دلتوں پرظلم بھارتی تاریخ کا سیاہ باب

ہندومت کی مذہبی کتابوںسے چھوت چھات کے تصور کوتقویت

جرجیس کریمی ، علی گڑھ

قانونی اعتبار سے ہندوستان کے دستور میں ذات پات کی تفریق پر پابندی ہے مگر ہندو سماج کبھی بھی اس لعنت سے پاک نہیں رہا
ہندوستان میں جو طبقہ ہزاروں سال سے ظلم واستحصال کاشکاررہا ہے اور جس کی مظلومیت و مقہوریت پر مذہب کی بھی مہر تصدیق ثبت رہی ہے وہ دلت طبقہ ہے جس کوہندو میتھالوجی کے مطابق شودر کہا جاتاہے۔ برہمن نے جب انسان کی تخلیق کا ارادہ کیاتو اس کا یہ ارادہ اس کے جسم کے چار حصوں سے ظاہر ہوا۔ منہ سے برہمن کی تخلیق کی، باہ سے چھتری کی، اور جانگھ سے ویش کی، اور پا ئوں سے شودر کی تخلیق کی گئی۔ ہندو دھرم کی کتابیں تسلیم کرتی ہیں کہ برہما کے جو جس عضو سے پیدا ہوا ہے سماج ومعاشرہ میں اس کا وہی مقام اور مرتبہ ہے۔ وید کے اندر اس کی مکمل صراحت موجود ہے کہ پرجاپتی یعنی بادشاہ نے انسانی معاشرہ کے روپ میں جس پرش کی تخلیق کی ہے اسکی توجیہ کتنی طرح سے ہوئی ہے اور پروش کا منہ کیا ہے؟ اس کے دونوں بازو کون ہیں؟ کون اس کی دونوں جانگھیں ہیں؟ اور اس کی دونوں پائوں کون ہیں؟ ان سوالوں کے جواب رگ وید کے منتروں میںملتے ہیں۔ اس پرش کا منھ برہمن ہیں۔ بازو کشتری یا چھتری ہیں،جانگھیں ویش اور پائوں شودر ہیں۔(رگ وید، منڈل، ۱۰، سوکت، ۹۰، منتر ۱۱، ۱۲، بحوالہ سنسکرتک بھارت ، بھگوت شرن اپادھیائے، ص ۳۶)
یجروید ادھیائے ۳۱، منتردس۱۰، ۱۱ اور اتھروید، کھنڈ کا ۱۹، ۶، ۷، میں بھی پرش سوکت ہے۔ اس میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔
مہابھارت کے شانتی پرو میںلکھا ہے ’’اے بھرت کے خاندان میں عظمت و حشمت والے یودھشٹر پھر مہابھاگ کرشن نے منھ سے سو ۱۰۰ اعلیٰ برہمنوں کو دونوں بانہوں سے سو چھتریوں کو، دونوں جانگھوں سے سو ویشوں کو اور دونوں پائوں سے ۱۰۰ شودروں کو پیدا کیا۔‘‘
ورن ویوستھا بندرج ویدک دور (۱۵۰۰ تا ۵۰۰ قبل مسیح ) میں پھلی پھولی، یہی دور قدیم ہے جس کے بارے میں ادبی ثبوت دستیاب ہیں، سب سے پہلے لوگ وید کے پرش سوکت میں براہمن، کشتریہ، ویشیہ اورشودر وغیرہ چار ورنوں کے پیدا ہونے کے طلسماتی داستان کا بیان ہے۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ ذات پات کے نظام کا ورن معیار ہندوستانی تاریخ کے ویدک دور میں بتدریج ترقی پذیر ہوا، اور ابتدائی براہمن مصنّفین نے اس وقت موجودہ ذات پات کے نظام کے ظاہری خاکہ کی شکل میں قبول کرلیا۔
منوسمرتی کے مطابق ساری مخلوقات کی حفاظت کے لیے برہما نے منھ، بانھ، جانگھ اور پیروں سے بتدریج برہمن، کشتری(چھتری)، ویش اور شودر کو پیدا کیا۔ وایو پران اور وشنو پران سے بھی ایسی ہی اطلاع ملتی ہے لیکن وہاں کشتری (چھتری)کی پیدائش بانھ سے بلکہ چھاتی سے تسلیم کی گئی ہے۔)آدھونک بھارت میں سماجک پریورتن، ایم این شری نواس،ص۴۰)-
آخری دورکے ویدکوں نے ورن وید ویوستھا کا تصور عجیب اور بے مثل طریقہ سے کیا اور کہا کہ عظیم پرش کے منھ سے برہمن، سینہ سے کشتری اور پیٹ سے ویش اور پیروں سے شودرکی پیدائش ہوئی۔ورن ویوستھا کی تخلیق وید کے ذریعہ ہوئی اور وید ایشور کی کتاب ہے۔ اس لیے ورن ویوستھا کو پرجاپتی وشو کرما نے وجود بخشا۔ پرجاپتی ہر ایک شخص کی قسمت اور عمل کو جاننا ہے۔ اسی نے ورن ویوستھا کی تقسیم کو صفات و اعمال کے مطابق نافذ کیا۔ چنانچہ وید پڑھنا پڑھانا، یگیہ کرنا، یگیہ کرانا، دان دینا، دان لینا، یہ چھ کرم برہمن کے لیے بنائے ہیں۔
رعایاکی حفاظت کرنا، دان دینا، یگیہ کرنا، وید پڑھنا، دنیا کی نعمتوں میں دل نہ لگانا، یہ پانچ کرم کشتری کے لیے مقرر کیے۔
چار پایوں کی حفاظت کرنا، دان دینا، یگیہ کرنا، ویدپڑھنا، تجارت کرنا، سود بیاج لینا، کھیتی کرنا۔ یہ سات کرم ویشیہ کے لیے مقرر کیے۔شودر کے لیے ایک ہی کرم پربھو( خدا)نے ٹھہرایا یعنی صدق دل سے ان تینوں ورنوں کی خدمت کرنا۔
ذات پات کے نظام کا ارتقاء ورن ویوستھا سے متعلق رہا ہے۔ ہندوستانی تا ریخ کو سمجھنے کے لیے ویدوں، اُپ نشدوں، مہاکاویوں، (رامائن و مہابھارت) اور دھرم شاستروں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ورن و یوستھا کا ذکر ان سبھی شاستروں میں ملتا ہے۔
ہندوستان کے اصلی باشندے کون ہیں، کس کی نسل سے ہیں؟ یہاں کب آئے؟ اس سلسلہ میں تاریخی حوالہ ناپید ہے۔ البتہ یہ معلوم ہے کہ ہندوستان کے جنوبی اور مشرقی خطوں میں قدیم ترین قوم آباد تھی، جو خلیج بنگال میں گرنے والی ندیوں جیسے نرمدا وغیرہ سے سیراب ہوتی تھی، اس قوم کا رنگ کالا، قدپستہ، سر چھوٹا، ناک چپٹی اور بال گھنگھروالے تھے۔ یہ قوم پتھر کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کے بعد آسٹریلیائی نسل کے لوگ یہاں آئے اور انہوں نے قدیم باشندوں کو غلام بنالیا۔ پھر لوہے کا دور شروع ہوا۔ اس دور میں دراوڑ قوم دھات کی تلاش میں ہندوستان وارد ہوئی۔ ان کا تعلق شامی قبائل سے تھا۔ (۲۵۰۰ ق م) دوہزار پانچ سو قبل مسیح میں آریہ قوم (برہمن) ایشیائے کوچک سے نکل کر ایران وافغانستان ہوتے ہوئے کشمیرکے راستہ سے ہندوستان پر حملہ آور ہوئی، جس کے نتیجہ میں دراوڑ اور آریہ دونوں قوموں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی، اور آریوں نے مقامی باشندوں کو دغل و فریب کے ذریعہ غلام بنالیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ یہی غلام قوم دلت قوم ہے جس کو پہلے داسن اور پھر شودر کا خطاب عطا کیا گیا اورجس نے اس کو غلام بنایا اس کو برہمن قوم کہا جاتا ہے۔
دراوڑوں اور آریوں کے درمیان چار سو سال تک جنگ ہوتی رہی، اس جنگ میں آریوں کو فتح ملی، جن دراڑوں نے آریوں کی حمایت کی تھی اور ان کی طرف سے دراوڑوں سے جنگ لڑی تھی ان کو انہوں نے کشتری یعنی اپنا محافظ قرار دیا۔ حکومت کی باگ دوڑ انھیں کے ہاتھ میں رہنے دیا اور جن لوگوں نے اس جنگ میں غیر جانب داری کا ثبوت دیا ان کو ویش کا نام دیا گیا۔اوران پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ زراعت اور مویش پالن کے ذریعہ حکومت کی مالی ضرورت پوری کریں، لیکن جن لوگوں نے صدیوں تک آریوں کے دانت کھٹے کیے تھے، ان میں سے کچھ کو تو میدان جنگ میں قتل کردیا گیا اورباقی لوگوں کو شودر (غلام) بنالیا گیا۔ ان شودروں میں بھی دو درجے کیے جو لوگ کچھ عرصہ جنگ کرنے کے بعد غیر جانب دار ہوگئے تھے۔ان کو سچھوت (چھونے کے لائق) قرار دے کر امن کے ساتھ رہنے دیا۔ اس ذیل میں کولی، مالی، دھنیا، جولاہا، کمہار، ڈوم وغیرہ آتے ہیں، لیکن جن لوگوں نے اس جنگ میں بہادری کے ساتھ حصہ لیا اور اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی خاطر انتہائی جفا کشی اور شجاعت کا نمونہ پیش کیا ان کو اچھوت (شودر) قرار دے کر ان کو اتنی بری طرح سے کچلا کہ وہ ہزاروں سال تک سر نہ اٹھاسکیں۔ انہیں زندہ رہنے کے لیے مردہ جانوروں کا گوشت کھانا پڑا اور آریوں نے انھیں انسانی غلاظت اٹھانے، سور اور گدھا چرانے کا کام سونپا جس کو آج تک وہ کررہے ہیں۔ جاٹ، بھنگی، چمار، کھٹک، پشاد، چنڈال وغیرہ اسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان بہادر لوگوں میں سے کچھ لوگوں نے یہ فیصلہ کا کہ وہ آریوں کے خلاف جنگ تو ہار گئے ہیں مگر وہ غلامی قبول نہیں کریںگے، لہٰذا انہوں نے جنگل کی راہ لی اور وہیں فروکش ہوگئے۔
ناگار، بھیل، سنتھال، جراپور اور دوسری پست کردہ جنگلی قبائلی ذاتیں اسی سے تعلق رکھتے ہیں جو آج بھی آریوں (برہمنوں) سے نفرت کرتے ہیں۔
آریوں نے غلاموں (شودروں) پر ظلم و ستم کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے اور ظلم و ستم کی تعلیمات اپنی مذہبی کتابوںمیں، اس طرح شامل کردیں کہ اب یہ بیچارے شودر ان مظالم کو خدائی مشیت قرار دیتے ہیں۔ پچھلی سطور میں ذات اور ورن آشرم کے ضمن میں ان کی مذہبی کتابوں کا حوالہ دیا گیا۔ذیل میں چند حوالے اور ملاحظہ فرمائیں:
’’ہندو مذہب کی مقدس کتاب یجروید میں تحریر ہے: ’’جن لوگوں سے ہم نفرت کرتے ہیں یا جو ہمیں دکھ دیتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم ان کو اس طرح تڑپا تڑپا کر ماریں جس طرح بلی چوہے کو مارتی ہے۔
رگ وید میں تحریر ہے’’داس (یعنی غلام) بڑے دولت مند ہیں اور سونے چاندی کے مالک ہیں، داسوں کے شہروں کی فصلیں اتنی بڑی ہیں کہ ان کے اندر داخل ہونے کے سو سو دروازے ہیں۔ داسوں کے سینکڑوں مستحکم قلعے ہیں۔ ان کو ہمارے بہادر راجہ ’’یورکن‘‘ نے فتح کیا اور ان کے پرخچے اڑادیے۔
ویدوں میں اگنی دیوتا سے دعاء مانگی جاتیہے کہ :
’’ان باشندوں کو ہلاک کردے اور ان پر اپنا قہر نازل فرما۔ ان کو جلا کر خاکستر کردے اور ان کے دلوں کو آگ پر رکھ کر بھون ڈال۔ سوم رس پینے والے اگنی دیوتا تو ان کی اولاد کو بھی ہلاک کردے۔ ان کو زہر اور آگ کے دو طرفہ عذاب میں ڈال دے۔ ان کی بستیوں کو نیست و نابود کردے۔‘‘
ان کے دوسرے مقدس صحیفہ ’’رگ وید‘‘ میں ہے:
’’تو نے مجھے ایک سو گدھوں، ایک سو اون والی بھیڑوں اور ایک سو داسوں کی بھینٹ دی۔‘‘
رگ وید میں دوسری جگہ ہے،
’’اے اندر اگنی! تم نے ایک نظر سے ہی اسروں (شودروں) کے نوے شہروں کو ایک ہی ساتھ جلا ڈالا۔‘‘
رگ وید کے ایک دوسرے منتر میں ہے:
اس راکشش (عفریت) کو مارنے والے اور دشمن (شودر) کے نگروں (تیروں) کو توڑنے والے اندر نے سبھی سیاہ فام داسی (شودر) عورتوں کو مار ڈالا۔‘‘
صرف رگ وید کے چوتھے، چھٹے اور ساتویں منڈلوں (ابواب) میں ہلاک کیے جانے والے داستوں (شودروں) کی مجموعی تعداد کل ۰۰۰،۶۶،۲ لکھا ہے۔
’’جب برہمنوں نے شودروں کو لوٹا تو ایک (ایک) برہمن کو پچاس (پچاس) کنواری چھوکریاں عطا کی گئیں۔‘‘ ایتریے براہمن ¼,rjs; czkgE.k½(۸:۲۹) میں آیا ہے کہ راجہ نے تخت نشینی کرانے والے پروہتوں کو دس ہزار داسیاں اور دس ہزار پاتھی دیے۔
آریوں نے دراوڑی یعنی ہندوستانی عورتوں کی عصمت دری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ انہوں نے بدکاری کو حصولِ ثواب کا ذریعہ قرار دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ آریہ ان عورتوں کی عصمت و عزت تارتار کریں۔ ہندو دھرم کے ایک برہمن مصلح، مجدد، ہندو مذہب کے احیاء کے علمبردار اور آریہ سماج کے بانی پنڈت سواجی دیانند سرسوتی اپنی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘میں ہندوئوں کے ایک فرقے ’’وام مارگ‘‘ جس کو براہمنوں نے قائم کیا تھا، کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ:
’’حیض والی عورت کے ساتھ صحبت کرنا ایسا ہے جیسا کہ پشکر میں نہانا۔ چانڈال کی عورت سے صحبت کرنا گویا کاشی کی زیارت ہے۔ چماری عورت کے ساتھ بد فعلی کرنا گویا پریاگ میں نہانا ہے۔ دھوبن کے ساتھ صحبت کرنا گویا متھرا کی زیارت کرنا ہے اور فاحشہ عورت کے ساتھ بد فعلی کرنا گویا اجودھیا کی زیارت کرکے آنا ہے۔
ہندو دھرم کے مطابق شودر کو قتل کرنا کتا، مینڈک، کتا، الو، نیولا، گوہ کو قتل کرنے کے برابر ہے۔
ہندو دھرم کی تمام مذہبی کتابوں میں طبقاتی تقسیم پائی جاتی ہیں۔گیتا ہندو مذہب کی مقدس کتاب مانی جاتی ہے۔ عدالتوں میں اس پر ہاتھ رکھ کرسچ بولنے کی قسم کھائی جاتی ہے۔ اس کتاب میں درج ہے:
چاروں ورنوں کی ویوستھا صفات اور عمل کے فرق سے میں نے بنائی ہے، اس کا کرنے والا ہوتے ہوئے بھی مجھ لازوال کو نہ کرنے والا جان۔
(گیتا، باب ۴، اشلوک ۱۳)
شری بھگوت گیتا میں ویشیہ اور شودر دونوں کو ہی پاپ پونی کہا گیا ہے یعنی گناہ گر مخلوق جس کی ابتدا پاپ سے ہوئی ہے۔ (گیتا، باب ۱۹، شلوک ۱۹) گیتا کی طرح رامائن میں بھی شودروں کی حالت خستہ ہے۔ منو مہاراج کی بیوی نے سارے انسانوں براہمن، کشتریہ، ویشیہ، شودروں کو پیدا کیا۔ رگ وید کے پرش سوکت کی طرح رامائن میں بھی براہمنی منہ، کشتریہ بانہہ، وشیہ پیٹ اور شودر کی پیدائش پیروں سے بتائی گئی ہے۔
(۳-۱۴-۲۸،۳۰)
اپ نشدوں اور براہمنی گرنتھوں میں شودر کے بارے میں انتہائی ذلت آمیز بات کہی گئی ہے۔
۱-تیتریہ براہمن کہتا ہے کہ براہمن کی تخلیق دیوتائوں سے اور شودر کی تخلیق سروں (گندے ور ناپاک راکشوں) سے ہوئی ہے۔ (۱-۲-۶-۷)
ہندو دھرم اور سماج کے معاشرتی اصول و احکام کا مجموعہ منو اسمرتیوں میں دھرم اور ارتھ کام اور موکش ان چاروں پررشارتھوں کا بیان ہے۔ اس وقت عمر…… زائد اسمرتیاں دست یاب ہیں۔ منو کا دھر شاشتر ہندو دھرم کے متعلق اہم اور سب سے زادہ مستند گرنتھ مانا جاتا ہے۔ اس میں شودروں کے بارے میں درج ہے کہ اس کا فریضہ … کی خدمت کرنا ہے اور ان کے ذریعے اسباب زندگی پانا بتایا گیا ہے (۱۰-۶۰-۶۱، ۱۰-۱۲۴-۱۲۵)
ہندو کی ورن ویوستھا کے تحت چھوٹی ذات والے مذہبی کتابوں کی تلاوت، ان کا مطالعہ نہیں کرسکتے، شودروں کو وید پڑھنے کا حق نہیں تھا۔ اس بارے میں اسمرتی کے مصنف نے ویدک اقوال نقل کیے ہیں۔ ایک … کا قول ہے خالق نے گایتری سے برہمنوں کو بتایا، ترشک سے کشیرچہ کو ، جگتی سے ویشیہ کو لیکن اس نے شودر کو کسی بھی چیز سے نہیں بنایا، اس لیے شودر سنسکار کے لیے نامناسب ہے۔ بھاگوت پران (۱ص۴-۲۵)میں آیا ہے کہ تینوں ویدوں کو عورتیں شودر اور برے براہمن نہیں پڑھ سکتے اس لیے ویاس نے ان پر رحم کھا کر بھارت کی کہانی لکھی ہے۔ شودر کملا (ص۱۳-۱۴) میں کئی حوالے موجود ہے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شودر اسمرتیوں اور پرانوں کو خود نہیں پڑھ سکتے تھے خود منو (۲؍۱۶) نے منوسمرتی کو صرف … سے سننے کو کہتا ہے۔ شنکر آچاریہ نے لکھا ہے کہ شودر کو برہم (۱-۳-۳۸) ودّیا کا حق نہیں دیا ہے۔ شودر، پات اگنسیاں نہیں چلا سکتے ہیں اور نہ ویدک یگیہ کرسکتے ہیں۔ شودر ویدک استعمال نہیں کرسکتے۔ (ویشیہ، دلت مسئلہ ……)
ہندو مت کی اکثر کتابوں میں ذات پات کی تقسیم کے بے شمار حوالے موجود ہیں۔ یہ چند حوالے صرف متن مضمون کی تفہیم کے لیے دیے گئے ہیں۔
ہندو مت میں ذات پات، برہمنی نظام دنیا بھر میں سماجی سطح پر طبقاتی تقسیم کی سب سے قدیم صورت ہے۔ پانچ یا تین ہزار سال سے یہ تقسیم چلی آرہی ہے۔ ورن کی تقسیم چار طبقات میں ہے مگر اصلاً ہندو دھرم میں تین ہزار سے زائد تقسیمات موجود ہیں جن کی بنیاد مختلف پیشوں پر ہے۔ جن کے درمیان تمام سماجی معاملات مثلاً شادی بیاہ اپنی ذات ہی میں ہوسکتے ہیں۔ صدیوں سے ذات پات کا تصور ہندو دھرم کی سماجی زندگی پر غالب رہا ہے۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔5

 

***

 ہندو مت میں ذات پات، برہمنی نظام دنیا بھر میں سماجی سطح پر طبقاتی تقسیم کی سب سے قدیم صورت ہے۔ پانچ یا تین ہزار سال سے یہ تقسیم چلی آرہی ہے۔ ورن کی تقسیم چار طبقات میں ہے مگر اصلاً ہندو دھرم میں تین ہزار سے زائد تقسیمات موجود ہیں جن کی بنیاد مختلف پیشوں پر ہے۔ جن کے درمیان تمام سماجی معاملات مثلاً شادی بیاہ اپنی ذات ہی میں ہوسکتے ہیں۔ صدیوں سے ذات پات کا تصور ہندو دھرم کی سماجی زندگی پر غالب رہا ہے۔ دیہی آبادی کی ترتیب خا ص طور پر ذات پات کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اونچی اور نچلی ذاتوں کے لوگ بالکل علیحدہ دائروں میں زندگیاں بسر کرتے ہیں


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  15 تا 21 مئی  2022