دلی تشدد کا چہرہ، محمد زبیر کرشماتی طور پرمحفوظ’’میرابھروسہ صرف اللہ پر ہے‘‘

(دعوت نیوز ڈیسک) بچوں کے لیے حلوہ اور پراٹھا لینے کے لیے پیر کی شام محمد زبیر چاند باغ میں اپنے گھر سے نکلے لیکن جب وہ حلوہ پراٹھا خرید کر گھر واپس ہو رہے تھے تب غنڈوں کے ایک ہجوم نے جو سلاخوں اور لاٹھیوں سے لیس تھا انہیں روکا اور بے رحمی سے مار پیٹ کرنے لگا۔ انہوں نے ہجوم سے التجا کی لیکن ان کی ایک نہیں سنی گئی اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ زبیر پر وحشیانہ حملہ کی تصاویر رائٹر کے فوٹو گرافر نے حاصل کیں جو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے شیئر کی گئیں۔
اس کے بعد زیبر نے جب آنکھ کھولی تو انہوں نے اپنے آپ کو جی ٹی بی ہاسپٹل میں پایا۔ انہیں حملہ کے بارے میں زیادہ کچھ یاد نہیں لیکن جب وہ اپنی تصویر دیکھتے ہیں تو دردناک حملہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہجوم نے مجھے اس وقت تک مارا جب تک میں بے ہوش نہیں ہو گیا۔
مجھے زیادہ کچھ یاد نہیں لیکن مجھے امید ہے کہ میرے بچے محفوظ ہوں گے۔ زبیر نے بتایا کہ میں اپنی تصویر دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ انہوں نے ان حالات کے لیے کپل مشرا کو ذمہ دار قرار دیا۔
عینی شاہدین کے مطابق بے ہوش ہو جانے تک زبیر کو لاٹھیوں اور سلاخوں سے پیٹا گیا۔ زبیر کے سر، بازووں، کندھوں اور پیروں پر شدید زخم آئے ہیں۔ اس کے بعد انہیں جی ٹی بی ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا اور اب وہ اندرپوری میں اپنے رشتے داروں کے پاس ہیں۔
زبیر کو اپنے اہل خانہ کی فکر لاحق تھی انہوں نے دو بیٹیوں کو جن کی عمریں 5 اور 2 سال ہیں اور ایک بیٹا جس کی عمر چار سال ہے، یو پی کے اپنے آبائی مقام منتقل پر کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میری بیوی اور بچے اب ان سب فسادیوں سے بہت دور ہیں۔ میں ایک عام آدمی ہوں۔ میں نماز کے لیے گھر سے نکلا تھا اور اپنے بچوں کے لیے مٹھائی لے کر گھر واپس ہو رہا تھا۔ میں نے سوچاکہ اس سے وہ خوش ہوں گے۔
اب میں یہ نہیں جانتا کہ میں انہیں کب دیکھ سکوں گا۔ زبیر نے نویں کلاس تک تعلیم حاصل ہے اور وہ ایک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور ماہانہ تقریباً 15 ہزار روپے کماتا ہے۔
دی وائر کی رپورٹر عارفہ خانم شروانی نے دواخانہ سے ڈسچارج ہونے کے بعد محمد زبیر کا انٹرویو لیا جس میں انہوں نے سوال کیا کہ اس دردناک سانحے سے گزرنے کے بعد کیا وہ خوفزدہ ہیں؟ اور ان کی آگے کی زندگی کیسی ہوگی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ جس وقت مجھ پر حملہ ہو رہا تھا تو میرے دل میں ذرا برابر بھی ڈر نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔ زندگی پہلے جیسی گزر رہی تھی ان شاء اللہ آگے بھی ویسے ہی گزرے گی بلکہ اس سے اچھی گزرے گی۔ وہ کچھ فسادی تھے اور جو کچھ انہیں کرنا تھا وہ کر گزرے۔
عارفہ نے ایک اور سوال کیا کہ اس ظلم کے لیے ان کو کس سے شکایت ہے کیا اب بھی ان کا بھروسہ حکمرانوں پر قائم ہے؟ اس پر محمد زبیر نے کہا ’’میرا بھروسہ صرف اللہ پر ہے‘‘۔ وہ جو چاہے گا وہی ہوگا۔ اگر اللہ نہیں چاہتا تو میں یہاں اس حالت میں آپ سے بات کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

’’میں نے ماں کھودی ہے‘‘
دودھ لینے گیا تھااور اتنی ہی دیر میں شرپسندوں نے گھر جلا ڈالا
(دعوت نیوز ڈیسک) جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے دلی میں تشدد کے دردناک واقعات سے پردہ اٹھ رہا ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ بھجن پورہ کے علاقہ میں پیش آیا۔ اس واقعہ میں 85 سالہ خاتون اکبری بیگم جھلس کر فوت ہوگئیں۔ ان کے فرزند سعید سلیمانی نے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے پوری کہانی سنائی۔ اپنی بات کہتے ہوئے درمیان میں وہ متعدد بار جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہجوم نے میرے گھر کو جس وقت آگ لگائی میری ماںباور میرے چار بچے تیسری منزل پر تھے۔ گیارہ بجے کے قریب بچوں نے مجھ سے کہا کہ گھر میں دودھ نہیں ہے تو میں دودھ لانے کے لیے باہر گیا۔ جب میں واپس ہو رہا تھا تو بچوں نے مجھے فون پر بتایا کہ 150 سے 200 غنڈوں نے گھر کو گھیر لیا ہے اور توڑ پھوڑ کے بعد پورے گھر کو آگ لگادی۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ہندو تھے یا مسلمان۔ بچوں نے گھر کو اندر سے مقفل کر دیا تھا۔ جس وقت گھر جل رہا تھا میں مدد کے لیے چلاتا رہا۔ بچے بھی اندر سے چیخ رہے تھے کہ پاپا آجاؤ ہمیں بچالو۔ جذبات سے مغلوب سلیمانی نے بتایا کہ وہ صرف باہر سے یہ سب دیکھ رہے تھے لوگ انہیں اندر جانے سے روک رہے تھے میں کچھ نہیں کرسکا۔ انہوں نے بتایا کہ میری ماں جھلس جانے سے زخمی ہوگئی تھیں اور دم گھٹنے کے باعث جانبر نہ ہوسکیں۔ جبکہ بچے کسی طرح بچ گئے۔ اس واقعہ کے 10 گھنٹوں بعد ہی میری والدہ کی لاش کو نکالا جا سکا۔ سلیمانی نے کہا کہ میری ماں نے مدد کے لیے آواز دی ہوگی لیکن کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں پہنچ سکا۔ میری ہر ایک سے اپیل ہے اسے ہندو اور مسلمان کا مسئلہ نہ بنائیں۔ میں کئی ہندو ملازمین کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ یہاں ہر وقت امن رہتا ہے۔ میں نے اپنی ماں کھوئی ہے۔ میں گھر اور ورکشاپ سے بھی محروم ہوگیا ہوں۔ این ڈی وی کی ٹیم جب پہنچی تو اس وقت فائر فائٹرس آگ بجھانے میں مصروف تھے اور دھواں اٹھ رہا ہے جس میں پہلی منزل پر واقع ورک شاپ مکمل تباہ ہو چکا تھا۔