خود سنبھل کر چلتے نہیں پتھروں کو الزام دیتے ہیں

وباکے ماحول میں عید الاضحی ،احتیاط کا دامن چھوٹنے نہ پائے

جلال الدین اسلم، نئی دلی

 

ایمان و یقین کسے کہتے ہیں؟ قربانی کسے کہتے ہیں؟ اس کے معنی و مفہوم کیا ہیں؟ اس حوالے سے چھوٹے چھوٹے کتابچوں سے لے کر ضخیم ضخیم کتابیں تک اہل علم کے گھروں اوران کی الماریوں میں بھری پڑی ہیں۔ لہٰذا اس موقع پر تاریخ قربانی یا اہل ایمان کو پیش آنے والی مشکلات و آزمائشوں کا احاطہ کرنا مقصود نہیں۔ البتہ آنے والے چند دنوں میں ہی مسلمان فریضہ حج و قربانی ادا کرنے والے ہیں، اس تعلق سے کچھ باتیں قارئین کرام کو گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جو تقاضائے وقت بھی ہیں اور اقتضائے حالات بھی۔
رواں سال یعنی 2020 اپنے ابتدائی دنوں سے ہی نہ صرف عالم اسلام کے لیے ہی بلکہ عالم انسانیت کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔ انسانی فطرت ہے مل مل کر رہنے کی اور ایک دوسرے کے کام آنے کی، لیکن کسی کے خیال و گمان میں بھی یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ اچانک ایک ایسی مہلک بیماری سر اٹھائے گی جو دیکھتے دیکھتے ہی لوگوں کو اپنا لقمہ تر بنانے لگے گی اور انسان اپنی فطرت اخوت سے بھی محروم ہوجائے گا۔ کارگاہیں، عبادت گاہیں، درس گاہیں یا تفریح گاہیں سبھی سونی سونی اور ویران ہوجائیں گی۔ گھر والے اپنے اپنے گھروں میں مقید اور بے گھر سڑکوں اور گزرگاہوں پر اپنے اپنے بسیرے قائم کرنے لگیں گے۔ روٹی روزی سے محروم لوگ شکم کی آگ بجھانے کے لیے ایک ایک بوند پانی کے لیے اپنی جانیں تک قربان کرنے لگیں گے۔ ان حالات میں غور طلب امر یہ ہے کہ کیا اس قیامت خیز منظر کو کشید کرنے اور انسانوں کی جانیں نچوڑنے، شمشان گھاٹوں و قبرستان کو بھرنے کا اصل ذمہ دار ’کورونا وائرس‘ کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے؟ ذرا احتساب کیجیے اور اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیے اور دیکھیے کہ اس غیر مرئی وبا کو شکم سیری کے لیے دعوتِ عمل کس نے دی اور اس عمل میں کس کا کتنا کردار ہے؟ کہیں ہم خود ہی اس کے اصل ذمہ دار تو نہیں؟ کوئی بھی سچا انسان اس سچائی سے تو انکار ہی نہیں کرسکتا کہ ’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آجائیں۔‘ (سورة الروم: 41)
اب اگر ہم خود کو اپنے معاشرے کو تباہی و بربادی کے گڑھے سے بچانا چاہتے ہیں تو وہ ایک ہی صورت ہے کہ ہم ربّ کائنات کی نازل کی ہوئی روشن ہدایات و تعلیمات پر صدق دل سے عمل کرنے کی کوشش کریں۔ کورونا کی آمد کے ساتھ ہی لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں آیا تو لوگ مسلسل گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے بلبلا اٹھے اور جب لاک ڈاؤن میں گورنمنٹ کی جانب سے چند شرطوں کے ساتھ چھوٹ ملی تو تمام شرطوں اور ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے لوگ گھروں سے اس طرح نکلنے لگے کہ بدعقلی کی تمام حدیں ہی پار کرنے لگے۔ ایسے حالات میں تو مسلمانوں کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ خود بھی لاک ڈاؤن کے ضابطوں پر عمل کرتے اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کرانے کی ذمہ داری نبھاتے، مگر افسوس کہ ایسا نہ کرکے رسوائی کا سبب بن گئے۔ مقدس و بابرکت مہینہ رمضان، نماز تراویح، لیلة القدر اور عیدالفطر تک سبھی اسی کورونا کی نذر ہوکر گزر گئے، مگر لوگ ہیں کہ سدھرنے کے لیے کسی بھی طور پر تیار نہیں۔ اب دنیا بھر کے لگ بھگ ڈیڑھ ارب مسلمان عیدالاضحی منانے جارہے ہیں، ایسی عید جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، مسلمانوں کی پوری تاریخ میں ایسی عیدیں نہیں دیکھی گئیں جس میں میدانِ عیدین سُونے، جس میں مسجدوں کی رونقیں ماند پڑی پکار رہی ہوں کہ ’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔ مسجدالحرام سمیت مسلمانوں کے بیشتر مقدس مقامات پر اجتماعات پر پابندیاں لگادی گئی ہیں یا انہیں محدود کردیا گیا ہے۔ عیدالاضحی اور عیدالفطر میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ عیدالاضحی پر مسلمان جانوروں کی قربانی کرتا ہے، ایسے میں حالات انتہائی محتاط رہنے کی دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان کس حد تک احتیاطی تدابیر اختیار کرپاتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے :
ہوتی نہیں جو قوم حق بات پہ یکجا
اس قوم کا حاکم ہی بس ان کی سزا ہے
اب آئیے برسرِمطلب، گزشتہ دنوں کئی خبریں ایسی منظرعام ہوئیں جو اسلام اور مسلمانوں خصوصاً عید قرباں اور قربانی کے جانوروں سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً کرناٹک میں چرواہے کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر 47بکریوں کو قرنطینہ میں ڈال دیا گیا۔ ایک خبر یہ بھی تھی کہ ایک گروہ نے جو اسلام اور مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے ’جیو ہتیا‘ قرار دیتے ہوئے قربانی کے جانوروں پر پابندی عائد کرانے کی غرض سے عدالت کے دروازے پر دستک دینے کی کوشش کی۔ اس طرح کی خبریں اب انہونی اس معنی میں نہیں رہیں کہ میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا میں چند ایسے بے لگام فسادی طرز کے لوگوں کو لا بٹھایا گیا ہے جو عوام میں نفرت پھیلانے میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ان کے لہجوں کی سختی، انانیت، تعصب کی غلاظت اور اخلاقی گراوٹ اب ان کے دلوں میں میل کی طرح جم چکی ہے جسے کسی دھوبی کے گھاٹ پر لے جاکر کپڑوں کی طرح پٹک پٹک کر دھویا نہیں جاسکتا؎
اندھیرا پوجنے والوں نے فیصلہ دیا ہے
چراغ اب کسی شب میں مخل نہ ہوگا
بہرحال قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فریضہ قربانی اد کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کا شکر ادا کریں۔ آخر میں عیدالاضحی کے تعلق سے جماعت اسلامی ہند کی اپیل جسے آپ مضمون کا حاصل بھی قرار دے سکتے ہیں، آپ کی خدمت میں حاضر ہے:
’’چند دنوں کے بعد عیدالاضحی آنے والی ہے۔ اس کی ایک اہم عبادت قربانی ہے۔ کورونا وائرس کی شدت اور مختلف سرکاری پابندیوں کی وجہ سے موجودہ حالات میں مسلمانوں کی طرف سے نماز عید اور قربانی کے بارے میں مختلف سوالات کیے جارہے ہیں۔ شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند نے ان سوالات پر غور کیا اورا س سلسلے میں میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا کہ قربانی حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ اس پر خاتم النبیین نے عمل کیا ہے اور اپنی امت کو بھی اس کی تاکید کی ہے۔ یہ محض کوئی رسم نہیں ہے۔ حدیث میں آیاہے کہ ایام قربانی میں اللہ تعالیٰ کو قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو عیدالاضحی کے موقع پر حتی الامکان قربانی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صدقہ، خیرات، رفاہی خدمات یا دیگر کوئی نیک عمل اس کا بدل نہیں ہوسکتا۔ جن صاحب حیثیت لوگوں پر قربانی واجب ہو، وہ خواہش اور کوشش کے باوجود سرکاری پابندیوں یا دیگر موانع کی وجہ سے قربانی نہ کرسکیں، اگر وہ دوسرے مقام پر اپنی قربانی کرواسکیں تو اس کی کوشش کریں۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ایام قربانی گزرنے کے بعد قربانی کے بقدر رقم غریبوں میں صدقہ کردیں۔ مسلمان قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دین و شریعت پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ جن جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی ہو، ان کی قربانی سے احتراز کریں۔ قربانی کے سلسلے میں موجودہ وبائی صورت حال کے پیش نظر تمام احتیاطی تدبیریں ملحوظ رکھیں۔ راستوں اور گزرگاہوں پر قربانی نہ کریں۔ صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔ خون، فضلات اور زائد اجزا کو دفن کردیں یا کوڑا کرکٹ کے متعینہ مقامات تک پہنچائیں۔ مناسب ہے کہ ہر علاقے میں عیدالاضحی سے چند روز قبل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو حالات پر نظر رکھے۔ مقامی حکام سے برابر رابطہ رکھے اور امن و قانون کی صورت حال کو بحال رکھنے میں اپنا تعاون پیش کرے۔ عیدالاضحی کی نماز سماجی فاصلہ (Social Distance) برقرار رکھتے ہوئے عیدگاہوں اور مسجدوں میں ادا کی جائے۔ جن علاقوں میں کرونا کی وجہ سے حکام نے پابندی عائد کر رکھی ہے، وہاں مسلمان اپنے گھروں میں نماز عید ادا کریں جیسے عیدالفطر کی نماز ادا کی تھی۔ شریعہ کونسل مرکزی اور ریاستی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ نماز عیدالاضحی اور قربانی کی مسلمانوں کے نزدیک غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر انہیں اس سلسلے میں ہر ممکن سہولت اور شرپسندوں سے تحفظ فراہم کریں۔ امید ہے کہ مسلمان احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے اسے انجام دیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے دین پر چلنے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘۔
***

اگر ہم خود کو اپنے معاشرے کو تباہی و بربادی کے گڑھے سے بچانا چاہتے ہیں تو وہ ایک ہی صورت ہے کہ ہم ربّ کائنات کی نازل کی ہوئی روشن ہدایات و تعلیمات پر صدق دل سے عمل کرنے کی کوشش کریں