دفتر شاہی بھی ہوئی سوشل میڈیا کی رسیا!

آئی اے ایس۔ آئی پی ایس عہدیداروں میں عوام سے جڑنے کا رجحان بڑھ رہا ہے

سوشل میڈیا پر نہ صرف وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک کے تمام وزرائے اعلیٰ افعاّل رہتے ہیں بلکہ انتظامیہ کے عہدیدار بھی زبردست طریقے سے اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ نوکر شاہی کے سوشیل میڈیا پر ایکٹیو ہونے سے کئی طرح کے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ ملک ودنیا کے بدلتے حالات میں افسر بھی لگاتار خود کو بدل رہے ہیں۔ حالاں کہ میکس ویبر نے بیوروکریسی (افسرشاہی) کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیوروکریٹس (افسر) کی شخصیت پیچھے رہتی ہے اور اس کا کام آگے رہتا ہے۔ لیکن اب شخصیت پیچھے نہیں رہ سکتی کیوں کہ سوشیل میڈیا نے پرسنل اور پروفیشنل چیزوں کو تقریباً ایک مقام پر کھڑا کر دیا ہے۔ نوکر شاہوں کو شخصیت کے تمام پہلو سوشیل میڈیا پر اجاگر ہونے سے ایک طریقے سے عوام جڑ بھی رہی ہے اور دوسرے طریقے سے نوکری کے سیاسی ہونے کا بھی ثبوت مل رہا ہے۔ جیسے وہ انسٹاگرام پر کسی با اثر افراد کی طرح کام کر رہے ہیں تو کسی ٹویئٹر پر ٹرول یا بے کار کی باتیں پھیلانے والے کی طرح ٹوئٹ کر رہے ہیں۔
”میم شیئر“ کرنا یعنی خود کے بارے میں پوسٹ کرنا افسرشاہوں کا کام ہے یا آئی ٹی سیل کا؟
(میم یونانی لفظ می مے ما کا مخفف ہے جس کے معنی نقل کرنا ہے۔ سوشیل میڈیا میں خیالات اور روایات کو شیئر کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے) کچھ دن پہلے ہریانہ کیڈر کے آئی پی ایس عہدیدار پنکج نین نے تحفظات کو لے کر ایک میم شیئر کیا تھا۔ اس ٹویٹ کو 43 ہزار سے زیادہ لوگوں نے پسند کیا اور 13 ہزار سے زیادہ لوگوں نے ریٹوئٹ کیا۔ اس ٹویٹ پر کچھ اس طرح کے تبصرے آئے۔ کیا آپ کوئی ٹرول ہیں؟ حالانکہ پنکج کی زیادہ تر پوسٹ معلوماتی ہوتی ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے دوران ان کے ایک اور پوسٹ پر بھی تنقید ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی۔
ایک دوسرے نوجوان عہدیدار پراون مہاراج اکثر حزب مخالف پارٹیوں سے متعلق معاملے کو سمجھاتے اور برسر اقتدار پارٹی سے وابستہ لوگوں کو ری ٹیویٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ حزب مخالف لیڈروں کو بھی جواب دیتے ہیں کہ کیسی سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ عہدیداروں کے پوسٹ پر آئے تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بیورکریٹس کو ٹرول آرمی کے عہدیدار کی طرح دیکھتے ہیں۔
ملک کے باباؤں کے سوشیل میڈیا پر روابط کے تعلق سے ایک اعلیٰ افسر کہتے ہیں، عہدیداروں کو ہی وہ لائن کھینچنی پڑے گی جہاں وہ ٹرول آرمی کو ایک فوجی کی طرح نظر نہ آئے۔ ایسے واسطے کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا پڑے گا۔
سوشیل میڈیا پر اپنے خیالات رکھنے کے سوال پر ایک دوسرے عہدیدار بتاتے ہیں، یس بینک کے معاملے پر میں نے ایک ٹویٹ کیا تھا لیکن تھوڑی دیر بعد اسے ڈلیٹ کردیا۔ میں سوچنے لگا کی کہیں اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ بیوروکریٹس عوام اور دستور کے تئیں ذمہ دار ہیں۔ ہم ٹوئٹر جیسے رابطے کو تفریح کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔
چھتیس گڑھ کے بلاسپور ضلع کے آئی جی دپانشو کابرا کہتے ہیں، سوشیل میڈیا کے ذریعے آپ لائن میں کھڑے آخری شخص سے بھی جڑ سکتے ہیں۔ ٹوئٹر جیسا طاقتور ذریعہ معلومات حاصل کرنے اور دوسروں کو فراہم کرنے میں کتنا موثر ثابت ہوسکتا ہے، دپانشو اپنی خود کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں، کئی ضلعوں میں لوگوں نے ٹوئٹر آئی ڈی بنائی تاکہ وہ ہم تک میسیج آسانی سے پہنچا سکیں۔

میکس ویبر نے بیوروکریسی (افسرشاہی) کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیوروکریٹس (افسر) کی شخصیت پیچھے رہتی ہے اور اس کا کام آگے رہتا ہے۔ لیکن اب شخصیت پیچھے نہیں رہ سکتی کیوں کہ سوشیل میڈیا نے پرسنل اور پروفیشنل چیزوں کو تقریباً ایک مقام پر کھڑا کر دیا ہے۔

دیپانشو اپنے ٹوئٹر پر اکثر فیلڈ ورک، گھر میں پوجا پاٹھ اور ضروری نوٹیفکیشن کی تصویریں شیئر کرتے ہیں۔ دپانشو کے ہی بیاچ کے دوسرے آئی پی ایس عہدیدار اربترا پچھلے سال ہی ٹوئٹر پر ایکٹیو ہوئے تھے۔ ان کے ٹویٹ اکثر وائرل ہوتے ہیں۔ وہ سال 2019 کے اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کی ٹویٹر پر انٹلیکچویل بحث ہوتی ہے اور معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن پچھلے دنوں ارون نے ایک ٹویٹ کیا جہاں وہ رپورٹرس کو کورونا وائرس کے مریضوں سے انٹرویو لینے کی بات کہہ رہے تھے۔ اس پوسٹ پر ایک خاتون صحافی نے انھیں بے وقوف کہا۔ اس پر ارون کہتے ہیں، ٹویٹر پر فوری لوگوں کو غلط سمجھا جاسکتا ہے۔ عہدیداروں کے لیے ٹوئٹر عوام سے جڑنے کا سب سے تیز ذریعہ ہے۔ اس کی مدد سے کچھ دن پہلے ایک بچے کی اسکول بس کا مسئلہ آدھے گھنٹے میں حل ہوگیا جو کہ عوام کو ناممکن لگ رہا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر آپ کے جوابات افواہ ہیں تو فالوورس بڑھ جاتے ہیں جو آپ کو کہیں بھی ٹیگ کرنے لگتے ہیں۔ میں ٹویٹر کو ایک پاورفل اور طاقتور پلیٹ فارم سمجھتا ہوں۔ میں نے ٹویٹر گورنرس پر ایک ٹاک بھی دیا ہے۔
ارون کے بیاچ کے ایک عہدیدار نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں، ارون شروع سے ہی حاضر جواب رہے ہیں اور مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں اس لیے کئی بار ان کی حاضرجوابی الٹی بھی پڑ جاتی ہے اور لوگ شبیہ بنا لیتے ہیں۔ یہ عہدیدار کہتے ہیں کہ ٹویٹر پر میم شیئر کرنے سے شروعات ہوتی ہے اور آپ ٹرولس کی ایک آرمی کے بیچ پھنس جاتے ہیں۔ وہ آپ کو یہ کہہ کر دھوکے میں رکھتے ہیں کہ وہ آپ کے بہت بڑے فین ہیں گویا کہ آپ کوئی بڑے فلم اسٹار ہوں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ہم سسٹم کی بیک بون یا ریڑھ کی ہڈی ہیں جو پردے کے پیچھے کام کرتے ہیں۔
(بشکریہ : دی پرنٹ)
٭٭٭