتے ہیں، وہیں گرمیوں میں پورے دہلی و آس پاس کے صوبوں میں زیادہ تر ائیر کولرس یہیں سے تیار ہوکر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ریڈی میڈ کپڑے بھی خوب تیار ہوتے ہیں خاص طور پر سستے جینس پینٹ اور بچوں کے اسکول ڈریس یہیں تیار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ میٹل سیٹ، کھلونے، ٹیڈی بیئر، ہولی کے لیے پچکاری وغیرہ بھی یہیں بنتے ہیں۔ کولر میں استعمال ہونے والی گھاس کی بھی فیکٹریاں ہیں۔ اسکریپ یعنی کباڑ اور بیکری کا کاروبار بھی خوب چلتا ہے۔ اس فساد نے ان تمام کاروباروں کو تباہ کر دیا ہے۔ بیشتر کارخانے و فیکٹریاں فساد کی آگ میں جھلس چکی ہیں۔ دہلی چیمبر آف کامرس کے مطابق شمال مشرقی دہلی کے اس علاقے میں اس تشدد کی وجہ سے 25000 کروڑ روپیوں سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن مقامی لوگوں کے مطابق یہ نقصان اس سے زیادہ ہے۔ اور سب سے زیادہ نقصان آپسی بھروسے کا ہوا ہے، جو کسی بھی کاروبار کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔ معلوم نہیں اس بھروسے یا اعتماد کو دوبارہ قائم ہونے میں کتنے سال لگیں گے۔
مصطفیٰ آباد عیدگاہ میں راحت کیمپ کے ایک کونے میں 55 سالہ عبدالجبار خاموشی سے کھڑے ہیں۔ ان کی آنکھیں کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا ہے کہ ان کے علاقے کے کئی لوگ اسی کیمپ میں ہیں۔
عبد الجبار کا گھر شیو وہار میں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں تمام پڑوسیوں سے میرے رشتے کافی اچھے تھے۔ ہم ہر شادی تہوار میں ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے۔ لیکن پتہ نہیں اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ سب ایک دوسرے کے جان کے دشمن بن گئے۔ ہم کسی طرح اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلے۔ ابھی تک واپس جانے کی ہمت نہیں کر پائے ہیں۔
عبد الجبار بتاتے ہیں کہ ان کا بیلٹ بنانے کا کارخانہ تھا۔ ان کے ساتھ تین خاندان اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ 5 مزدور بھی تھے۔ اس کے باوجود بیشتر کام ٹھیکے پر کرواتے تھے۔ لیکن اب آگے اس کام کا کیا ہوگا، انہیں کچھ پتہ نہیں۔ پھر وہ کچھ سوچ کر بولتے ہیں، فساد اب نیتاؤں کا کاروبار بن گیا ہے۔ لیکن ان کے اس کاروبار نے شمال مشرقی دہلی کے تمام کاروبار ٹھپ کردیے ہیں۔
شیو وہار میں مسجد کے پاس بیلٹ، پرس اور مختلف گاڑیوں کے سیٹ کور بنانے کے متعدد فیکٹریاں تھیں۔ عبد الجبار کے مطابق زیادہ تر فیکٹریاں فسادیوں نے آگ کے حوالے کر دیں۔
شیو وہار کے عبد الواحد بیکری دکانوں کے سپلائر تھے۔ روز کا 10-12 ہزار روپیے کا کاروبار تھا لیکن اب ان کا یہ کام مکمل طور پر بند ہے۔ آگے کب تک بند رہے گا، انہیں کچھ پتہ نہیں۔ واحد کے مطابق شیو وہار میں بیکری انڈسٹری نے اپنی جڑیں کافی مضبوط کر لی تھیں۔ دہلی کے کئی علاقوں میں یہاں سے بیکری آئٹم سپلائی ہوتے تھے، لیکن اب پھر سے وہ مقام حاصل کرنے میں نہ جانے کتنے سال لگیں گے، کیونکہ بیشتر بیکری کارخانوں کو پوری طرح سے تہس نہس کر دیا گیا ہے۔ بے شمار لوگوں کا زندگی بھر کا سرمایہ لٹ چکا اور وہ پوری طرح سے کنگال ہو چکے ہیں کل کے ہنستے مسکراتے چہرے آج ویران ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں ان نقصانات کی تلافی کون کرے گا۔ کیا حکومت کرے گی یا فسادیوں سے کرائے گی؟
مصطفیٰ آباد کے بابو نگر میں رہنے والے محمد علیم الدین اپنے کارخانوں کے سلائی مشینیں واپس لے کر لوٹ رہے ہیں۔ ان کا کارخانہ قریب کے ہی چمن پارک کے پاس تھا اور اس کارخانے میں میں وہ بچوں کے اسکول ڈریس بناتے تھے۔ لیکن ابھی فی الحال اپنا کارخانہ خالی کرکے اپنا سامان اپنے گھر میں رکھ رہے ہیں۔ وجہ پوچھنے پر کہتے ہیں، اب بچا ہی کیا ہے۔ ویسے بھی معاشی بدحالی کی وجہ سے بازار پہلے ہی خراب چل رہا تھا اور اب یہ سب کچھ۔ اور غلط کام کرنے والوں کو اس سے کیا مطلب کہ ملک میں خوش حالی ہے یا معاشی بدحالی۔ پھر اپنی ڈبڈبائی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں، اب کون لیبر یہاں رہنا پسند کرے گا۔ سارے لیبر اور کاریگر واپس جا رہے ہیں۔
علیم الدین کے مطابق یہاں سب ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ ریڈی میڈ کا خام مال نہرو وہار اور گاندھی نگر سے آتا ہے اور یہاں کے مختلف مکانوں میں کپڑے تیار کیے جاتے ہیں۔ مصطفیٰ آباد اور اس کے آس پاس کم سے کم 500 گھروں میں ریڈی میڈ کپڑوں کی سلائی کا کام ہوتا ہے۔
جعفر آباد کے چاند بتاتے ہیں کہ ان کے کئی طرح کے کام ہیں وہ سیزن کے حساب سے کام کرتے ہیں۔ سردیوں میں لڑکیوں کے لیے جیکٹ بناتے ہیں تو وہیں گرمیوں میں کولر کا کام کرتے ہیں۔ لیکن اس فساد نے جعفر آباد کے سارے کاروبار کو چوپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ دہلی سے باہر کے لوگوں کو یہی معلوم ہے کہ فساد یہیں سے شروع ہوا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جعفر آباد میں کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ فسادی باہر سے آئے ہم نے تو فساد کی آگ کو مزید بھڑکنے نہیں دیا چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں ہمارے تمام ہندو کاریگر مکمل طور پر محفوظ ہیں۔مصطفیٰ آباد میں رہنے والے محمد کا کہنا ہے کہ میرے سارے جاننے والے لوگ اسکریپ یعنی کباڑ کے کام میں ہیں۔ یہاں سے زیادہ تر کباڑ ہریانہ کے بہادر گڑھ کی طرف جاتا تھا۔ لیکن جب سے یہ سب کچھ ہوا ہے، کام مکمل طور پر رک گیا ہے۔ آگے ہمارے کام کا کیا حشر ہوگا، ہمیں خود پتہ نہیں۔ ہمارے بیشتر مزدور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ بیشتر آٹوز اور پک اپ وینیں جلا دی گئی ہیں۔کراول نگر کے اشوک شرما کا پینٹ، الیکٹرک، گھر میں استعمال کیے جانے والے سامان، سینیٹری اور ہارڈ ویئر کا کاروبار تھا۔ ان کی دکان اور گودام دونوں اس فساد کا شکار ہوگئے۔ انہوں نے 20 سال پہلے یہ کاروبار شروع کیا تھا اور اس دوران اس کا کاروبار بڑھتا گیا۔ ویسے اس علاقے میں اس طرح کی کئی دکانیں ہیں اور ایک کسی ہندو کی ہے تو دوسری ایک مسلمان کی۔ 1984 اور 1992-93 کے دوران بھی اس علاقے میں کچھ نہیں ہوا، لیکن اس بار شرپسندوں نے اس علاقے کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔
مصطفیٰ آباد کے زبیر احمد کا کارخانہ سیلم پور میں ہے۔ ان کے کارخانے میں میٹل سیٹ تیار کیا جاتا ہے۔ ان میٹل سیٹوں کا استعمال انورٹر، اسٹیبلائزر اور کولر میں ہوتا ہے۔ سیلم پور علاقے میں اس کا ایک بڑا کام ہے۔
زبیر کہتے ہیں، کوئی بھی کاروبار ایک دوسرے کے ٹرسٹ اور اعتماد پرچلتا ہے، لیکن اس فساد نے ہمارے تمام اعتماد کو ختم کر گیا۔ مارکیٹ میں ہمارے 6-7 لاکھ روپے پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن اس ماحول میں پیسے کون دے گا؟ ان کا مزید کہنا ہے کہ پورے 9 دن بعد انہوں نے اپنی دکان کھولی، لیکن ایک بھی کام نہیں ہوا۔ کراول نگر میں میرا ایک آٹو ڈرائیور پچھلے آرڈر کا سامان لے گیا، لیکن اس نے ٹوپی لگا رکھی تھی، تو ایک عورت نے اسے پیٹ دیا، ایسے میں وہ آگے جانے کے بجائے واپس لوٹ آیا۔ وہیں جب اپنے ایک غیر مسلم دوست کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ ادھر مت آنا، کیونکہ یہاں تمام لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں سے سامان نہ خریدیں۔ اب آگے خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ جب مزدور یا کاریگر چلےجائیں اور گراہک یہاں سے خریدنا بند کردیں تو ہمارے کاروبار کا کیا ہوگا؟
****