دلّی پولس اشتعال انگیز تقریر کا الزام ثابت کرے:ڈاکٹر قاسم رسول الیاس

کپل مشرا جیسے لوگ آزاد اور بے قصوروں پر شکنجہ : ڈبلیو پی آئی کا سخت ردعمل

 

نئی دلّی (دعوت نیوز دلّی بیورو)اسدالدین اویسی، سلمان خورشید، ہرش مندر، یوگیندر یادو، کویتا کرشنن جیسے کئی اہم ناموں کے بعد اب دلّی پولیس کی کرائم برانچ نے دلّی تشدد سے متعلق چارج شیٹ میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کا نام بھی شامل کیا ہے۔ 1500 صفحے کی ایک چارج شیٹ میں دلّی پولیس نے ان پر ایک گواہ کے ذریعہ چاند باغ میں منظم کردہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے میں اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگایا ہے۔اس سلسلے میں ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے دلّی پولیس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ’’ ایک چارج شیٹ میں میرا بھی نام ہے جس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ میں نے چاند باغ میں اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔ میں دلّی پولیس کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ مجھ پر لگائے گئے الزامات ثابت کریے۔‘‘انہوں نے مزید کہا ’’میں نے دلّی سمیت ملک بھر میں سی اے اے مخالف ریلیوں کے دوران تقاریر کیں اور ان کی تمام ریکارڈنگ دستیاب ہیں۔ دلّی پولیس کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ میں نے کب اور کس جگہ پر اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔‘‘ چارج شیٹ کے سلسلے میں کسی جانکاری یا نوٹس کے بارے میں سوال پر ڈاکٹر الیاس نے کہا’دلّی پولیس کی جانب سے مجھے کوئی اطلاع دی گئی ہےنہ مجھے کسی جانب سےکوئی نوٹس ملی ہے۔ یہی نہیں، پہلی ایف آئی آر و چارج شیٹ میں میرے بیٹے عمرخالد پر بھی ایسا ہی الزام دلّی پولیس کی طرف سے لگایا تھا لیکن اسے بھی پولیس کی طرف سے کوئی اطلاع یا نوٹس نہیں دی گئی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا سی اے اے و این آر سی کے خلاف مظاہرے میں حصہ لینے والے تمام افراد یا اس احتجاج سے وابستہ سبھی افراد کو دلّی پولیس پھنسا رہی ہےتاکہ تشدد کی منصوبہ بندی کرنے والے حقیقی مجرموں کو بچایا جاسکے اور یہ سب کچھ حکومت ہند کے وزرات داخلہ کے اشارے پر ہورہا ہے۔‘ڈاکٹر قاسم رسول الیاس ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر ہونے کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبر اور ماہنامہ افکار ملی کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کا نام چارج شیٹ میں آنے کے بعد ان کی حمایت میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ مختلف جماعتوں کے لوگ سامنے آرہے ہیں۔ پارٹی سے جڑے لوگوں کا صاف طور پر کہنا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو اس کے لئے وہ سڑکوں پر آنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نےایک بیان میں کہا ہے کہ یہ اظہار رائے کے بنیادی حق کو دبانے اور ملک کی جمہوریت کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس ایک محب وطن اور ذمہ دار شہری ہیں، مختلف مذہبی طبقات سے اُن کے روابط ہیں، انہیں پورے ملک میں عزت واعتبار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، عجیب بات ہے کہ اُن پر فساد کو بھڑکانے کا الزام لگایا جا رہا ہے اور جو لوگ کھلے عام لوگوں کو فساد اور قتل وغارت گری پر اُکسا رہے ہیں، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ مولانا رحمانی نے مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی مقاصد کے تحت جو بھی گرفتاریاں کی گئی ہیں، ان کی رہائی عمل میں لائی جائے۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے قومی صدر ایم کے فیضی نے دلّی پولیس کے اس قدم کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سی اے اے، این آر سی، این پی آر مخالف احتجاج کے بعد سے بغیر کسی رکاوٹ کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔اس دوران ڈبلیو پی آئی کے قومی جنرل سکریٹری جناب عبدالجبار صدیقی نے پارٹی کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول کے نام کی چارج شیٹ میں شمولیت کی مذمت کی اور چاند باغ میں اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے دلی پولیس کے کام پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ دلی فسادات کا سبب بنے اور جنہوں نے فساد کو بھڑکایا ہے انہیں تو گرفتار نہیں کیا لیکن ڈاکٹر الیاس جیسے بے قصور جہد کاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جنہوں نے متنازعہ سی اے اے قانون کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اپنے دستوری حق کا استعمال کیا تھا۔ انہوں نے پولیس اور بی جے پی حکومت پر گٹھ جوڑ اور جانبداری کا الزام عائد کیا ہے جس کے نتیجہ میں وہ دارالحکومت میں اپنا فرض اور قانون اور نظم و ضبط کی برقراری کے بنیادی مقصد میں ناکام ہوگئے ہیں۔ تحقیقات کا دانستہ طور رخ موڑا گیا ہے تاکہ شمال مشرقی دلی میں پھوٹ پڑنے والے تشدد کے بیانیہ کو تبدیل کیا جاسکے۔ جناب صدیقی نے کہا کہ پارٹی ان تمام لوگوں کو بے نقاب کرے گی اور قانونی چارہ جوئی کرے گی جو دانستہ طور پر ڈاکٹر الیاس کی شبیہ اور نیک نامی کو متاثر کررہے ہیں۔ انہوں نے اسے انصاف کا المیہ قرار دیا اور کہا کہ ڈاکٹر الیاس اور دیگر بے قصور جہد کاروں کو گمراہ کن طریقے سے پھنسایا جارہا ہے تاکہ مخالفت کی آوازوں کو خاموش کیا جاسکے۔ جناب صدیقی نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر الیاس اور تمام بے قصور افراد کے ناموں کو چارج شیٹ سے حذف کیا جائے اور تمام الزامات سے دستبرداری اختیار کی جائے۔

’’یہ اظہار رائے کے بنیادی حق کو دبانے اور ملک کی جمہوریت کو تباہ کرنے کی کوشش ہے‘‘ مولاما خالد سیفاللہ رحمانی