دارالعلوم کا مدارس کے سروے میں بلاخوف و تردد تعاون کرنے کی اپیل

نئی دہلی، 19؍ستمبر2022: اترپردیش حکومت کے ذریعہ ریاست میں غیر منظور شدہ دینی مدارس کے سروے کے حکم کے بعد سے پیدا ہونے والی بے چینیوں کے درمیان ملک کے معروف دینی ادارے دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے نمائندہ اجلاس میں دارالعلوم نے تمام ہی غیر منظور شدہ دینی مدارس سے سرکاری سروے میں بلا خوف وتردداوراسے ضابطہ کی کاروائی سمجھتے ہوئے تعاون کا طرزعمل اختیار کرنے کی اپیل کی ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام مداراس کا نمائندہ اجلاس بمقام جامعہ رشید دارلعلوم دیوبندمیں منعقد ہوا جس میں زائد از 300مدارس کے ذمہ داران نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد’نمائندہ اجلاس مدارس اسلامیہ اترپردیش ‘کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا سید ارشد مدنی اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے میڈیا نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے ان سے مدارس کے تئیں مثبت رویہ اپنانے کی اپیل کی اور کہا کہ ملک کے لئے مدارس کی قربانیوں کو کبھی بھی اورکسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔مدارس کے اس پہلو کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔
مدارس میں دینی تعلیمی کے ساتھ عصری علوم کی لازمیت کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ’’عربی کلاس شروع ہونے سے پہلے پہلے درالعلوم ہر بچے کو ہائی اسکول کا امتحان دلائے گا وہیں جہاں تک دوسرے مدارس سے دارالعلوم میں داخلہ لینے کے لئے آنے والے طلبہ کے ہائی اسکول پاس ہونے کی بات ہے تو اگلے سال جب ہم اسے نافذ کردیں گے اس کے بعد دیگر مدارس کو 5۔6سالوں کی مہلت دیں گےپھر جو بھی طالب علم دارالعلوم میں داخلے کا خواہش مند ہوگا اس کے لئے ہائی اسکول تک کی تعلیم لازم کر دی جائےگی۔
ملحوظ رہے کہ مدارس اسلامیہ اترپردیش کے نمائندہ اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بھی مولانا ارشد مدنی نےدینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا بھی نظم کرنے کی اہل مدارس  کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم میں آئندہ سال سےہائی اسکول تک کی عصری تعلیم کا لازمی انتظام ہو جائے گا تمام مدارس میں بھی اس کا انتظام کیا جانا چاہئے۔
نمائندہ مدارس اسلامیہ اترپردیش کے اعلامیہ میں مدارس کے سرکاری سروے میں مکمل تعاون کرنے کا موقف اختیار کرتے ہوئے مدارس اسلامیہ سے اپیل کی گئی ہے کہ سروے ٹیم کو صحیح اور درست معلوما ت فراہم کریں،مالیات کا نظام چست و درست رکھیں اورحسب ضرورت اسے آڈٹ کرائیں،مدرسہ کی ملکیت کے دستاویزات کو درست اور مدرسہ میں طلبہ کے لئے صحت مند ماحول کوقائم کرنے کے ساتھ مدرسہ کو چلانے والی سوسائٹی یا ٹرسٹ کا رجسٹریشن قانونی تقاضوں کے مطابق کرانے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اعلامیہ میں تمام مداراس سے اپیل کی گئی ہے کہ حکومت کی جانب سےہونے والے حالیہ سروے کے عمل سے کسی خوف یا ذہنی انتشار کا شکار نہ ہوں، نہ کسی جذباتیت کا مظاہرہ کریں بلکہ اس کو ایک ضابطہ کی کاروائی سمجھتے ہوئے تعاون کا طرزعمل اختیار کریں۔
اعلامیہ میں مداراس کے تئیں میڈیا کے موقف پر بات  کرتے ہوئے میڈیا کے ذمہ داران اور نمائندوں سے خصوصی اپیل کی گئی ہےکہ میڈیا کے ذمہ داران مدارس کے تئیں مثبت رویہ اپنائیں اور مدارس کے وطن دوست ، پرامن کردار کو نمایاں کریں اسی میں ملک اور یہاں بسنے والے تمام اقوام کی بھلائی ہے ۔

اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ ان مداراس کے کردار کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی کوئی سرگرمی خفیہ نہیں ہے۔ مدرسوں کے اندر کسی کے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے خفیہ محکمے اورتفتیشی ادارے بھی پوری طرح سے مطمئن رہتے ہیں۔
اعلامیہ میں مدارس کے قیام کے مقاصد اور ان کے غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا گیا ہےمدارس جن کا آغاز ملک پر انگریزوں کے تسلط کے بعد دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد سے ہوا تھا ،ان کا مقصد مسلمانوں کے دینی ورثہ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ وطن عزیر سے غیر ملکی تسلط کو ختم کرنا بھی تھا۔اور انہوں نے ان دونو ں مقاصد کو اعلی معیار پر پورا کیا۔
مدارس کے روشن باب کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ  ہندوستان کے طول و عرض میں چلنے والے دینی مدارس  اپنی تعلیمی و تربیتی اور ملکی و سماجی خدمات کی ایک روشن تاریخ رکھتے ہیں۔مداراس نے جہاں ایک طرف ملک کو نہات ذمہ دار مزاج کے حامل شہری عطا کئے  ہیں تو دوسری طرف ملک کی آزادی کے لئے ہر قسم کی قربانی اور علماء کی قیادت میں مسلمانوں کو تحریک آزادی میں برادران وطن کے دوش بدوش بلکہ ان سے آگے بڑھ کر قربانیا ں دینے کے لئے تیار کیاجس کی گواہی اس ملک کا چپہ چپہ دیتا  ہے۔
اعلامیہ میں ملت اسلامیہ کےتمام طبقات سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ملت کے لئے ریڑھ کی ہڈھی کی حیثیت رکھنے والے ان مدارس کی قدرو قیمت کو محسوس کریں اور ایسے کسی بھی قول و فعل سے اجتناب کریں جس سے مدارس کی حیثیت مجروح ہو یا ان کے بارے میں کوئی منفی تاثر پیدا ہوا بلکہ ہماری کوشش ہونے چاہئے کہ ایسے اقدام کریں جن سے مدارس کو تقویت و استحکام حاصل ہو اور ملک میں بھائی چارہ اور پیارو محبت کو فروغ دیا جائے۔