خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم انتہائی خطرناک: جماعت اسلامی ہند

نئی دہلی، اگست 7: جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے شعبہ خواتین کی سکریٹری محترمہ رحمت النساء نے ننگل گاؤں کی ایک نو سالہ دلت لڑکی کی مبینہ وحشیانہ عصمت دری اور قتل کی شدید مذمت کی اور کہا کہ جماعت اسلامی ہند کے ایک وفد نے بچی کے گھر جاکر اس کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔

جماعت نے حکومت سے مجرموں کو جلد از جلد سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

خطاب کے دوران انھوں نے کہا کہ ملک میں خواتین کے خلاف جرائم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ہر گھنٹے چار خواتین کی عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں جب کہ ہر تین منٹ میں دو خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی واردات ہوجاتی ہے۔

نربھیا کیس کے بعد ملک میں عصمت دری کے بڑھتے واقعات پر قابو پانے کے لیے جماعت نے جسٹس ورما کمیٹی کو اپنی چند تجاویز دی تھیں اور امید ظاہر کی تھی کہ حکومت اپنے شہریوں کو، خاص طور پر ’’بیٹی بچاؤ‘‘ کا نعرہ دینے والی سرکار خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں بیداری کا مظاہرہ کرے گی۔

وزارت اقلیتی امور کی جانب سے یکم اگست کو ’’یو م حقوق مسلم خواتین‘‘ کے طور پر منائے جانے کے اعلان کی بابت پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محترمہ رحمت النساء نے کہا کہ ’’ہم اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں، یہ خواتین کے حقوق کا مذاق ہے۔ یہ حکومت مسلم خواتین کے لیے بالکل مخلص دکھائی نہیں دیتی ہے۔ اگر اس کی نیت صاف ہوتی تو مسلم نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو غلط طریقے پر قید و بند میں نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے سوال پر محض زبانی جمع خرچ کیا جاتا“۔

قبل ازیں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے افتتاحیہ کلمات پیش کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے ملک کے مختلف اہم مسائل پر جماعت کے موقف کواجاگر کیا۔ شہریوں کی جاسوسی کیے جانے پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ”اسرائلی کمپنی کے فروخت کردہ پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال ہندوستانی شہریوں کی جاسوسی کے لیے کیے جانے کی خبر پڑھ کر ہمیں بہت افسوس ہوا۔ اگر یہ رپورٹ سچ ہے تو یہ ہمارے ان بنیادی حقوق کو نقصان پہچانے والی ہے جن کی ضمانت آئین ہند نے دی ہے۔ اس کی تحقیقات مشترکہ پارلیمانی کمیٹی یا سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہونی چاہیے۔“

کورونا وبا کی تیسری لہر پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ”شہریوں کو اس بیماری سے بچانے کے لیے حکومت سب کو مفت ویکسین فراہم کرے، ویکسین کی کمی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، دوسری لہر کے دوران بڑی تعداد میں جانوں کے ضائع ہونے سے سبق لیتے ہوئے صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرے، اس کے لیے صحت عامہ کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کرے، مذہبی عبادت گاہیں جو وبائی امراض کے دوران سماجی خدمت کے مراکز بن جاتے ہیں، انہیں کھلے رہنے اور لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت مل جانی چاہیے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’اس سلسلے میں ہم بتا نا چاہیں گے کہ جماعت اسلامی ہند نے ’سہولت مائیکرو فنانس سوسائٹی‘ اور دیگر پارٹنر کے تحت ایک فلیگ شپ ’کوویڈ 19 ہینڈ ہولڈنگ پروجیکٹ‘ کا آغاز کیا ہے، اس کا مقصد وبائی امراض سے متاثرہ خاندانوں کی تعمیر نو اور ان کی معیشت کو از سر نو بحال کرنا ہے“۔

محمد علی جوہر یونیورسٹی کے صدر دروازے کو منہدم کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ ”میرے خیال میں اس معاملے کو مناسب طریقے پر نہیں نمٹایا جارہا ہے۔ اگر یہ زمینی تنازعہ کا معاملہ ہے تو اسے حکومت کے متعلقہ شعبہ جات کے ساتھ خوش اسلوبی سے حل کیا جانا چاہیے۔ اس یونیورسٹی کا قیام ریاستی کابینہ کے فیصلے اور یو جی سی کی ہدایات کے تحت عمل میں آیا تھا۔ تعلیم کی اس اہم جگہ میں خلل پیدا کرنا ہمارے طلباء اور ملک کے تعلیمی ماحول کے مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت کو لازمی طور پر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقے کی تعلیم متاثر نہ ہو“۔