ڈاکٹر تابش مہدی،دلی
دنیا میں بعض اشخاص و رجال ایسے ہوتے ہیں، جو ہمارے درمیان چلنے پھرنے اور موجود رہنے کے باوجود غائب محسوس ہوتے ہیں۔ جب کہ بعض خوش نصیب اشخاص و رجال اِس دنیا سے برسوں پہلے گزرجانے کے باوجود بھی اپنے حالات، اطوار اور علمی و اخلاقی اوصاف کے باعث ہم سے کبھی دور نہیں محسوس ہوتے وہ دیر تک ہمارے درمیان چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں۔ہم انہیں ایک زندہ و موجود شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں اور ان کے چھوڑے ہوے علمی، ادبی، اخلاقی اور تہذیبی خزانوں سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ اِنہی آخر الذکر اشخاص و رجال کی فہرست میں آتے ہیں۔ جنہیں ہم محبت سے مولانا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ انہیں اِس دنیا سے رخصت ہوے کم و بیش گیارہ برس ہوگئے۔ لیکن ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی اپنی علمی و فنی گفتگوؤں اور مفید تعمیری لطائف و ظرائف کے ساتھ ہمارے درمیان موجود ہیں۔
علّامہ ابوالمجاہد زاہدؔ ہمارے عہد کے نام ور ادیب و سخن ور، معتبر عروض داں اور مستند عالم دین تھے۔ عربی، فارسی اور اردو ادبیات پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ انہوں نے اپنی شاعری اور فن شناسی سے بھی نئی نسل کی ذہنی، فکری اور شعری تربیت کی ہے اور اپنے علم و فضل سے بھی۔ جس طرح انہوں نے شعر و ادب کی علمی، لسانی اور فنّی قدروں کے سلسلے میں کبھی معیار سے اترنا نہیں پسند کیا، ہمیشہ فکر و فن کی بالاتری پر اصرار کیا، غیر فصیح الفاظ، متروکات اور شعری و ادبی مکروہات کو کبھی نزدیک نہیں آنے دیا، اسی طرح انہوں نے ایک ٹھوس، راسخ العقیدہ اور صاحب بصیرت عالم دین کی حیثیت سے بھی دینی، مذہبی، مسلکی اور اعتقادی معاملے میں بھی کبھی مداہنت اور رعایت بے جا سے کام نہیں لیا۔ ہمیشہ کھل کر اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھی اور اسی پر عامل رہے۔ یہ ان کا ایک ایسا وصف ہے، جو ہندوپاک کے تحریکی حلقوں میں انہیں ممتاز کرتا ہے اور اس کے لیے وہ تادیر یاد کیے جاتے رہیں گے۔
شاعری میں انہیں دبستانِ داغؔ سے شرفِ انتساب حاصل تھا۔ زبان و فن کا صحیح استعمال، اس دبستان کا امتیاز رہا ہے۔ مولانا ابوالمجاہد زاہدؔمیں یہ امتیاز بہ درجہ اتم موجود تھا۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ کبھی کھلواڑ نہیں کیا۔ ضرورتِ شعری کا بہانہ کرکے لفظوں میں توڑ مروڑ نہیں کی، جن الفاظ کو اساتذہ نے متروک کردیا ہے، اس کی ہمیشہ پابندی کی ہے۔ اُنہیں فصیح الملک حضرت داغؔ دہلوی کے ممتاز فنی جانشیں سیماب اکبر آبادی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔
مولانا نے بتایا تھا کہ یوں تو ان کے اندربہت کم عمری سے شعری ذوق پیدا ہوگیا تھا۔ اساتذہ کی غزلیں اکثر اپنے ہم عمر بچوں میں وہ سناتے تھے۔ لیکن انہوں نے شعر گوئی کا باقاعدہ آغاز ۱۹۴۲ سے کیا۔ بتایا کہ جس اسکول میں وہ زیر تعلیم تھے، اسی میں جناب مائلؔ خیرآبادی معلم تھے۔ مائل صاحب اس وقت کے مشہور استاذ شاعر حضرت جگرؔ بسوانی کے شاگرد تھے۔ انہی سے اصلاح لیتے تھے۔ وہ اس زمانے میں مائلؔ انصاری خیرآبادی لکھتے تھے۔ مائل خیر آبادی اور اسی اسکول کے ایک دوسرے معلم دونوں ہی اپنی غزلیں اکثر و بیشتر اسکول کے طالب زاہد علی کی وساطت سے حضرت جگر بسوانی کی خدمت میں ارسال فرماتے تھے۔ پھر وہی اگلے دن یا حضرتِ استاذ کے مقررہ کسی دن وہ اصلاح شدہ غزلیں جاکر لاتے تھے۔ اسی کے ساتھ دوسری نئی غزلیں بھی بہ غرضِ اصلاح پیشِ خدمت کردیتے تھے۔ یہ سلسلہ کافی دنوں تک چلتا رہا۔ اپنے اسکول کے ان دونوں معلم شاعروں کی غزلیں وہ اکثر دیکھتے رہتے تھے۔ اصلاح شدہ بھی اور غیر اصلاح شدہ بھی ۔ ان غزلوں کو دیکھتے دیکھتے زاہد علی طالب علم میں بھی شعر گوئی کا حوصلہ پیدا ہوا۔ رفتہ رفتہ وہ بھی شعر موزوں کرکے غزل کی شکل میں حضرت جگر بسوانی کی خدمت میں پیش کرکے آنے لگے۔ لیکن وہ اس کاغذ پر اپنا نام نہیں لکھتے تھے، بل کہ انہی دونوں میں سے کسی کا نام درج کردیتے تھے۔ حضرت جگر بسوانی کو یہ غزلیں بہت پسند آئیں۔ ایک دن فرمایا: ان لوگوں سے کہنا کہ بعض غزلیں تو خاصی صاف اور رواں ہوتی ہیں اور بعض ہمیشہ کی طرح کچی اور محنت طلب۔ وہ بعض صاف اور رواں غزلیں، اسی طالب علم زاہد علی کی ہوتی تھیں۔ طالب علم نے یہ تو نہیں بتایا کہ یہ غزلیں میری ہیں لیکن استاذِ محترم کے ان الفاظ سے انہیں بہت خوشی ہوئی اور اِس میدان میں ترقی کرنے کا حوصلہ بڑھا۔ کچھ دنوں یہ سلسلہ چلا، پھر وہ طالب علم مڈل پاس کرنے کے بعد کسی کی سرپرستی میں رام پور کے مدرسہ عالیہ میں چلا گیا۔ یہ طالب علم زاہد علی وہی تھا جو بعد میں ابوالمجاہد زاہدؔ کے نام سے دنیاے سخن میں ممتاز ہوا۔
مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ نے جس وقت ۱۹۴۳ جب مدرسہ عالیہ (اورینٹل کالج) رام پور میں داخلہ لیا، ان کا ذوقِ شعر گوئی کافی آگے بڑھ چکا تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی غزل کا مطلع سنایا تھا:
دو دن خزاں میں گزرے تو دو دن بہار میں
یوں سیر کی ہے گلشنِ ناپائیدار میں
ان کی یہ غزل اس وقت کے مشہور جریدے ہفت روزہ ’مدینہ‘ بجنور میں شائع ہوئی تھی۔رام پور کے زمانۂ طالب علمی ہی میں وہ شاعری میں زبان و بیان اور فن و عروض میں اعلیٰ منازل طے کرنے کی غرض سے ۱۹۴۳ ہی میں فصیح الملک حضرت داغ دہلوی کے مقبول ترین شاگرد علامہ سیمابؔ اکبر آبادی کی شاگردی میں آگئے۔محترم استاذ نے شعر و فن کے سلسلے میں ان کی یک سوئی و انہماک کو دیکھتے ہوے، ان پر خصوصی توجہ کی، فنی و لسانی باریکیوں سے آراستہ کیا اور علم عروض کے ضروری قواعد و رموز سے آشنا کیا۔ کسی نئے شاگرد کے لیے علامہ سیماب جیسے استاذ یگانہ کا یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔
رام پور کی طالب علمی کے زمانے میں وہاں سے نکلنے والے ایک جریدے دبدبۂ سکندری سے بھی وابستہ ہوگئے تھے۔
فنی و عروضی قاعدوں کی پابندی، زبان و بیان کا رکھ رکھاؤ، محاورات و روز مرّہ کا التزام اور دبستانی قدروں کی پاس داری یہ وہ چیزیں ہیں، جو داغ اسکول کی شناخت تصور کی جاتی ہیں۔علامہ ابوالمجاہدزاہدؔ نے اپنی پوری شاعرانہ زندگی میں کبھی اِن چیزوں سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ خود بھی پابندی کی اور اپنے شاگردوں اور حلقہ بگوشوں کو بھی اس طرف متوجہ کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا۔ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے اس فکر اور نظریے کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا، جسے ہم تعمیری، اصلاحی یا ادب اسلامی کا نظریہ کہتے ہیں اور جو ان کی زندگی میں جسم کے خون کی طرح رواں دواں تھا۔ انہوں نے کبھی اپنے اُس مشن کو اوجھل نہیں ہونے دیا، جس کے لیے انہوں نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔اِس مشن سے ان کی گہری وابستگی کا اندازہ ان کے اس شعر سے بھی ہوسکتا ہے، جس میں انہوں نے اپنی اہلیۂ محترمہ کوثر جہاں مرحومہ کو بہ ایں انداز مخاطب فرمایا ہے:
میری جانِ تمنا کوثرؔ، میں سوچا کرتا ہوں اکثر
میری راہِ جنوں میں آکر،ہو تو نہ جاؤگی تم حائل
یہاں یہ بتادینا بھی عبرت و دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ کی شادی اپنے وقت کے مشہور صوفی عالم مولانا محمد مراد مرحوم کی دخترِ نیک اختر سے ہوئی تھی۔ بیٹی کی شادی سے پہلے ان کے علم میں یہ بات نہیں آسکی تھی کہ ان کا ہونے والا داماد جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا ہے اور وہ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے فکر و خیال کا حامی ہے۔ شادی کے کافی دنوں کے بعد جب ان کے علم میں یہ بات آئی تو انہیں بہت تکلیف ہوئی۔ اسی دوران میں جب ان کی بیٹی میکے آئی تو انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ اب وہ اس کو اس کے بد عقیدہ شوہر کے ہاں نہیں جانے دیں گے۔ بلاکر طلاق لے لیں گے۔ یہ بات مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ کے علم میں آئی تو انہیں بے حد تشویش ہوئی۔ اس لیے کہ اِس مدّت میں میاں بیوی میں بے حد محبت پیدا ہوگئی تھی۔ جب یہ صورتِ حال ان کی بیوی کے علم میں آئی تو انہیں بھی غیر معمولی تشویش ہوئی۔ زاہد صاحب نے ایک تفصیلی خط لکھا اور اُسے اپنی بیوی تک پہنچایا پھر بیوی نے بھی ایک خط کے ذریعے سے اپنی تشویش و پریشانی کا اظہار کیا اور یہ بھی لکھا کہ اگر آپ مجھے لینے کے لیے آجائیں تو میں ابّا کی مرضی کے علی الرغم آپ کے ساتھ چل پڑوں گی۔ چنانچہ مولانا ابوالمجاہد زاہد ایک دن اپنے سسرال پہنچ گئے۔ جب خسر کو سلام کرکے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ برس پڑے۔ پوچھا: تم یہاں کیوں آئے ہو؟ زاہد صاحب نے فرمایا: ابّا جان! میں آپ کا داماد ہوں، اپنی بیوی کوثر جہاں کو لینے کے لیے آیا ہوں۔ خسر نے کہا: چلے جاؤ یہاں سے۔ تم نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ تم نے بتایا نہیں کہ تم مودودی فکر و خیال کے علم بردار ہو۔ اب وہ تمہاری بیوی نہیں رہی۔ آج تمہیں یہاں سے طلاق دے کر جانا ہوگا۔ اسی دوران میں زاہد صاحب کی بیوی برقع اوڑھ کر گھر سے باہر آگئیں۔ باپ نے پوچھا: کوثر جہاں تم کہاں جارہی ہو؟ بیٹی نے کہا: ابّا اپنے شوہر کے ساتھ ان کے گھر جارہی ہوں۔ کئی روز ہوئے مجھے آے ہوے۔بیٹی کے اِس جواب پر وہ بالکل ساکت ہوگئے اور بہت دور تک دونوں کو جاتے ہوے دیکھتے رہے۔ منقول بالا شعر اسی پس منظر میں کہا گیا ہے۔
ابوالمجاہد زاہدؔ کا نام تو میں نے بہت کم عمری میں سن لیا تھا، ان کے یہ چند اشعار مجھے حفظ تھے اور انہیں میں دینی جلسوں میں سناتا بھی رہا ہوں:
ہنگامِ تہجد پیشِ خدا خاصان خدا ہی روتے ہیں
یہ لذّتِ گریہ عام نہیں جو سوتے ہیں وہ کھوتے ہیں
اللہ کی نافرمانی اور اللہ سے نصرت کے خواہاں
ہیں اہلِ حرم کتنے ناداں گیہوں کے لیے جو بوتے ہیں
کیا ذکر نماز اور روزے کا، مظلوم ہے کل دیں اے واعظ
ہے رنج تجھے کچھ پھولوں کا ہم سارے چمن کو روتے ہیں
دنیا کے لیے جو اے زاہد!ؔ لائے تھے پیامِ بیداری
خود مصلحتوں کے دامن میں وہ صاحبِ ایماں سوتے ہیں
۱۹۷۴ میں جب میرا امروہہ جانا ہوا تو مولانا زاہد صاحبؒ کا پتا معلوم کرکے خط لکھا، انہوں نے فوراً جواب دیا۔ اس کے بعد سے مسلسل خط و کتابت اور ملاقاتوں کا سلسلہ رہا۔ کئی بار میں نے انہیں امروہہ کے نعتیہ اور خلفاے راشدین سے متعلق مشاعروں میں بھی مدعو کرایا، جس طرحی یا غیرطرحی مشاعرے میں بھی میرا عمل دخل ہوتا میں انہیں ضرور مدعو کراتا۔ وہ ہمیشہ بڑی محبت اور اپنائی کے ساتھ تشریف لاتے تھے۔ میری ہی رہائش گاہ پر قیام فرماتے تھے اور استاذِ محترم علامہ شہباز صدیقی امروہوی سے ضرور ملتے تھے۔ ان سے جب بھی ملتے عروض، زبان و بیان اور قدیم اساتذہ ہی کی باتیں رہتیں۔ دونوں بزرگوں کی باتیں مجھے نہال کیے رکھتی تھیں۔ استاذِ محترم اگلے دن ان کی آمد کا بڑی خوشی و مسرت کے ساتھ تذکرہ فرماتے تھے۔
مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ کم و بیش بیس برس جماعت اسلامی کی مرکزی درس گاہ اسلامی رام پور میں خدمتِ تدریس انجام دینے کے بعد ۱۹۹۰ کے اوائل میں لڑکیوں کی عظیم اسلامی دانش گاہ جامعۃ الصالحات رام پور میں فقہ و ادب کے استاذ ہوگئے۔ اسی زمانے میں میری بڑی بیٹی عزیزہ ثمینہ سلمہا بھی وہاں زیر تعلیم تھی۔ اس نے فقہ کی مشہور کتاب بدایۃ المجتہد اور ادب کی بعض کتابیں انہی سے پڑھی تھیں۔ میں تقریباً ہر ماہ اس سے ملنے کے لیے رام پور جایا کرتا تھا۔ اِس سفر سے ایک بڑی خوشی یہ بھی ہوتی تھی کہ اِسی بہانے مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ سے ملاقات کا موقع مل جاتا تھا۔ ۱۹۹۵ میں مولانا جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ تعلیم کی درسیات کے سلسلے میں دہلی آگئے اور تادمِ آخر یہیں خدمت انجام دی۔ یہ میرے ان سے کسبِ فیض کا بڑا سنہری موقع تھا۔ راتوں کو کافی دیر تک ان سے تبادلۂ خیالات رہتا تھا۔ وہ اکثر غریب خانے پر بھی تشریف لاتے تھے، اس زمانے میں پروفیسر نثار احمد فاروقی اور پروفیسر عنوان چشتی کے ہاں اکثر میری نشست و برخاست رہتی تھی۔ گاہے گاہے مولانا بھی میرے ساتھ ہولیتے تھے اور کافی دیر تک وہاں نشستیں رہتی تھیں اور مختلف علمی، ادبی اور فنی موضوعات پر گفتگو رہتی تھی۔ اسی زمانے میں بزمِ شہباز کا قیام عمل میں آیا تو اس کی ہر نشست میں وہ پابندی سے شرکت فرماتے تھے۔
۳۰؍ستمبر ۲۰۰۰ کو ادبیات عالیہ اکادمی کے زیر اہتمام میرے بعض عزیزوں عمیر منظر اور خالد عمری بدایونی نے جشن ابوالمجاہد زاہدؔ کا انعقاد کیا۔ دن میں سیمینار رکھا اور شب میں آل انڈیا مشاعرہ۔ اس موقع پر ان کی شعری وادبی خدمات پر مضامین اور مقالے پڑھے گئے اور تقریریں بھی ہوئیں اور انہیں گراں قدر سپاس نامے کے ساتھ مومن خاں مومن ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔
مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ کو شاعری کی جملہ اصناف پر قدرت حاصل تھی۔ ہر صنف کے نمونے ان کے ذخیرۂ شعری میں ملتے ہیں۔ انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی، قطعات و رباعیات بھی ان کے ہاں خاصی تعداد میں ہیں اور حمد، نعت اور مناقب بھی۔ اطفالی نظمیں بھی انہوں نے بڑی تعداد میں کہی ہیں، جو مجموعوں کی شکل میں بھی شائع ہوچکی ہیں اور بعض درسی کتب میں بھی موجود ہیں۔ لیکن بعض معتبر ناقدین نے انہیں نعت و منقبت گوئی میں زیادہ اعتبار بخشا ہے۔ مجھے ان کی اس راے سے کامل اتفاق ہے۔ میں انہیں آج کے نعت گویوں میں بہت نمایاں دیکھتا ہوں۔ فکر و فن کی جو بلندی اور خیالات کی جو پاکیزگی و طہارت ان کے ہاں دیکھنے کو ملتی ہے، وہ اور کہیں بہت کم نظر آتی ہے۔میں اسے ان کی نعت گوئی کا فیضان ہی سمجھتا ہوں کہ مالی حالات کی ناسازگاری اور مسلسل خرابی صحت کے باوجود انہیں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ جب انہوں نے مناسک حج کی ادائی کے بعد مدینۃ الرسول ﷺ میں حاضری دی تو بے ساختہ ان کی زبان و قلم سے اس قسم کے اشعار نکل آئے:
اس سے بھی حسیں نکلا ماحول مدینے کا
میں نے جو تصور میں تصویر بنائی تھی
محسوس ہوا مجھ کو فردوس بہ داماں ہوں
کعبے میں جبیں میں نے جب اپنی جھکائی تھی
یہ صاف اور سادے سے اشعار ان کی اعلیٰ روحانی بلندی کا مظہر ہیں۔ اِس سفر کے لیے انہوں نے نہ جانے کتنی بار بارگاہِ ایزدی میں دعائیں کی تھیں اور آہیں بھری تھیں۔ اِسے بھی محض حسنِ اتفاق ہی کہیے کہ اِس سفر مبارک سے واپسی کے بعد اعزہ، اقارب دوست احباب اور تلامذہ و وابستگان کے درمیان تھوڑی ہی مدّت گزار کر وہ ۶؍مارچ ۲۰۰۹ کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ لیکن مذکورہ بالا تمام باتوں کے ساتھ ساتھ میں انہیں نظم و غزل گوئی کے میدان میں بھی ایک اہم اور ممتاز مقام پر دیکھتا ہوں۔ جن لوگوں نے ان کے مجموعے ’تگ و تاز‘ اور ’ید بیضا‘ میں اُن کی نظموں اور غزلوں کا مطالعہ کیا ہے، وہ میری راے کی تصویب کریں گے۔ ان کے یہ اشعار تا دیر نہ بھلاے جا سکیں گے:
لوگ چن لیں جس کی تحریریں حوالوں کے لیے
زندگی کی وہ کتاب معتبر ہوجائیے
لاکھ دیوارِ چمن راستا روکے، لیکن
بوے گل کی بھی کہیں خوے سفر جاتی ہے
وہ ہم نہیں ہیں کہ صرف اپنے ہی گھر میں شمعیں جلا کے بیٹھیں
وہاں وہاں روشنی کریں گے، جہاں جہاں تیرگی ملے گی
نئی سحر کے حسین سورج تجھے غریبوں سے واسطہ کیا
جہاں اجالا ہے سیم و زر کا وہیں تری روشنی ملے گی
وہی شاہ چاہتا ہے، جو غلام چاہتے ہیں
کوئی چاہتا ہی کب ہے جو عوام چاہتے ہیں
ان کا یہ شعر تو اتنا مقبول و مشہور ہوا کہ اسے لوگوں نے علامہ اقبالؔ سے منسوب کردیا:
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوے تاروں سے کیا کام بنے
مولانا ابوالمجاہد زاہدؔ کو ہم سے جدا ہوے ایک دہائی سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔ یہ عرصہ روز بہ روز زیادہ ہی ہوتا جائے گا۔ لیکن اپنی شاعری اوراپنے اخلاق و کردار کے ذریعے سے جو دولت ہمیں دے گئے ہیں، وہ ہمیشہ ہمارے پاس رہے گی اور ہم اس سے استفادہ و استفاضہ کرتے رہیں گے۔