دبا سکو تو صدا دبادو۔بجھا سکو تو دیا بجھا دو
شیریں ابو عاقلہ:فلسطین کی توانا آواز ہمیشہ کےلیے خاموش
مسعود ابدالی
صحافت انتہائی اہم، دیانت دارانہ اور ایک مقدس پیشہ ہے۔ صحافی انسانی معاشرے کی آنکھ اور کان ہے۔ سماعت و مشاہدے کو زاویہ نگاری اور ذاتی پسند و ناپسند سے آلودہ کیے بغیر قارئین اور ناظرین تک من و عن پہنچا دینا ایک ذمہ دار صحافی کا فرضِ منصبی ہے۔ آج ہم ایسی ہی ایک دیانت دار صحافی خاتون کا ذکر کریں گے جسے اسرائیلی فوج نے انتہائی بے دردی سے سرِ عام قتل کر دیا۔
شیریں ابوعاقلہ نے بیت المقدس کے قریب بیت اللحم میں آباد ایک راسخ العقیدہ مسیحی گھرانے میں جنم لیا۔ یہاں ایک چھوٹی سی وضاحت قارئین کی دلچسپی کا باعث ہو گی۔ شہر کے انگریزی ہجے یعنی Bethlehem کی وجہ سے اسے بیت اللحم کہا جاتا ہے یعنی گوشت کا مکان یا دوکان اور کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہاں زمانہ قبل مسیح ایک بڑا مذبح خانہ ہوا کرتا تھا۔ اسکا عبرانی تلفظ بیت لییم ہے یعنی روٹی کی دوکان یا تندور۔ اس علاقے کو اللہ نے بر کتیں عطا کی تھیں اور انجیل مقدس کے مطابق حضرت عیسیؑ اور حضرت یحییٰؑ المعروف John the Baptist کی ولادت با سعادت اسی علاقے میں ہوئی اس لیے یہ شہر رزق یا برکت کا گھر (عبرانی بیت لییم) مشہور ہو گیا۔ کنعان کے مشرکین نے اس مقام کو افزائش نسل کے دیوتا لحمو کے نام سے موسوم کیاتھا۔حضرت عیسیٰؑ کے مقامِ پیدائش پر وہ تاریخی کلیسائے میلاد یا Church of Nativity بھی ہے جہاں ہر سال لاکھوں مسیحی زائرین حضرت عیسیٰؑ اور ان کی پاکباز والدہ، سیدہ مریم کو خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔
شیریں بہت کم عمری میں والدین کی شفقت سے محروم ہوگئیں اور ابتدا میں خالہ نے ان کی پرورش کی جو امریکہ میں رہتی تھیں۔ اسی بنا پر شیریں کو امریکی شہریت مل گئی۔ کچھ عرصے بعد وہ بیت المقدس واپس آگئیں۔ مشرقی بیت المقدس کے ثانوی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد انہوں نے اردن کی جامعہ علوم و ٹیکنولوجی (JUST) کے کلیہ مہندسین (انجنیئرنگ) میں داخلہ لیا، لیکن صرف ایک سال بعد وہ جامعہ یرموک (اردن) کے شعبہ صحافت میں آ گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی آواز بننے کے لیے انہوں نے قلم سنبھالا ہے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ریڈیو فلسطین سے وابستہ ہو گئیں۔ ساتھ ہی انہوں نے فرانسیسی ریڈیو مانٹی کارلو پر بھی سیاسی تجزیے پیش کیے۔ شیریں کو عربی اور انگریزی کے علاوہ فرانسیسی زبان پر بھی عبور تھا۔ اس دوران انہوں نے اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں اور انسانی و جمہوری حقوق کی تنظیموں کے لیے بھی کام کیا۔ جب 1996 میں الجزیرہ نے نشریات کا آغاز کیا تو شیریں نے سمعی (ریڈیو) صحافت کے ساتھ ٹیلی ویژن کا محاذ بھی سنبھال لیا۔
شیریں ابوعاقلہ کو دفتر میں بیٹھ کر کالم لکھنے اور تجزیے بگھارنے کے بجائے میدان سے رپورٹنگ کا جنون کی حد تک شوق تھا، چنانچہ وہ فلسطینیوں کے ہر مظاہرے کا انکھوں دیکھا حال براہ راست سناتیں۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے فلسطینیوں کے گھر جا کر سوگوار خاندان سے براہِ راست گفتگو کرتے ہوئے ان کے جذبات کا بامحاورہ انگریزی اور فرانسیسی میں ترجمہ کرتیں۔ شیریں کا یہ انداز ان کے ناظرین کو بہت پسند آیا۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے جامعہ یروشلم کے شعبہ عبرانیات میں داخلہ لیا تھا۔ ان کا خیال تھا نشر و اشاعت کے اسرائیلی ادارے عبرانی بولنے والے قارئین اور ناظرین کو فلسطینیوں کی حالتِ زار سے آگاہ نہیں کرتے اس لیے فوجی مظالم کے بارے میں انہیں کچھ خبر نہیں اور اسرائیلیوں کی اکثریت فلسطینیوں کو دہشت گرد سمجھتی ہے۔
شیریں عملی صحافت کے ساتھ میدان صحافت میں قدم رکھنے والے نئے ساتھیوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی بھی بہت خوش دلی سے کرتی تھیں اور وہ عملاً اپنے جونیر ساتھیوں کی مشفق ’باجی جان‘ تھیں۔
اس وقت جبکہ امریکہ و مغرب اور عالمی میڈیا کی توجہ روس یوکرین جنگ کی طرف ہے، تل ابیب نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کا کام تیز کر دیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ اگلے دو سال کے دوران 4000 نئے مکانات کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ملکیت کی شرائط میں وضاحت سے درج ہے کہ ان گھروں میں صرف یہودی مذہب کے ماننے والے رہ سکیں گے اور کسی غیر یہودی کو کرایہ دار رکھنا بھی غیر قانونی ہو گا۔ اس مقصد کے لیے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کے مکانات مسمار کیے جا رہے ہیں۔ یہاں آباد لوگوں کو شدید ترین گرمی میں ان کے گھروں سے نکال کر اردن کی سرحد پر خیمہ بستیوں کی طرف ہانکا جارہا ہے۔
اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف مقبوضہ عرب علاقوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ شمال مغربی کنارے کے چالیس ہزار آبادی والے شہر، جنین سے خیمہ بستی کی طرف دھکیلے بلکہ ٹھونسے جانے والوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ مظاہرہ کرنے والے نہتے شہریوں کو کچلنے کے لیے بھاری فوجی نفری تعینات کی گئی ہے۔ فوج کی فائرنگ سے درجنوں فلسطینی نوجوان جاں بحق ہو چکے ہیں۔
بدھ (11 مئی) کو علی الصبح جب بلڈوزر جنین پہنچے تو وہاں کے رہائشیوں نے زبردست مزاحمت کی اور نعرہ زن ہجوم نے فوج کی طرف پتھر پھینکے۔ پتھراو کے جواب میں اسرائیلی فوج ربر کی گولیاں استعمال کر رہی تھی اور وقتاً فوقتاً اصلی گولیاں بھی برسائی جارہی تھیں۔ اس دوران شیریں ابو عاقلہ وہاں پہنچ گئیں۔ روزنامہ القدس کے علی السمودی کے ساتھ جنین کی رہائشی، مقامی خاتون صحافی شازیہ ہنیشا پہلے سے وہاں موجو تھیں۔ شازیہ کا کہنا ہے کہ ‘ہم تینوں ذرا بلندی پر کھڑے تھے۔ فلسطینی مظاہرین ہماری پشت پر اور اسرائیلی فوج ہمارے سامنے تھی۔ شیریں، علی اور میں نے شناخت کے لیے PRESS کی واسکٹ (vest) پہن رکھی تھی۔ فوج کے سپاہی ہمارے اتنا قریب تھے کہ ان کے سینوں پر آویزاں بیج سے ہم ان کے نام پڑھ سکتے تھے‘ شازیہ کے مطابق فوج نے شست باندھ کر ہم تینوں کو نشانہ بنایا۔
ایک گولی شیریں کی پیشانی پر لگی اور انکی فولادی ٹوپی (ہیلمٹ) کو چیرتی ہوئی 51 سالہ خاتون صحافی کے کاسہ سر کو پاش پاش کر گئی۔ ایک گولی نے علی السمودی کے پیٹ کو نشانہ بنایا جبکہ شازیہ ہنیشا کی طرف آنے والی گولی ان کے بازو کو چھوتی ہوئی چلی گئی۔ شیریں تو موقع پر ہی جاں بحق ہو گئیں، علی شدید زخمی ہیں۔ خوش قسمتی سے جواں سال شازیہ کو مرہم پٹی کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔
چند گھنٹے بعد اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں رعم پارٹی کی طرف سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراض پر وضاحتی بیان دیتے ہوئے وزیر دفاع بینی گینٹز (Benny Gants) نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اسرائیلی فوج نے براہ راست شیریں کو نشانہ نہیں بنایا۔ جائے واردات کے بصری تراشوں (Footage) میں فلسطینی دہشت گردوں کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ دیکھی جاسکتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ خاتون صحافی کسی دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بنی ہے اور ایک قیمتی انسانی جان کے نقصان پر ہمیں افسوس ہے۔ بحث سمیٹتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے وزیر دفاع کے تجزیے سے اتفاق کیا اور اسرائیلی فوج کو مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ یعنی مزید تحقیقات کا دروازہ طاقت و تکبر کی کیل سے بند کر دیا گیا۔ ڈھٹائی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ واقعہ صبح پانچ بجے پیش آیا اور فاضل وزیر دفاع نے کنیسہ میں وضاحتی بیان صبح ساڑھے آٹھ بجے جاری کیا۔ صرف ساڑھے تین گھنٹے یعنی لاش کے تشریح الجثہ (پوسٹ مارٹم) سے بھی پہلے تحقیقات مکمل کرلی گئیں۔
مقتدرہ فلسطین (PA) کی وزارت صحت نے اسرائیلی حکومت کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے اسے خاتون صحافی کا بہیمانہ قتل قرار دیا ہے۔ فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے رویے سے خوفزدہ ہو کر عالمی نشریاتی اداروں نے اپنے عملے کو فلسطینی علاقوں سے ہٹا لیا ہے اور صرف الجزیرہ کے چند صحافی یہاں موجود ہیں۔ سینئر صحافیوں شیریں ابو عاقلہ اور علی السمودی کو نشانہ بنانے کا مقصد یہاں موجود رہ جانے والے سخت جان صحافیوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سےصحافیوں کے خلاف دانستہ کارروائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ گزشتہ سال اسرائیلی فوج غزہ میں الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر پر بمباری کر چکی ہے۔ اس موقع پر الجزیرہ نے ان 45 صحافیوں کی فہرست شائع کی ہے جو 2000 سے اب تک اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔فلسطینی انجمن صحافیان کے مطابق یہ تعداد 55 ہے۔
شیریں کے قتل کے بارے میں اسرائیلی وزیر دفاع کی وضاحت کو امریکہ سمیت ساری دنیا نے مسترد کر دیا ہے۔ صحافیوں کی عالمی انجمن IFJ اور فلسطینی صحافیوں کی تنظیم PSJ نے شیریں کے قتل کو آزادی صحافت پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ کو اپنی ایک شہری اور معروف صحافی کی موت پر شدید تشویش ہے اور اس واقعے کی شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلینکن نے بھی اس قتل کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ مقتدرہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا کہ مقتدرہ، شیریں کے قتل کا مقدمہ جرائم کی عالمی عدالت ICC میں درج کروا رہی ہے۔ فلسطینی رہنما کا یہ عزم ایک بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس لیے کہ اسرائیل ICC کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔
اسرائیلی فوج کے کلیجے شیریں ابو عاقلہ کے قتل کے بعد بھی ٹھنڈے نہ ہوئے چنانچہ اس نے اس مظلوم کے جلوسِ جنازہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جنین کے مقامی گرجاگھر سے شیریں کا جنازہ اٹھتے ہی اسرائیلی فوج نے کئی جگہ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ان کا جنازہ جب نابلوس اور رملہ سے ہوتا ہوا مشرقی بیت المقدس میں بیت اللحم کے قریب جبل صیہون Mount Zion کے مسیحی قبرستان پہنچا تو پولیس نے سوگواران پر لاٹھی چارج کیا۔ تابوت کو کاندھا دینے والوں کی گھونسوں اور لاتوں سے تواضع کی گئی اور کئی بار تابوت گرتے گرتے بچا۔جنازے کی ایسی بے حرمتی کی تو شائد پتھر کے دور میں بھی کوئی مثال نہ ملے۔ آفرین ہے حریت پسند دلاوروں پر جنہوں نے لاٹھی اور لاتوں کی چوٹ صبر اور عزم کے ساتھ برداشت کر کے تابوت کو نیچے نہ گرنے دیا اور بنتِ فلسطین کو پورے احترام کے ساتھ ان کے والدین کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ غیر شادی شدہ شیریں نے ایک بھائی ٹونی ابو عاقلہ سوگوار چھوڑا ہے۔ ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹ انکا تعارف تھا۔ اسی بناپر ساتھیوں میں وہ شیریں تبسم (مسکراہٹ) کہلاتی تھیں۔ درندوں نے اس لازوال مسکراہٹ کو ہمیشہ کے لیےخاموش کر دیا یا یوں کہیے کہ خبر کی تلاش میں نکلنے والی شیریں خود ہی خبر بن گئی۔
مسلمانوں کے لیے جنت المعلی اور مدینہ کے البقیع کی طرح مسیحیوں کے لیے جبلِ صیہون کا قبرستان تقدیس و حرمت کا حامل ہے کہ عبرانی روایات کے مطابق یہاں بنی اسرائیل کے کئی انبیا اور حضرت مسیحؑ کے پاکبازو متقی حواریوں (اصحابِ مسیحؑ) کی قبریں ہیں۔ مسجد اقصیٰ اور القدس شریف کی بے حرمتی تو اسرائیل کا روزمرہ کا معمول ہے، شیریں اور الجزیرہ سے نفرت میں اسرائیلی فوج نے جبل صیہون کا تقدس بھی پامال کر دیا۔ شیریں کے جنازے پر اسرائیلی فوج کی درندگی کے مناظر دیکھتے ہوئے حضرت نعیم صدیقی کا یہ کلام بے اختیار ہمارے لبوں پر آگیا۔
ہماری ہستی ہی کیا ہے آخر
بس ایک آوازہِ صداقت
بس ایک شمعِ فضائے ہستی
دبا سکو تو صدا دبادو
بجھا سکو تو دیا بجھا دو
صدا دبے گی تو حشر ہوگا
دیا بجھے گا تو صبح ہوگی
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
اسرائیلی فوج کے کلیجے شیریں ابو عاقلہ کے قتل کے بعد بھی ٹھنڈے نہ ہوئے چنانچہ اس نے اس مظلوم کے جلوسِ جنازہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تابوت کو کاندھا دینے والوں کی گھونسوں اور لاتوں سے تواضع کی گئی اور کئی بار تابوت گرتے گرتے بچا۔جنازے کی ایسی بے حرمتی کی تو شائد پتھر کے دور میں بھی کوئی مثال نہ ملے۔ آفرین ہے حریت پسند دلاوروں پر جنہوں نے لاٹھی اور لاتوں کی چوٹ صبر اور عزم کے ساتھ برداشت کر کے تابوت کو نیچے نہ گرنے دیا اور بنتِ فلسطین کو پورے احترام کے ساتھ ان کے والدین کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 مئی 2022