خواتین کے حقوق سے متعلق طالبان کی شبیہ بگاڑنے میں مصروف ہے میڈیا
قریب سے دیکھنے والی خواتین طالبان کے حُسنِ اخلاق کی مداح
مجتبیٰ فاروق ،حیدر آباد
ایون ریڈلی اور کنیکا گپتا جیسی صحافیوں نے کیمرے پر دی گواہی
ان دنوں پوری دنیا میں جو مسئلہ سب سے زیادہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے وہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کاہے ۔انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے طالبان پر جو الزامات لگتے رہے ہیں ان میں سب سے نمایاں الزام خواتین کے حقوق سے متعلق ہے۔محمود مقصود اپنی کتاب’میں نے کابل بستے دیکھا‘ میں لکھتے ہیں کہ’طالبان کےمنظر پر آنے سے لے کر ان کے پس منظر میں جانےتک مغربی ممالک اوران کے ترجمان ذرائع ابلاغ پوری شدت،تسلسل اور مبالغے کے ساتھ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ طالبان نے عورتوں پر ظلم وستم کیا ہے ،انہیں گھروں میں قید کر دیا ہے ،انہیں برقع اوڑھنے پر مجبورکیا ہے ،ان سے تعلیم اور ملازمت کا حق چھین لیاہے وغیرہ جیسے الزامات لگائے جاتے ہیں۔‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ’طالبان نے افغانستان میں عورتوں کے لیے جو قوانین اور پالیسیاں نافذ کیں ،ان کے کیسے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے اس امر کا اندازہ طالبان کے جانے کے بعد افغان خواتین کی تشویشناک صورت حال سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔‘اس کے برعکس مغربی اور یورپی دنیا نے اپنی خواتین کی حالت زار پر کبھی غور نہیں کیا ہے ۔اورنہ ہی ان کے تحفظ کےلیے اقدامات کیے ۔ مغرب میں خواتین جس طرح سے کسمپرسی اور ناگفتہ بہ صورت حال میں زندگی گزار رہی ہیں وہ اپنے آپ میں ایک بد ترین مثال ہے۔مغربی اور یورپی میڈیا اس وقت افغان خواتین کے حقوق کے لیے بے حد پریشان نظر آتا ہے اور اس سلسلے میں عجیب و غریب حرکتوں کا ارتکاب کررہا ہے ۔صحافی ، کالم نگار اورپالیسی ساز ادارے پروپیگنڈوں ،مکر و فریب اورمکاریوں سے کام لے رہے ہیں ۔یہ ان دنوں عالمی میڈیا کا وطیرہ بن چکا ہے ،اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مختلف کالموں اور رپوٹوں کی سرخیاں اس طرح ترتیب دیتے ہیں :
’طالبان کے افغانستان میں خواتین کا کیا بنے گا؟‘
’طالبان خواتین کے حقوق پامال کر سکتے ہیں‘۔
’غیرملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغان خواتین کا مستقبل‘؟
’’افغان خواتین کے لیے ’سرخ لکیر‘‘
"Taliban’s war aganist Women”
"The curse of being a woman in Afghanistan”
"Afghanistan Is Still the Worst Place in the World to Be a Woman”
مغرب اور اس کی میڈیا کو خواتین کے حقوق کے تعلق سے سخت تشویش لاحق ہے اور بار بار مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے حقوق کوخاص تحفظ فراہم کیا جائے ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے طالبان پر زور دیا کہ’’وہ خواتین، لڑکیوں اور نسلی ومذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے کے وعدوں کی پاسداری کریں اور انتقامی کارروائیوں سے گریز کریں۔‘‘یہ وہی اقوام متحدہ ہے جس نے مغربی اور یورپی خواتین کی حالت زارپرکبھی کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مغربی دنیا میں عورت نےہردور میں عزت و عصمت کی بقا کے لیے جنگ لڑی لیکن ہر زمانے میں اسے ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ۔وہاں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑالیکن پھر بھی اس کی حالت گئی گزری ہیں ۔مغربی اور یورپی میڈیا طالبان کی وجہ سے افغان خواتین پر یہ الزام عائد کرتاہے کہ ان کی جان ،عزت و عصمت،حقوق اور تعلیم اور مستقبل غرض کہ ہر چیز خطرے میں ہے ۔جبکہ صرف برطانیہ میں بچیوں کی صورت حال یہ ہے کہ تقریباً 21 فیصد لڑکیاں بچپن میں ہی جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتی ہیں۔مغربی اور یورپی میڈیا کا یہ پروپیگنڈا ہے کہ طالبان کی وجہ سے خواتین کی عزت وعصمت محفوظ نہیں ہے جبکہ برطانیہ میں ہر سال کم از کم 80ہزار عورتیں زنا بالجبر کا نشانہ بنتی ہیں۔مغربی میڈیا طالبان پر جبری شادیوں پر الزام عائد کرتا ہے جبکہ محض برطانیہ میں جبری شادیوں کا ہدف بننے والوں میں 85 فیصد عورتیں ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال دوسرے ملکوں سے عورتیں عصمت فروشی کی غرض سے لائی جاتی ہیں، ان پر جسمانی زیادتیاں ہوتی ہیں اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے ۔مغربی دنیا میں نو عمر بچیوں کے ساتھ جو زیادتی ہوتی ہے وہ کسی آنکھ کو دکھائی نہیں دیتی ہے ۔اس سلسلے میں امریکہ کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے اور وہاں ہر ۲۷ویں سیکنڈ میں ایک کم عمر لڑکی ماں بن جاتی ہے۔ ہر ۴۷ویں سیکنڈ میں ایک بچی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے لیکن میڈیا اس کو دکھانا نہیں چاہتا۔عالمی میڈیا طالبان پر یہ بھی الزام عائد کرتا ہے کہ وہ مخلوط نظام تعلیم کے خلاف ہے ۔اگر وہ مخلوط نظام تعلیم کے خلاف ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ اور یہ ان کا ذاتی مسئلہ بھی ہے ۔اس کے برعکس مغرب میں مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے وسیع پیمانے پر اخلاقی برائیاں پھیل رہی ہیں اور اس کا وہ اب انجام بھی بھگت رہا ہے ۔اس کی ایک مثال یہاں کافی ہے ۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے ۷۶ فی صد طلبہ وطالبات شادی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنے کے حق میں ہیں اور اس کو برا بھی نہیں سمجھتے ہیں ۔۲۴ فی صد طالبات نے تسلیم کیا ہے کہ وہ یہاں آنے کے بعد کنواری نہیں رہتیں اور اب بھی ان کے باقاعدہ جنسی تعلقات ہیں۔ ۲۵ فی صد طالبات مانع حمل گولیاں استعمال کرتی ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا جارہا ہے ۔ ۳۸ فی صد طلبہ وطالبات ہم جنسی کے قائل ہیں اور اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔ مغربی میڈیا طالبان پر یہ بھی الزام عائد کرتا ہے کہ وہ خواتین پر پردے کا اہتمام زبردستی کرواتے ہیں۔۔Bureau of Democracy, Human Rights and Laborکے رپورٹ میں برقع کے بارے میں کہا گیا ہے :
"The burqa is not only a physical and psychological burden on some Afghan women, it is a significant economic burden as well. Many women cannot afford the cost of one. In some cases, whole neighborhoods share a single garment, and women must wait days for their turn to go out”
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان خواتین برقع اور عبایا پہنے کا قدیم زمانے سے اہتمام کرتی آئی ہیں۔اور خواتین برقع اپنے شوق اور مذہبی روایات کی پاسداری اور دین کے حکم کی وجہ سے پہنتی ہیں ۔انہیں اس بارے میں کوئی زبردستی نہیں کرتا ہےاور نہ ہی گھریلو دباو کی وجہ انہیں زبردستی برقع پہنایا جاتا ہے یہ محض طالبان پر مغربی میڈیا کا الزام ہے اس کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔طالبان کو مغربی میڈیا دہشت پسند اور فسادی قرار دیتا ہے اور انہیں خواتین مخالف قوم کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ ہم اس سلسلے میں ایون ریڈلی کی مثال پیش کرتے ہیں ۔ایون ریڈلی(Yvone Ridley)23/ اپریل 1958ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئیں ۔وہ دور حاضر کی ایک معروف تجزیہ نگار ،صحافی اور سماجی کارکن ہیں ۔ وہ ستمبر 2001ء میں افغانستان رپوٹنگ کرنے کے لیے گئی تھیں لیکن وہاں طالبان نے انہیں گرفتار کرکے دس دن تک قید میں رکھا ۔اس طرح انہیں طالبان کی سادہ اور اسلام پسند زندگی کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا ۔ان دس دنوں نے ان کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی اور انہوں نے اسلام قبول کیا ۔طالبان کے قید خانے کے دوران انہوں نے جو کچھ دیکھا اس کا اظہاروہ ان الفاظ میں کرتی ہیں ۔
’’ یہ لوگ ( طالبان )مجسم انسانیت تھے ، یہ حیران کن لوگ تھے ، کالی داڑھیوں آور زمرد جیسی سبز آنکھوں والے جوخوبصورت سے خوبصورت یورپی عورت کو پگھلا کر راکھ کر دیں ، حیرت ہے کہ ان کی آنکھوں میں شرم و حیا اس قدر تھی کہ میرے سامنے کسی مجرم کی طرح جھکی رہتی ، بموں کی یلغار میں نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے ، خود بھوکے ہوتے ، مجھے کھانا کھلاتے ، یہ کیسے لوگ ہیں یہ تو اس جہاں کے لوگ نہیں ہیں‘‘
طالبان سے رہائی کے بعد انہوں نے قرآن مجید کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام میں عورتوں سے متعلق تعلیمات کا بھی سنجیدگی سے مطالعہ کیا ۔انہوں نے تحقیق کرنے کے بعد اس بات کا برملا اظہار کیا کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے عورتوں کو نہ صرف تحفظ بلکہ سب سے زیادہ حقوق بھی عطا کیے ہیں ۔انہوں نے رہائی کے بعدIn The Hands of Taliban کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس میں یہ پوری روداد موجود ہے ۔ موصوفہ صیہونیت، مغربی میڈیا اور برطانیہ کی خارجہ پالیسی پر بے لاگ تنقید بھی کرتی رہتی ہیں۔خواتین کے خلاف تشدد اور ان کے حقوق اور اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کا زالہ ان کی تحریروں کا خاص موضوع ہے ۔
افغان خواتین کے تعلق سے بعض مصنفین نے بھی قلم اٹھایا اور خواتین کے تعلق سے کچھ اہم باتیں کیں ۔برطانوی مصنف Petter Marsden اپنی کتاب The Taliban war and Religion in Afganistan میں لکھتے ہیں کہ
’’یہاں کی قبائلی روایات میں عورتوں کی ذمہ داریوں میں ان کے بحیثیت ماں اور بیوی کے فرائض کے علاوہ کاشت کاری کے بعض احکام ،مویشیون کی دیکھ بھال اور دستکاری شامل ہیں۔ مردوں کے ذمہ کھیتی باڑی کے دیگر کام ،بچوں کی نگہداشت اور بازار سے سواد سلف لانا ہوتا ہے ۔عورتوں کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ مذہب اسلام کو اگلی نسل تک پہنچائیں ۔پشتوں میں عورتوں کا تحفظ معاشرے کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے ۔موصوف مزید لکھتے ہیں کہ ’پشتون ولی کے تحت عورت کی عزت معاشرے کی عزت سمجھی جاتی ہے ۔جہاں تک لباس کا تعلق ہے سارے افغانستان میں خواتین شلوار قمیص پہنتی ہیں البتہ اوپر سے چادر پہنتی ہیں ۔برقع کا رواج شہروں میں زیادہ ہے دیہات کی عورتیں بھی اسے نفاست کی علامت سمجھنے لگیں اس لیے وہاں بھی برقع کا استعمال بڑھ گیا ۔افغانستان کے جنوبی صوبوں میں برقع کا رواج زیادہ پایا جاتا ہے جبکہ شمال میں کم ہے۔
ابھی چند دن پہلے صحافی کنیکا گپتا نے جو افغانستان میں مختلف جگہوں سے رپورٹنگ کر رہی تھیں، ہندوستان پہنچ کر انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ وہاں سفارت خانے تک پہنچنا بے حد مشکل تھا طالبان ہر جگہ موجود تھے لیکن طالبان خاتون صحافیوں کے ساتھ زیادہ پوچھ تاچھ نہیں کر رہے تھے ۔طالبان جب بھی کسی خاتون صحافی سے بات کرتے تھے تو ان کی نظریں جھکی رہتی تھیں ۔انہوں نےمزید بتایا کہ جب میں ہندوستانی سفارت خانے سے دو کلو میٹر دور تھی وہیں پر طالبان نے مجھے روک لیا اور کہا کہ سفارت خانہ بند ہے۔ وہ مجھ سے براہ راست بات نہیں کر رہے تھے ۔ان کاانداز بہت ہی مؤدبانہ تھا اور وہ نظریں جھکا کر بات کرتے تھے ۔
ان مثالوں کی روشنی میں یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان کے بارے میں خواتین کے حقوق کے تعلق سے کتنا غلط پروپیگنڈا کیا جارہاہے۔
( مضمون نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں)
***
***
’ یہ لوگ ( طالبان )مجسم انسانیت تھے ، یہ حیران کن لوگ تھے ، کالی داڑھیوں آور زمرد جیسی سبز آنکھوں والے جوخوبصورت سے خوبصورت یورپی عورت کو پگھلا کر راکھ کر دیں ، حیرت ہے کہ ان کی آنکھوں میں شرم و حیا اس قدر تھی کہ میرے سامنے کسی مجرم کی طرح جھکی رہتیں ، بموں کی یلغار میں نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے ، خود بھوکے ہوتے ، مجھے کھانا کھلاتے ، یہ کیسے لوگ ہیں یہ تو اس جہاں کے لوگ نہیں ہیں‘‘(صحافی۔ایون ریڈلی)
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021